ایک اسلامی ملک میں یہ کیا ہورہا ہے
یاد رکھیں ہماری نوجوان نسل رشتوں کا تقدس بھول جائے گی، دین سے دور ہوجائے گی
اسلام دین فطرت اور ہمہ گیر مذہب ہے جس نے انسانی زندگی سے متعلق کسی پہلو کو بھی رہنمائی سے تشنہ نہیں چھوڑا۔ خاندانی نظام کو بے رواہ روی سے بچانے کے لیے اسلام نے بہت اہم اقدامات کیے ہیں جو معاشرتی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔
اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ ماں باپ سے رشتہ کیسا ہوگا، بہن بھائیوں سے رشتے کا تقدس کیا ہوگا، میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کے خدوخال کیا ہوں گے، دیگر رشتے داروں کا مقام کیا ہوگا۔
ایک ایک رشتے کے بارے میں اسلام نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ان رشتوں میں موجود عظمت و تقدس سے خاندان کا وقار باقی رہتا ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
جب ان رشتوں کا تقدس اور احترام مٹ جاتا ہے تو خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور معاشرہ جنگل بن جاتا ہے جہاں جانوروں کے طرح ہر کوئی شتر بے مہار بن جاتاہے، جس کے جو دل میں آئے کرتا پھرے، کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی منع کرنے والا نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں جتنی تیزی سے دنیا کا معاشرتی نقشہ تبدیل ہوا ہے وہ دیکھتے ہوئے اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
انٹرنیٹ کی سہولت متعارف ہوتے ہی انسانی معاشرے نے تیزی سے اپنا تشخص بدلنا شروع کر دیا۔ فاصلے سمٹ گئے، نت نئے انکشافات عام ہو گئے، معلومات کی بھرمار ہو گئی۔ مخفی مبین ہو گئے۔ پردے ہٹ گئے اور ملک و قوم کی حد بندیوں سے نکل کر تہذیبیں آپس میں خلط ملط ہو گئیں۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد اب ایک ہی تہذیب رائج ہوتی جا رہی ہے۔ جن کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری ہے وہی ہر زبان زد عام ہیں۔ افسوس کہ اس موثر ترین میدان میں اگر کوئی غالب ہے تو وہ مغربی اقوام ہیں جو اپنے مخصوص ایجنڈوں کے تحت کام کر رہی ہیں اور مسلم دنیا انھی کے ذہنی غلام ہیں لہٰذا جو چیز بھی مغربی اقوام کی نسبت سے سامنے آتی ہے اس کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ ہی عرصے میں مسلم معاشروں میں بھی مغربی تہذیب کا عکس نمایاں دیکھا جانے لگا ہے۔ ہمارا کلچر جس پر اسلامی ہونے کا گمان تھا، اب خیال خام ہوگیا ہے۔ رہن سہن، لباس، طور طریقے سب میں مغربی رنگ غالب نظر آتا ہے۔
بات شادی بیاہ کی بے ہودہ رسوم و رواج سے شروع ہوئی، جو ناچ گانا شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے، آج شادیوں میں جاری ہے، شریف گھرانوں کی بچیاں اور بچے مخلوط ڈانس کرتے ہیں، اور بزرگ اسے خوشی کے موقع کی آڑ میں ''تفریح'' کا نام دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ناچ گانوں پر مبنی وڈیو کا وائرل ہونا ہمارے اسلامی تشخص پر کھلا وار ہے۔ یہ تو شادی بیاہ کی بات تھی، معاملہ تو اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔
نکاح جیسی معتبر سنت ان بیہودہ رسوم و رواج کے بوجھ تلے دبی جارہا ہے۔ مسلمان مرد و زن ویلنٹائن ڈے کے نام پر ناجائز محبتوں کے سلسلوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ہم ''اسلامی جمہوریہ پاکستان''میں رہتے ہیں لیکن آپ اس ملک کی جامعات میں چلے جائیں تو ایک لمحے کو یورپ میں ہونے کا گمان ہوتا ہے، مخلوط نظام تو پہلے ہی تھا مگر کچھ قیود کے ساتھ جو اب یکسر ختم ہو چکی ہیں، نوجوان نسل محرم غیر محرم کے قلادے کو کب سے دور پھینک چکی ہے۔
یہ آزادی کیا گل کھلا رہی ہے، اس کا اندازہ میڈیا کی خبروں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب وہ مہلک ہتھیار ہیں جن کے ذریعے ہمارے معاشرے کو اسلامی اقدار سے دور کر کے کھو کھلا کیا جا رہا ہے۔ ان آزادیوں کا خمیازہ مغرب خود بھگت رہا ہے ، وہاں کی معاشرتی زندگی سخت انتشار کا شکار ہے لیکن ہم لوگ ان کی پیروی کو کامرانی کا مظہر سمجھتے ہوئے اطاعت میں جتے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک واقعہ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی میں ایک ٹیچر نے طلبا و طالبات سے کوئز میں ایک قابل اعتراض سوال پوچھا، اس کا چرچا اب پورے ملک میں ہورہا ہے۔ سوال ایسا ہے کہ اْسے یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا، باشعور طبقے میں خاصا غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نصابی قوانین ایسے سوال کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود یہ حرکت ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں کا یہ حال ہے تو سوچیں، باقی معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ گو کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس ٹیچر کی چھٹی کرا دی ہے اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بھی ایک انکوائری کمیٹی بنا دی ہے، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایڈیشنل سیکریٹری اِس انکوائری کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔
جس کی حتمی رپورٹ چند روز میں آجائے گی۔ اصولی طور پر تو اِس ٹیچرکے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے ، اِس کے ساتھ کوئی اور ایسا ٹیچر ہے تو اس کا بھی پتہ لگانا چاہیے۔ انکوائری کمیٹی کو پس پردہ حقائق کی چھان بین بھی کرنی چاہیے، کہیں یہ کسی سازش کا شاخسانہ تو نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو والدین کا تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں موجود فکیلٹیز کی اسکروٹنی کرے۔ تمام نجی و سرکاری یونیورسٹی کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی تفصیلات طلب کرے۔ جائزہ لے کہ سال بھر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسے پروگراموں کا انعقاد تو نہیں ہوتا جو ہمارے دین، قانون اور معاشرتی روایات سے متصادم ہیں۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسی تقریبات پر پابندی عائد کی جائے جہاں قوم کی بچیوں کو ڈانس کرایا جاتا ہے، ان سے گانے گوائے جاتے ہیں۔
ان ہی تعلیمی اداروں کے سپرد قوم کا مستقبل ہوتا ہے اور اگر یہ ادارے خود بے راہ روی کا شکار ہوں گے تو سوچیں قوم کا مستقبل کیسا ہوگا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن نے مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں موجود ہندو اساتذہ کے ذریعے بنگالی نوجوانوں کے ذہنوں میں ہمارے خلاف زہر بھرا تھا اور اس کا نتیجہ سقوط ڈھاکا نکلا۔
اگر آج ہم نے اپنی درسگاہوں کی دیکھ بھال نہیں کی یا غلط حرکات پر خاموشی اختیار کی یا نرم رویہ اپنایا تو یاد رکھیں ہماری نوجوان نسل رشتوں کا تقدس بھول جائے گی، دین سے دور ہوجائے گی۔ ہمیں ہر حال میں اپنے نوجوانوں کو اس بے راہ روی سے بچانا ہوگا۔
اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ ماں باپ سے رشتہ کیسا ہوگا، بہن بھائیوں سے رشتے کا تقدس کیا ہوگا، میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کے خدوخال کیا ہوں گے، دیگر رشتے داروں کا مقام کیا ہوگا۔
ایک ایک رشتے کے بارے میں اسلام نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ ان رشتوں میں موجود عظمت و تقدس سے خاندان کا وقار باقی رہتا ہے اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
جب ان رشتوں کا تقدس اور احترام مٹ جاتا ہے تو خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور معاشرہ جنگل بن جاتا ہے جہاں جانوروں کے طرح ہر کوئی شتر بے مہار بن جاتاہے، جس کے جو دل میں آئے کرتا پھرے، کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی منع کرنے والا نہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں جتنی تیزی سے دنیا کا معاشرتی نقشہ تبدیل ہوا ہے وہ دیکھتے ہوئے اقبال کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
انٹرنیٹ کی سہولت متعارف ہوتے ہی انسانی معاشرے نے تیزی سے اپنا تشخص بدلنا شروع کر دیا۔ فاصلے سمٹ گئے، نت نئے انکشافات عام ہو گئے، معلومات کی بھرمار ہو گئی۔ مخفی مبین ہو گئے۔ پردے ہٹ گئے اور ملک و قوم کی حد بندیوں سے نکل کر تہذیبیں آپس میں خلط ملط ہو گئیں۔
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا کے گلوبل ولیج بننے کے بعد اب ایک ہی تہذیب رائج ہوتی جا رہی ہے۔ جن کی سوشل میڈیا پر اجارہ داری ہے وہی ہر زبان زد عام ہیں۔ افسوس کہ اس موثر ترین میدان میں اگر کوئی غالب ہے تو وہ مغربی اقوام ہیں جو اپنے مخصوص ایجنڈوں کے تحت کام کر رہی ہیں اور مسلم دنیا انھی کے ذہنی غلام ہیں لہٰذا جو چیز بھی مغربی اقوام کی نسبت سے سامنے آتی ہے اس کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ ہی عرصے میں مسلم معاشروں میں بھی مغربی تہذیب کا عکس نمایاں دیکھا جانے لگا ہے۔ ہمارا کلچر جس پر اسلامی ہونے کا گمان تھا، اب خیال خام ہوگیا ہے۔ رہن سہن، لباس، طور طریقے سب میں مغربی رنگ غالب نظر آتا ہے۔
بات شادی بیاہ کی بے ہودہ رسوم و رواج سے شروع ہوئی، جو ناچ گانا شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے، آج شادیوں میں جاری ہے، شریف گھرانوں کی بچیاں اور بچے مخلوط ڈانس کرتے ہیں، اور بزرگ اسے خوشی کے موقع کی آڑ میں ''تفریح'' کا نام دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ناچ گانوں پر مبنی وڈیو کا وائرل ہونا ہمارے اسلامی تشخص پر کھلا وار ہے۔ یہ تو شادی بیاہ کی بات تھی، معاملہ تو اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔
نکاح جیسی معتبر سنت ان بیہودہ رسوم و رواج کے بوجھ تلے دبی جارہا ہے۔ مسلمان مرد و زن ویلنٹائن ڈے کے نام پر ناجائز محبتوں کے سلسلوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ کہنے کو تو ہم ''اسلامی جمہوریہ پاکستان''میں رہتے ہیں لیکن آپ اس ملک کی جامعات میں چلے جائیں تو ایک لمحے کو یورپ میں ہونے کا گمان ہوتا ہے، مخلوط نظام تو پہلے ہی تھا مگر کچھ قیود کے ساتھ جو اب یکسر ختم ہو چکی ہیں، نوجوان نسل محرم غیر محرم کے قلادے کو کب سے دور پھینک چکی ہے۔
یہ آزادی کیا گل کھلا رہی ہے، اس کا اندازہ میڈیا کی خبروں سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب وہ مہلک ہتھیار ہیں جن کے ذریعے ہمارے معاشرے کو اسلامی اقدار سے دور کر کے کھو کھلا کیا جا رہا ہے۔ ان آزادیوں کا خمیازہ مغرب خود بھگت رہا ہے ، وہاں کی معاشرتی زندگی سخت انتشار کا شکار ہے لیکن ہم لوگ ان کی پیروی کو کامرانی کا مظہر سمجھتے ہوئے اطاعت میں جتے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک واقعہ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی میں ایک ٹیچر نے طلبا و طالبات سے کوئز میں ایک قابل اعتراض سوال پوچھا، اس کا چرچا اب پورے ملک میں ہورہا ہے۔ سوال ایسا ہے کہ اْسے یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا، باشعور طبقے میں خاصا غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نصابی قوانین ایسے سوال کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود یہ حرکت ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم کی درسگاہوں کا یہ حال ہے تو سوچیں، باقی معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ گو کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس ٹیچر کی چھٹی کرا دی ہے اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بھی ایک انکوائری کمیٹی بنا دی ہے، وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایڈیشنل سیکریٹری اِس انکوائری کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔
جس کی حتمی رپورٹ چند روز میں آجائے گی۔ اصولی طور پر تو اِس ٹیچرکے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے ، اِس کے ساتھ کوئی اور ایسا ٹیچر ہے تو اس کا بھی پتہ لگانا چاہیے۔ انکوائری کمیٹی کو پس پردہ حقائق کی چھان بین بھی کرنی چاہیے، کہیں یہ کسی سازش کا شاخسانہ تو نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو والدین کا تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں موجود فکیلٹیز کی اسکروٹنی کرے۔ تمام نجی و سرکاری یونیورسٹی کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی تفصیلات طلب کرے۔ جائزہ لے کہ سال بھر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسے پروگراموں کا انعقاد تو نہیں ہوتا جو ہمارے دین، قانون اور معاشرتی روایات سے متصادم ہیں۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسی تقریبات پر پابندی عائد کی جائے جہاں قوم کی بچیوں کو ڈانس کرایا جاتا ہے، ان سے گانے گوائے جاتے ہیں۔
ان ہی تعلیمی اداروں کے سپرد قوم کا مستقبل ہوتا ہے اور اگر یہ ادارے خود بے راہ روی کا شکار ہوں گے تو سوچیں قوم کا مستقبل کیسا ہوگا؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن نے مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں موجود ہندو اساتذہ کے ذریعے بنگالی نوجوانوں کے ذہنوں میں ہمارے خلاف زہر بھرا تھا اور اس کا نتیجہ سقوط ڈھاکا نکلا۔
اگر آج ہم نے اپنی درسگاہوں کی دیکھ بھال نہیں کی یا غلط حرکات پر خاموشی اختیار کی یا نرم رویہ اپنایا تو یاد رکھیں ہماری نوجوان نسل رشتوں کا تقدس بھول جائے گی، دین سے دور ہوجائے گی۔ ہمیں ہر حال میں اپنے نوجوانوں کو اس بے راہ روی سے بچانا ہوگا۔