ہمارا کاروباری طبقہ
ہمارا کاروباری طبقہ تو امیر سے امیر ہوتا جا رہاہے لیکن ہمارا ملک امیر سے امیر نہیں ہو رہا
پاکستان کے مسائل کا حل تنہا حکومت کے پاس نہیں ہوتا ہے، ہم نے تقریباً ہر قسم کی حکومت آزمالی ہے، آمریت سے لے کر جمہوریت دیکھ لی ہے لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے۔
لہٰذا پاکستان کے مسائل کو حکومتوں اور سیاسی قیادت سے باہر آکر دیکھنے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک نالائق، نا اہل اورلالچی کاروباری طبقے نے مروا دیا ہے۔ دنیا بھر میں ممالک کی ترقی میں وہاں کے کاروباری طبقے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
آپ کہیں دیکھ لیں کاروباری طبقہ اپنے ملک کی ترقی میں رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے کاروبار کی ترقی ہی ان کے ملک کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
جیسے جیسے ان کا کا روبار ترقی کرتا ہے ویسے ویسے ان کا ملک بھی ترقی کرتا ہے، اس لیے جس ملک میں جتنے امیر لوگ ہوں گے، وہ اس ملک کی ترقی خوشحالی کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔ آج کی فری کپیٹل مارکیٹ میں کاروباری دنیا ہی کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے۔
آپ بھارت کو دیکھ لیں ، وہاںکاروباری طبقات نے بھارت کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ وہاں کے بڑے بڑے کاروباری گروپس بھارت کی ترقی کا نشان بن گئے ہیں۔ ان کی بڑھتی دولت بھارت کی بڑھتی دولت کا سبب ہے۔کاروبار اور بھارت ساتھ ساتھ ترقی کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی مثال بھی سامنے ہے۔ وہاں بھی کاروباری طبقے نے ہی بنگلہ دیشن کی معاشی خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جدید معاشی ماڈل میں کاروباری طبقہ دولت کماتا ہے تو ریاست کا خزانہ بھی بھرتا ہے ، اس سسٹم میںکوئی بھی ملک اپنے کاروباری طبقے کے رہنما کردار کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری ادارے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ضامن کیوں نہیں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر زیادہ روزگار فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی مینوفیکچرنگ کرسکتا ہے۔ معیشت کے دیگر سیکٹرز کا فعال ہونا بھی ضروری ہے۔
ہم نے ہر چیز درآمد کرنا شروع کر دی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں، ہم نے سائیکل بنانا بھی بند کر دی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہم درآمد کرتے ہیں۔
یہ کیا کاروبار ہے کہ ہم نے باہر سے کنٹینر منگوایا اور بیچ دیا۔ ہم خود ملک میں کچھ بنانے میں یقین ہی نہیں رکھتے۔ ہر چیز باہر سے منگوانا ایک کلچر بن گیا ہے۔ ہمارے کاروباری طبقے نے محنت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہ پیسے بنانے کے آسان طریقے ڈھونڈتا ہے۔ اس درآمدی کلچر نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔
ہماری ٹیکسٹائل سیکٹر بھی اصلاحات کا متقاضی ہے۔یہ سیکٹر بھی سرکاری مراعات کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ پاکستان میں کپاس باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ کیوں؟ جب پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو اندازہ ہے کہ انھیں کتنی کپاس چاہیے، کیوں نہیں یہ پاکستان کی زراعت کو کپاس اگانے میں مدد کرتے؟ اس ایشو پر سرکار اور کسان سے بات کیوں نہیںکرتے کہ ہمیں کپاس چاہیے۔
آپ کپاس اگائیں۔ لیکن یہ ذرا مشکل کام ہے، آسان راستہ یہ ہے کہ باہر سے کپاس منگوائی، کپڑے بنائے اور مارکیٹ میں بھیج دیے۔ ہماری ٹیکسٹائل کپاس کی کارپوریٹ فارمنگ کی طرف نہیں آئی۔ آج بھی اگر ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر ہماری زراعت کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو ہم کپاس میں خود کفیل ہی نہیں بلکہ اسے برآمد کرسکتے ہیں۔
ہمارا کاروباری طبقہ تو امیر سے امیر ہوتا جا رہاہے لیکن ہمارا ملک امیر سے امیر نہیں ہو رہا۔ حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ دونوں اکٹھے ہی امیر ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ الٹ ہے۔ یہاں کاروباری طبقہ تو امیرہو رہا ہے، لیکن اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔ ملک میں ٹیکس چوری بہت زیادہ ہے۔
ہمار ا کاروباری طبقہ ٹیکس دینے یا ٹیکس بچانے پر نہیں بلکہ ٹیکس چوری پر یقین رکھتا ہے۔ اسی ٹیکس چوری کے چکر میں ا س نے اپنے کاروبار میں بھی چوری کا ایک کلچر بنا دیا ہے۔ حساب صاف نہیں، ٹیکس صاف نہیں۔ مالی بد عنوانیوں نے ریاست اور کاروبار دونوں کو زوال پذیرکر دیا ہے۔
میں حیران ہوں جو کاروبار ہمارے ہمسایہ ممالک میں کامیاب ہیں، وہ یہاں کیوں کامیاب نہیں؟ ساری خرابی حکومت کی نہیں ہو سکتی، کہیں نہ کہیں ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اوسط ذہانت سے کم سطح رکھنے والے کاروباری طبقے نے پاکستان کی ترقی کی رفتار کو سست ترین کردیا ہے۔کاروباری ادارے سیٹھ کلچر سے باہر ہی نہیں آئے۔
وہ کوئی نیا کاروبار سوچ ہی نہیں رہے۔ روایتی کاروبار کا وقت گزر گیا ہے۔ داد جی کا زمانہ چلا گیا ہے۔ لیکن کون انھیں سمجھائے، یہ پاکستان میں سوئی بھی بنانے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ دنوں ایک بڑا کاروباری بہت پریشان حالت میں ملا۔ اس نے مجھے بتایا اس کا کنٹینر پھنس گیا ہے۔ میں نے پوچھا کنٹینر میں کیا ہے۔
اس نے کہا'' زپیں'' ہیں۔ میں نے پوچھا،کپڑوں کی زپ بھی باہر سے منگواتے ہیں؟ اس نے جواب دیا، ہاں! زپ اور بٹن باہر سے آتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہم زپ اور بٹن تک نہیں بنا سکتے حالانکہ معیاری زپ اور بٹن بنانا کوئی مشکل نہیں ہے،یہاں باآسانی بن سکتے ہیں لیکن باہر سے منگوانا آسان ہے۔
کیسا المیہ ہے کہ ہم ایٹم بن بنا سکتے ہیں لیکن معیاری سائیکل، بچوں کے کھلونے ، زپ اور بٹن نہیں بنا سکتے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ ہر وہ چیز جو ملک میں بن سکتی ہے، اس کی درآمد بند ہونی چاہیے۔
لہٰذا پاکستان کے مسائل کو حکومتوں اور سیاسی قیادت سے باہر آکر دیکھنے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک نالائق، نا اہل اورلالچی کاروباری طبقے نے مروا دیا ہے۔ دنیا بھر میں ممالک کی ترقی میں وہاں کے کاروباری طبقے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
آپ کہیں دیکھ لیں کاروباری طبقہ اپنے ملک کی ترقی میں رہنما کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے کاروبار کی ترقی ہی ان کے ملک کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔
جیسے جیسے ان کا کا روبار ترقی کرتا ہے ویسے ویسے ان کا ملک بھی ترقی کرتا ہے، اس لیے جس ملک میں جتنے امیر لوگ ہوں گے، وہ اس ملک کی ترقی خوشحالی کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔ آج کی فری کپیٹل مارکیٹ میں کاروباری دنیا ہی کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے۔
آپ بھارت کو دیکھ لیں ، وہاںکاروباری طبقات نے بھارت کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ وہاں کے بڑے بڑے کاروباری گروپس بھارت کی ترقی کا نشان بن گئے ہیں۔ ان کی بڑھتی دولت بھارت کی بڑھتی دولت کا سبب ہے۔کاروبار اور بھارت ساتھ ساتھ ترقی کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی مثال بھی سامنے ہے۔ وہاں بھی کاروباری طبقے نے ہی بنگلہ دیشن کی معاشی خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جدید معاشی ماڈل میں کاروباری طبقہ دولت کماتا ہے تو ریاست کا خزانہ بھی بھرتا ہے ، اس سسٹم میںکوئی بھی ملک اپنے کاروباری طبقے کے رہنما کردار کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری ادارے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ضامن کیوں نہیں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر زیادہ روزگار فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی مینوفیکچرنگ کرسکتا ہے۔ معیشت کے دیگر سیکٹرز کا فعال ہونا بھی ضروری ہے۔
ہم نے ہر چیز درآمد کرنا شروع کر دی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں، ہم نے سائیکل بنانا بھی بند کر دی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی ہم درآمد کرتے ہیں۔
یہ کیا کاروبار ہے کہ ہم نے باہر سے کنٹینر منگوایا اور بیچ دیا۔ ہم خود ملک میں کچھ بنانے میں یقین ہی نہیں رکھتے۔ ہر چیز باہر سے منگوانا ایک کلچر بن گیا ہے۔ ہمارے کاروباری طبقے نے محنت کرنا چھوڑ دی ہے۔ وہ پیسے بنانے کے آسان طریقے ڈھونڈتا ہے۔ اس درآمدی کلچر نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔
ہماری ٹیکسٹائل سیکٹر بھی اصلاحات کا متقاضی ہے۔یہ سیکٹر بھی سرکاری مراعات کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ پاکستان میں کپاس باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ کیوں؟ جب پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو اندازہ ہے کہ انھیں کتنی کپاس چاہیے، کیوں نہیں یہ پاکستان کی زراعت کو کپاس اگانے میں مدد کرتے؟ اس ایشو پر سرکار اور کسان سے بات کیوں نہیںکرتے کہ ہمیں کپاس چاہیے۔
آپ کپاس اگائیں۔ لیکن یہ ذرا مشکل کام ہے، آسان راستہ یہ ہے کہ باہر سے کپاس منگوائی، کپڑے بنائے اور مارکیٹ میں بھیج دیے۔ ہماری ٹیکسٹائل کپاس کی کارپوریٹ فارمنگ کی طرف نہیں آئی۔ آج بھی اگر ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر ہماری زراعت کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو ہم کپاس میں خود کفیل ہی نہیں بلکہ اسے برآمد کرسکتے ہیں۔
ہمارا کاروباری طبقہ تو امیر سے امیر ہوتا جا رہاہے لیکن ہمارا ملک امیر سے امیر نہیں ہو رہا۔ حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ دونوں اکٹھے ہی امیر ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ الٹ ہے۔ یہاں کاروباری طبقہ تو امیرہو رہا ہے، لیکن اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔ ملک میں ٹیکس چوری بہت زیادہ ہے۔
ہمار ا کاروباری طبقہ ٹیکس دینے یا ٹیکس بچانے پر نہیں بلکہ ٹیکس چوری پر یقین رکھتا ہے۔ اسی ٹیکس چوری کے چکر میں ا س نے اپنے کاروبار میں بھی چوری کا ایک کلچر بنا دیا ہے۔ حساب صاف نہیں، ٹیکس صاف نہیں۔ مالی بد عنوانیوں نے ریاست اور کاروبار دونوں کو زوال پذیرکر دیا ہے۔
میں حیران ہوں جو کاروبار ہمارے ہمسایہ ممالک میں کامیاب ہیں، وہ یہاں کیوں کامیاب نہیں؟ ساری خرابی حکومت کی نہیں ہو سکتی، کہیں نہ کہیں ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اوسط ذہانت سے کم سطح رکھنے والے کاروباری طبقے نے پاکستان کی ترقی کی رفتار کو سست ترین کردیا ہے۔کاروباری ادارے سیٹھ کلچر سے باہر ہی نہیں آئے۔
وہ کوئی نیا کاروبار سوچ ہی نہیں رہے۔ روایتی کاروبار کا وقت گزر گیا ہے۔ داد جی کا زمانہ چلا گیا ہے۔ لیکن کون انھیں سمجھائے، یہ پاکستان میں سوئی بھی بنانے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ دنوں ایک بڑا کاروباری بہت پریشان حالت میں ملا۔ اس نے مجھے بتایا اس کا کنٹینر پھنس گیا ہے۔ میں نے پوچھا کنٹینر میں کیا ہے۔
اس نے کہا'' زپیں'' ہیں۔ میں نے پوچھا،کپڑوں کی زپ بھی باہر سے منگواتے ہیں؟ اس نے جواب دیا، ہاں! زپ اور بٹن باہر سے آتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہم زپ اور بٹن تک نہیں بنا سکتے حالانکہ معیاری زپ اور بٹن بنانا کوئی مشکل نہیں ہے،یہاں باآسانی بن سکتے ہیں لیکن باہر سے منگوانا آسان ہے۔
کیسا المیہ ہے کہ ہم ایٹم بن بنا سکتے ہیں لیکن معیاری سائیکل، بچوں کے کھلونے ، زپ اور بٹن نہیں بنا سکتے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ ہر وہ چیز جو ملک میں بن سکتی ہے، اس کی درآمد بند ہونی چاہیے۔