سپریم کورٹ کا فیصلہ

حیرانی کی بات یہ ہے کہ سب کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ تین دو سے فیصلہ آئے گا

msuherwardy@gmail.com

سپریم کورٹ نے تین دو کے تناسب سے پنجاب اور کے پی میں نوے دن میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ تین ججز نے نوے دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے جب کہ دو ججز نے اس سے اختلاف کیا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ سب کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ تین دو سے فیصلہ آئے گا، اس لیے یہ فیصلہ ملک کے سیاسی اور قومی حلقوں کے لیے کوئی حیرانی کا باعث نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین دو کے اکثریتی فیصلے کے بعد کیا دونوں صوبوں میں نوے دن میں انتخابات ہو جائیں گے؟ مجھے نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھی نہ تو آئینی بحران ختم ہوا ہے اور نہ ہی انتخابات کا مسئلہ حل ہوا ہے۔

دونوں صوبوں میں انتخابات کے لیے جس سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، وہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس اتفاق رائے کے لیے ایک موقع بنایا لیکن سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے ڈنڈے کے تحت اتفاق رائے پیدا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں سیاسی جماعتوں نے ٹھیک فیصلہ کیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے کہنے پر ایک گھنٹے میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ کا یہ بنچ پہلے دن سے تنازعات کا شکار رہا ہے۔ دو ججز پر اعتراض سامنے آیا اور وہ دنوں خود ہی بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ دو ججز نے سو موٹو سے اختلاف کیا اور خود کو بنچ سے علیحدہ کر لیا۔ دو ججز نے اب بھی یہی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو فی الحال مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے دیکھاجائے تو چار ججز کی رائے اس سوموٹو کے حق میں نہیں ہے جب کہ تین ججز کا فیصلہ سوموٹو کے حق میں ہے۔

لیکن کیا اس فیصلے کو ایسے دیکھا جائے گا، یہ پہلو ابھی دیکھا جائے گا۔ یہ قانونی نقطہ بھی اہم رہے گا کہ اگر مقدمہ ہائی کورٹس میں زیر التوا ہیں تو چیف جسٹس کیسے سو موٹو لے سکتا ہے، اس سے ہائی کورٹس کی خود مختاری کو چیلنج کر دیا گیا ہے، اس لیے سپریم کورٹ کے اہم ججز نے اس سو موٹوکے خلاف رائے دی ہے۔ اختلافی نوٹ میں بھی یہی بات سامننے آئی ہے۔

اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی نوے دن میں انتخابات ممکن نظر نہیں آتے۔ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ سپریم کورٹ میں تقسیم صاف نظر آئی ہے۔ سنیئر ججز کو اس بنچ سے علیحدہ رکھنے پر جو سوال پیدا ہوئے ہیں، وہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو کیوں علیحدہ رکھا جا رہا ہے۔

جسٹس سردار طارق کو کیوں علیحدہ رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے بنچ ٹوٹنے کے بعد باقی ماندہ بنچ سے ہی کام چلایا، قانونی حلقوں میں اسے بھی کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔

یہ سوال بھی موجود رہے گا کہ اس معاملے یا کیس میں اتنی دلچسپی کیوں؟ ججز کسی بھی کیس میں خاص دلچسپی نہیں دکھا سکتے ، اس لیے میری رائے میں سپریم کورٹ کو ہائی کورٹس کو یہ ہدایت دینی چاہیے تھی کہ وہ جلدی فیصلہ کریں اور پھر اپیل میں یہ کیس سننا چاہیے تھا۔ یہ ایک قانونی طریقہ تھا۔ لیکن سو موٹو نے قانونی طریقہ کو سبوتاز کیا ہے، یہ سوالات موجو دہے۔


میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فیصلہ آنے کے بعد اس پر رائے دینے سے کوئی توہین عدالت نہیں ہوتی۔ فیصلہ عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے اچھے اور برے ہونے پر بات ہو سکتی ہے۔

اس کے قانونی نکات پر بات ہو سکتی ہے۔ اس لیے کیا یہ فیصلہ اچھا ہے یا برا، اس پر بات ہو سکتی ہے۔ سب کی اپنی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔کچھ کے لیے یہ اچھا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے، آئین کے مطابق ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ انتخابات نوے دن میں ہونا ہے، اس لیے فیصلہ آئین کے مطابق ہی ہے۔ لیکن کیا ایک غیر آئینی و غیر قانونی طریقے سے آئینی فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔

آئینی کام آئینی طریقہ سے ہی کیا جائے تو وہ آئینی ہو سکتا ہے۔ اس لیے جہاں اس فیصلے کے آئینی ہونے کی بات کی جائے گی وہاں اس کے طریقہ کار پر بھی بات کو نظرا نداز نہیں کیا جاسکتا۔

سنیئر قانون دان اعتز از احسن جن کی رائے اکثر عمران خان کے حق میں ہوتی ہے وہ بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ سپریم کورٹ میں تقسیم اتنی واضح ہو چکی ہے کہ اب بنچ دیکھ کر فیصلے کا اندازہ ہو جاتا ہے، اسی لیے بنچ فکسنگ کی بات سامنے آئی ہے۔ یہ سوال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بنچ بنانے کا کوئی ضابطہ قانون تو ہونا چاہیے۔ بالکل مرضی ٰتو کوئی قانون نہیں۔ مرضی تو پسند نا پسند کو جنم دیتی ہے۔یہ سب عدلیہ کی ساکھ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ عدلیہ کو سیاسی تنازعات سے دور رہنا چاہیے۔

سیاسی فیصلوں کے سیاسی مضمرات ہو تے ہیں۔ سیاسی فیصلوں کے سیاسی نتائج سامنے آتے ہیں۔ موجودہ فیصلے کے بھی سیاسی نتائج سامنے آئیں گے۔ عدلیہ پہلے ہی سیاسی تنازعات کا شکار ہے۔ اب اس کے بعد مزید تنازعات کا شکار ہو گی۔

عدلیہ کے ذمے داران کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ عدلیہ کی ساکھ عام آدمی کے ذہن میں خراب ہو رہی ہے۔ جلسوں میں ان کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ سیاسی گفتگو میں عدلیہ کی بات ہو رہی ہے۔ عدلیہ کے سیاسی فیصلوں کی بات ہو رہی ہے۔ پارلیمان میں عدلیہ مخالف تقاریر سامنے آرہی ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کیا عدلیہ کو اپنے وقار کی حفاظت کے لیے توہین عدالت کے قانون کا استعمال کرنا چاہیے یا عومی رائے کو برداشت کرنا چاہیے۔ ججز کو سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگ اب ججز کو بھی سیاسی جماعتوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ کون کس کی حمایت کرتا ہے کا تاثر افسوسناک ہے۔

نوے دن میں انتخابات کے حوالے سے دو ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں ان دو ججز کی رائے جو بھی شامل کیا ہے جو پہلے ہی اس سو موٹو کو مسترد کر چکے تھے۔ انھوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ہم اپنے فاضل ممبران کی اس رائے سے متفق ہیں۔ اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اب یہ تو ماہرین قانون ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا فیصلہ تین دو سے انتخابات کروانے کے حق میں آیا ہے یا چار تین سے سو موٹو مسترد ہو گیا ہے۔

لیکن کسی حد تک اس سو موٹو کے خلاف سپریم کورٹ سے اکثریتی رائے آئی ہے۔ بہر حال میری رائے میں پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔

پارلیمان او ر عدلیہ کے درمیان سیز فائر کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کو اپنے اندر اصلاحات کا آغاز کرنا چاہیے۔ بنچ بنانے کے طریقے کو شفاف بنانا چاہیے۔ سو موٹو کے طریقے کو شفاف بنانا چاہیے۔ سپریم کورٹ میں جونئر ججز کو لانے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔
Load Next Story