آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ہمارے یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں لیکن ہر مرتبہ اُس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا
وطنِ عزیز اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے ایک اسٹرٹیجک مقام پر واقع ہے۔ اِس کی سرحدیں بھارت، چین، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں تک اِس کی رسائی بہت آسان ہے جب کہ ماضی میں آر سی ڈی تنظیم کے تحت یہ ایک مثلث کا اہم جزو تھا جو ایران اور ترکی پر مشتمل تھا۔
روس تک اِس کی رسائی بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز اپنے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک مخمصہ میں پھنسا ہوا ہے۔
اِس کی بنیادی وجہ اچھی قیادت کا فقدان ہے۔ ابھی ایک حکومت اپنے قدم جما نہیں پاتی کہ دوسری حکومت آجاتی ہے ، جس کی وجہ سے سیاسی استحکام قائم نہیں رہتا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک اور جمہوریت سے مخلص نہیں ہے۔
تمام معاملات فردِ واحد کی مرضی کے مطابق طے پاتے ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں میں خاندانی ریاست کا عمل دخل ہے۔ اِس اعتبار سے سب کے سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں۔
مختلف نعروں کے ذریعہ بیچارے عوام کو للچایا اور بہلایا جاتا ہے اور اُن کے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور فتح حاصل کرنے کے بعد اُنہیں ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔کسی سیاسی جماعت کا نعرہ اسلامی سوشلزم ہوتا ہے اور کسی کا نعرہ عوام دوستی یا عوامی خدمت ہوتا ہے۔
کوئی جماعت تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بناتی ہے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنا الو سیدھا کرتی ہے اور انجامِ کار اقتدار سے محروم کردی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بھی یاد نہیں رہتا کہ اُس نے عوام سے کیا کیا وعدے کیے تھے؟ عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ اور سنگین سے سنگین تر ہوتے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر ہر سیاسی جماعت کا طرزِ عمل ایک جیسا ہوتا ہے گویا واردات ہر کوئی کرتا ہے بس فرق صرف طریقہ واردات کا ہوتا ہے۔ بے بس عوام ہر مرتبہ بہتری کی توقع کرتے ہیں لیکن اُنہیں مایوسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ حالت یہ ہے کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
سیاسی جماعتوں کے اِسی چلن کی وجہ سے کوئی بھی حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکی اور جمہوری نظام اپنا اعتبار کھو بیٹھتا رہا۔
ہمارے یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں لیکن ہر مرتبہ اُس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ الیکشن کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں کہ بار بار کھیلا جائے۔ الیکشن پر بہت بھاری خرچ آتا ہے جس پر عوام کی خون پسینے کی کمائی صرف ہوتی ہے۔
ایسے الیکشن کا فائدہ ہی کیا جب اُس کے نتیجہ کو ماننے کے لیے کوئی سیاسی جماعت راضی نہیں ہوتی۔
1970 کے انتخابات پہلی مرتبہ صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار ملنا چاہیے تھا لیکن ہوا یہ کہ میں نہ مانوں شوروغُل مچایا گیا اور ہارنے والی حریف سیاسی جماعت نے جیتنے والی جماعت کو اقتدار کی منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا دیے جس کے نتیجہ میں بہت خون خرابہ ہوا اور ملک دو لخت ہوگیا۔
اُس کے بعد یہ روایت مستحکم ہوتی چلی گئی کہ ہر ہارنے والی پارٹی الیکشن کو متنازعہ قرار دے کر اُس کے نتائج تسلیم کرنے سے عاری ہوگئی ، یہ مکروہ روایت آج تک قائم ہے۔
وطنِ عزیز کی موجودہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے کیونکہ ایک سیاسی جماعت اِس ضد پر اَڑی ہوئی ہے کہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جہاں اُس کی حکومتیں قائم تھیں اُس کے مطالبہ پر وہ توڑ دی گئیں اور وہاں گورنر راج ہے دوبارہ بلا تاخیر الیکشن کرائے جائیں۔ اُس کا اصرار یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات بھی بلاتاخیر کرائے جائیں۔
اِس سیاسی جماعت کا مطالبہ اِس بِنا پر ہے کیونکہ اِس وقت اُس کا پلہ بھاری ہے۔ دوسری جانب موجودہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کا مطالبہ یہ ہے کہ فوری الیکشن نہ کرائے جائیں اور اِس کے لیے وقفہ دیا جائے جس کی اصل بِنا یہ ہے کہ اُسے اپنی تیاری کے لیے کچھ مہلت مل جائے۔
اُدھر صدرِ مملکت نے دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دے دی ہے جسے الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے تاہم اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔
یہ صورتحال اُس وقت کی ہے جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے اور اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ اقتدار کی اِس کَشمَکَش نے غیر یقینی کی ایسی فضا پیدا کردی ہے جس کا وطنِ عزیز متحمل نہیں ہوسکتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا نہ کوئی منشور ہے اور نہ پیغام۔
عجیب بات یہ ہے کہ فریقین کے درمیان قطبین کا فاصلہ ہے اور کوئی بھی فریق محبِ وطن ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مفاہمت اور مصالحت کرنے پر آمادہ نہیں جب کہ اِس رویہ سے ملک و قوم کو شدید نقصان ہورہا ہے جس کی وجہ سے جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے اور ملک و قوم کی رسوائی بھی۔
روس تک اِس کی رسائی بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز اپنے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک مخمصہ میں پھنسا ہوا ہے۔
اِس کی بنیادی وجہ اچھی قیادت کا فقدان ہے۔ ابھی ایک حکومت اپنے قدم جما نہیں پاتی کہ دوسری حکومت آجاتی ہے ، جس کی وجہ سے سیاسی استحکام قائم نہیں رہتا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک اور جمہوریت سے مخلص نہیں ہے۔
تمام معاملات فردِ واحد کی مرضی کے مطابق طے پاتے ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں میں خاندانی ریاست کا عمل دخل ہے۔ اِس اعتبار سے سب کے سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں۔
مختلف نعروں کے ذریعہ بیچارے عوام کو للچایا اور بہلایا جاتا ہے اور اُن کے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور فتح حاصل کرنے کے بعد اُنہیں ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔کسی سیاسی جماعت کا نعرہ اسلامی سوشلزم ہوتا ہے اور کسی کا نعرہ عوام دوستی یا عوامی خدمت ہوتا ہے۔
کوئی جماعت تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بناتی ہے اور برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنا الو سیدھا کرتی ہے اور انجامِ کار اقتدار سے محروم کردی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کو بھی یاد نہیں رہتا کہ اُس نے عوام سے کیا کیا وعدے کیے تھے؟ عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ اور سنگین سے سنگین تر ہوتے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر ہر سیاسی جماعت کا طرزِ عمل ایک جیسا ہوتا ہے گویا واردات ہر کوئی کرتا ہے بس فرق صرف طریقہ واردات کا ہوتا ہے۔ بے بس عوام ہر مرتبہ بہتری کی توقع کرتے ہیں لیکن اُنہیں مایوسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ حالت یہ ہے کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
سیاسی جماعتوں کے اِسی چلن کی وجہ سے کوئی بھی حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکی اور جمہوری نظام اپنا اعتبار کھو بیٹھتا رہا۔
ہمارے یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں لیکن ہر مرتبہ اُس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ الیکشن کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں کہ بار بار کھیلا جائے۔ الیکشن پر بہت بھاری خرچ آتا ہے جس پر عوام کی خون پسینے کی کمائی صرف ہوتی ہے۔
ایسے الیکشن کا فائدہ ہی کیا جب اُس کے نتیجہ کو ماننے کے لیے کوئی سیاسی جماعت راضی نہیں ہوتی۔
1970 کے انتخابات پہلی مرتبہ صاف ستھرے اور غیر جانبدارانہ ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں اکثریت سے کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار ملنا چاہیے تھا لیکن ہوا یہ کہ میں نہ مانوں شوروغُل مچایا گیا اور ہارنے والی حریف سیاسی جماعت نے جیتنے والی جماعت کو اقتدار کی منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا دیے جس کے نتیجہ میں بہت خون خرابہ ہوا اور ملک دو لخت ہوگیا۔
اُس کے بعد یہ روایت مستحکم ہوتی چلی گئی کہ ہر ہارنے والی پارٹی الیکشن کو متنازعہ قرار دے کر اُس کے نتائج تسلیم کرنے سے عاری ہوگئی ، یہ مکروہ روایت آج تک قائم ہے۔
وطنِ عزیز کی موجودہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے کیونکہ ایک سیاسی جماعت اِس ضد پر اَڑی ہوئی ہے کہ دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جہاں اُس کی حکومتیں قائم تھیں اُس کے مطالبہ پر وہ توڑ دی گئیں اور وہاں گورنر راج ہے دوبارہ بلا تاخیر الیکشن کرائے جائیں۔ اُس کا اصرار یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات بھی بلاتاخیر کرائے جائیں۔
اِس سیاسی جماعت کا مطالبہ اِس بِنا پر ہے کیونکہ اِس وقت اُس کا پلہ بھاری ہے۔ دوسری جانب موجودہ برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کا مطالبہ یہ ہے کہ فوری الیکشن نہ کرائے جائیں اور اِس کے لیے وقفہ دیا جائے جس کی اصل بِنا یہ ہے کہ اُسے اپنی تیاری کے لیے کچھ مہلت مل جائے۔
اُدھر صدرِ مملکت نے دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ دے دی ہے جسے الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے تاہم اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔
یہ صورتحال اُس وقت کی ہے جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے اور اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ اقتدار کی اِس کَشمَکَش نے غیر یقینی کی ایسی فضا پیدا کردی ہے جس کا وطنِ عزیز متحمل نہیں ہوسکتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا نہ کوئی منشور ہے اور نہ پیغام۔
عجیب بات یہ ہے کہ فریقین کے درمیان قطبین کا فاصلہ ہے اور کوئی بھی فریق محبِ وطن ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود مفاہمت اور مصالحت کرنے پر آمادہ نہیں جب کہ اِس رویہ سے ملک و قوم کو شدید نقصان ہورہا ہے جس کی وجہ سے جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے اور ملک و قوم کی رسوائی بھی۔