اورکزئی شدت پسندوں کا میلے پر دھاوا 20 افراد اغوا طالبان گروپوں میں جنگ بندی کا دعویٰ

تیراہ کے علاقے میں شدت پسندوں نے 20 افراد کو یرغمال بناکر سیکڑوں کلو منشیات جلادی،7 افراد کو ساتھ لے گئے


تیراہ کے علاقے میں شدت پسندوں نے 20 افراد کو یرغمال بناکر سیکڑوں کلو منشیات جلادی،7 افراد کو ساتھ لے گئے. فوٹو:فائل

لاہور: خیبرایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی کے سرحدی مقام حیدرکنڈائو میں برقمبرخیل سے شدت پسندوں نے مقامی قبیلے کے 20 افراد کو اغوا کر لیا اور 7 افراد کو اپنے ساتھ لے گئے اور مقامی بازار میں لاکھوں روپے کی منشیات نذر آتش کرکے چلے گئے۔

پولیٹیکل حکام کے مطابق ہفتے کی صبح خیبرایجنسی کی تحصیل تیراہ کے علاقہ حیدر کنڈائو برقمبر خیل کے مضافاتی مقام ایگو میلہ اور چرگو چنہ سے برقمبرخیل قبائل کے دو درجن کے قریب مقامی لوگوں کو شدت پسندوں نے یرغمال بنا کر ان کے قبضے میں سینکڑوں کلوگرام چرس اور دیگر منشیات نذر آتش کریں جبکہ بعد میں مغوی 20 افراد میں سے 7 افراد کو ساتھ لے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق 110 افراد کو اغوا کیا گیا جن میں سے 40 کو چھوڑ دیا گیا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی شدت پسند ہیںجبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اورکزئی ایجنسی کے شدت پسند اس واقعے میں ملوث ہیں۔

ایک نجی ٹی وی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایاہے کہ تمام افرادکو حیدرکنڈائو کے منشیات کے میلے سے اغواکیاگیا اورانھیں طالبان نے اغواکیاہے کیونکہ طالبان نے منشیات کامیلہ لگانے سے منع کیاتھا۔ عینی شاہدین نے بتایاکہ حملہ آوراسلحہ سے لیس تھے اوراغواکئے گئے افرادکو ایک بڑے ٹرک میں سوارکرکے نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔ این این آئی کے مطابق پشاورکے زواری چوک سے ملنے والی لاش ماسٹریونس عرف ملاٹانڈک کی نکلی۔ مقتول کو ایک ہفتہ قبل ایف آرپشاورکے علاقے جناح خوڑ سے اغواکیاگیاتھا۔ ذرائع کے مطابق ماسٹریونس کو تحریک طالبان درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے کے شک پرجنگریز گروپ نے اغواکیاتھا۔

تحریک طالبان پاکستان کے 2 متحارب دھڑوں میں تین سے چار روز تک خونی جھڑپوں اور ان میں 25 افراد کی ہلاکت کے بعد ایک ماہ کی جنگ بندی ہوگئی مگر اسکے باوجود جنگ میں توسیع کے حوالے سے طالبان شوریٰ کا اجلاس التوا کا شکار ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان دو دھڑوں سے ہٹ کر چند اہم لیڈروں اور ایک اور طاقتور ترین جنگجو گروہ حقانی نیٹ ورک کی مداخلت پر متحارب خان سید سجنا گروپ اور شہریار محسود گروپ میں ایک ماہ کی جنگ بندی تو ہو گئی ہے لیکن امن بات چیت پر شدید اختلاف رکھنے والے ان دو گروپوں کو ایک ''پیج'' پر لانے میں مزید دن لگ سکتے ہیں، اس وجہ سے شاید شوریٰ کا اجلاس بھی مزید تاخیر کا شکار ہو جائے۔

ادھر طالبان ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ دو گروپوں کی لڑائی کا معاملہ مکمل طور پر حل کر لیا گیا ہے اور شوریٰ کے اجلاس کو بھی جلد طلب کر لیا جائے گا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم رہنما اعظم طارق نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دو گروپوں کی لڑائی اتنا بڑا اور پیچیدہ معاملہ نہیں تھا جتنا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اعظم طارق نے بتایا ہے کہ دونوں گروپس کے درمیان غلط فہمی دور کردی ہے، اب کوئی لڑائی نہیں ہوگی، مذاکرات میں آہستہ آہستہ پیشرفت ہورہی ہے۔ آن لائن کے مطابق اعظم طارق نے کہا کہ طالبان کی لڑائی کے بعد مذاکرات کی ناکامی کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں، یہ تاثر غلط ہے اور اس میں مذاکرات کا کوئی تعلق نہیں۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شامل ایک رکن کا کہنا تھا کہ طالبان کی آپس کی لڑائی کے علاوہ ان کی شوریٰ کے اجلاس میں تاخیر کی دیگر وجوہات بھی ہیں، طالبان کی چند اہم شرائط تھیں جیسا کہ غیر جنگجو قیدیوں کی رہائی، یہ عمل کچھ افراد کی رہائی کے بعد رک گیا ہے، ہم ان کی طرف سے جنوبی وزیرستان میں ''فری پیس زون'' قائم کرنے کا مطالبہ بھی حکومت کے لئے ناقابل قبول ہے، اب طالبان قیادت بھی تذبذب کا شکار ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد وہ اپنی شوریٰ کے اجلاس میں سیزفائر میں توسیع کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے، کچھ دھڑے ایسے میں جو بات چیت کے اب بھی حق میں ہیں جبکہ کئی لوگ شرائط پوری نہ ہونے پر سیز فائر میں مزید توسیع کے حق میں نہیں۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک اور رکن رستم شاہ مہمند نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ طالبان اور حکومت کے درمیان بات چیت میں ڈیڈ لاک اور تعطل آبا ہے، وہ مزید گہرا ہو رہا ہے اور اس کے ختم یا ٹوٹنے کی فی الحال اُمید نظر نہیں آ رہی۔

انہوں نے بھی کہا کہ طالبان کی آپس کی لڑائی سے بھی مذاکراتی عمل پر اثر پڑا ہے، ان کی شوریٰ کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا ہے جبکہ کچھ گروپوں کی جانب سے مذاکرات کی مخالفت بھی اس عمل پر اپنا اثر ڈال رہی ہے۔ ادھربی بی سی سے بات کرتے ہوئے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رابطہ کارمولانایوسف شاہ کاکہناہے کہ طالبان نے 765 غیرعسکری قیدیوں کی دو فہرستیں حکومت کو فراہم کی تھیں اورحکومت اس سے قبل 19 افرادرہاکرچکی ہے، وہ یقیناً قبائلی تھے لیکن وہ طالبان کی فہرست میں موجود افراد نہیں تھے، طالبان سے توقع ہے کہ وہ ایک بارپھرجنگ بندی میں توسیع کریں گے، طالبان کی لڑائی کا مذاکرات پر اثر نہیں ہوگا۔

طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسرابراہیم نے ہمیں توقع تھی کہ ہم جلددونوں کمیٹیوں کو لے کرطالبان شوریٰ سے ملاقات میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ایسانہ ہوسکا، مذاکرات جاری رہے تو جنگ بندی بھی جاری رہے گی۔ ادھرایک ٹی وی کے مطابق جمعہ کے روز شمالی وزیرستان کے کسی نامعلوم مقام پرطالبان شوریٰ کااجلاس ہواجس میں جنگ بندی کی مدت میں توسیع پرتبادلہ خیال کیاگیا، ذرائع کاکہناہے کہ شوریٰ میں شامل کچھ ارکان نے مختصرمدت کیلئے جنگ بندی میں توسیع کی حمایت کی ہے، اجلاس کے موقع پرمیران شاہ ، دتہ خیل، غلام خان ، میرعلی اوررزمک میں ڈرون طیاروں نے نچلی پروازیں بھی کیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں