سانحہِ بارکھان زرعی اصلاحات کے تابوت پر ایک اور دستک

پاکستانی عوام سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں اور زمینداروں کے غلام بن گئے ہیں

سانحہ بارکھان پاکستان میں جاری جاگیرداری نظام کے اَن گنت مظالم میں سے صرف ایک واقعہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہاتھوں میں قرآن تھامے ظالم سردار کے خلاف امن و انصاف کی بھیک مانگتی گراں ناز جاگیرداری نظام کے اندھیرے میں روشن کرن ہے۔ اس سے قبل بے شمار گراں نازیں اس اندھیرے کی بھینٹ چڑھ چکیں اور بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ یہ عورت ان چند میں سے ہے جس کی ظلم کی داستان اتفاقاً میڈیا پر آکر لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیر کچھ وقتی جھنجوڑ جاتی ہے۔

مظلوم گراں ناز اور اس کے خاندان کے ساتھ ظلم کا انکشاف اس کی ویڈیو اور اس کے جواب میں کنویں سے اس کے مقتول بچوں کی لاشوں کی برآمدگی کے واقعے سے ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے شدید دباؤ کے نتیجے میں ملزم سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو باعزت طریقے سے گرفتار اور گراں ناز سمیت اس کے باقی بچوں کو بازیاب کرلیا جاتا ہے۔ ملزم کی جیت کا نشان بنائے قانون اور انصاف کی شکست کا اشارہ دیتے ہوئے گرفتاری عمل میں آتی ہے۔

واضح رہے کہ ملزم سردار عبدالرحمٰن کھیتران ایک بااثر جاگیردار، حکمران جماعت بلوچستان کے ترجمان، اپنے علاقے بارکھان سے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیرٕ مواصلات و تعمیرات ہیں۔ مذکورہ تنازعے کا اہم کردار ملزم کا بیٹا انعام کھیتران اپنے والد کے مظالم کی گواہیاں دے رہا ہے۔ مقتول بچوں کا باپ خان محمد مری قاتل سردار کا چوکیدار اور اس کے بیوی بچے سردار کے غلام نما ملازمین تھے۔ آقا اور غلام کے بیچ جھوٹی گواہی کے معاملے پر تنازع ہوا۔ خان محمد کے جھوٹی گواہی دینے سے انکار پر اس کے بچوں کو چار سال سے قید بامشقت میں رکھا گیا۔ ماں گراں ناز کی اس ظلم کے خلاف ویڈیو نے عوامی دباؤ کے نتیجے میں معاملے کو مظلومین کے حق میں کردیا۔ دو بچوں سے محروم ہونے کے بعد یہ خاندان اب یکجا ہے۔ ماں اب بھی اپنے مقتول جگر گوشوں کے غم میں نڈھال ہے۔

مظلوم مزارعے گراں ناز، خان محمد کا خاندان اور ظالم سردار عبدالرحمٰن کھیتران اس پرانی کہانی کے نئے کردار ہیں جو پچھلے 75 سال اس ملک کے جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کے ملکیتی علاقوں اور دیہاتوں میں ظلم و جبر کے ساتھ مسلسل دہرائی جارہی ہے۔ قیامِ پاکستان کو 75 سال سے زائد ہوچلے ، قراردادٕ مقاصد 1949 میں منظور ہوچکی، 1974 میں ملکی آئین طے پاگیا، ان سب کی رو سے ریاست اسلامی جمہوریہ اور حاکمیتِ اعلیٰ اللّہ تعالیٰ کی قرار پائی۔ قومی اسمبلی کی پیشانی پر ثبت کلمہِ طیبہ ریاست پاکستان میں خدائے واحد کے سوا کسی بھی دوسرے معبود کی نفی کرتا موجود ہے۔ دوسری جانب ہماری قومی تاریخ ریاستی حکومت کے متوازی بلکہ اس پر غالب خانوں، سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں کا شاہی نظام اس کی نفی کرتی ہے۔

قیامِ پاکستان سے قبل، قائداعظم محمد علی جناح ایک موقع پر تقریر کے دوران اس وقت کے جاگیرداری نظام کے بارے میں فرماتے ہیں: ''میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس خودغرض نظام کی وجہ سے ناقابلِ بیان حد تک پنپ گئے ہیں۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے۔ یہ لوگ اسلام کا سبق بھول گئے ہیں'' (24 اپریل 1943، آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن، دہلی، کے خطاب سے اخذ شدہ)۔

افسوس کہ قائداعظم پاکستان کےلیے اپنی تجاویز کو حقیقی جامہ پہنانے کےلیے زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے۔ یوں پاکستانی عوام سرداروں، جاگیرداروں وڈیروں اور زمینداروں کے غلام بن گئے۔ ملک میں جمہوریت کے صحیح نفاذ میں سب سے اہم قانون کی حکمرانی ہے۔ تمام شہریوں کو انصاف تک فوری رسائی، ان کے حقوق کی حفاظت اور غلط کار حاکموں کو ان کی زیادتیوں پر جلد گرفت کا یہی معقول راستہ ہے۔ اس میں مسلسل ناکامی کی سب سے بڑی وجہ حکومتی نظام پر غالب جاگیرداری نظام ہے۔

ظلم کے واقعات قیامِ پاکستان سے قبل بھی ہوتے رہے، مگر اب جب کہ ہم امن و سلامتی کے نام پر آزاد ہیں تب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جاگیرداری نظام میں قانون اور انصاف کے حصول کا پیمانہ جاگیردار کا مفاد ہے۔ ان کے ظلم کرنے والے مسندوں پر اور ظلم سہنے والوں نجی قید خانوں میں زندہ درگور یا موت کے ذریعے آزاد ہوتے ہیں۔


ظلم کے لاتعداد واقعات ''نامعلوم'' کے پردے میں یکے بعد دیگرے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سانحہِ بارکھان جیسے اِکا دُکا واقعات کو میڈیائی رسائی نصیب ہو بھی جاتی ہے تو اثر ورسوخ کی بنا پر ملزم یا ظالم جیت کا نشان دکھاتے ہوئے باعزت قید اور باعزت بری کردیے جاتے ہیں۔ ان جاگیرداروں کو سیاسی مذہبی جماعتیں مشترکہ مفاد کی بنا پر اپنے ساتھ شامل رکھتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک چھوٹا وڈیرہ سردار یونین کونسل کی سطح پر بھی منتخب ہوتا ہے تو وہاں اس کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح تحصیل اور ضلع کی سطح پر ہوتا ہے۔ کوئی وڈیرہ، سردار ایم پی اے یا ایم این اے بنتا ہے تو ''بقائے باہمی'' کے اصول پر وہاں کے سارے چھوٹے سردار، جاگیردار بڑے سردار کے ماتحت ہوکر ایک نجی ریاست قائم ہوجاتی ہے۔ اس بادشاہت میں حاکمیتِ اعلیٰ سب سے بڑے جاگیردار، سردار، وڈیرے کی ہے۔ پھر اس راجدھانی میں بلدیہ، پولیس، عدلیہ، تعلیم، صحت وغیرہ کے شعبوں، یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کے افسران بھی اس حاکم سردار کی پسند کے ہوتے ہیں۔ پھر کوئی تنازع ہو، عزت غیرت کا جھگڑا ہو، قانون اور فیصلے کے ترازو کا پلڑا جاگیردار سردار ہی کی جانب جھکے گا۔ اسی بنا پر جاگیردار زرعی اصلاحات کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دیگر رکاوٹیں ہماری سیاسی و مذہبی دکانداریاں ہیں۔ جاگیرداروں نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں وفاقی شرعی عدالت سے زرعی اصلاحات کے غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ لے لیا۔ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی مفاد پرستانہ خاموشی نے اس دیدہ دلیری کو تقویت بخشی۔

پاکستان میں صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں۔ لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔ اب چونکہ جاگیردار معیشت اور سیاست پر قابض اور بالادست ہوچکے ہیں لہٰذا زرعی اصلاحات کسی سیاسی مذہبی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ پاکستان میں قابل نظریاتی رہنماؤں اور کارکنوں کی کمی نہیں ہے جو زرعی اصلاحات کو عوامی جمہوریت اور سماجی انصاف کےلیے لازم سمجھتے ہیں۔ آئین کے کئی آرٹیکل زرعی اصلاحات کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ 25 ایکڑ سے زیادہ اراضی زمینداروں سے واپس لے کر بے زمین کسانوں میں مفت، قرضِ حسنہ یا آسان قرضوں کے عوض تقسیم ہونی چاہیے۔ نیز وراثت کی عدم تقسیم اور ظلم کے ذریعے ناجائز قبضہ کی گئی زمینیں حقداروں کو واپس دلوائی جانی چاہئیں۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور صدر ایوب کے دور میں زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کی کوشش ہوئی بھی تو سیاسی ٹول کے طور پر۔ اپنی ذات و اقربا اس سے مستثنیٰ رہے۔

پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، اس لحاظ سے واضح مثال حضرت عمر بن عبدالعزیز کا طرز عمل ہے۔ انھوں نے نہایت منظم طریقے سے غاصبین سے جائیدادیں لے کر اصل مالکوں کو واپس دلوائیں۔ حقوق کی واپسی کا آغاز اپنی ذات سے کیا۔ سب سے پہلے جو زمین اور سامان ان کے قبضے میں تھا اس سے بری ہوگئے۔ اس کے بعد اقربا، سرکاری حکام اور دفاتر کو ناجائز حقوق سے پاک کیا۔ ادائیگی میں اتنی احتیاط برتی کہ حقداروں کے مرحوم ہونے کی صورت میں ان کے وارثوں کو وہ حقوق پہنچائے۔

سانحہِ بارکھان اور اس جیسے لاتعداد آن اور آف دی ریکارڈ ظلم کے واقعات کی روک تھام کا واحد حل انصاف کی فراہمی کےلیے زرعی اصلاحات کا نفاذ ہے۔

رمضان المبارک کی آمد قریب ہے۔ اس سے قبل کے وقت کو رمضان کی تیاری کا وقت کہا گیا ہے۔ سکتے میں مبتلا قریب المرگ مریض کی موت کے تعین کےلیے اس کی آخری سانسوں کا آئینے کی مدد سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا پیمانہ رمضان میں بھلائیوں کا بابرکت ماحول ہے۔ اکثر مسلمانوں کو یہ توفیق نصیب ہوجاتی ہے کہ وہ عام دنوں کے برخلاف، اپنی اصلاح پر قادر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً بھوک پیاس کے علاوہ نمازوں کی پابندی، تلاوت قرآن، صدقات و خیرات وغیرہ۔ کیا کوئی ایسا رہنما ہے جو زرعی اصلاحات کو عملاً نافذ کروانے اور ظلم میں پسے لاکھوں مسلمانوں کو انصاف دلوانے کا شرف اس رمضان میں حاصل کرسکے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story