سعودی عرب کا ترقی کی جانب سفر پہلا حصہ
اس وقت عالمی رہنماؤں میں روسی صدر پیوٹن واحد رہنما ہیں جو مسلسل 25 برس سے اقتدار میں ہیں
محمد بن سلمان کو گزشتہ کئی برس سے سعودی سلطنت کا سربراہ سمجھا جاتا ہے، وہ اپنے والد بادشاہ سلمان کی سربراہی میں بطور نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
گزشتہ برس محمد بن سلمان کو مملکت کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا جس کے بعد وہ دنیا کے سب سے کم عمر اور طاقتور ترین عالمی رہنما بن کر ابھرے ہیں۔
سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نہ صرف اپنے ویژن 2030 کے ذریعے سعودی عرب کے ثقافتی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اپنی قیادت میں سلطنت کو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور بااثر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
ولی عہد محمد بن سلمان اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ دیگر عالمی رہنماؤں کے برعکس نہ صرف طویل عرصہ اقتدار میں رہیں گے بلکہ اپنی زندگی میں ہی اپنے انقلابی اقدامات کے نتیجے میں ہونیوالی تبدیلیاں دیکھیں گے۔
اس وقت عالمی رہنماؤں میں روسی صدر پیوٹن واحد رہنما ہیں جو مسلسل 25 برس سے اقتدار میں ہیں۔ زندگی کی 67 بہاریں دیکھنے والے روسی رہنما کی صحت اگر ایسی ہی قابل رشک رہی تو وہ مزید 20 سال اقتدار میں رہ سکتے ہیں، جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کی عمر ابھی صرف 37 برس ہے یعنی روسی صدر کے مقابلے سعودی ولی عہد مزید 50 برس اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ولی عہد محمد بن سلمان کے پاس مملکت کو ایک جدید ریاست میں بدلنے کے لیے بہت وقت ہے۔
ماہرین کیمطابق اگلی دو دہائیوں میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس، گرین انرجی اور بجلی سے چلنے والی گاڑیاں عالمی نظام، بین الاقوامی سیاست اور معاشی نظام کو یکسر تبدیل کر دیں گی۔
تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب جیسی ریاستیں جن کے فیصلے عالمی معیشت کی بنیادیں ہلا سکتے ہیں لیکن دو یا تین دہائیوں کے بعد جب دنیا میں توانائی کے متبادل ذرائع عام ہو جائیں گے اور تیل پر چلنے والے گاڑیوں کی جگہ جدید الیکٹرک گاڑیاں لے لیں گی تب سعودی عرب جیسے تیل کی پیداوار پر انحصار کرنیوالے ممالک اپنی معیشت کیسے چلائیں گے؟
تیل پیدا کرنیوالے ممالک سیاحت اور دیگر ذرائع سے ریاستی اخراجات تو کسی طرح پورے کر لیں گے لیکن کیا تیل کی مانگ ختم ہونے کے بعد بھی سعودیہ کا عالمی سیاست اور سفارتکاری میں وہ اہمیت اور اثرورسوخ قائم رہیگا جو آج ہے؟ مستقبل کے عالمی منظر نامے میں سعودی عرب کے کردار اور اثر و و رسوخ کا فیصلہ تو آنیوالا وقت کرے گا لیکن مقامات مقدسہ اور مذہبی زیارات کی وجہ سے مسلم دنیا میں سعودیہ عرب کی اہمیت سیاسی اور مذہبی اہمیت ہر حال میں برقرار رہے گی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ محمد بن سلمان عالمی سطح پر ہونیوالی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی تبدیلیوں کیمطابق سعودی عرب کو ایک جدید ریاست کے تصور میں بدلنا چاہتے ہیں۔
محمد بن سلمان نے گزشتہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں کئی ثقافتی اور سماجی تبدیلیاں مرتب کیں، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ''وژن 2030'' کے تحت خواتین کو سماجی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے اقدامات جاری ہیں اور خواتین کو ووٹ ڈالنے، گاڑی چلانے، سینما اور اسٹیڈیم میں فٹبال میچ دیکھنے کے بنیادی حقوق کیساتھ ساتھ اب خواتین کو سفیر جیسے اہم عہدوں پر بھی تعینات کیا جا رہا ہے۔
ویژن 2030، سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کیساتھ ساتھ ولی عہد محمد بن سلمان مسلم دنیا میں سعودیہ عرب کی مذہبی اہمیت سے بھی کسی صورت غافل نہیں، کیونکہ سعودی قیادت جانتی ہے دولت اور سیاسی اثر و رسوخ سے زیادہ اسلامی دنیا میں سعودیہ کی اہمیت مقامات مقدسہ کی وجہ سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی بادشاہ اپنے آپ کو خادم الحرم الشریفین کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ سعودی حکومت نے عازمین حج، عمرہ کرنیوالے زائرین اور مذہبی مقامات کی زیارت کرنیوالے زائرین کی سہولت کے لیے انقلابی منصوبے شروع کیے ہیں۔
ان منصوبوں میں سب سے بڑا پراجیکٹ مکہ اور مدینہ کے درمیان کی تیز رفتار ٹرین سروس ہے، جو 450 کلومیٹر کا فاصلہ صرف دو گھنٹے میں طے کرتی ہے۔ تیز رفتار ٹرین سروس کے ذریعے حج اور عمرے کے زائرین کے علاوہ عام مسافر بھی سفر کرتے ہیں۔
عازمین حج اور عمرہ زائرین کو اس ٹرین سروس کے ذریعے جدہ، مکہ، مدینہ، شاہ عبدالعزیز ایئر پورٹ اور شاہ عبداللہ اکنامک سٹی کا سفر کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دارالحکومت ریاض میں 22 ارب ڈالر کی لاگت سے میٹرو کا نظام بھی زیر تعمیر ہے۔
اس کے علاوہ حج اور عمرہ زائرین کی مشکلات کے حل کے لیے سعودی حکومت نے ویژن 2030 کے تحت اسمارٹ فون ایپ سعودی ویزہ بائیو کا اجرا کیا ہے، جس کے تحت زائرین اپنا بائیو میٹرک اندراج خود کرا سکیں گے اور انھیں ویزہ کے لیے ویزہ سینٹر نہیں جانا ہو گا۔
مسلم امہ اور زائرین کے لیے بلاشبہ یہ اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن ابھی بھی پاکستان، بنگلہ دیش اور افریقہ جیسے غریب ممالک سے آنیوالے عمرہ اور حج کے زائرین کو ٹرانسپورٹ اور رہائش سمیت کچھ انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غریب ممالک سے آنیوالے حج اور عمرہ زائرین کو ہی سب سے زیادہ رہائش کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ان مما لک سے آنیوالے زائرین مہنگے ہوٹلز افورڈ نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں تو ہر سال سرکاری کوٹے پر حج کے لیے جانیوالے ہزاروں افراد رہائش کی ناقص سہولیات، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور ناقص کھانے جیسے مسائل کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
سعودی حکومت نے اپنے سخت انتظامی اقدامات کی بدولت رہائش اور کھانے پینے کی اشیا کے نرخ مقرر کیے ہوئے لیکن اس کے باوجود لقمہ حرام کھانیوالے عاقبت نا اندیش مکہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات پر بھی غریب حاجیوں کو لوٹنے سے باز نہیں آتے، اگر سعودی حکومت غریب ممالک سے آنیوالے عمرہ زائرین کے لیے سستی رہائش اور کھانے کے اقدامات کو بھی یقینی بنا دے تو زائرین کو درپیش رہائش اور کھانے کے مسائل کا حل بھی ممکن ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرقی وسطیٰ میں مستقبل قطر یا امارات کا نہیں بلکہ سعودی عرب کا ہے چاہے وہ معاشی اور سیاسی مستقبل ہو یا خطے اور عالمی سطح پر سفارتی اہمیت ہے بلکہ مشرقی وسطیٰ کا مستقبل بھی سعودی مستقبل سے جڑا ہے۔
سیاسی، معاشی اور سفارتی اہمیت اپنی جگہ سعودی مملکت کی مذہبی اہمیت اور مکہ، مدینہ جیسے مقدس مقامات کی وجہ سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر بھی سعودی عرب کا سیاسی اور سفارتی مقام سب سے منفرد ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کبھی حج اور عمرہ کے زائرین کی خدمت اور سہولیات کی فراہمی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور زائرین کو مملکت میں ریاستی مہمان کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت زائرین کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتی ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ زائرین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔