یہ بھارتی مندوبین

دنیا کے ہر ملک میں ان نابغہ روزگار لوگوں کی پذیرائی کی جاتی ہے

atharqhasan@gmail.com

کہتے ہیں کہ ادیب ، شاعر ، اداکار ، موسیقاراور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ سانجھے ہوتے ہیں، یہ سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں، دنیا کے ہر ملک میں ان نابغہ روزگار لوگوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ شاید اسی لیے انھیں سانجھا کہا جاتا ہے اور سرحدوں سے ماورا ہونے کا استعارہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی اردو اور ہندی بولنے والے یہ لوگ سانجھے ہی رہے اور ان کی پاکستان اور بھارت میں پذیرائی ہوتی رہی ہے ۔

زبان کی مماثلت نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا اور ادب نواز قدردانوں کو اجنبیت محسوس نہیں ہونے دی ۔ پاکستانی فنکار اور گلوگار بھارت میں اپنے فن کا جادو جگاتے رہے جب کہ بھارتی فنکار بھی پاکستان میں مسلسل مدعو کیے جاتے رہے۔

خاص طور پر سکھ گلوکار پاکستان میں انتہائی مقبول ہیں ۔دونوں ملکوں میں ثقافتی وفود کے تبادلے جاری رہتے ہیں اوران فنکاروں کے لیے امن کے سفیر کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد دلی میں ایک مشاعرے میں استاد دامن نے فی البدیہہ یہ نظم پڑھی ''لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے، روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں، تو تقریب میں ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔

بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو جو مشاعرے میں موجود تھے انھوں نے استاد دامن سے بھارت میں مستقل قیام کی درخواست کی لیکن استاد دامن نے تاریخی جواب دیا کہ اب میرا وطن پاکستان ہے ، میں لاہور میں رہوں گا، بے شک جیل میں ہی کیوں نہ رہوں ۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت ایک بہت اہم بات کہی تھی، انھوں نے کہا تھا جو مسلمان آزاد پاکستان کاحصہ نہیں بنیں گے اور ہندوستان میں ہی رہنے کو ترجیح دیں گے، وہ ہندوؤں کی غلامی اور خوشامد کرتے رہیں گے۔

بابائے قوم کے یہ سنہری الفاظ جب بھی یاد آتے ہیں تودھیان فوری طور پر بھارت میں مقیم مسلمانوں کی طرف چلا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان پر بھارت میں رہنے کو ترجیح دی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں ۔ بھارت سیکولر ملک ہونے کے دعوؤں کے برعکس ایک انتہا پسند ہندو ریاست ہے جس میں اقلیتوں کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔

نریندر مودی نے بھارتی گجرات میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، وہ لرزہ خیز مناظر یاد آجائیں توآج بھی جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں جو مظالم ہورہے ہیں، یہ بھارت کے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔


گزشتہ کالم میں لاہور کے ادبی میلوں کا ذکرکیا تھا جن میں فیض ؔ صاحب کا امن میلہ بھی شامل تھا لیکن اس امن میلے نے فیضؔ صاحب کے ایک حقیقی پرستار کی اس بات کو درست ثابت کر دیا کہ غریبوں کا فیض الگ ہے اور امیروں کا فیض الگ۔ بلاشبہ فیض امن میلہ امیروں کی نگرانی اور زیر اہتمام منعقد کیا گیا جس میں بھارتی مندوبین نے بھی شرکت کی۔

بھارت کے معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر بھی مدعو تھے، بلاشبہ وہ اردو کے اچھے اور نامور شاعر ہیں لیکن انھوں لاہور کے الحمرا ء ہال میں سیکڑوں پاکستانیوں کے سامنے ممبی حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیاہے اور فرمایا کہ وہ لوگ آج بھی پاکستان میں پھر رہے ہیں ۔

ان کی اس دل دکھانے والی بات پر انھیں جواب دینا تو درکنار ہال میں موجود حاضرین نے تالیاں ضرور بجائیں حالانکہ انھیں اسی وقت یاد دلانا چاہیے تھا کہ پاکستان پر ابھینندن والا حملہ ابھی کل کی بات ہے اور کلبھوشن یادیوبھی ہماری جیل میں سڑ رہا ہے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔

کاش کہ ہم یہ تالیاں بجانے کے بجائے احتجاجاً ہال سے اٹھ کر ہی چلے جاتے تاکہ جاوید اختر کو کم از کم یہ احساس تو ہوجاتا کہ انھوں نے جو بات کی ہے، وہ غلط ہے اور ایک شاعر و ادیب کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ سیاست پر یکطرفہ موقف پیش کرے۔

معلوم نہیں کہ ہمارے روشن خیال طبقے کی ہر محفل بھارتی مندوبین کے بغیر نامکمل کیوں رہتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں فیض صاحب ؔ پر گفتگو کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مجھے تویہ سمجھ نہیں آتی کہ بھارتی مندوبین کا تڑکہ لگانا کیوں ضروری ہے۔

پاکستان اور بھارت کے نام نہاد روشن خیال اور ترقی پسند دانشور ایک بات کا اکثر حوالہ دیتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے عوام تو ملنا چاہتے ہیں لیکن سرحدی لکیر کی وجہ سے رکاوٹیںاور دشواریاں ہیں۔ مجھے ان نام نہاد دانشوروں کو یاد دلانا ہے کہ پاکستان کا قیام ہمارے بزرگوں کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے اور ان کے لہو سے رنگی یہ لکیر پاک بھارت سرحد کہلاتی ہے۔

میری اپنے روشن خیالوں سے درخواست ہے کہ وہ ادبی مکالموں کے لیے پاکستانی ادیبوں پر ہی اکتفا کیا کریں اور کسی بھارتی مندوب کو بلا کر ہماری بے عزتی نہ کرایا کریں۔

پاکستان کی نوجوان نسل کو یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ وہ ایک آزاد مسلمان ملک میں پیدا ہوئے ہیں جس کے قیام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی۔ وہ اپنی ذہنی اور فکری نشو نماء کے لیے ان ادبی تقریبات میں ضرور شرکت کریں لیکن ان پر یہ بھاری ذمے داری ہے کہ وہ قومی حمیت کو مقدم رکھیں۔
Load Next Story