عوام کا نہیں خواص کا ملک
خواص کا عوام کا خادم ہونے کا دعویٰ صرف جھوٹ ہوتا ہے
ماضی کی طرح موجودہ اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے 170 ارب روپے کے جو ٹیکس لگائے اور بڑھائے گئے ہیں۔
ان سے عام لوگوں پر اثر نہیں پڑے گا۔ ایسے بے بنیاد اور غلط دعوے ماضی کی ہر حکومت میں عوام سنتے آ رہے ہیں ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے ملک بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔
آج بھی عمران خان کے لیے لاڈلے کا اسٹیٹس موجود ہے۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خواص کا ملک ہے جہاں عام لوگوں کے لیے الگ اور خاص لوگوں کے لیے الگ قانون ہے۔
یہ کہنا آسان ہوتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے مگر ایسا ہے نہیں لیکن بدقسمتی سے ملک میں جو ہماری رولنگ ایلیٹ ہے وہ بھی یہی کہتی ہے مگر ان کے کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارے علاوہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
جب بھی حکومت مہنگائی بڑھاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ٹیکس بڑھنے کا اثر عام لوگوں پر نہیں پڑے گا جب کہ اثر ہمیشہ ہی عام لوگوں پر پڑتا ہے اور خواص محفوظ رہتے ہیں اور وہ بالکل متاثر نہیں ہوتے۔
اب توقانونی فیصلوں نے بھیاس تاثر کو مزید گہرا کردیا ہے کہ ملک کا قانون عمران خان کے لیے الگ ہے اور عام لوگوں کے لیے الگ۔ ملک کی عدالتوں میں کبھی کسی ملزم کو اتنی رعایت نہیں دی گئی اور نہ ہی یہ کہا گیا کہ کوئی پارٹی سب سے بڑی یا کوئی لیڈر پاپولر ہے۔
عمران خان کو ضمانت دینے کے لیے بار بار موقع دیے گئے تاکہ وہ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق عدالت آئیں کیونکہ وہ پاپولر لیڈر ہیں۔
عمران خان کی پارٹی کا دعویٰ اور ان کا منشور یہی تھا کہ ملک کا قانون سب کے لیے برابر ہونا اور سب کو یکساں انصاف کا موقعہ ملنا چاہیے مگر انھوں نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ان کے یہ دعوے اپنے لیے نہیں ہیں بلکہ دوسروں کے لیے تھے اور سسٹم نے بھی انھیں رعایت پر رعایت دے کر یہ ثابت کردیا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر نہیں ہے۔
حکومتوں اور بڑے بااثر افراد نے بھی یہ ثابت کردیا ہے کہ کتابوں میں تو قانون سب کے لیے برابر ہے مگر یہ قانون عام لوگوں کے لیے ہے، یوں قانون عام لوگوں کے درمیان برابر ہے لیکن خواص عام لوگوں سے بالاتر ہیں اور قانون کو اپنا ماتحت سمجھتے ہیں اور ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ رہا ہے اور خواص قانون کی ماتحتی میں کسی سیاسی وجوہ یا انتقام کے باعث ہی آتے ہیں۔
ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر لیٹر نہ لکھنے پر توہین عدالت کے جرم میں معمولی سزا دے کر نااہل کردیا گیا تھا مگر سپریم کورٹ کے اس حکم پر 8سال میں کہیں عمل نہیں ہوا۔ آئین کے تحت ملک میں مقررہ مدت پوری ہونے پر مقامی حکومتوں کے الیکشن کرانا ضروری ہیں مگر ہر جمہوری حکومت کے وزیر اعلیٰ نے کبھی آئین پر عمل کرکے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ۔
منتخب بلدیاتی ادارے جمہوری حکومتوں کی طرف سے توڑے جانے پر کبھی سوموٹو نوٹس نہیں لیا گیا۔ گزشتہ پنجاب حکومت نے ملک کے بلدیہ عظمیٰ لاہور کے لارڈ میئر اور صوبے کے بلدیاتی اداروں کو آتے ہی اس لیے برطرف کردیا تھا کہ ان میں اکثریت کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا اور وہ بلدیاتی الیکشن بھی چیف جسٹس افتخار چوہدری کے حکم پر ہوئے تھے۔
بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی بحالی ہفتوں میں ہوجاتی ہے مگر پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں پونے دو سال لگ جاتے ہیں ۔
بلدیاتی اداروں کی برطرفی اور آئین کے مطابق اختیارات دینے کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں مہینوں شنوائی کے منتظر رہتے ہیں حالانکہ یہ عام لوگوں سے تعلق رکھنے والے معاملات ہوتے ہیں اور منتخب بلدیاتی کونسلوں کی کارکردگی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں لاکھ درجے بہتر ہوتی ہے مگر اسمبلیوں میں خواص جاتے ہیں جب کہ بلدیاتی اداروں کے منتخب افراد عام لوگوں میں شامل کیے جاتے ہیں وہ خواص نہیں ہوتے۔
پنجاب کا وزیر اعلیٰ عدالت عظمیٰ کے جج سے فون پر بھی بے تکلف ہو کر انھیں '' یار '' کہتا ہے مگر سب سے بڑے شہر کا میئر کمشنر سے سر ، سر کہہ کر بات کرتا ہے کیونکہ وہ خواص میں شامل نہیں۔ عوام کی حقیقی خدمت کرنے والے بلدیاتی عہدیداروں کو علاقہ ایس ایچ او اہمیت نہیں دیتا جب کہ پولیس افسران اور ریونیو افسران رکن اسمبلی اپنے علاقے میں تعینات کرانے کی طاقت رکھتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلع نظام میں ناظمین خواص میں شامل تھے اور ارکان اسمبلی ان سے درخواست کر کے کام کراتے تھے جب کہ کمشنری نظام ختم ہونے سے 20 گریڈ کے افسران سٹی ناظم کے ماتحت ہوتے تھے مگر وزرائے اعلیٰ نے انھیں بے اختیار کر کے عام بنا دیا اور ارکان اسمبلی اور بیورو کریٹ خواص بن گئے تاکہ بلدیاتی عہدیداروں پر حکم چلا سکیں۔
خواص کا عوام کا خادم ہونے کا دعویٰ صرف جھوٹ ہوتا ہے ان کا کام عام لوگوں پر حکومت کرنا اور اپنے احکامات کی تعمیل کرانا رہ گیا ہے۔