آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
اب خان صاحب حکومت سے باہر ہیں تو اپوزیشن الیکشن سے بھاگ رہی ہے
کیسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے، ہر طرف ایک حشر بپا ہے، ایسی فضا پہلے تو کبھی نہ تھی ، اداسی، بے چینی، جھنجھلاہٹ، پیاز کی قیمتیں ہوں یا آلو کی، بھنڈی ہو یا ترئی سب پہنچ سے دور۔ آدمی کیا کھائے ، کیا پیے؟
بچوں کی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی فیسیں کہاں سے بھریں ، حکومت نے مہنگائی کا بم گرا کر عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، مریم نواز کہتی ہیں یہ ان کی حکومت نہیں ، جب عمران خان حکومت میں تھے تو اپوزیشن الیکشن کا راگ درباری گاتی تھی۔
اب خان صاحب حکومت سے باہر ہیں تو اپوزیشن الیکشن سے بھاگ رہی ہے، حالانکہ الیکشن بھی مسئلے کا حل نہیں۔ زرداری کہتے ہیں انھوں نے الیکشن کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔
عمران خان نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے، انھیں اسمبلیوں سے باہر نہیں آنا چاہیے تھا بلکہ اسمبلی میں بیٹھ کر الیکشن کا انتظار کرتے۔ مانا کہ ان کا ووٹ بینک بڑھا ہے، لیکن ان کے جذباتی فیصلوں نے خود ان کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ نقصان شہباز شریف کا ہوا ہے۔
انھوں نے جو عزت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں رہ کر کمائی تھی وہ وزیر اعظم بن کر گنوا دی ، بے شک باجوہ کی مہربانی سے ان پر اور ان کے صاحبزادے پر تمام کیس ختم ہوگئے لیکن۔۔۔؟ مجھے یہاں میر تقی میر کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے:
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
زندگی اتنی بے مزہ پھیکی اور بے رونق کبھی نہ تھی ، جیسی آج کل ہے بلکہ یوں کہیے کہ کرنے کو کچھ نہیں، سننے کو کچھ نہیں، جہاں دو لوگ اکٹھے ہوئے مہنگائی کا رونا، پیٹرول اور آٹے ، دال چاول کا رونا، پہلے یہ موضوعات گھریلو خواتین کے ہوتے تھے، لیکن اب تو ہر طرف صرف مہنگائی کا شور۔ آدمی دل بہلانے کو ٹی وی کھولتا ہے تو بے مقصد اوٹ پٹانگ ڈرامے، چینل بدلتا ہے اور ٹاک شوز دیکھنا چاہتا ہے تو وہاں پہ دنگل سجا ہے۔
ہر چینل پہ صرف چیخ پکار ہو رہی ہے، کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ، کسی بھی چینل پہ بیٹھے ہوئے پہلوانوں کو دیکھ کر اور سن کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت مغرب کے بعد اکھاڑوں میں اپنے اپنے پٹھے اتار دیتی ہے۔
لوگوں کو اٹریکٹ کرنے کے لیے خواتین کو سجا سنوار کر اینکر کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے، لیکن انھیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جب آپ کسی مہمان سے سوال کر رہی ہوں تو ان کا جواب پورا سنیے۔ نہ کہ بیچ میں لقمہ دے کر انھیں خاموش کردیں ، اینکرز بھی سیاسی جماعتوں کے نمایندے ہوتے ہیں۔
لوگ ایک دوسرے کو بولنے نہیں دیتے، اینکرز اپنی پسند کا جواب چاہتے ہیں، لوگ جھنجھلا کر چینل بدل لیتے ہیں لیکن کہیں بھی کوئی پروگرام قرینے کا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ نہ نور جہاں کے نغمے ہیں نہ تصور خانم ، بلقیس خانم ، استاد سلامت علی ، اسد امانت علی ، مہناز ، استاد فتح علی خاں ہیں نہ مہدی حسن ، شہناز بیگم ، فردوس بیگم، رونا لیلیٰ، کجن بیگم، عشرت جہاں، منی بیگم، حبیب ولی محمد ہیں نہ گلشن آرا سید، نہ شکیلہ خراسانی، حدیقہ کیانی۔ سب راندۂ درگاہ کر دیے گئے۔ صرف اور صرف سیاسی ٹاک شوز رہ گئے ہیں۔
کوئی لانگ پلے اب نہیں دکھایا جاتا ، کہنے کو 24/7 چینلز لیکن ایک سے بڑھ کر ایک احمقانہ پروگرام مجبوراً دیکھنے پڑتے ہیں۔ مرد حضرات تو گھر سے باہر جا کر محفلیں سجا لیتے ہیں، کچھ تازہ دم ہو کر گھروں کو لوٹتے ہیں، لیکن خواتین کیا کریں۔
ان کے نصیب میں یہی اوٹ پٹانگ ڈرامے اور حماقت سے بھرپور سیاسی ٹاک شوزاور کامیڈی کے بغیر کامیڈی پروگرام رہ گئے ہیں، پڑھی لکھی اور ورکنگ ویمن کے لیے کوئی پروگرام نہیں، نہ وہ لوگ رہے جو گھنٹوں محنت کرکے پروگرام تیار کرتے تھے۔
قریش پور عبیداللہ بیگ نہ رہے جو ' کسوٹی ' اور ' شیشے کا گھر ' پیش کرتے تھے۔ نہ نثار حسین اور نصرت ٹھاکر جیسے ہدایت کار رہے جنھوں نے بے شمار لافانی ڈرامے پیش کیے۔ ففٹی ففٹی،الف نون،اکڑبکڑ جیسے مزاحیہ شوز کہاں گئے، اب صرف '' کاتا اور لے دوڑی'' والی کیفیت ہے۔ ٹاک شوز میں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، صرف مہمانوں کی مرضی سے ان سے سوالات پوچھے جاتے ہیں، پروڈیوسر ز بھی محض ملازم ہیں۔
ٹاک شوز میں وہ بات نہیں رہی سب پہلے سے طے ہے، عام طور پر اینکرز مہمانوں سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ کون کون آ رہا ہے۔ اس کا تجربہ مجھے ذاتی طور پر بھی ہو چکا ہے۔ جب 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن پر ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔
چاروں خواتین کو اینکر جانتی نہ تھی، اسے اینکر تو کہنا ہی نہیں چاہیے۔ بس اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی آئیں اور بولیں '' میں تو آپ لوگوں کو جانتی نہیں، آپ اپنا تعارف بھی خود بتا دیں، اور سوال بھی بتا دیں کہ آپ لوگوں سے کیا پوچھا جائے۔ پتا چلا وہ محترمہ ''پرچی'' والی تھیں۔
یہ بات بھی طے ہے کہ چند صحافی، چند تجزیہ کار اور چند سیاست دان ہر چینل پہ موجود ہوتے ہیں، بعض کا تو یہ عالم ہے کہ ایک چینل سے وہ ''لائیو'' آ رہے ہیں اور دوسرے چینل پہ ان کی ریکارڈنگ چل رہی ہوتی ہے۔
بس سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ موضوع ہر چینل پر ایک ہی ہوتا ہے بس چہرے مختلف ہوتے ہیں جو روزانہ کی دیہاڑی لگانے آ جاتے ہیں۔
بات اگر کرپشن کی ہو تو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا، لیکن میں یہ برملا کہوں گی کہ اس بہتی گنگا میں صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکر پرسن نے بھی جی بھر کے ہاتھ دھوئے ہیں اور دھو رہے ہیں، صحافت اب نظریۂ ضرورت بن گئی ہے۔
کاروبار بن گئی ہے۔ آج میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، ایک باجوہ کی ٹیم، دوسری عمران خان کی۔ کیسے دھواں دھار کالم عمران خان کے خلاف لکھے جا رہے ہیں، ٹاک شوز کیے جا رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے انھیں اخلاقی مجرم ثابت کرنے پر تلے ہیں، دوسرا گروپ عمران خان کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
اسے دیوتا کا درجہ دینے سے بھی دریغ نہیں کررہا لیکن فائدے میں وہ کالم نگار اور اینکرز ہیں جو باجوہ کی ٹیم کو اور خود باجوہ کو راست گو، ذمے دار، صلح جو اور ایمان دار ثابت کرنے پر مامور ہیں، ان کی پانچوں گھی میں ہیں، سر کڑاہی میں دینے کا وقت بھی جلد آ جائے گا۔ غالب نے کہا تھا:
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
صحافت کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ رویہ ہے، لیکن جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں وہ '' عقل مند '' ہیں وہ جانتے ہیں کہ سچ بولنے کی پاداش میں یا تو ملک چھوڑنا پڑے گا یا ارشد شریف والا حشر ہوگا۔ آدھی رات کو دروازہ کھکھٹایا جائے گا اور آپ کو اٹھا لیا جائے گا۔
کچھ لوگوں کی تو خبر لگ جاتی ہے اور صحافی برادری میدان میں آجاتی ہے، لیکن کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں اٹھا لیا گیا اور انھیں کب رہائی نصیب ہوئی اور کن شرائط پر ہوئی اس کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ انھیں دہشت زدہ کرکے کہہ دیا جاتا ہے کہ ''اگر ہمارا نام لیا تو پھر تمہیں نہیں بخشیں گے۔''
ایک اور رویے کی طرف توجہ دلاؤں گی وہ یہ کہ آج سارے بڑے سیاست دان اور حکمران اس مصرعے کی تفسیر بنے ہوئے ہیں:
زباں بگڑی سو بگڑی تھی ، خبر لیجیے دہن بگڑا
ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں تو تکار تک نوبت پہنچ چکی ہے، خواہ وہ (ن) لیگ ہو، پی پی ہو، ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی ہو سب ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں۔ صبح اخبار پڑھ کر دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔
کیسے لوگ ہیں یہ جنھیں اپنی زبان پہ قابو نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب خواتین بھی اس میں شامل ہوگئی ہیں۔ ایسی بے ہودہ زبان استعمال کرنا دراصل اپنا کلچر ، اپنی تہذیب اور اپنے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ خدا جانے یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا؟