پاکستانی غریب کیوں ہیں
پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انھیں سبسڈی ملے
بھارت 40برس پہلے انھی حالات سے گزر رہا تھا جس سے آج پاکستان گزر رہا ہے۔ 1980میں بھارت شدید سیاسی معاشی عدم استحکام کا شکار تھا۔دو سال میں تین حکومتیں تبدیل ہوئیں۔بھارت پر عالمی مالیاتی اداروں کا ستر ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا تھا جس کا سود دو ارب ڈالر سے زائد تھا۔
اس کی ادائیگی کے لیے بھارت کو اپنے سونے کے ذخائر فروخت کرنا پڑے۔ بھارت ڈیفالٹ کے شدید خطرے سے دو چار تھا چنانچہ اس وقت کی کانگریسی حکومت نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کروائی۔ مالیاتی ایمرجنسی نافذ کی۔
درآمدات کم برآمدات میں اضافہ کیا نئی معاشی پالیسیاں نافذ کر کے بھارت کو بحران سے نکالا۔ اس بحران سے نکالنے میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا بڑا کردار ہے۔آج وہ نہ صرف جی 20 کا رکن ہے بلکہ اس کی صدارت بھی اس کے پاس آگئی ہے۔اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 650ارب ڈالر ہیں۔
آج کا بھارت من موہن سنگھ کا مرہون منت ہے۔ یہ وہی من موہن سنگھ ہیں جو جنرل مشرف کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے معاہدے پر دستخط کرنے ہی والے تھے کہ پاکستان میں نادیدہ قوتوں نے وکلاء تحریک چلا کر اسے سبوتاژکر دیا۔ آج بھی پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ آزادی کے نام پر پس پردہ بہت سے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ نقاب پوش طاقتیں حرکت میں آچکی ہیں۔ اﷲ خیر کرے۔
بات آئی ایم ایف کی ہو رہی تھی۔ اگر یہ معاہدہ گزشتہ سال ستمبر ، اکتوبر میں ہو جاتا لیکن اس میں بلاوجہ کی تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا ہے۔
ہماری حکومت آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ اب بقول وزیر اعظم شہباز شریف آئی ایم ایف نے اپنی شرائط کا پھندہ ہمارے گلے میں کس دیا ہے۔
اب تو چوں چرا کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگلے پانچ برس پاکستان کو ہر سال 25ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دس ارب ڈالر بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ یعنی 35 ارب ڈالرز ۔اس تباہ کن معاشی صورتحال کا مستقبل میں شاید ہی کوئی حکومت سامنا کر پائے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ امیروں کو دی گئی سبسڈی واپس لے، زیادہ آمدنی والوں سے زیادہ ٹیکس لے اور ملک چلانے کے لیے سبسڈی صرف غریبوں کو دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان سے ایسے مطالبے کر رہے ہیں جن کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ایک ملک کی طرح چلے اور اس خطرناک مقام پر نہ پہنچے جہاں قرضے ری اسٹریکچر کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔
انھوں نے کہا کہ سرکاری شعبہ ہو یا نجی زیادہ کمانے والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو ملنی چاہیے جنھیں واقعی اس کی ضرورت ہے غریب عوام کو معاشی تحفظ ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے ،دوسرا نکتہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔
پاکستان میں غریب کو سبسڈی دی جائے کیونکہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انھیں سبسڈی ملے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کی اس بات سے کوئی بھی پاکستانی اختلاف نہیں کر سکتا کہ ہماری تمام معاشی خرابیوں کی جڑ اشرافیہ کا ٹیکس نہ دینا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے ہماری معیشت کو لاحق مرض کی درست تشخیص کی ہے جس سے کوئی بھی پاکستانی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے حکمران طبقات کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ وہ اپنے عوام پر کتنا بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اور یہ خود سالانہ 18ارب ڈالرز کی مراعات اپنے من مرضی کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے زور زبردستی لے رہے ہیں ۔
ذرا اس کثیر رقم کو روپوں میں ملٹی پلائی کر کے دیکھیں۔ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے وہ بھی صرف ایک سال میں۔ یعنی صرف ایک فیصد اشرافیہ کی مراعات 4500 ارب روپے سالانہ جو پاکستان کے کل بجٹ کا نصف بنتا ہے۔
یہ معمول پاکستان بننے کے بعد سے ہی چلا آرہا ہے۔ یہ وہی طبقات ہیں جو پاکستان سے زیادہ اپنے بیرونی آقاؤں کے وفادار ہیں کیونکہ ان کی بقاء کا انحصار بھی انھیں پر ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان بنا ہی ان کے لیے تھا ۔باقی سب نظر کا دھوکا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ جاننے کی کوئی ضرورت رہتی ہے کہ پاکستانی عوام بھوکے، بے روزگار، بیمار اور غریب کیوں ہیں۔
اس کی ادائیگی کے لیے بھارت کو اپنے سونے کے ذخائر فروخت کرنا پڑے۔ بھارت ڈیفالٹ کے شدید خطرے سے دو چار تھا چنانچہ اس وقت کی کانگریسی حکومت نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کروائی۔ مالیاتی ایمرجنسی نافذ کی۔
درآمدات کم برآمدات میں اضافہ کیا نئی معاشی پالیسیاں نافذ کر کے بھارت کو بحران سے نکالا۔ اس بحران سے نکالنے میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کا بڑا کردار ہے۔آج وہ نہ صرف جی 20 کا رکن ہے بلکہ اس کی صدارت بھی اس کے پاس آگئی ہے۔اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 650ارب ڈالر ہیں۔
آج کا بھارت من موہن سنگھ کا مرہون منت ہے۔ یہ وہی من موہن سنگھ ہیں جو جنرل مشرف کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر کے حل کے معاہدے پر دستخط کرنے ہی والے تھے کہ پاکستان میں نادیدہ قوتوں نے وکلاء تحریک چلا کر اسے سبوتاژکر دیا۔ آج بھی پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ آزادی کے نام پر پس پردہ بہت سے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ نقاب پوش طاقتیں حرکت میں آچکی ہیں۔ اﷲ خیر کرے۔
بات آئی ایم ایف کی ہو رہی تھی۔ اگر یہ معاہدہ گزشتہ سال ستمبر ، اکتوبر میں ہو جاتا لیکن اس میں بلاوجہ کی تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا ہے۔
ہماری حکومت آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ اب بقول وزیر اعظم شہباز شریف آئی ایم ایف نے اپنی شرائط کا پھندہ ہمارے گلے میں کس دیا ہے۔
اب تو چوں چرا کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگلے پانچ برس پاکستان کو ہر سال 25ارب ڈالرز قرضوں کی ادائیگی اور دس ارب ڈالر بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ یعنی 35 ارب ڈالرز ۔اس تباہ کن معاشی صورتحال کا مستقبل میں شاید ہی کوئی حکومت سامنا کر پائے۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ امیروں کو دی گئی سبسڈی واپس لے، زیادہ آمدنی والوں سے زیادہ ٹیکس لے اور ملک چلانے کے لیے سبسڈی صرف غریبوں کو دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم پاکستان سے ایسے مطالبے کر رہے ہیں جن کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ایک ملک کی طرح چلے اور اس خطرناک مقام پر نہ پہنچے جہاں قرضے ری اسٹریکچر کرنے کی ضرورت پڑ جائے۔
انھوں نے کہا کہ سرکاری شعبہ ہو یا نجی زیادہ کمانے والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو ملنی چاہیے جنھیں واقعی اس کی ضرورت ہے غریب عوام کو معاشی تحفظ ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے ،دوسرا نکتہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔
پاکستان میں غریب کو سبسڈی دی جائے کیونکہ انھیں تحفظ کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں امیر طبقے کو تحفظ نہ دیا جائے اور نہ ہی انھیں سبسڈی ملے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کی اس بات سے کوئی بھی پاکستانی اختلاف نہیں کر سکتا کہ ہماری تمام معاشی خرابیوں کی جڑ اشرافیہ کا ٹیکس نہ دینا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے ہماری معیشت کو لاحق مرض کی درست تشخیص کی ہے جس سے کوئی بھی پاکستانی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے حکمران طبقات کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ وہ اپنے عوام پر کتنا بڑا ظلم ڈھا رہے ہیں کہ پاکستانی عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اور یہ خود سالانہ 18ارب ڈالرز کی مراعات اپنے من مرضی کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے زور زبردستی لے رہے ہیں ۔
ذرا اس کثیر رقم کو روپوں میں ملٹی پلائی کر کے دیکھیں۔ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے وہ بھی صرف ایک سال میں۔ یعنی صرف ایک فیصد اشرافیہ کی مراعات 4500 ارب روپے سالانہ جو پاکستان کے کل بجٹ کا نصف بنتا ہے۔
یہ معمول پاکستان بننے کے بعد سے ہی چلا آرہا ہے۔ یہ وہی طبقات ہیں جو پاکستان سے زیادہ اپنے بیرونی آقاؤں کے وفادار ہیں کیونکہ ان کی بقاء کا انحصار بھی انھیں پر ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان بنا ہی ان کے لیے تھا ۔باقی سب نظر کا دھوکا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ جاننے کی کوئی ضرورت رہتی ہے کہ پاکستانی عوام بھوکے، بے روزگار، بیمار اور غریب کیوں ہیں۔