پولیس سے عام آدمی کی شکایات کب ختم ہوں گی

پولیس کے محکمے میں شامل بدعنوان عناصر کی وجہ سے پورا ادارہ بدنام ہے


پاکستانی پولیس سے عام آدمی کو بہت زیادہ شکایات ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہماری پولیس اتنی بدنام کیوں ہے؟ جبکہ ملک میں دہشت گردی کا ناسور ہو یا پھر منفی پروپیگنڈہ، ہمیشہ پولیس ہی نشانے پر رہی ہے۔ پولیس کے جوانوں نے ایسے عناصر کا مقابلہ کیا جو ہمارے معاشرے میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وطن عزیز میں امن کے دشمن دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوکر بھی تحفظ پاکستان اور پرامن پاکستان کےلیے اپنے حصے کی شمع روشن کی لیکن پھر بھی وہ کہتے ہیں ناں کہ ''بد اچھا بدنام برا'' والا معاملہ ہی رہا ہے۔

میرا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس ادارے میں کالی بھیڑیں یا بدعنوان لوگ موجود نہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ پولیس والے جنہیں ہم مختلف منفی القابات سے نوازتے ہیں وہ اس قدر برے بھی نہیں جتنا معاشرے میں ان کے خلاف سوچ پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس بدنامی کی ایک اہم وجہ وہ بدعنوان لوگ ضرور ہیں جن کے کیے کی سزا باقی سب کو ملتی رہتی ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اگر پولیس میں سے کوئی فرد واحد کسی کے ساتھ ناانصافی یا برا سلوک کرتا ہے تو اس کی شکایت کرنے کے بجائے پورے ادارے یا ان کی برادری کے تمام لوگوں کو ایک جیسا برا بھلا کہنا شروع کردیا جاتا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ خیبرپختونخوا میں پولیس ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید بڑھ کر 119 ہوگئی ہے جوکہ اس سے پہلے 2021 میں 54 جبکہ 2020 میں 21 تھی۔ علاوہ ازیں رواں سال اب تک تقریباً 102 پولیس اہلکار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اہلکار حالیہ پولیس لائن مسجد پشاور میں ہونے والے بم دھماکے میں شہید ہوئے۔

گزشتہ دنوں رویٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے کہا تھا کہ ان کا اصل ہدف پولیس نہیں بلکہ فوج ہے لیکن چونکہ پولیس ان کے دہشتگردانہ مقاصد کے راستے میں سامنے نظر آتی تو پھر وہ نشانہ بنتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کو کئی بار کہا گیا ہے کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالیں لیکن پولیس نے اس پر دھیان دینے کے بجائے ہمارے ساتھیوں کو مارنا شروع کردیا لہٰذا یہی وجہ ہے کہ پولیس اہلکار نشانہ بنتے رہے ہیں۔

پولیس اس لیے بھی دہشتگردوں کا آسان ہدف ہوتی ہے کیونکہ پولیس اہلکار عوامی خدمت اور امن و امان کو برقرار رکھنے کےلیے براہ راست عوامی مقامات پر موجود ہوتے ہیں اس لیے دہشت گرد باآسانی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنالیتے ہیں۔ جبکہ بدقسمتی یہ ہے کہ پولیس کے پاس ایسے طاقتور عناصر کے خلاف لڑنے کےلیے مناسب وسائل بھی نہیں ہوتے، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دہشتگرد پولیس پر حملہ کرنے کے بعد بڑی آسانی سے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔

ایک جانب جہاں پولیس کو دہشتگردی کا سامنا ہے وہیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدامنی، ڈکیتیوں، قتل، چوریوں سمیت مختلف جرائم پیشہ افراد کی وارداتوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ایس ایس پی تنویر تنیو نے سندھ ہائی کورٹ میں کہا ''جرائم پیشہ افراد کے پاس جدید اسلحہ ہے جس سے وہ لوگوں کو اغوا کرکے تاوان کےلیے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں لہٰذا اگر پولیس کو بھی وسائل کے ساتھ جدید اسلحہ دیا جائے تو چھ ماہ میں ایسے عناصر کا خاتمہ ہوجائے گا۔''

اس سب باتوں کے برعکس یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی پولیس سے عام آدمی کو کافی شکایات ہیں کیونکہ انہیں انصاف دینے کے بجائے تھانے میں ہمیشہ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے حتیٰ کہ غریب آدمی کی بنا سفارش یا رشوت ایف آئی آر تک درج نہیں کی جاتی۔ لیکن ایسے بدعنوان لوگوں کی نشاندہی یا شکایت نہیں کی جاتی اور یوں یہ بدعنوان عناصر مزید طاقتور بن جاتے ہیں۔

ایسے لوگ ناصرف پولیس بلکہ ہر ادارے میں موجود ہیں۔ پولیس دفاتر میں قائم شکایت سیل یا پبلک ریلیشنز آفیسرز کی نااہلی اور کوتاہی اور پولیس افسران کی بداخلاقی بھی اس بدنامی میں شامل ہے۔ نااہلی کا یہ عالم ہے کہ پولیس کی جانب سے قائم کردہ سیل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس جیسے کہ ٹویٹر پر بھی لوگوں کی شکایت کو نہیں سنا جاتا جبکہ یہی حال تھانوں کے اندر کا ہے کہ ایک ایس ایچ او سطح کا آفیسر بھی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے زیادہ اتھارٹی رکھتا ہے اور پھر ایسا ہی حال بدقسمتی سے ڈی پی او کا بھی ہے کہ وہ خود کو آئی جی سے بھی اوپر سمجھتا ہے۔

پولیس کی یہ بدنامی تب شروع ہوجاتی ہے جب عوام کا ان افسران سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے یا پھر ان کی شکایت پر کارروائی تو دور اسے سنا بھی نہیں جاتا۔ اگر پولیس اور عوام کا آمنا سامنا ہو تو بعض پولیس افسران کا رویہ اخلاق سے انتہائی گرا ہوا ہوتا ہے، جس کے باعث عام آدمی میں پولیس کے خلاف نفرت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔

 

جدید دور میں پولیس کی سوشل میڈیا سے ناواقفیت

خیبر پختونخوا پولیس کا ٹویٹر پر ایک تصدیق شدہ آفیشل اکاؤنٹ موجود ہے جس کی بائیو میں براہ راست شکایات یا کال کےلیے ٹول فری نمبر کے ساتھ واٹس ایپ نمبر بھی دیا گیا ہے تاہم جب آپ ان نمبرز پر رابطہ کرتے ہیں تو جواب بالکل بھی نہیں دیا جاتا جبکہ یہی صورتحال ٹویٹر اکاؤنٹ کی ہے کہ وہاں بھی خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے کوئی جواب یا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان پولیس آفس کی جانب سے جاری ایک پوسٹر میں جو سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے یوزر نیم دیے گئے، ان یوزرنیم پر ایسا کوئی اکاؤنٹ ہی موجود نہیں جو اس پوسٹر میں درج کیے گئے اور اگر کوئی ٹویٹر کا اکاؤنٹ بنا ہوا بھی ہے تو وہ مکمل طور پر فعال نہیں۔ اس جدید ترین دور میں بھی ایسے اہم سرکاری دفاتر کے اندر میڈیا سیل چلانے کےلیے ایسے لوگوں کو ذمے داریاں سونپی گئی ہیں جنہیں مکمل نام (full name) اور مخصوص نام (username) کے فرق کا بھی علم نہیں۔

اسی طرح سندھ سے لے کر راولپنڈی اور بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا تک پولیس سسٹم میں پبلک ریلیشنز آفیسرز اور میڈیا سیل تو موجود ہیں لیکن ان میں موجود اکثریت سوشل میڈیا کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اس معاملے میں اسلام آباد کیپٹل پولیس اور پنجاب پولیس کے کچھ حلقوں میں ناصرف ان کے آفیشل اکاؤنٹ سے براہ راست عوامی شکایات سنی جاتی ہیں بلکہ ان کے اعلیٰ افسران بھی لوگوں سے براہ راست رابطے کےلیے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

اعلیٰ سطح کے پولیس افسران نہ صرف خود عوامی مسائل براہ راست سننے کےلیے سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ بنائیں بلکہ محکمہ کے اندر موجود میڈیا سیل کو بھی فعال کریں اور ان میں اس اہم ذمے داری کو سنبھالنے کے ماہر لوگوں کو بٹھائیں تاکہ لوگوں کے ساتھ باہمی رشتہ قائم رہے اور ان کے مسائل فوری حل ہوں۔

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہمیں ہمیشہ بدعنوان لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے لیکن کسی ادارے کے بجائے ان افراد کو برا بھلا سمجھا جائے جو اس کے ذمے دار ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں