اجناس کا بحران اور ہماری ذمے داریاں

جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو برکت والا رزق ملتا ہے

 جب کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا ﷲ کی رحمت سے خود کو دُور کر نے والا (لعنتی) ہے۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

ﷲ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کی تمام پریشانیوں کو ختم فرمائے بالخصوص مسلمانان پاکستان اس وقت شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اجناس کے بحران نے انہیں تباہ کر دیا ہے مزید بے حسی کا یہ عالم ہے کہ تجارت پیشہ افراد اس موقع پر دونوں ہاتھوں سے لُوٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔

آئیے! اس بارے قرآن و سنت سے راہ نمائی لیتے ہیں کہ قحط سالی اور بحران کیوں پیدا ہوتے ہیں ؟ اس کا حل کیا ہے؟ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والی تاجر برادری کو شریعت کیا تعلیم دیتی ہے؟

مفہوم: (لوگو) ''تم پر جو پریشانیاں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جب کہ تمہارے بہت سارے گناہوں کو تو ﷲ معاف بھی فرما دیتے ہیں۔'' (سورۃ الشوریٰ)

معلوم ہُوا کہ جتنی پریشانیاں ہم پر آتی ہیں یہ ہمارے بعض گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں جب کہ اکثر گناہوں کے سزا یا تو ﷲ تعالیٰ بالکل ہی معاف فرما دیتے ہیں یا ان کو آخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔

ﷲ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی تباہی اور ان پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے گناہوں کو قرار دیا ہے اور اس مضمون کو قرآن کریم نے مختلف انداز میں متعدد مقامات پر اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ ہم ان گناہوں سے بچ جائیں ورنہ ہمارا انجام بھی انہی جیسا ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے، مفہوم: ''پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے پانی میں غرق کیا، ﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔'' (سورۃ العنکبوت)

نوٹ: یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ بعض مرتبہ گناہوں کی سزا مجموعی طور پر نہیں آتی بلکہ اس کا کچھ حصہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لوگوں پر آتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اسی علاقے کے لوگوں کے گناہوں کا ہی وبال ہو۔ یہ تنبیہ ہوتی ہے کہ باقی لوگ گناہوں سے باز آجائیں۔

مفہوم آیت: ''تم سے پہلے کتنی بستیاں ایسی گزر چکی ہیں جنہوں نے ﷲ اور رسولوں کی نافرمانیاں کیں تو ہم نے ان کے اس جرم کی وجہ سے ان کا سخت حساب لیا اور بڑے بڑے عذابوں میں مبتلا کر دیا آخر کار انہوں نے اپنے بعض گناہوں کا وبال دنیا میں ہی دیکھ لیا یہاں تک کہ وہ قومیں صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہوگئیں۔ ﷲ نے ان کے لیے آخرت میں سخت ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس لیے عقل والو! ﷲ تعالیٰ سے ڈرو! اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔'' (سورۃ الطلاق)

مفہوم: ''جب کسی قوم میں حرام مال عام ہو جائے، تو ﷲ رب العزت ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھا دیتے ہیں، اور جب کسی قوم میں زنا بدکاری عام ہو جائے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے اور حادثاتی اموات پھیل جاتی ہیں، اور جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو ان کے رزق کو گھٹا دیا جاتا ہے اور جب کوئی قوم ظلم و ناانصافی کرنے لگے تو ان میں قتل و قتال عام ہوجاتا ہے، اور جب کوئی قوم وعدہ خلافی کے جرم کا ارتکاب کرتی ہے تو ان پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے۔''

(موطا امام مالک، باب ماجاء فی الغلول)

حدیث مبارک میں چند بڑے جرائم اور ان کے معاشرے پر پڑنے والے وبال کو ذکر کیا گیا ہے اس میں اس گناہ کی نشان دہی بھی کر دی گئی جس کی وجہ سے رزق میں تنگی آتی ہے اور وہ ہے ناپ تول میں کمی کرنا۔

سابقہ امتوں میں سے حضرت شعیب علیہ السلام کو جس قوم کی طرف بھیجا گیا وہ ایسی قوم تھی جو ناپ تول میں کمی کرنے کے گناہ میں مبتلا تھی اس وجہ سے ان پر ﷲ کی طرف سے سخت سزا آئی۔ قرآن کریم میں ہے کہ شہر مدین کی طرف ہم نے ان کے قومی بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا، مفہوم: ''لوگو! صرف اکیلے ﷲ ہی کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ تول میں کمی والا جرم نہ کیا کرو۔

میں تمہیں خوش حال دیکھتا ہوں اور اگر تم ﷲ پر ایمان نہ لائے تو مجھے تمہارے بارے میں ایسے سخت دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو تم کو ہر طرف سے گھیر کر ہی رہے گا۔ لوگو! ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا پورا تولا کرو۔ لوگوں کو ان کی خریدی ہوئی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو، ایسا جرم کر کے زمین میں فساد مت پھیلاتے پھرو۔'' (سورۃ ھود)

حضرت عبدﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا، مفہوم: ''اے مہاجرین کی جماعت! جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس پر قحط سالی مسلط کر دی جاتی ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

ستم دیکھیے کہ ایک طرف ملک میں آٹے کا بحران تو دوسری طرف تاجر برادری ذخیرہ اندوزی والا ستم ڈھا رہی ہے لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔


ذخیرہ اندوزی کسے کہتے ہیں؟

ذخیرہ اندوزی اِسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص یا جماعت غلہ یا دیگر اجناس کو بڑی مقدار میں اس لیے اکٹھا کر لیں یا خرید کر ذخیرہ کر لیں کہ بازار میں جب وہ جنس زیادہ مہنگی ہو جائے اور لوگوں میں اس چیز یا جنس کی مانگ کا مرکز صرف وہی بن جائیں اور لوگ مجبور ہو کر ذخیرہ اندوزی کرنے والے سے اس کی شرائط اور مقرر کردہ نرخوں کے مطابق خرید سکیں۔ یہ طریقہ سراسر غلط اور ایسی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام اور ممنوع ہے۔

اور اگر بازار میں اس ذخیرہ کی جانے والی جنس یا چیز کی کوئی کمی نہ ہو اور کسی شخص کے کسی چیز یا جنس کو ذخیرہ کرنے کی وجہ سے قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو یہ اکٹھا کر لینا ذخیرہ اندوزی نہیں کہلاتا کہ جس کی شریعت نے مذمت بیان کی ہو اور اس سے روکا ہو۔

اسلام نے سچے تاجر کا حشر دن قیامت انبیاء اور صالحین کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن جب تاجر ذخیرہ اندوزی کرنے والے جرم کا مرتکب ہو تو اسلام ایسے تاجر کی سخت ترین مذمت کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جس تاجر نے اس قابل مذمت ارادے سے ذخیرہ اندوزی کی کہ وہ اس طرح مسلمانوں سے اس چیز کے مہنگے دام وصول کرے تو ایسا شخص بڑے درجے کا گناہ گار ہے۔'' (مسند احمد)

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''جائز طریقے سے نفع کمانے والے تاجر کو برکت والا رزق ملتا ہے جب کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا ﷲ کی رحمت سے خود کو دور کر نے والا (لعنتی) ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ''جس شخص نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت ان کے کھانے پینے (اور ضرورت کی اشیائ) کی ذخیرہ اندوزی کی ایسے شخص کو ﷲ تعالیٰ کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں یا پھر مفلس غریب بنا دیتے ہیں۔''

(شعب الایمان للبیہقی)

حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں ایک دن مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو دیکھا کہ مسجد سے باہر غلہ اناج کا ڈھیر لگا ہوا تھا آپؓ نے اس بارے پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ ہمارے لیے فلاں جگہ سے لایا گیا ہے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ﷲ اس غلے میں اور اس کو لانے والے شخص میں برکت عطا فرمائے۔ بعد میں حضرت عمرؓ کو تفصیل سے بتایا گیا کہ اس کے مالکوں نے اس غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی ہوئی ہے۔ آپؓ نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت اس غلہ کا ذخیرہ کیا ہُوا ہے بتایا گیا کہ فروخ اور فلاں شخص ہیں۔

آپؓ نے انہیں بلوایا اور فرمایا: کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ مسلمانوں کی ضرورت کے وقت غلہ کی ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ امیر المومنینؓ! ہم اپنے مال سے خرید و فروخت کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں نے خود ﷲ کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کو اس بارے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس شخص نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت ان کے کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی ایسے شخص کو ﷲ تعالیٰ کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں یا پھر مفلس غریب بنا دیتے ہیں۔

اسی وقت فروخؒ نے عرض کی: اے امیر المومنینؓ! میں ﷲ سے اور آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی اناج کی ذخیرہ اندوزی نہیں کروں گا جب کہ دوسرے شخص نے کہا کہ ہم اپنے مال سے خرید و فروخت کرتے ہیں۔ یعنی ہماری مرضی ذخیرہ اندوزی کریں یا نہ کریں کسی کو اس سے کیا ؟ ابُو یحیٰؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اسی شخص کو کوڑھ کے مرض کی حالت میں خود دیکھا ہے۔ (مسند احمد)

عوام کی ذمے داری بنتی ہے کہ گناہوں سے بچیں اور سابقہ گناہوں پر استغفار اور آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کریں۔ پھر بھی گناہ ہوجائے تو فورا توبہ کریں ورنہ ہمارے گناہوں کا وبال کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا کبھی آٹے کا بحران ہوگا تو کبھی کسی دوسری چیز کا۔ مسلمان تاجروں خصوصاً مل مالکان اور دکان داروں کی ذمے داری یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی لعنت سے اپنے کاروبار کو پاک کریں۔

اس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ اور کھانے پینے کی اشیاء میں کمی آرہی ہے غریب عوام آپ کے پیدا کردہ بحران میں بری طرح پس رہے ہیں۔ اسلامی طریقہ تجارت کے مطابق جائز منافع کمائیں۔

ارباب حکومت کی ذمے داری ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹیوں کو فعال کر کے آٹے اور چینی وغیرہ کے بحران اور ذخیرہ اندوزی کے مستقل سدباب کے لیے مضبوط اور منظم اقدامات کریں۔ اس کی کڑی نگرانی کریں اور عوام کو معاشی پریشانیوں سے آزاد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔

ﷲ کریم ہماری تمام ضروریات کو اپنے کرم سے پورا فرمائے۔ تمام پریشانیوں اور بحرانوں سے نجات عطا فرمائے اور عافیت کے ساتھ دین و دنیا کی تمام تر بھلائیاں عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story