ذکر جالب میلہ کا

قارئین ان کی کتب اسٹالوں پر سے خریدتے ہیں اور ان کی شاعری سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

ایک روایت بڑی اچھی چل نکلی ہے یا رواج پا چکی ہے کہ عظیم شخصیات کو ان کی سالگرہ پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے خوب صورت نشست کا اہتمام کیا جائے۔

اس سلسلے میں چند برسوں سے لاہور میں عظیم شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں ان کی سالگرہ کے موقع پر ایک ادبی پروگرام کا اہتمام کیا جاتا ہے اس پروگرام کو فیض میلہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس فیض میلہ میں فیض احمد فیض کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مختلف پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ فیض صاحب کی کتب کی نمائش ہوتی ہے۔

قارئین ان کی کتب اسٹالوں پر سے خریدتے ہیں اور ان کی شاعری سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ میلہ تواتر سے ہر سال ماہ فروری میں سجایا جاتا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک محفل کا اہتمام اس برس کراچی پریس کلب میں کیا گیا ، اس محفل کو حبیب جالب میلہ کا نام دیا گیا۔

اس محفل کو احباب جالب نے اپنی انتھک شبانہ روز محنت سے خوب سجایا۔ کم و بیش چار گھنٹے یہ محفل چلتی رہی اور لوگ ذوق و شوق سے محفل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ قبل اس کے کہ محفل کا آغاز ہوتا محفل میں حبیب جالب کا کلام ان کی زبانی بجتا رہا جن میں محترم جالب کا مشہور زمانہ کلام جوکہ فلم ''زرقا'' میں ایک گیت کی شکل میں شامل کیا گیا تھا:

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

تو کہ ناواقف آداب غلامی سے ابھی

بار بار بجایا گیا اور ہر بار سماعتوں کو بھلا لگا۔ نظامت کے فرائض مجاہد بریلوی کے سپرد تھے، اپنی یہ ذمے داری انھوں نے احسن طریقے سے پوری کی۔ سب سے اولین خطاب پریس کلب کے صدر سعید سربازی کا تھا۔

جنھوں نے اپنے مخصوص انداز میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور تشریف آوری پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

محترمہ زہرہ نگاہ نے حبیب جالب کیساتھ چند یادوں کو خوب صورت انداز میں پیش کیا اور خوب داد سمیٹی جبکہ محترمہ حور پلیجو نے اپنے خطاب میں محترم رسول بخش پلیجو و حبیب جالب صاحب کے درمیان دوستی کے تعلق کا بار بار ذکر کیا اور جالب کو خوب صورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔


ان کے بعد لاہور سے تشریف لائے پنجابی زبان کے مایہ ناز شاعر بابا نجمی کو اسٹیج پر بلایا گیا ، انھوں نے کہا کہ مادری زبان پر ہر انسان کو فخر ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ انسان کو اپنی جنم بھومی پر ناز کرنا لازم ہے۔ ان کے بعد نامور فلم اسٹار محترم مصطفیٰ قریشی کو دعوت خطاب دی گئی۔

مصطفیٰ قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر آپ اپنے اداروں سے اچھی توقعات رکھتے ہیں تو لازم ہے کہ آپ اداروں کا احترام کرنا بھی سیکھیں۔ یہ بات غلط ہے کہ جس کا جو دل چاہے وہ اداروں پر حملہ آور ہو جائے۔ بالخصوص عدلیہ کے بارے میں سوچ سمجھ کر بات کی جائے۔ چنانچہ عدلیہ کا احترام لازم ہے سب کے لیے۔ انھوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ذکر کیا کہ حبیب جالب سے میرے ذاتی مراسم تھے۔

ان کے حیات کے آخری ایام میں جب حبیب جالب سروسز اسپتال میں اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑ رہے تھے تو ایک روز اس وقت اس کے وزیر اعظم نواز شریف و وزیر اعلیٰ پنجاب مرحوم غلام حیدر وائیں ان سے ملنے کے لیے سروسز اسپتال بذات خود تشریف لے گئے اور محترم وزیر اعظم نے حبیب جالب سے کہا کہ '' ہم نے فیصلہ کیاہے کہ آپ کو بیرون ملک علاج کی غرض سے بھیجا جائے۔''

وزیر اعظم کی بات سن کر حبیب جالب نے جواب میں کہا کہ '' میں بیرون ملک علاج کی غرض سے ہرگز نہیں جاؤں گا۔'' ان کا فیصلہ گویا دو ٹوک تھا ، میں نے وزیر اعظم کے جانے کے بعد کہا کہ ''جالب صاحب آپ کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے عوام کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے کسی کا ذاتی تو نہیں۔ پھر آپ کو کیا اعتراض ہو سکتا ؟ میری بات کا جالب صاحب نے یہ جواب دیا کہ '' عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیے ناکہ میرے علاج پر خرچ ہو۔'' ٹریڈ یونین رہنما محترمہ زارا اکبر خان نے ملک کے موجودہ معاشی حالات پر مختصر بات کی اور جالب صاحب کو عقیدت کے پھول الفاظ کی شکل میں پیش کیے۔

ریلوے ورکرز یونین کے رہنما منظور رضی نے جالب کا کلام جالب کے انداز میں اپنی آواز میں سنایا تو لوگ جھوم جھوم گئے۔ منظور رضی کی یہ خوبی ہے کہ 78 برس کی عمر میں بھی نوجوانوں کا سا جذبہ رکھتے ہیں۔

تقاریر کا سلسلہ ختم ہوا تو محفل موسیقی کا اہتمام تھا۔ ایک بار پھر محترمہ حور پلیجو کی نواسی نور اور پوتی سونی کو ساز و آواز کا جادو جگانے کا موقعہ دیا گیا۔ دونوں بچیوں نے کمال مہارت سے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جالب صاحب کا کلام پیش کیا اور سامعین نے بھی خوب داد تحسین دی۔ اب باری تھی ملک کی قابل فخر رقاصہ و فنکارہ شیما کرمانی کی۔

شیما کرمانی اور ان کی ٹیم نے تمثیل کے انداز میں ڈرامہ پیش کیا۔ اس ڈرامہ ٹیم نے ماضی و حال کی خوب صورت انداز میں عکاسی کی۔ ڈرامے میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا کہ ماضی میں کس قدر لوگ پیار و محبت سے زندگی گزارتے تھے اور کس قدر خوش گوار ماحول تھا اور کس قدر عصر حاضر ہے کہ آج ہر جانب نفرت کے بیج ، تفرقہ پرستی ، لسانی ، صوبائی عصبیت کی شکل میں بو دیے گئے ہیں یہاں بھی سامعین نے داد تحسین دینے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا۔ آخر میں لاہور سے تشریف لانیوالے لال بینڈ میوزک گروپ کو اپنے فن کے اظہار کا موقعہ دیا گیا۔

لال بینڈ گروپ نے ڈاکٹر تیمور الرحمان کی قیادت میں خوب صورت انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ صوفیانہ کلام و انقلابی کلام اپنے منفرد انداز میں پیش کیا۔ لال بینڈ گروپ نے اپنے فن کا اظہار اس قدر خوب صورتی سے کیا کہ حاضرین کی کثیر تعداد صوفیانہ انداز میں رقصاں نظر آئی۔

بالآخر یہ خوب صورت محفل جسے جالب میلہ کا نام دیا گیا تھا شب ساڑھے آٹھ بجے اختتام پذیر ہوئی۔ ہمارے خیال میں 26 فروری 2023 کی پریس کلب میں منعقد یہ محفل ایک عرصے تک یاد رکھی جائے گی۔
Load Next Story