سپریم کورٹ کا پنجاب خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم
پنجاب میں صدر مملکت کو اور کے پی میں گورنر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم
سپریم کورٹ نے انتخابات از خود نوٹس میں 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن میں تاخیر پرازخود نوٹس کے فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا میں 90 روز میں الیکشن کروائے جائیں۔گورنر کے حکم پر اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو گورنر الیکشن کی تاریخ دیں۔ پانچ رکنی بینچ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا۔
عدالت نے نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست جبکہ کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن گورنر اور صدر کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ صدر نے 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اپریل 9 کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ تبدیل کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاق کی ڈیوٹی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھاریٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔
عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ انتخابات از خود نوٹس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائے گا
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صوبے کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔عام انتخابات کا آئین کے مینڈیٹ کے مطابق اعلان بھی اس آئینی ذمہ داری میں شامل ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 220 کے مطابق وفاق اور صوبوں کے ماتحت تمام اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ ہنگامی بنیادوں پر وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو افرادی قوت اور سیکورٹی سمیت تمام سہولیات فراہم کرے۔
عمومی حالات میں پنجاب کے انتخابات 9 اپریل کو ہونے چاہییں تھے۔ ہمیں بتایا گیا ہے عام انتخابات 90 روز کے آئینی تقاضے کے مطابق نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے 90 دن کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے کے لیے حتی الامکان کوشش کرے۔اگر 90 دن کی ڈیڈ لائن پر عمل ممکن نہیں تو اس کے قریب ترین کی کوئی تاریخ مقرر کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر مملکت پنجاب میں اور گورنر خیبرپختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ گورنر کے پی کے کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نا کرنا آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ کے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن میں تاخیر پرازخود نوٹس کے فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا میں 90 روز میں الیکشن کروائے جائیں۔گورنر کے حکم پر اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو گورنر الیکشن کی تاریخ دیں۔ پانچ رکنی بینچ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا۔
عدالت نے نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست جبکہ کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن گورنر اور صدر کے ساتھ ایڈوائس کا کردار ادا کرنے کا پابند ہے۔ صدر نے 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ اپریل 9 کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ تبدیل کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاق کی ڈیوٹی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھاریٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔
عدالت نے از خود نوٹس کا فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ انتخابات از خود نوٹس کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائے گا
سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہر صوبائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ صوبے کو آئین کے مطابق چلایا جائے۔عام انتخابات کا آئین کے مینڈیٹ کے مطابق اعلان بھی اس آئینی ذمہ داری میں شامل ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 220 کے مطابق وفاق اور صوبوں کے ماتحت تمام اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ ہنگامی بنیادوں پر وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو افرادی قوت اور سیکورٹی سمیت تمام سہولیات فراہم کرے۔
عمومی حالات میں پنجاب کے انتخابات 9 اپریل کو ہونے چاہییں تھے۔ ہمیں بتایا گیا ہے عام انتخابات 90 روز کے آئینی تقاضے کے مطابق نہیں ہو سکتے۔ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے 90 دن کی ڈیڈ لائن پر پورا اترنے کے لیے حتی الامکان کوشش کرے۔اگر 90 دن کی ڈیڈ لائن پر عمل ممکن نہیں تو اس کے قریب ترین کی کوئی تاریخ مقرر کی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر مملکت پنجاب میں اور گورنر خیبرپختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ گورنر کے پی کے کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نا کرنا آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ کے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔