مہنگائی پر قابو پانے کی حکمت عملی
منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُر تعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی منظوری دی ہے
ملک میں مہنگائی میں اضافے کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق فروری میں مہنگائی کی شرح 31.5 فی صد رہی ، جو 1974کے بعد بلند ترین سطح ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں بلند پرواز کرتے ہوئے ڈالر کی قدر میں 18.19 روپے کا اضافہ ہوگیا۔
مہنگائی ایک ہمہ جہتی بحران ہے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ صرف عوام کی جیبوں پر ہی گراں نہیں گزرتا بلکہ بہت سے سفید پوش خاندانوں کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا، یوں یہ ایک ایسا بحران ہے جو معاشرتی ساخت کے لیے کسی طور پر مفید نہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے محض دعوے کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرے۔ حکومت کے اکنامک منیجرز اس حوالے سے واضح حکمتِ عملی تشکیل دیں گے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس کی شرح وی باک سسٹم میں تبدیل کی گئی ہے جس نے خود بخود نئے ریٹ چارج کرنا شروع کر دیے ہیں۔
منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُر تعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی منظوری دی ہے ، جب کہ پرتعیش کا لفظ اس بات کا غماز ہے کہ ایسی چیزوں کی درآمد بند کی جائے ، مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ عیاشی کے لیے منگوائی گئی اشیاء کے ٹیکس بھی چوری ہو کر کسٹمزاور دیگر افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر امپورٹر اور امپورٹیڈ مال فروخت کرنے والے ریٹیلرز اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جس ملک میں دس کلو آٹے کے تھیلے کے لیے لوگ لائنوں میں لگتے ہوں ، غربت کے باعث لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں ، جس ملک کا ہر انسان تو کیا ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ بھی لاکھوں کا مقروض ہو تو اس ملک کے لیے پرتعیش اشیاء کی درآمد افسوسناک ہے۔
آئی ایم ایف اس ملک کو 75 سالوں میں دو درجن کے قریب پیکیج دے چکا ہے اور تمام تر پالیسیاں اور بجٹ وہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح انفرااسٹرکچر کے بیشتر منصوبوں میں ورلڈ بینک کی مشاورت اور قرضے شامل ہوتے ہیں ، اگر آج یہ ملک اس نہج تک پہنچا ہے۔
جہاں تعمیرات انتہائی ناقص اور جان لیوا ہیں اور معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور عوام برباد ہیں تو اس کی ذمے داری سے یہ ادارے ہر گز مبرا نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان طاقتوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہے، زراعت پر مبنی صنعت کاری کی ضرورت ہے، ہر چیز پاکستان میں بننی چاہیے اور خوشی تب ہو گی جب عالمی منڈی میں میڈ اِن پاکستان کے نام سے اشیاء موجود ہوں۔ اس مقصد کے لیے صنعتی ماحول بنانا ضروری ہے۔
صنعتوں پر بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کرنا درست نہیں ، پیداواری لاگت بڑھنے سے فیکٹریاں بند اور بے روزگار ی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ صنعتوں کے لیے سبسڈی ختم کرنے کی بجائے بجلی ، گیس چوری اور کرپشن پر قابو پانا ضروری ہے۔ مہنگائی کی چکی میں پہلے سے پسی غریب عوام کا جو حال ہوگا اس کا تصور ہی لرزہ دینے والا ہے۔
اخراجات میں کمی کے حوالے چند تجاویز سرکاری سطح پر سامنے آئی ہیں جن کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے کی تجویز کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ بیورو کریسی کے پاس چلا جائے۔
ترقیاتی فنڈ ز روکنا درست نہیں بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے تحت بیورو کریسی کو عوامی نمایندوں کے ماتحت کیا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے ، مقامی ترقیاتی منصوبے بلدیاتی اداروں سے مکمل کرائے جائیں اور یونین کونسلوں کو بھی سسٹم کا حصہ سمجھا جائے۔
یہ تجویز کہ سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، وضاحت طلب ہے کہ بڑے افسران جو صاحب حیثیت ہوں وہ اگر دو لاکھ پر ہی گزارہ کر لیں تو ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا۔ یہ تجویز کہ سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں۔
اس پر سو فیصد عمل کرنے کی ضرورت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے جن کے پاس بڑی گاڑیاں موجود ہیں۔ غریب مرتا مر جائے ان کو کوئی پرواہ نہیں ، وہ اپنی سہولتوں سے دستبردار ہونے کے لیے کیسے تیار ہوں گے ؟
کفایت شعاری کمیٹی کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری افسران سے تمام مراعات، سیکیورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں ، بظاہر یہ تجویز ایسے ہے کہ جیسے شیر کو کہا جائے کہ وہ بکری کو نہ کھائے ، مگر کوئی ایسی انہونی ہو جائے کہ مذکورہ افسران خود بخود پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت اور ناداری کا احساس کر لیں اور اپنی ان مراعات سے دستبردار ہو جائیں تو قوم پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔
یہ تجویز کہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں۔ یہ تجویز صرف پارلیمنٹیرینز کے لیے ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے بھی ہونی چاہیے اور جہاں تک ارکان پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو ان کی تنخواہوں میں کمی کے لیے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے گی۔
ارکان پارلیمنٹ وہ مخلوق ہے جو اپنی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کرتی رہی ہے ، یہی انصاف عدلیہ بھی خود کو مہیا کرتی رہی ہے۔
ایک ہی ملک ہے مگر پیمانے الگ الگ ہیں ، اسکیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عدلیہ اور دیگر محکموں کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے اور عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے۔ کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز پر کون عمل کرے گا؟
موجودہ حکومت رضاکارانہ طور پر پر اپنی کابینہ کا سائز کم کردے، سینیٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے۔
پاکستان کے موجودہ بجٹ کو 30 جون 2024 ء تک منجمد کر دیا جائے، نئی کاریں خریدنے پر مکمل پابندی لگا دی جائے ، تمام الاؤنسز میں 25 فیصد کی کٹوتی کی جائے ، نئے انتظامی یونٹ قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے ، پروٹوکول پر نظر ثانی کی جائے اور پروٹوکول اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے، غیر ضروری بیرونی دوروں پر پابندی لگا دی جائے۔
پاکستان کے سفارت خانوں میں بھی نئی ملازمتوں پر پابندی لگا دی جائے اور سفارت خانوں کا بجٹ 15 فیصد کم کر دیا جائے ، کسی استثنیٰ کے بغیر پنشن کی حد پانچ لاکھ روپے مقرر کی جائے، اس وقت کئی سینئر ریٹائرڈ سول سرونٹس اور جج پندرہ لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پنشن اور مراعات قومی خزانے سے وصول کر رہے ہیں۔
ترسیلات زر بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور ڈالر کو محفوظ رکھنے کے لیے اشیائے تعیش کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
پاکستان کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، پہلے مرحلے پر ہمیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنا ہوگا۔ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر دالیں، دودھ، کریم، خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔
ان اشیاء خورو نوش کی مقامی پیداوار پر سہولت دے کر درآمدات میں مناسب کمی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک ڈالر لے جانے کے لیے ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے۔ سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق پاکستان سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر اسمگل کیے جا رہے ہیں۔
اسمگلنگ کے اس سسٹم کو روکنا ہو گا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات تجارتی خسارے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ بجلی کی بچت کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیلی لائی جائے۔
صبح 8 سے 6 بجے تک مارکیٹ کے اوقات کار مقر ر کیے جائیں دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اجتماعی طور پر فیصلے کیے ہیں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ پوری قوم قرض کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے مگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امید ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے فی الفور اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف پہنچایا جاسکے۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کی ذاتی لڑائی اور رنجشوں سے باہر آئے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مل کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں بلند پرواز کرتے ہوئے ڈالر کی قدر میں 18.19 روپے کا اضافہ ہوگیا۔
مہنگائی ایک ہمہ جہتی بحران ہے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ صرف عوام کی جیبوں پر ہی گراں نہیں گزرتا بلکہ بہت سے سفید پوش خاندانوں کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں رہتا، یوں یہ ایک ایسا بحران ہے جو معاشرتی ساخت کے لیے کسی طور پر مفید نہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے محض دعوے کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرے۔ حکومت کے اکنامک منیجرز اس حوالے سے واضح حکمتِ عملی تشکیل دیں گے تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس کی شرح وی باک سسٹم میں تبدیل کی گئی ہے جس نے خود بخود نئے ریٹ چارج کرنا شروع کر دیے ہیں۔
منی بجٹ کے لیے حکومت نے سیکڑوں پُر تعیش اشیاء پر 25 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی منظوری دی ہے ، جب کہ پرتعیش کا لفظ اس بات کا غماز ہے کہ ایسی چیزوں کی درآمد بند کی جائے ، مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ عیاشی کے لیے منگوائی گئی اشیاء کے ٹیکس بھی چوری ہو کر کسٹمزاور دیگر افسران کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں یا پھر امپورٹر اور امپورٹیڈ مال فروخت کرنے والے ریٹیلرز اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جس ملک میں دس کلو آٹے کے تھیلے کے لیے لوگ لائنوں میں لگتے ہوں ، غربت کے باعث لوگ خود کشیاں کر رہے ہوں ، جس ملک کا ہر انسان تو کیا ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ بھی لاکھوں کا مقروض ہو تو اس ملک کے لیے پرتعیش اشیاء کی درآمد افسوسناک ہے۔
آئی ایم ایف اس ملک کو 75 سالوں میں دو درجن کے قریب پیکیج دے چکا ہے اور تمام تر پالیسیاں اور بجٹ وہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح انفرااسٹرکچر کے بیشتر منصوبوں میں ورلڈ بینک کی مشاورت اور قرضے شامل ہوتے ہیں ، اگر آج یہ ملک اس نہج تک پہنچا ہے۔
جہاں تعمیرات انتہائی ناقص اور جان لیوا ہیں اور معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور عوام برباد ہیں تو اس کی ذمے داری سے یہ ادارے ہر گز مبرا نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان طاقتوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔
پاکستان زرعی ملک ہے، زراعت پر مبنی صنعت کاری کی ضرورت ہے، ہر چیز پاکستان میں بننی چاہیے اور خوشی تب ہو گی جب عالمی منڈی میں میڈ اِن پاکستان کے نام سے اشیاء موجود ہوں۔ اس مقصد کے لیے صنعتی ماحول بنانا ضروری ہے۔
صنعتوں پر بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کرنا درست نہیں ، پیداواری لاگت بڑھنے سے فیکٹریاں بند اور بے روزگار ی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ صنعتوں کے لیے سبسڈی ختم کرنے کی بجائے بجلی ، گیس چوری اور کرپشن پر قابو پانا ضروری ہے۔ مہنگائی کی چکی میں پہلے سے پسی غریب عوام کا جو حال ہوگا اس کا تصور ہی لرزہ دینے والا ہے۔
اخراجات میں کمی کے حوالے چند تجاویز سرکاری سطح پر سامنے آئی ہیں جن کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دینے کی تجویز کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ بیورو کریسی کے پاس چلا جائے۔
ترقیاتی فنڈ ز روکنا درست نہیں بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے تحت بیورو کریسی کو عوامی نمایندوں کے ماتحت کیا جائے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے ، مقامی ترقیاتی منصوبے بلدیاتی اداروں سے مکمل کرائے جائیں اور یونین کونسلوں کو بھی سسٹم کا حصہ سمجھا جائے۔
یہ تجویز کہ سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، وضاحت طلب ہے کہ بڑے افسران جو صاحب حیثیت ہوں وہ اگر دو لاکھ پر ہی گزارہ کر لیں تو ملک و قوم کے لیے بہتر ہوگا۔ یہ تجویز کہ سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں۔
اس پر سو فیصد عمل کرنے کی ضرورت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے جن کے پاس بڑی گاڑیاں موجود ہیں۔ غریب مرتا مر جائے ان کو کوئی پرواہ نہیں ، وہ اپنی سہولتوں سے دستبردار ہونے کے لیے کیسے تیار ہوں گے ؟
کفایت شعاری کمیٹی کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ریٹائرڈ سرکاری افسران سے تمام مراعات، سیکیورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں ، بظاہر یہ تجویز ایسے ہے کہ جیسے شیر کو کہا جائے کہ وہ بکری کو نہ کھائے ، مگر کوئی ایسی انہونی ہو جائے کہ مذکورہ افسران خود بخود پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت اور ناداری کا احساس کر لیں اور اپنی ان مراعات سے دستبردار ہو جائیں تو قوم پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔
یہ تجویز کہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15 فیصد کم کی جائیں۔ یہ تجویز صرف پارلیمنٹیرینز کے لیے ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے بھی ہونی چاہیے اور جہاں تک ارکان پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو ان کی تنخواہوں میں کمی کے لیے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے گی۔
ارکان پارلیمنٹ وہ مخلوق ہے جو اپنی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کرتی رہی ہے ، یہی انصاف عدلیہ بھی خود کو مہیا کرتی رہی ہے۔
ایک ہی ملک ہے مگر پیمانے الگ الگ ہیں ، اسکیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عدلیہ اور دیگر محکموں کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے اور عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے۔ کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز پر کون عمل کرے گا؟
موجودہ حکومت رضاکارانہ طور پر پر اپنی کابینہ کا سائز کم کردے، سینیٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے۔
پاکستان کے موجودہ بجٹ کو 30 جون 2024 ء تک منجمد کر دیا جائے، نئی کاریں خریدنے پر مکمل پابندی لگا دی جائے ، تمام الاؤنسز میں 25 فیصد کی کٹوتی کی جائے ، نئے انتظامی یونٹ قائم کرنے پر بھی پابندی عائد کی جائے ، پروٹوکول پر نظر ثانی کی جائے اور پروٹوکول اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے، غیر ضروری بیرونی دوروں پر پابندی لگا دی جائے۔
پاکستان کے سفارت خانوں میں بھی نئی ملازمتوں پر پابندی لگا دی جائے اور سفارت خانوں کا بجٹ 15 فیصد کم کر دیا جائے ، کسی استثنیٰ کے بغیر پنشن کی حد پانچ لاکھ روپے مقرر کی جائے، اس وقت کئی سینئر ریٹائرڈ سول سرونٹس اور جج پندرہ لاکھ روپے سے بھی زیادہ کی پنشن اور مراعات قومی خزانے سے وصول کر رہے ہیں۔
ترسیلات زر بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور ڈالر کو محفوظ رکھنے کے لیے اشیائے تعیش کی درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔
پاکستان کی آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، پہلے مرحلے پر ہمیں اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنا ہوگا۔ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بڑے پیمانے پر دالیں، دودھ، کریم، خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔
ان اشیاء خورو نوش کی مقامی پیداوار پر سہولت دے کر درآمدات میں مناسب کمی کی جا سکتی ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک ڈالر لے جانے کے لیے ایک منظم گروہ کام کر رہا ہے۔ سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان کے مطابق پاکستان سے یومیہ ڈھائی کروڑ ڈالر اسمگل کیے جا رہے ہیں۔
اسمگلنگ کے اس سسٹم کو روکنا ہو گا۔ پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمدات تجارتی خسارے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ بجلی کی بچت کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور مارکیٹوں کے اوقات کار تبدیلی لائی جائے۔
صبح 8 سے 6 بجے تک مارکیٹ کے اوقات کار مقر ر کیے جائیں دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے اجتماعی طور پر فیصلے کیے ہیں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ پوری قوم قرض کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے مگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امید ہے کہ حکومت عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس حوالے سے فی الفور اقدامات کرے گی تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف پہنچایا جاسکے۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔
حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کی ذاتی لڑائی اور رنجشوں سے باہر آئے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مل کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔