آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ
جس نے بھارتی مسلح افواج کو اپنی عسکری صلاحیتوں پر از سر نو سوچ بچار پر مجبور کردیا
ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب
یہ وسط فروری 2019ء کی بات ہے ۔ بھارت میں صرف دو ماہ بعد پارلیمانی الیکشن ہونے والے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے جائزے آشکار کر رہے ہیں کہ الیکشن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت حکمران اتحاد،این ڈی اے زیادہ سے زیادہ 240 نشستیں جیت سکے گا جبکہ اپوزیشن پارٹیاں 300 تک سیٹیں جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں گی۔
بھارتی اپوزیشن پارٹیوں کو اس لیے مقبولیت حاصل ہوئی کہ مودی حکومت عوام کی اُمیدوں پر پورا نہیں اتر سکی۔مودی نے الیکشن 2014ء میں دعوی کیا تھا کہ وہ عام آدمی کی زندگی بدل دے گا۔ مگر پانچ سال گذر جانے کے باوجود عوام اب بھی معاشی مسائل اور تکالیف میں مبتلا تھے۔
سامنے نظر آتی واضح شکست مودی نے ایک مرتبہ پھر ہندتوا کا مذہبی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ یہی ایک صورت تھی ہندو عوام کو دوبارہ بی جے پی کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی۔ ہندو قوم پرستوں نے بابری مسجد کے خلاف چلائی مہم میں پہلی بار یہ کارڈ کھیلا جسے بے انتہا کامیابی ملی تھی اور ہندو قوم پرست عناصر بھارتی سیاست پر چھا گئے تھے۔
یہ کارڈ کھیلتے ہوئے ہندو مسلم فساد کرانا بنیادی حکمت عملی ہے کیونکہ تبھی ہندو عوام کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں اور وہ انتقام لینے کی خاطر قوم پرستوں کی چھتری تلے آ جاتے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ہندو قوم پرست تنظیم کے کارکن کسی مندر میں گائے کی لاش پھینک دیں، یا مسلمانوں کا روپ دھار کر ہندوؤں پہ حملے کر دیا۔
مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے مسجد میں سورکی لاش پھینک دیتے۔ بابری مسجد کا قضیہ بھی مسج کے احاطے میں خود بُت دفن کر کے کھڑا کیا گیا تھا۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ 'فالس فلیگ آپریشن' کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائی کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جائے جس سے ہندو عوام کے ووٹوں کا رخ پھر این ڈی اے کی جانب مڑ جائے۔
14 فروری 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بارود سے لدی ایک گاڑی جموں، سرینگر شاہراہ پر رواں سیکیورٹی فورسسز کے قافلے سے آ ٹکرائی۔ اس واقعے میں 46 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ ابھی حملے کے مقام پر آگ بھی نہ بُجھی تھی کہ بھارتی میڈیا پاکستان کو حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
سب سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ امریکی انتظامیہ نے اعلٰی ترین سطح سے ردعمل دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ 'بھارت جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے'۔ یوں لگتا تھا جیسے امریکہ پہلے ہی ایسی کسی خبر کا منتظر تھا۔ ساتھ ہی یہ فضاء بنائی جانے لگی کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر میں قائم ''دہشت گردوں''کے اڈے تباہ کر دے۔ ہلاک فوجیوں کی آخری رسومات براہ راست دکھائی گئیں۔
انتقام لینے کے نعرے بھارتی عوام کو سنوائے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی عوام کو مشتعل کیا جا سکے۔ چناں چہ عام ہندو اپنے معاشی مسائل بھول کر مودی سے توقع کرنے لگا کہ وہ اپنے مذہب اور قوم کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔
اس حوالے سے ایک انتہائی اہم حقیقت یہ ہے کہ ضلع پلوامہ میں اس واقعہ سے پہلے سرکاری تعمیراتی گودام سے بارود چوری ہونے کی واردات رجسٹر ہوئی تھی جس پر تحقیقات جاری تھیں۔ یہ بارود سڑکوں کی تعمیر میں راستے میں حائل چٹانوں کو اُڑانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہی بارود حملے میں استعمال ہوا ہو۔
26 فروری 2019 کو رات 3 بجے پاکستانی سالمیت کے خلاف بھارت نے شب خون مارا۔ ایئر ڈیفنس کے ریڈاروں پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو چار جگہوں پر دیکھا گیا۔ جنوب میں سرکریک کی جانب، رحیم یار خان کے علاقہ میں فاضلکہ سیکٹر میں اور شمال کی طرف بالاکوٹ آزاد کشمیر کے علاقے میں، آزاد کشمیر کے ایریا میں کل 20 طیارے تھے۔
میں 12 میراج 2000 لڑاکا طیارے اور 8 ایس یو 30 فائٹر طیارے شامل تھے، ایک درجن طیارے اندر کی طرف آئے اور ان میں سے چار طیارے اپنے بم گرا کر تیزی سے بھاگ نکلے کیونکہ ان کی خبر لینے کے لئے پاک فضائیہ کے جہاز ان کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔
اس حملے سے کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا، نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا۔ انڈین ایئر مارشل آر جی کپور نے اسی روز ایک مضحکہ خیز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فضائیہ نے Surgical Strike کے طور پر بالاکوٹ میں جیش محمدﷺ کے دہشت گردوں کو تربیت دینے والے کیمپ کو تباہ کردیا جس میں 300 سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے۔
اس کے جواب میں پاک آرمی کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بے بنیاد خبر کی سختی سے تردید کی اور واضح کیا کہ ''کچھ بھارتی طیارے بالاکوٹ کے علاقے تک ضرور آئے لیکن جب پاک فضائیہ کے طیارے مقابلے کے لئے فضا میں بلند ہوئے تو بھارتی طیارے تیزی سے واپس جاتے ہوئے اپنا گولہ باردو جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔
پاک فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف (آپریشن) ایئر مارشل حسیب پراچہ نے کیا خوب کہا کہ پاک فضائیہ کی ہائی کمانڈ کے لئے بھارتی فضائیہ کیدراندازی کسی بھی طرح ناگہانی نہیں بلکہ 2018 سے اس کی توقع کر رہے تھے اور ہم نے ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابی کارروائی کی مکمل اور بھرپور تیاری کی ہوئی تھی۔
لہٰذا اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لئے صرف وقت کا تعین کیا۔ دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا لیکن ہم نے پسند کیا کہ دن کی روشنی میں اسے تارے دکھائے جائیں۔ دشمن نے پاکستان کے سول علاقے میں پے لوڈ پھینکا لیکن ہماری قیادت نے بھارتی سورماؤں کے ملٹری ٹارگٹس کا انتخاب کیا۔
کیونکہ یہ عدو کی ملٹری قیادت تھی جس نے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا تھا۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں 6 نشانے چنے گئے جو گیریژن علاقوں کے ڈپو وغیرہ تھے۔ 27 فروری 2019 کو صبح 9 بجے سورج کی چمکتی ہوئی سنہری روشنی میں ہمارے کچھ جے ایف تھنڈر طیارے، چند میراج طیارے چند دیگر جدید ترین لڑاکا طیارے اور ایئربورن ارلی وارننگ طیارے صاب 2000 (ERIEYE) فضاء میں بلند ہوئے۔
ان تمام طیاروں کے ریڈار کنٹرولر گروپ کیپٹن الیاس تھے۔ جو سرحد پار کی صورتحال سے مسلسل آگاہ کر رہے تھے۔ عمومی طور پر اس انتہائی خفیہ مشن میں نظم و نسق کے لحاظ سے خاموشی تھی۔ مگر جوں جوں لائن آف کنٹرول قریب آرہی تھی، سرحدی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔
ہمارے شاہینوں نے بڑے اعتماد سے اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں 6 ٹارگٹس کو لاک کیا 'جو سب کے سب ملٹری ٹارگٹس تھے' اور ثبوت کے طور پر ان کی ویڈیو بھی بنائی جو بعد میں چیدہ چیدہ غیر ملکی مبصروں اور صحافیوں کو بھی دکھائی گئی۔
جب ٹارگٹس کو لاک کرکے فائٹر طیارہ اپنا ہتھیار اس کی طرف لانچ کرتا ہے تو پھر طیارے ہی کے ذریعے اسے ٹریک اور گائیڈ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بناسکے اور تمام اہم امور صرف 15 سے 20 سیکنڈ میں مکمل کرنا اشد ضروری ہے۔ دشمن کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان مقصود نہیں تھا صرف متنبہ کرنا ضروری تھا، اس لیے منصوبے کے مطابق تمام ہتھیاروں کو اصلی ملٹری ہدف سے دور گرایا گیا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے میراج III اور V سے NESCOM H-4 ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جن کی رینج 60-120 کلومیٹر ہے جنہیں پاکستان خود تیار کر رہا ہے۔ ایک ہتھیار H-4 کی قیمت تقریبا 70 سے 80 لاکھ پاکستانی روپے ہے جبکہ بھارتی فضائیہ نے اسرائیل سے حاصل کئے ہوئے پینٹریڑ بم 3Spice-2000 استعمال کئے۔
اس ایک بم کی قیمت تقریبا پاکستانی نو کروڑ روپے ہے۔ یعنی دشمن 36 کروڑ روپے کا اسلحہ ضائع کرکے بھی اپنا مقصد حاصل نہ کرسکا جبکہ پاک فضائیہ نے بھارت کے مقابلے میں آٹھ گنا سے بھی کم خرچے میں دشمن کی صفوں پر لرزہ طاری کردیا اور عملی طور پر ثابت کر دکھایا کہ پاکستان اپنے دفاع کی مکمل قوت و صلاحیت رکھتا ہے۔
ہمارے ہوا بازوں نے اپنے جہازوں کو ریڈار پر دیکھا کہ ان کے مقابلے کے لئے بھارتی فضائیہ کے چار چار جہازوں کی فارمیشنز میں کافی طیارے آرہے ہیں۔ ریڈار گراؤنڈ کنٹرولر اور (AEW&C) پلیٹ فارم بھی اس امر کی تصدیق کر رہا تھا۔ فوراً ہی ہمارے شہبازوں کی عقابی نگاہوں نے اپنے اپنے طیاروں کی شناختی لائبریری سے یہ اندازہ کرلیا کہ ان میں سے کچھ مگ 21، کچھ میراج 2000، کچھ SU-30 اور کچھ MIG-29 طیارے ہیں۔
ہمارے فائٹرز کے مقابلے میں یہ تعداد چار گنا زیادہ تھی۔ اس نازک موقع پر وطن کے سرمایہ افتخار شاہینوں نے کمال مہارت اور ہنرمندی سے کرگسوں کا مقابلہ شروع کردیا۔ یہ رزم گاہ جو آزاد کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں سجی ہوئی تھی اور اہم فضائی حربی معرکہ جو 15000 فٹ سے لے کر 30000 فٹ کے درمیان لڑا جا رہا تھا۔
مد مقابل آنے والے بڑی تیاری سے آئے تھے اور دشمن کے اکثر طیارے BVR میزائلوں سے لیس تھے، جو 15 سے 75 کلومیٹر دور سے ہدف کو شکار کرسکتے ہیں۔ اس لیے ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے ٹیم ممبر سے کہا کہ جو طیارہ سرحد پار کرکے ہمارے ملک کے لیے خطرہ بنے اسے فوراً نشانہ بنایا جائے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے (EW) پلیٹ فارم نے دشمن کے جہازوں کی اڑان کی تصاویر پاک فضائیہ کے کنٹرولنگ اینڈ دی پوڈلنگ سینٹر میں بھیجنا شروع کردیں۔
جس سے ان کی تازہ ترین صورتحال کا پتہ چل رہا تھا۔ دشمن کے بے شمار لڑاکا طیارے محو پرواز تھے۔ سب سے آگے MIG-21 اور SU-30 تھے اور ان کے پیچھے کچھ فاصلے پر MIG-29 تھے۔ دشمن کے جنگی جہازوں کا جائزہ لیتے ہوئے فارمیشن لیڈر ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے نپے تلے الفاظ میں کہا کہ میں سرحد سے اندر آجانے والے Mig-21 کا شکار کرتا ہوں اور No-3 'جو کہ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی تھے۔
سے کہا کہ تم دوسرے سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے SU-30 کو ہدف بناؤ کیونکہ ان دونوں طیاروں کی تیور خطرناک نظر آرہے تھے۔ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے جن کا فائٹر فلائنگ کا تجربہ تقریبا 2500 گھنٹے کا تھا، کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے SU-30 کو تاک کر ایسا میزائل مارا کہ وہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین بوس ہوگیا۔ ہتھیاروں کو اپنے ہدف تک گائیڈ اور ٹریک کرنے کے اہم امور گروپ کیپٹن فہیم احمد خان سر انجام دے رہے تھے۔
پاکستانی ہوا بازوں کی کارروائی سے دشمن کی صفوں میں ایسا لرزہ طاری ہوا کہ پریشانی کے عالم میں، دشمن نے اپنا ہی MI-17 ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ ونگ کمانڈر نعمان جن کا فائٹر جہاز اڑانے کا تجربہ تقریبا 3000 گھنٹے تھا، انتہائی سرعت کے ساتھ مگ 21 کو لاک کیا اور ساتھ ہی میزائل داغ دیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔
زمین سے لوگوں نے دیکھا کہ مگ 21 شعلوں میں تبدیل ہوگیا ہے اور ساتھ ہی اس کے پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور جہاز کا ملبہ سرحد سے اس طرف گرا۔ پائلٹ بھی ملبے کے بالکل قریب گرا۔ اس نے اپنے ریوارلر سے فائر کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی مگر جذباتی طور پر مجروح جذبات، ناراض کشمیریوں نے اس پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔
جلد ہی پاک آرمی کے کیپٹن نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ کر اسے مشتعل ہجوم سے چھڑایا اور اپنی یونٹ میں لے آئے۔ جہاں عمدہ چائے سے اس کی تواضع کی گئی جسے سراہتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے قیدی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن نے یادگار فقرا کہا
"Tea is Fantastic"
اس وقت کے وزیر پاکستان عمران خان کی ہدایت کے مطابق ابھینندن کو یکم مارچ 2019 کو رہا کردیا گیا تاکہ اقوام عالم کو احساس ہوسکے کہ پاکستان خطے میں جنگ نہیں بلکہ امن کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔
27 فروری 2019 کے یادگار فضائی حربے معرکے میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہمارے ہوا باز اگر چاہتے تو دشمن کے تقریبا سات جہاز مزید بھی گراسکتے تھے مگر عدو کو سبق سکھانا مقصود تھا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔
گروپ کیپٹن رانا الیاس اب ایئر کموڈور کو تمغہ بسالت اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان اب گروپ کیپٹن کو یوم آزادی پاکستان 14 اگست 2019 کے پرمسرت موقع پر صدر پاکستان کی طرف سے 27 فروری 2019 کو بہترین فضائی معرکہ لڑنے پر ستارئہ جرات سے نوازا گیا۔ گروپ کیپٹن فہیم احمد خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی اب ونگ کمانڈر کو بھی اس معرکے میں شاندار کارکردگی دکھانے پر تمغہ جرات سے نوازا گیا۔
یہ وسط فروری 2019ء کی بات ہے ۔ بھارت میں صرف دو ماہ بعد پارلیمانی الیکشن ہونے والے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے جائزے آشکار کر رہے ہیں کہ الیکشن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت حکمران اتحاد،این ڈی اے زیادہ سے زیادہ 240 نشستیں جیت سکے گا جبکہ اپوزیشن پارٹیاں 300 تک سیٹیں جیت کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جائیں گی۔
بھارتی اپوزیشن پارٹیوں کو اس لیے مقبولیت حاصل ہوئی کہ مودی حکومت عوام کی اُمیدوں پر پورا نہیں اتر سکی۔مودی نے الیکشن 2014ء میں دعوی کیا تھا کہ وہ عام آدمی کی زندگی بدل دے گا۔ مگر پانچ سال گذر جانے کے باوجود عوام اب بھی معاشی مسائل اور تکالیف میں مبتلا تھے۔
سامنے نظر آتی واضح شکست مودی نے ایک مرتبہ پھر ہندتوا کا مذہبی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ یہی ایک صورت تھی ہندو عوام کو دوبارہ بی جے پی کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی۔ ہندو قوم پرستوں نے بابری مسجد کے خلاف چلائی مہم میں پہلی بار یہ کارڈ کھیلا جسے بے انتہا کامیابی ملی تھی اور ہندو قوم پرست عناصر بھارتی سیاست پر چھا گئے تھے۔
یہ کارڈ کھیلتے ہوئے ہندو مسلم فساد کرانا بنیادی حکمت عملی ہے کیونکہ تبھی ہندو عوام کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں اور وہ انتقام لینے کی خاطر قوم پرستوں کی چھتری تلے آ جاتے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ہندو قوم پرست تنظیم کے کارکن کسی مندر میں گائے کی لاش پھینک دیں، یا مسلمانوں کا روپ دھار کر ہندوؤں پہ حملے کر دیا۔
مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے مسجد میں سورکی لاش پھینک دیتے۔ بابری مسجد کا قضیہ بھی مسج کے احاطے میں خود بُت دفن کر کے کھڑا کیا گیا تھا۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ 'فالس فلیگ آپریشن' کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائی کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جائے جس سے ہندو عوام کے ووٹوں کا رخ پھر این ڈی اے کی جانب مڑ جائے۔
14 فروری 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بارود سے لدی ایک گاڑی جموں، سرینگر شاہراہ پر رواں سیکیورٹی فورسسز کے قافلے سے آ ٹکرائی۔ اس واقعے میں 46 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے۔ ابھی حملے کے مقام پر آگ بھی نہ بُجھی تھی کہ بھارتی میڈیا پاکستان کو حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
سب سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ امریکی انتظامیہ نے اعلٰی ترین سطح سے ردعمل دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ 'بھارت جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے'۔ یوں لگتا تھا جیسے امریکہ پہلے ہی ایسی کسی خبر کا منتظر تھا۔ ساتھ ہی یہ فضاء بنائی جانے لگی کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر میں قائم ''دہشت گردوں''کے اڈے تباہ کر دے۔ ہلاک فوجیوں کی آخری رسومات براہ راست دکھائی گئیں۔
انتقام لینے کے نعرے بھارتی عوام کو سنوائے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی عوام کو مشتعل کیا جا سکے۔ چناں چہ عام ہندو اپنے معاشی مسائل بھول کر مودی سے توقع کرنے لگا کہ وہ اپنے مذہب اور قوم کے تحفظ کی خاطر ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔
اس حوالے سے ایک انتہائی اہم حقیقت یہ ہے کہ ضلع پلوامہ میں اس واقعہ سے پہلے سرکاری تعمیراتی گودام سے بارود چوری ہونے کی واردات رجسٹر ہوئی تھی جس پر تحقیقات جاری تھیں۔ یہ بارود سڑکوں کی تعمیر میں راستے میں حائل چٹانوں کو اُڑانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہی بارود حملے میں استعمال ہوا ہو۔
26 فروری 2019 کو رات 3 بجے پاکستانی سالمیت کے خلاف بھارت نے شب خون مارا۔ ایئر ڈیفنس کے ریڈاروں پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو چار جگہوں پر دیکھا گیا۔ جنوب میں سرکریک کی جانب، رحیم یار خان کے علاقہ میں فاضلکہ سیکٹر میں اور شمال کی طرف بالاکوٹ آزاد کشمیر کے علاقے میں، آزاد کشمیر کے ایریا میں کل 20 طیارے تھے۔
میں 12 میراج 2000 لڑاکا طیارے اور 8 ایس یو 30 فائٹر طیارے شامل تھے، ایک درجن طیارے اندر کی طرف آئے اور ان میں سے چار طیارے اپنے بم گرا کر تیزی سے بھاگ نکلے کیونکہ ان کی خبر لینے کے لئے پاک فضائیہ کے جہاز ان کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔
اس حملے سے کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا، نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا۔ انڈین ایئر مارشل آر جی کپور نے اسی روز ایک مضحکہ خیز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فضائیہ نے Surgical Strike کے طور پر بالاکوٹ میں جیش محمدﷺ کے دہشت گردوں کو تربیت دینے والے کیمپ کو تباہ کردیا جس میں 300 سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے۔
اس کے جواب میں پاک آرمی کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بے بنیاد خبر کی سختی سے تردید کی اور واضح کیا کہ ''کچھ بھارتی طیارے بالاکوٹ کے علاقے تک ضرور آئے لیکن جب پاک فضائیہ کے طیارے مقابلے کے لئے فضا میں بلند ہوئے تو بھارتی طیارے تیزی سے واپس جاتے ہوئے اپنا گولہ باردو جنگل میں پھینک کر فرار ہوگئے۔
پاک فضائیہ کے ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف (آپریشن) ایئر مارشل حسیب پراچہ نے کیا خوب کہا کہ پاک فضائیہ کی ہائی کمانڈ کے لئے بھارتی فضائیہ کیدراندازی کسی بھی طرح ناگہانی نہیں بلکہ 2018 سے اس کی توقع کر رہے تھے اور ہم نے ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں جوابی کارروائی کی مکمل اور بھرپور تیاری کی ہوئی تھی۔
لہٰذا اپنے منصوبے پر عمل درآمد کے لئے صرف وقت کا تعین کیا۔ دشمن نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا تھا لیکن ہم نے پسند کیا کہ دن کی روشنی میں اسے تارے دکھائے جائیں۔ دشمن نے پاکستان کے سول علاقے میں پے لوڈ پھینکا لیکن ہماری قیادت نے بھارتی سورماؤں کے ملٹری ٹارگٹس کا انتخاب کیا۔
کیونکہ یہ عدو کی ملٹری قیادت تھی جس نے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کو چیلنج کیا تھا۔ انتہائی احتیاط کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں 6 نشانے چنے گئے جو گیریژن علاقوں کے ڈپو وغیرہ تھے۔ 27 فروری 2019 کو صبح 9 بجے سورج کی چمکتی ہوئی سنہری روشنی میں ہمارے کچھ جے ایف تھنڈر طیارے، چند میراج طیارے چند دیگر جدید ترین لڑاکا طیارے اور ایئربورن ارلی وارننگ طیارے صاب 2000 (ERIEYE) فضاء میں بلند ہوئے۔
ان تمام طیاروں کے ریڈار کنٹرولر گروپ کیپٹن الیاس تھے۔ جو سرحد پار کی صورتحال سے مسلسل آگاہ کر رہے تھے۔ عمومی طور پر اس انتہائی خفیہ مشن میں نظم و نسق کے لحاظ سے خاموشی تھی۔ مگر جوں جوں لائن آف کنٹرول قریب آرہی تھی، سرحدی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔
ہمارے شاہینوں نے بڑے اعتماد سے اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں 6 ٹارگٹس کو لاک کیا 'جو سب کے سب ملٹری ٹارگٹس تھے' اور ثبوت کے طور پر ان کی ویڈیو بھی بنائی جو بعد میں چیدہ چیدہ غیر ملکی مبصروں اور صحافیوں کو بھی دکھائی گئی۔
جب ٹارگٹس کو لاک کرکے فائٹر طیارہ اپنا ہتھیار اس کی طرف لانچ کرتا ہے تو پھر طیارے ہی کے ذریعے اسے ٹریک اور گائیڈ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بناسکے اور تمام اہم امور صرف 15 سے 20 سیکنڈ میں مکمل کرنا اشد ضروری ہے۔ دشمن کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان مقصود نہیں تھا صرف متنبہ کرنا ضروری تھا، اس لیے منصوبے کے مطابق تمام ہتھیاروں کو اصلی ملٹری ہدف سے دور گرایا گیا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے میراج III اور V سے NESCOM H-4 ہتھیاروں کو استعمال کیا گیا جن کی رینج 60-120 کلومیٹر ہے جنہیں پاکستان خود تیار کر رہا ہے۔ ایک ہتھیار H-4 کی قیمت تقریبا 70 سے 80 لاکھ پاکستانی روپے ہے جبکہ بھارتی فضائیہ نے اسرائیل سے حاصل کئے ہوئے پینٹریڑ بم 3Spice-2000 استعمال کئے۔
اس ایک بم کی قیمت تقریبا پاکستانی نو کروڑ روپے ہے۔ یعنی دشمن 36 کروڑ روپے کا اسلحہ ضائع کرکے بھی اپنا مقصد حاصل نہ کرسکا جبکہ پاک فضائیہ نے بھارت کے مقابلے میں آٹھ گنا سے بھی کم خرچے میں دشمن کی صفوں پر لرزہ طاری کردیا اور عملی طور پر ثابت کر دکھایا کہ پاکستان اپنے دفاع کی مکمل قوت و صلاحیت رکھتا ہے۔
ہمارے ہوا بازوں نے اپنے جہازوں کو ریڈار پر دیکھا کہ ان کے مقابلے کے لئے بھارتی فضائیہ کے چار چار جہازوں کی فارمیشنز میں کافی طیارے آرہے ہیں۔ ریڈار گراؤنڈ کنٹرولر اور (AEW&C) پلیٹ فارم بھی اس امر کی تصدیق کر رہا تھا۔ فوراً ہی ہمارے شہبازوں کی عقابی نگاہوں نے اپنے اپنے طیاروں کی شناختی لائبریری سے یہ اندازہ کرلیا کہ ان میں سے کچھ مگ 21، کچھ میراج 2000، کچھ SU-30 اور کچھ MIG-29 طیارے ہیں۔
ہمارے فائٹرز کے مقابلے میں یہ تعداد چار گنا زیادہ تھی۔ اس نازک موقع پر وطن کے سرمایہ افتخار شاہینوں نے کمال مہارت اور ہنرمندی سے کرگسوں کا مقابلہ شروع کردیا۔ یہ رزم گاہ جو آزاد کشمیر کے راجوڑی سیکٹر میں سجی ہوئی تھی اور اہم فضائی حربی معرکہ جو 15000 فٹ سے لے کر 30000 فٹ کے درمیان لڑا جا رہا تھا۔
مد مقابل آنے والے بڑی تیاری سے آئے تھے اور دشمن کے اکثر طیارے BVR میزائلوں سے لیس تھے، جو 15 سے 75 کلومیٹر دور سے ہدف کو شکار کرسکتے ہیں۔ اس لیے ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے ٹیم ممبر سے کہا کہ جو طیارہ سرحد پار کرکے ہمارے ملک کے لیے خطرہ بنے اسے فوراً نشانہ بنایا جائے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے (EW) پلیٹ فارم نے دشمن کے جہازوں کی اڑان کی تصاویر پاک فضائیہ کے کنٹرولنگ اینڈ دی پوڈلنگ سینٹر میں بھیجنا شروع کردیں۔
جس سے ان کی تازہ ترین صورتحال کا پتہ چل رہا تھا۔ دشمن کے بے شمار لڑاکا طیارے محو پرواز تھے۔ سب سے آگے MIG-21 اور SU-30 تھے اور ان کے پیچھے کچھ فاصلے پر MIG-29 تھے۔ دشمن کے جنگی جہازوں کا جائزہ لیتے ہوئے فارمیشن لیڈر ونگ کمانڈر نعمان نے اپنے نپے تلے الفاظ میں کہا کہ میں سرحد سے اندر آجانے والے Mig-21 کا شکار کرتا ہوں اور No-3 'جو کہ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی تھے۔
سے کہا کہ تم دوسرے سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے SU-30 کو ہدف بناؤ کیونکہ ان دونوں طیاروں کی تیور خطرناک نظر آرہے تھے۔ سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی نے جن کا فائٹر فلائنگ کا تجربہ تقریبا 2500 گھنٹے کا تھا، کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے SU-30 کو تاک کر ایسا میزائل مارا کہ وہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین بوس ہوگیا۔ ہتھیاروں کو اپنے ہدف تک گائیڈ اور ٹریک کرنے کے اہم امور گروپ کیپٹن فہیم احمد خان سر انجام دے رہے تھے۔
پاکستانی ہوا بازوں کی کارروائی سے دشمن کی صفوں میں ایسا لرزہ طاری ہوا کہ پریشانی کے عالم میں، دشمن نے اپنا ہی MI-17 ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ ونگ کمانڈر نعمان جن کا فائٹر جہاز اڑانے کا تجربہ تقریبا 3000 گھنٹے تھا، انتہائی سرعت کے ساتھ مگ 21 کو لاک کیا اور ساتھ ہی میزائل داغ دیا جو ٹھیک نشانے پر لگا۔
زمین سے لوگوں نے دیکھا کہ مگ 21 شعلوں میں تبدیل ہوگیا ہے اور ساتھ ہی اس کے پائلٹ نے جہاز سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور جہاز کا ملبہ سرحد سے اس طرف گرا۔ پائلٹ بھی ملبے کے بالکل قریب گرا۔ اس نے اپنے ریوارلر سے فائر کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی مگر جذباتی طور پر مجروح جذبات، ناراض کشمیریوں نے اس پکڑ کر مارنا شروع کردیا۔
جلد ہی پاک آرمی کے کیپٹن نے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ کر اسے مشتعل ہجوم سے چھڑایا اور اپنی یونٹ میں لے آئے۔ جہاں عمدہ چائے سے اس کی تواضع کی گئی جسے سراہتے ہوئے بھارتی فضائیہ کے قیدی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن نے یادگار فقرا کہا
"Tea is Fantastic"
اس وقت کے وزیر پاکستان عمران خان کی ہدایت کے مطابق ابھینندن کو یکم مارچ 2019 کو رہا کردیا گیا تاکہ اقوام عالم کو احساس ہوسکے کہ پاکستان خطے میں جنگ نہیں بلکہ امن کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی نے یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس رافیل ہوتے تو نتائج مختلف ہوتے۔
27 فروری 2019 کے یادگار فضائی حربے معرکے میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ہمارے ہوا باز اگر چاہتے تو دشمن کے تقریبا سات جہاز مزید بھی گراسکتے تھے مگر عدو کو سبق سکھانا مقصود تھا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔
گروپ کیپٹن رانا الیاس اب ایئر کموڈور کو تمغہ بسالت اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان اب گروپ کیپٹن کو یوم آزادی پاکستان 14 اگست 2019 کے پرمسرت موقع پر صدر پاکستان کی طرف سے 27 فروری 2019 کو بہترین فضائی معرکہ لڑنے پر ستارئہ جرات سے نوازا گیا۔ گروپ کیپٹن فہیم احمد خان اور سکواڈرن لیڈر حسن محمود صدیقی اب ونگ کمانڈر کو بھی اس معرکے میں شاندار کارکردگی دکھانے پر تمغہ جرات سے نوازا گیا۔