سیوریج نظام ناکارہ جگہ جگہ گٹر ابلنے لگے
گلشن، جوہر، لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، ایف بی ایریا، پی ای سی ایچ ایس، نیوکراچی، نارتھ کراچی میں سیوریج نظام تباہ
شہر میں گزشتہ 15 سال سے واٹر بورڈ سیوریج نظام کی معمول کے مطابق صفائی کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
ادارے کی جانب سے کسی قسم کی سرگرمی نظر نہیں آرہی اور نہ ٹوٹی بوسیدہ سیوریج لائنوں کی تبدیلی ومرمت کی جارہی ہے ،جس کے باعث شہرکا سیوریج نظام ناکارہ ہوگیا ہے جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔
ابلتے گٹروں سے نکلنے والے گندے پانی سے شہریوں بالخصوص نمازیوں کو آمدورفت میں سخت دقت کا سامنا ہے گندا پانی جمع رہنے سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
شاہراہوں پر گندا پانی جمع ہونے سے ٹریفک جام رہنا روز کا معمول بن گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے وقت کا ضیاع ، اضافی ایندھن کے استعمال کے باعث مالی اخراجات میں اضافہ اور لوٹ مار کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہر میں فوری طور پر سیوریج نظام میں اصلاحات کی جائیں اور مقامی حکومتوں کا نظام فوری قائم کیا جائے۔
ایکسپریس کے سروے کے مطابق شہر کے اولڈ سٹی ایریا، گلشن اقبال، گلستان جوہر، لانڈھی ملیر، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، ایف سی ایریا، ایف بی ایریا، پی ای سی ایچ ایس، قیوم آباد، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، نیوکراچی، نارتھ کراچی، سورلجر بازار، پیر کالونی، گارڈن و دیگر علاقوں کا سیوریج نظام مکمل طور پر تباہ برباد ہوچکا ہے۔
جگہ جگہ سے گٹر کے ڈھکن بھی غائب ہیں، ہر گلی میں گٹروں سے گندا پانی ابل رہا ہے، سندھ حکومت کی جانب سے مانیٹرنگ نظام نہ ہونے کی وجہ سے واٹر بورڈ کے افسران اور عملہ اس حد تک بے حس ہوچکا ہیں کہ شہریوں کی جانب سے سیوریج نظام کی خرابی کی شکایات کو کئی روز گزرجانے کے باوجود دور نہیں کرتا ہے۔
ان علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعمیرات بالخصوص چھوٹے پلاٹوں80گز تا 120گز میں پورشنز کی تعمیرات نے بھی پورے شہر کے پانی و سیوریج نظام کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔
سٹی گورنمنٹ کے دورمیں بچھائی گئیلائنیں اب تک چل رہی ہیں ،سلیم خان
مقامی رہائشی پروجیکٹ یونین کے صدر محمد سلیم خان نے بتایا کہ شہر میں جب مقامی حکومتوں کا نظام تھا تو شہر میں سیوریج کی لائنیں تبدیل کی گئی تھیں اور نئی لائنیں بچھائی گئی تھیں لیکن اب کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر سیویج کے نظام میں اصلاحات کے لیے کہیں بھی عملی کام نظر نہیں آ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گنجان آبادی والے علاقوں کے ساتھ شہر کی کئی مارکیٹوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ گٹر ابلتے ہوئے نظر آتے ہیں، گندا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ اور بلدیاتی اداروں سے رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو اس خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک شہر میں بااختیار مقامی حکومتیں قائم نہیں ہوں گی۔ سیوریج سمیت تمام مسائل برقرار رہیں گے، انھوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو نمائندوں سے رابطہ آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومتی اداروں کی نسبت ان عوامی نمائندوں کو مسائل حل کرنے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
شہری کھلے گٹروں اور نالوں میں کچرا پھینک کرچاک کردیتے ہیں،سماجی کارکن
سماجی کارکن سعد نے بتایا کہ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ابلتے گٹروں کی ایک بڑی وجہ عوام خود ہیں دیکھا گیا ہے کہ کئی مقامات پر شہری کھلے گٹروں اور نالوں میں کچرا پھینک دیتے ہیں جو سیوریج کی لائنوں میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے جس کی وجہ سے گٹروں میں کچرا جمع ہو جاتا ہے اور یہ گٹر بھرنے کی وجہ سے نکاسی کا پانی ابل کر گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو جاتا ہے۔
گلی کے گٹر صاف کرنیوالے کنڈی مینوں کے پاس حفاظتی کٹس نہیں ہیں
بلدیاتی ادارے میں سیوریج کے امور کی نگرانی کرنے والے انسپکٹر ارشد مسیح نے بتایا کہ شہر میں سیوریج لائنوں کی صفائی زیادہ تر روایتی طریقوں سے کی جاتی ہے اس روایتی طریقے کا مطلب یہ ہے کہ کنڈی مین گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کرتے ہیں جس میں لمبے بانس ، بیلچا ، لوہے کی سلاخ ، مختلف اقسام کے وائر ، رسی والی بالٹی ، مختلف سائز کی لمبی کڑھائی سے منسلک لمبی راڈ والا آلہ ( یہ آلہ گٹروں سے کچرا نکالنے کے کام آتا ہے ) اور دیگر آلات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی مشینری تو بڑی سیوریج لائنوں اور گٹروں کی صفائی کے کام آتی ہیں لیکن گلی محلوں کی لائنوں کو کنڈی مین صاف کرتے ہیں۔ ان کنڈی مینوں کے پاس حفاظتی کٹس نہیں ہوتی ہیں یہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر ان گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کرتے ہیں حفاظتی کٹس نہ ہونے کے باعث صفائی کے دوران کئی بار ان کنڈی مینوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شہر بھر میں نکاسی آب کیلیے اقدامات کررہے ہیں،ترجمان واٹربورڈ
واٹر بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ کی جانب سے شہر بھر میں نکاسی آب کی بہتری کے لیے اچھے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ موسم سرما کی وجہ سے پانی کا استعمال کم ہوتا اور سیوریج لائنوں میں چکنائی کی وجہ سے سیوریج لائنیں متاثر ہوتی رہتی ہیں جس پر واٹر بورڈ کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
سڑکوں پرجمع گندا پانی بیماریوں کے پھیلاؤکاسبب بن رہاہے،ڈاکٹرشعیب
ڈاکٹر محمد شعیب نے بتایا کہ صفائی نصف ایمان ہے، سڑکوں پر جمع گندا پانی بیماریوں کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ گرمی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے، اگر جمع گندے پانی کو صاف نہ کیا گیا تو شہری بیمار یوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں، اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ صفائی کا خاص خیال رکھیں، گھر آنے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں، اگر ممکن ہو تو اپنے اطراف جمع گندے پانی کی نکاسی کا فوری انتظام کیا جائے اور کچرے کو فوری صاف کیا جائے، سادہ گھر کھانا استعمال کیا جائے اور پانی کو ابال کر پئیں کریں۔
شاہراہوں سے محلوںتک بلندعمارتیں تعمیرکردی گئیں
آئی بی اے کے اربن پلانر محمد توحید نے بتایا کہ شہر میں بغیر منصوبہ بندی افقی تعمیرات کی جاچکی ہیں، شہر کی اہم شاہراہیں سے لیکر گلی محلوں تک بلندعمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں، جس گلی میں دس گھرانے رہتے تھے وہاں اب 50گھرانے رہتے ہیں، آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ دوسری جانب پانی و سیوریج کا وہی پرانا بوسیدہ نظام موجود ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیوریج نظام میں وہی پرانے چھوٹے سائز کی لائنیں نصب ہیں جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں جبکہ پانی کی لائنوں میں بھی رساؤ موجود ہے، گندے پانی اور میٹھے پانی کی آمیزش والاآلودہ پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے جس سے شہریوں میں صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں جس کی وجہ سے اندرون شہر اور اہم شاہراں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کی تازہ مثال جہانگیر روڈ ہے جس کا سیوریج کا نظام آج تک صحیح نہیں ہوسکا ہے، شہر میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کی سڑکوں پر ہر وقت گندہ پانی نظر آئے گا، گندہ پانی سے تعفن پھیلتا ہے جس سے مچھر اور دیگر حشرات الارض جنم لیتے ہیں اور یہی ڈینگی و ملیریا پھیلنے کا سبب بنتا ہے، واٹر بورڈ کی جانب سے روٹین کی صفائی نہ تو مینوئل کی جارہی ہے اور نہ ہی مشینوں کے ذریعے کی جارہی ہے جبکہ ورلڈ بینک نے ایک پروجیکٹ کے تحت واٹربورڈ کو سیوریج کی لائنیں صاف کرنے کے لیے کئی مشینیں دی ہیں تاہم وہ مشینیں کام کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔
محمد توحید نے سیوریج نظام کودرست کرنے کے لیے واٹر بورڈ کو چاہیے کہ شارٹ ٹرم بنیاد پر مینوئل اور مشینوں کی مدد سے صفائی کرے، درمیانی اور لمبی مدت کے تحت پورے سیوریج کا تبدیل کرے۔
محلوں میں گٹروں کی صفائی مکین اپنی مدد آپ کے تحت کرانے لگے
شہری ہمایو ں نے بتایا کہ محلوں کی سطح پر گٹروں کی صفائی اپنی مدد آپ کے تحت کرائی جاتی ہے، حکومتی بلدیاتی اداروں کو شکایات کے باوجود گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کا کام نہیں کرایا جا تا، گٹروں کی صفائی کا کام نجی کنڈی مینوں سے کروایا جاتا ہے جو اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیوریج کے نظام کے معاملات یونین کمیٹی کی سطح پر نافذ کرے، شہر میں سیوریج کی نئی لائنیں بچھائی جائیں انھوں نے کہا کہ اس وقت شہر کے بیشتر علاقوں میں سیوریج لائنوں کے بوسیدہ ہونے کے سبب جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہے جو بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، بڑھتی آبادی کے سامنے سیوریج کا نظام فرسودہ ہوگیا۔
علاقائی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کا کام کرانے والے سماجی کارکن محمد خالد نے بتایا کہ کراچی کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں بیشتر چھوٹے رہائشی یونٹس بغیر کسی پلاننگ کے کثیر المنزلہ تعمیرات ہو رہی ہیں اگر صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ سیوریج کا نظام کئی برسوں پرانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں جس وقت سیوریج کی لائنیں ڈالی گئی تھیں، یہ اس وقت کی آبادی اور اس وقت کی تعمیرات کے حساب تھیں۔ اگر گنجان آبادی والے علاقوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کئی برس قبل جس گلی میں چند مکانات تھے ، اب وہاں پر ان مکانات کی جگہ عمارتوں نے لے لی ہے اگر اس گلی میں سیوریج کا نظام 50 مکانات کے حساب سے تھا تو اب وہاں کئی سو مکانات تعمیر ہوگئے ہیں، تو بتائیں سیوریج کی لائنیں کس طرح نکاسی کے پانی کا دباؤ برداشت کرینگی، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ شہر قائد کے گنجان علاقوں میں سیوریج کا نظام مکمل طور پر بوسیدہ اور ناکارہ ہو چکا ہے، یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ جو شہر میں جگہ جگہ نکاسی کا پانی کھڑا نظر آتا ہے اور شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر یہ گندا پانی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے انھوں نے کہا کہ اس وقت شہر کو نئے نکاسی کے نظام کی ضرورت ہے۔
ادارے کی جانب سے کسی قسم کی سرگرمی نظر نہیں آرہی اور نہ ٹوٹی بوسیدہ سیوریج لائنوں کی تبدیلی ومرمت کی جارہی ہے ،جس کے باعث شہرکا سیوریج نظام ناکارہ ہوگیا ہے جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں۔
ابلتے گٹروں سے نکلنے والے گندے پانی سے شہریوں بالخصوص نمازیوں کو آمدورفت میں سخت دقت کا سامنا ہے گندا پانی جمع رہنے سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
شاہراہوں پر گندا پانی جمع ہونے سے ٹریفک جام رہنا روز کا معمول بن گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے وقت کا ضیاع ، اضافی ایندھن کے استعمال کے باعث مالی اخراجات میں اضافہ اور لوٹ مار کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہر میں فوری طور پر سیوریج نظام میں اصلاحات کی جائیں اور مقامی حکومتوں کا نظام فوری قائم کیا جائے۔
ایکسپریس کے سروے کے مطابق شہر کے اولڈ سٹی ایریا، گلشن اقبال، گلستان جوہر، لانڈھی ملیر، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، ایف سی ایریا، ایف بی ایریا، پی ای سی ایچ ایس، قیوم آباد، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، نیوکراچی، نارتھ کراچی، سورلجر بازار، پیر کالونی، گارڈن و دیگر علاقوں کا سیوریج نظام مکمل طور پر تباہ برباد ہوچکا ہے۔
جگہ جگہ سے گٹر کے ڈھکن بھی غائب ہیں، ہر گلی میں گٹروں سے گندا پانی ابل رہا ہے، سندھ حکومت کی جانب سے مانیٹرنگ نظام نہ ہونے کی وجہ سے واٹر بورڈ کے افسران اور عملہ اس حد تک بے حس ہوچکا ہیں کہ شہریوں کی جانب سے سیوریج نظام کی خرابی کی شکایات کو کئی روز گزرجانے کے باوجود دور نہیں کرتا ہے۔
ان علاقوں میں بلند عمارتوں کی تعمیرات بالخصوص چھوٹے پلاٹوں80گز تا 120گز میں پورشنز کی تعمیرات نے بھی پورے شہر کے پانی و سیوریج نظام کو بری طرح متاثر کردیا ہے۔
سٹی گورنمنٹ کے دورمیں بچھائی گئیلائنیں اب تک چل رہی ہیں ،سلیم خان
مقامی رہائشی پروجیکٹ یونین کے صدر محمد سلیم خان نے بتایا کہ شہر میں جب مقامی حکومتوں کا نظام تھا تو شہر میں سیوریج کی لائنیں تبدیل کی گئی تھیں اور نئی لائنیں بچھائی گئی تھیں لیکن اب کئی برسوں سے بڑے پیمانے پر سیویج کے نظام میں اصلاحات کے لیے کہیں بھی عملی کام نظر نہیں آ رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گنجان آبادی والے علاقوں کے ساتھ شہر کی کئی مارکیٹوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ گٹر ابلتے ہوئے نظر آتے ہیں، گندا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ اور بلدیاتی اداروں سے رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو اس خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک شہر میں بااختیار مقامی حکومتیں قائم نہیں ہوں گی۔ سیوریج سمیت تمام مسائل برقرار رہیں گے، انھوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں کو نمائندوں سے رابطہ آسان ہوتا ہے کیونکہ یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومتی اداروں کی نسبت ان عوامی نمائندوں کو مسائل حل کرنے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
شہری کھلے گٹروں اور نالوں میں کچرا پھینک کرچاک کردیتے ہیں،سماجی کارکن
سماجی کارکن سعد نے بتایا کہ شہر کے گنجان آباد علاقوں میں ابلتے گٹروں کی ایک بڑی وجہ عوام خود ہیں دیکھا گیا ہے کہ کئی مقامات پر شہری کھلے گٹروں اور نالوں میں کچرا پھینک دیتے ہیں جو سیوریج کی لائنوں میں رکاوٹ پیدا کردیتا ہے جس کی وجہ سے گٹروں میں کچرا جمع ہو جاتا ہے اور یہ گٹر بھرنے کی وجہ سے نکاسی کا پانی ابل کر گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو جاتا ہے۔
گلی کے گٹر صاف کرنیوالے کنڈی مینوں کے پاس حفاظتی کٹس نہیں ہیں
بلدیاتی ادارے میں سیوریج کے امور کی نگرانی کرنے والے انسپکٹر ارشد مسیح نے بتایا کہ شہر میں سیوریج لائنوں کی صفائی زیادہ تر روایتی طریقوں سے کی جاتی ہے اس روایتی طریقے کا مطلب یہ ہے کہ کنڈی مین گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کرتے ہیں جس میں لمبے بانس ، بیلچا ، لوہے کی سلاخ ، مختلف اقسام کے وائر ، رسی والی بالٹی ، مختلف سائز کی لمبی کڑھائی سے منسلک لمبی راڈ والا آلہ ( یہ آلہ گٹروں سے کچرا نکالنے کے کام آتا ہے ) اور دیگر آلات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بڑی مشینری تو بڑی سیوریج لائنوں اور گٹروں کی صفائی کے کام آتی ہیں لیکن گلی محلوں کی لائنوں کو کنڈی مین صاف کرتے ہیں۔ ان کنڈی مینوں کے پاس حفاظتی کٹس نہیں ہوتی ہیں یہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر ان گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کرتے ہیں حفاظتی کٹس نہ ہونے کے باعث صفائی کے دوران کئی بار ان کنڈی مینوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شہر بھر میں نکاسی آب کیلیے اقدامات کررہے ہیں،ترجمان واٹربورڈ
واٹر بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ انتظامیہ کی جانب سے شہر بھر میں نکاسی آب کی بہتری کے لیے اچھے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جبکہ موسم سرما کی وجہ سے پانی کا استعمال کم ہوتا اور سیوریج لائنوں میں چکنائی کی وجہ سے سیوریج لائنیں متاثر ہوتی رہتی ہیں جس پر واٹر بورڈ کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔
سڑکوں پرجمع گندا پانی بیماریوں کے پھیلاؤکاسبب بن رہاہے،ڈاکٹرشعیب
ڈاکٹر محمد شعیب نے بتایا کہ صفائی نصف ایمان ہے، سڑکوں پر جمع گندا پانی بیماریوں کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ گرمی کے موسم کا آغاز ہو چکا ہے، اگر جمع گندے پانی کو صاف نہ کیا گیا تو شہری بیمار یوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں، اس لیے شہریوں کو چاہیے کہ وہ صفائی کا خاص خیال رکھیں، گھر آنے کے بعد صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں، اگر ممکن ہو تو اپنے اطراف جمع گندے پانی کی نکاسی کا فوری انتظام کیا جائے اور کچرے کو فوری صاف کیا جائے، سادہ گھر کھانا استعمال کیا جائے اور پانی کو ابال کر پئیں کریں۔
شاہراہوں سے محلوںتک بلندعمارتیں تعمیرکردی گئیں
آئی بی اے کے اربن پلانر محمد توحید نے بتایا کہ شہر میں بغیر منصوبہ بندی افقی تعمیرات کی جاچکی ہیں، شہر کی اہم شاہراہیں سے لیکر گلی محلوں تک بلندعمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں، جس گلی میں دس گھرانے رہتے تھے وہاں اب 50گھرانے رہتے ہیں، آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ دوسری جانب پانی و سیوریج کا وہی پرانا بوسیدہ نظام موجود ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیوریج نظام میں وہی پرانے چھوٹے سائز کی لائنیں نصب ہیں جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں جبکہ پانی کی لائنوں میں بھی رساؤ موجود ہے، گندے پانی اور میٹھے پانی کی آمیزش والاآلودہ پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے جس سے شہریوں میں صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں جس کی وجہ سے اندرون شہر اور اہم شاہراں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کی تازہ مثال جہانگیر روڈ ہے جس کا سیوریج کا نظام آج تک صحیح نہیں ہوسکا ہے، شہر میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کی سڑکوں پر ہر وقت گندہ پانی نظر آئے گا، گندہ پانی سے تعفن پھیلتا ہے جس سے مچھر اور دیگر حشرات الارض جنم لیتے ہیں اور یہی ڈینگی و ملیریا پھیلنے کا سبب بنتا ہے، واٹر بورڈ کی جانب سے روٹین کی صفائی نہ تو مینوئل کی جارہی ہے اور نہ ہی مشینوں کے ذریعے کی جارہی ہے جبکہ ورلڈ بینک نے ایک پروجیکٹ کے تحت واٹربورڈ کو سیوریج کی لائنیں صاف کرنے کے لیے کئی مشینیں دی ہیں تاہم وہ مشینیں کام کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔
محمد توحید نے سیوریج نظام کودرست کرنے کے لیے واٹر بورڈ کو چاہیے کہ شارٹ ٹرم بنیاد پر مینوئل اور مشینوں کی مدد سے صفائی کرے، درمیانی اور لمبی مدت کے تحت پورے سیوریج کا تبدیل کرے۔
محلوں میں گٹروں کی صفائی مکین اپنی مدد آپ کے تحت کرانے لگے
شہری ہمایو ں نے بتایا کہ محلوں کی سطح پر گٹروں کی صفائی اپنی مدد آپ کے تحت کرائی جاتی ہے، حکومتی بلدیاتی اداروں کو شکایات کے باوجود گٹروں اور سیوریج لائنوں کی صفائی کا کام نہیں کرایا جا تا، گٹروں کی صفائی کا کام نجی کنڈی مینوں سے کروایا جاتا ہے جو اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سیوریج کے نظام کے معاملات یونین کمیٹی کی سطح پر نافذ کرے، شہر میں سیوریج کی نئی لائنیں بچھائی جائیں انھوں نے کہا کہ اس وقت شہر کے بیشتر علاقوں میں سیوریج لائنوں کے بوسیدہ ہونے کے سبب جگہ جگہ گندا پانی کھڑا ہے جو بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، بڑھتی آبادی کے سامنے سیوریج کا نظام فرسودہ ہوگیا۔
علاقائی سطح پر اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کا کام کرانے والے سماجی کارکن محمد خالد نے بتایا کہ کراچی کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہاں بیشتر چھوٹے رہائشی یونٹس بغیر کسی پلاننگ کے کثیر المنزلہ تعمیرات ہو رہی ہیں اگر صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ سیوریج کا نظام کئی برسوں پرانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں جس وقت سیوریج کی لائنیں ڈالی گئی تھیں، یہ اس وقت کی آبادی اور اس وقت کی تعمیرات کے حساب تھیں۔ اگر گنجان آبادی والے علاقوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کئی برس قبل جس گلی میں چند مکانات تھے ، اب وہاں پر ان مکانات کی جگہ عمارتوں نے لے لی ہے اگر اس گلی میں سیوریج کا نظام 50 مکانات کے حساب سے تھا تو اب وہاں کئی سو مکانات تعمیر ہوگئے ہیں، تو بتائیں سیوریج کی لائنیں کس طرح نکاسی کے پانی کا دباؤ برداشت کرینگی، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ شہر قائد کے گنجان علاقوں میں سیوریج کا نظام مکمل طور پر بوسیدہ اور ناکارہ ہو چکا ہے، یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ جو شہر میں جگہ جگہ نکاسی کا پانی کھڑا نظر آتا ہے اور شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر یہ گندا پانی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے انھوں نے کہا کہ اس وقت شہر کو نئے نکاسی کے نظام کی ضرورت ہے۔