سائبیریا سے پاکستان آنے والے پرندوں کی تعداد آدھی ہوگئی رپورٹ
محکمہ جنگلی حیات نے سن 2022 اور 2023 کی پرندہ شماری مکمل کرلی، حتمی رپورٹ چند روز بعد جاری کی جائےگی
کراچی سمیت دیہی سندھ کے اضلاع میں غیر معمولی مون سون بارشوں اور سیلابی صورتحال کے سبب رواں سال سائبیریا کے سرد ترین مقامات سے خوراک کی تلاش میں ہجرت کرنے والے مہمان پرندوں تعداد خطرناک حد تک کمی کے بعد نصف رپورٹ ہوئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ برس ساڑھے چھ لاکھ سے زائد پرندوں نے خوراک کی تلاش میں سندھ کی آب گاہوں اور جھیلوں پر قیام کیا اور رواں سال تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ رپورٹ ہوئی۔
سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلاب کی وجہ سے جگہ جگہ موجود پانی کی وجہ سےپرندے روایتی آب گاہوں کے علاوہ بارش کے جمع پانی کے عارضی ذخائر میں تقسیم ہوئے۔
محکمہ جنگلی حیات نے سن 2022 اور 2023 کی پرندہ شماری مکمل کرلی، پرندہ شماری کا عمل 20 جنوری سے 15 فروری تک جاری رہا، سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں کے حوالے سے حتمی رپورٹ چند روز بعد جاری کی جائےگی۔
محکمہ جنگلی حیات کے ایڈمن ممتاز سومرو کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر کی آب گاہوں پر ہرسال گلابی ہنس، نیل ہنس، چینا بطخ، پیلکن، چیکلا، ڈگوش، آڑی، قاز اور کرینز کی بڑی تعداد بسیرا کرتے ہیں اور ہرسال نومبر کے اوائل اور وسط میں سرد ترین مقامات سے ان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ قیام 4 ماہ پرمحیط ہوتاہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے آغاز میں یہ واپس اپنے آبائی علاقوں کی جانب رخت سفر باندھتے ہیں،ان کی دیگر ممالک کی جانب ہجرت کا پس منظریہ ہے کہ دنیا کے سرد ترین مقامات پران مہمان پرندوں کی خوراک پربرف کی گہری تہہ جم جاتی ہے،جس کے بعد یہ خوراک کی تلاش میں دنیا کے معتدل خطوں کا رخ کرتے ہیں،جن میں پاکستان بھی شامل ہے،ان پرندوں میں پانی اورخشکی دونوں طرح کے پرندے شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پرندے کراچی، بدین، ننگرپارکر کے 100 سے زائد جھیلوں،آب گاہوں،کھارے اور میٹھے پانی کے ذخائر پر قیام کرتے ہیں،جن میں کراچی کا ساحل سمندر، ہاکس بے، سینڈزپٹ، پیراڈائز پوائنٹ، رشین بیچ جبکہ دیہی سندھ کی کینجھر،ہالے جھیل،صوفی انورپارک سمیت دیگر مقامات شامل ہیں۔
ممتازسومرو کے مطابق پرندہ شماری کے لیے کراچی میں سپر ٹیم جبکہ سندھ کے دیگراضلاع میں وہاں کے حجم کے مطابق دیگر ٹیمیں تشکیل دی گئیں، پرندوں کی تعداد میں کمی حالیہ مون سون کی بارشیں ہیں، ماضی میں سندھ کی 30 کے لگ بھگ جھیلوں اوردیگر آب گاہوں کی پرندہ شماری کی جاتی رہی، اس مرتبہ بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ سیکڑوں کی تعداد میں جھیلیں بنی، عارضی واٹرباڈیز کی وجہ سے پرندے تقیسم ہوئے۔
ان کا کہنا تھا بارش کے سبب بیشتر پانی کے ذخیرے پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں میں بنے، پرندہ شماری ٹیموں کی ان مقامات تک رسائی نہ ہونے کے سبب انہیں سینسز میں شامل نہیں کیا گیا، پرندہ شماری کا آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ ہے، پرندوں کو شمار کرنے کے لیے روایتی طریقوں کے علاوہ عصر حاضر کے عین مطابق جدید طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں،جن میں سب سے آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ(دوربین)کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ممتاز سومرو کے مطابق پرندہ شماری کے دوران کسی بھی آب گاہ کے قرب جوارمیں لکڑی کا ایک چوکور فریم بنادیا جاتا ہے،جس کے ساتھ اسپاٹنگ اسکوپ سمیت دیگر آلات نصب کردیے جاتے ہیں،اس لکڑی کے فریم میں جو بھی پرندے بیٹھ جاتے ہیں،ان کی تعداد کو گنا جاتا ہے،یہی عمل چندکلومیٹرکے فاصلے پر بار بار دہرائی جاتا ہے اوراس تعداد کو بتدریج پرندہ شمار کے بعد رپورٹ کی شکل مرتب کیا جاتا ہے،خانہ شماری کا یہ سلسلہ سال 1972 سے جاری ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق گزشتہ برس ساڑھے چھ لاکھ سے زائد پرندوں نے خوراک کی تلاش میں سندھ کی آب گاہوں اور جھیلوں پر قیام کیا اور رواں سال تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ رپورٹ ہوئی۔
سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلاب کی وجہ سے جگہ جگہ موجود پانی کی وجہ سےپرندے روایتی آب گاہوں کے علاوہ بارش کے جمع پانی کے عارضی ذخائر میں تقسیم ہوئے۔
محکمہ جنگلی حیات نے سن 2022 اور 2023 کی پرندہ شماری مکمل کرلی، پرندہ شماری کا عمل 20 جنوری سے 15 فروری تک جاری رہا، سرد علاقوں سے آنے والے مہمان پرندوں کے حوالے سے حتمی رپورٹ چند روز بعد جاری کی جائےگی۔
محکمہ جنگلی حیات کے ایڈمن ممتاز سومرو کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر کی آب گاہوں پر ہرسال گلابی ہنس، نیل ہنس، چینا بطخ، پیلکن، چیکلا، ڈگوش، آڑی، قاز اور کرینز کی بڑی تعداد بسیرا کرتے ہیں اور ہرسال نومبر کے اوائل اور وسط میں سرد ترین مقامات سے ان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ قیام 4 ماہ پرمحیط ہوتاہے۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ کے آغاز میں یہ واپس اپنے آبائی علاقوں کی جانب رخت سفر باندھتے ہیں،ان کی دیگر ممالک کی جانب ہجرت کا پس منظریہ ہے کہ دنیا کے سرد ترین مقامات پران مہمان پرندوں کی خوراک پربرف کی گہری تہہ جم جاتی ہے،جس کے بعد یہ خوراک کی تلاش میں دنیا کے معتدل خطوں کا رخ کرتے ہیں،جن میں پاکستان بھی شامل ہے،ان پرندوں میں پانی اورخشکی دونوں طرح کے پرندے شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پرندے کراچی، بدین، ننگرپارکر کے 100 سے زائد جھیلوں،آب گاہوں،کھارے اور میٹھے پانی کے ذخائر پر قیام کرتے ہیں،جن میں کراچی کا ساحل سمندر، ہاکس بے، سینڈزپٹ، پیراڈائز پوائنٹ، رشین بیچ جبکہ دیہی سندھ کی کینجھر،ہالے جھیل،صوفی انورپارک سمیت دیگر مقامات شامل ہیں۔
ممتازسومرو کے مطابق پرندہ شماری کے لیے کراچی میں سپر ٹیم جبکہ سندھ کے دیگراضلاع میں وہاں کے حجم کے مطابق دیگر ٹیمیں تشکیل دی گئیں، پرندوں کی تعداد میں کمی حالیہ مون سون کی بارشیں ہیں، ماضی میں سندھ کی 30 کے لگ بھگ جھیلوں اوردیگر آب گاہوں کی پرندہ شماری کی جاتی رہی، اس مرتبہ بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ سیکڑوں کی تعداد میں جھیلیں بنی، عارضی واٹرباڈیز کی وجہ سے پرندے تقیسم ہوئے۔
ان کا کہنا تھا بارش کے سبب بیشتر پانی کے ذخیرے پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں میں بنے، پرندہ شماری ٹیموں کی ان مقامات تک رسائی نہ ہونے کے سبب انہیں سینسز میں شامل نہیں کیا گیا، پرندہ شماری کا آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ ہے، پرندوں کو شمار کرنے کے لیے روایتی طریقوں کے علاوہ عصر حاضر کے عین مطابق جدید طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں،جن میں سب سے آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ(دوربین)کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ممتاز سومرو کے مطابق پرندہ شماری کے دوران کسی بھی آب گاہ کے قرب جوارمیں لکڑی کا ایک چوکور فریم بنادیا جاتا ہے،جس کے ساتھ اسپاٹنگ اسکوپ سمیت دیگر آلات نصب کردیے جاتے ہیں،اس لکڑی کے فریم میں جو بھی پرندے بیٹھ جاتے ہیں،ان کی تعداد کو گنا جاتا ہے،یہی عمل چندکلومیٹرکے فاصلے پر بار بار دہرائی جاتا ہے اوراس تعداد کو بتدریج پرندہ شمار کے بعد رپورٹ کی شکل مرتب کیا جاتا ہے،خانہ شماری کا یہ سلسلہ سال 1972 سے جاری ہے۔