پاک افغان تعلقات کا نیا موڑ
حالیہ دنوں میں پاکستانی حکومت اورسیکیورٹی اداروں کے وفد کا دورہ کابل دیکھنے کو ملا
پاکستان کا داخلی اور علاقائی استحکام افغانستان کے ساتھ تعلقات، دو طرفہ تعاون، دہشت گردی اور باہمی اعتماد سے جڑا ہوا ہے۔
عمومی خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاک افغان تعلقات میں کافی بہتری نظر آئے گی لیکن افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردوں کے مسلسل حملوں کو اگر دیکھا جائے تو اعتماد سازی کے مقابلے میں بداعتمادی کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔
پاک افغان تعلقات کی بہتری کی ایک کنجی اس وقت پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے بغیر خطے میں استحکام پیدا ہونا مشکل ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان جو تناؤ اور محاذ آرائی دیکھنے کو ملی، وہ بھی نیک شگون نہیں ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستانی حکومت اورسیکیورٹی اداروں کے وفد کا دورہ کابل دیکھنے کو ملا۔اس وفد کی قیادت ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی ۔
جب کہ ان کے ہمرا ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم، سیکریٹری خارجہ اسد مجید خان، افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمایندہ محمد صادق اور کابل میں پاکستان کے ناظم الامور عبدالرحمن نظامانی بھی شامل تھے۔
اس وفد نے کابل میں افغان ڈپٹی وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر، قائم مقام وزیر خارجہ امیر متقی، وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی۔
یہ دورہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب پاکستان اورافغانستان تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ پشاور اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات نے ہمیں گہری تشویش میں مبتلا کیا۔
پاکستان کے وفد نے دہشت گردی کے خطرات ٹی ٹی پی اور داعش جن میں خراسانی گروپ بھی شامل ہیں پر افغان حکام سے بات چیت کی ہے۔ جو لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ پاک افغان تعلقات میں دہشت گردی کے ایشو کو پس پشت ڈال کر صرف تجارت پر بات کی جائے تو ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں گے۔
کابل میں پاکستان دہشت گردی کے ایشو کو تجارت کے ساتھ جوڑ کر ایجنڈے پر بات کرتا رہا جب کہ افغانستان تجارت کو دہشت گردی سے الگ رکھ کر بات چیت کرتے رہے، جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔
لہٰذا، افغان حکومت کو غیر معمولی اقدامات کرنے ہوںگے کیونکہ افغان طالبان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کی سرزمین کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف سرگرمیوں یا دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی لیکن افغان حکومت نے اپنے اس وعدے کی پاس داری نہیں کی ہے۔ افغان طالبان حکومت کا یہ موقف قطعاً درست نہیں کہ ٹی ٹی پی یا داعش کے جنگجو افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔
پاکستان کے وفد نے دورہ کابل کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی مگر جو پاکستان چاہتا تھا وہ نہ نکل سکا حالانکہ پاکستان نے ناقابل تردید ثبوت افغان حکومت کو دیے، ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور ان کے مقام کی نشاندہی کی لیکن افغان حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
پاکستان نے دو ٹوک انداز میں افغان قیادت کو پیغام دیا کہ پاکستان کی خیر سگالی یا دو طرفہ تعاون کے پہلوؤں کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے بقول ٹی ٹی پی یا دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کاروائیاں کی جائیں ۔
پاکستان نے افغان فورسز کی اشتعال انگیز ی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ پاکستانی وفد نے افغان حکومت کو بتایا کہ بار بار نامکمل اورجعلی دستاویزات کے ساتھ سفرکرنے والے افغان شہریوں کی روک تھام کے لیے افغانستان کی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی قانونی نقل وحرکت روکنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستانی وفد کے بقول ٹی ٹی پی کی کسی بھی قسم کی حمایت پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اورافغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سے اسی طرح نمٹا جائے گا جیسے پاکستان کے اندر کسی دہشت گرد سے نبٹا گیا ہے ۔یہ ہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کے تمام سہولت کاروں اوران کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو بھی یکساں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا ، چاہے وہ پاکستان کے اندر ہوں یا پاک افغان سرحد کے ساتھ خفیہ پناہ گاہوں میں رہائش پذیر ہیں ۔
افغان حکومت کی جانب سے ان ملاقاتوں کا جو بیان جاری کیا گیا وہ بھی نامکمل ہے۔ مثلا افغان سرحدوں پر دونوں اطراف سے تاجروں کے آنے جانے میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ,اقتصادی شعبوں میں فروغ اور دہشت گردی کو روکنے میں غیر معمولی اقدامات کا کوئی خاص ذکر دیکھنے کو نہیں مل سکا۔اسی طرح یہ نقطہ بھی زیر بحث رہا کہ ٹی ٹی پی کس کی ذمے داری ہے۔
کیونکہ افغان حکومت اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دے کر ڈبل گیم کررہا ہے جب کہ اصوطی طور پر پاکستان کے لیے ٹی ٹی پی کا مسئلہ افغانستان کی طالبان حکومت کی پالیسی کی وجہ ہے جس نے ٹی ٹی پی کو پناہ بھی دے رکھی اور انھیں سہولت کاری بھی فراہم کی جارہی ہے اور انھیں افغانستان بھر میں آزادانہ نقل و حرکت کی بھی پوری آزادی حاصل ہے۔
افغانستان کی حکومت کا اس مسئلہ کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنا اور خود کو بری الزمہ قرار دینا درست نہیں۔لیکن اس کے باوجود ان تمام مسائل پر کسی بھی قسم کی شدت پسندی کی نہیں بلکہ دو طرفہ مذاکرات کے عمل کو باقاعدگی سے جاری رکھنا اور دو طرفہ اقدامات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ اس اہم مسئلہ پر ہمیں خود بھی ایک بڑی سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اس مسئلہ کو عالمی دنیا سمیت علاقائی طاقتوں کے ساتھ جوڑ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم نے اگر دہشت گردی یا سیکیورٹی کے حالات کو بہتر بنانا ہے تو پھر ہمیں داخلی سیاسی استحکام کو بھی کنجی کے طو رپر اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔