جاوید اختر کی ہرزہ سرائی
جاوید اختر فیض احمد فیض کی سالگرہ کے سلسلے میں منعقدہ ثقافتی میلے میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے
ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم خود اپنے ملک کو دشمن ملک سے کم تر اور بدتر کہنے سے نہیں رکتے اور پھر اس پر کچھ جھجک محسوس کرنے کے بجائے اس پر فخر بھی کرنے لگتے ہیں۔ مانا کہ ملک میں بعض باتیں اچھی نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کو ہی برا کہا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حب الوطنی کے دائرے سے باہر ہے۔ واضح رہے کہ ملک ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ نہیں۔
گزشتہ دنوں بھارتی دانش ور جاوید اختر فیض احمد فیض کی سالگرہ کے سلسلے میں منعقدہ ثقافتی میلے میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے۔ انھوں نے یہاں ایک سیشن میں شرکت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں ممبئی میں مبینہ حملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے حملہ آور پاکستان میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بات ایسے ہی نہیں کہی، دراصل ایسا کہنا اور پاکستان پر الزام تراشی کرنا ان کے لیے وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔
وہ اپنی سیکولر طبیعت اور اپنے مسلمان نام کی وجہ سے بی جے پی کے غنڈوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے وہ صرف مسلمانوں کی نہیں سیکولر لوگوں کی بھی دشمن بنی ہوئی ہے۔ اس کے غنڈوں کو اقلیتوں اور بھگوا فلسفے کے خلاف بولنے والے بھارتی دانش وروں کو تنگ کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ جاوید اختر کی آزاد خیالی اور فلم انڈسٹری کے صاحب ثروت لوگوں میں شامل ہونے کی وجہ سے انھیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے اکثر تنگ کرتے رہتے ہیں حالانکہ جاوید اختر بی جے پی کی انتہا پسند دیش بھگتی کے ساتھ ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بی جے پی کے ہندوتوا کے فلسفے کے بھی کافی قریب ہیں۔ وہ بھارتی مسلمانوں کو بی جے پی جیسی دیش بھگتی کی نصیحت بھی کرتے رہتے ہیں اور خود کو اپنے والد کی طرح مسلمان نہیں مانتے۔
جبکہ ان کے مقابلے میں بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور فن کار اور دانشور نصیر الدین شاہ بی جے پی کے انتہا پسند فلسفے کو قبول کرنے کو بھارت کے انصاف اور امن پسند لوگوں کے لیے توہین خیال کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے خیالات میں بہت فرق ہے۔ گوکہ جاوید اختر خود کو بھارت کا مایہ ناز سپوت ظاہرکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی بی جے پی والے انھیں محبت وطن نہیں سمجھتے اور اکثر ان کو چھیڑتے رہتے ہیں چنانچہ حالات کو دیکھتے ہوئے جاوید اختر اپنی حب الوطنی کا اظہار گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں۔ کئی سال پہلے انھوں نے جموں کشمیر میں مسلمانوں پر آفت ڈھانے والی بھارتی فوج کی پیراملٹری فورس جسے سی آر پی ایف کہا جاتا ہے کے لیے ایک ترانہ لکھا تھا جس میں اس کے ظالم اور دہشت گرد فوجیوں کی دل بھر کے تعریف کی گئی تھی۔
اس نظم میں اسے امن کا پیامبر اور عوام کا دوست قرار دیا گیا تھا جبکہ اس کے جوانوں نے مقبوضہ جموں کشمیر میں دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ حریت پسندوں کو سرعام گولی مارنا، گھروں میں چھاپے مارنا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کے خلاف مقامی آبادی نے بہت احتجاج کیا ہے مگر کچھ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ وہ کسی بھی حریت پسند کو گولی مار سکتی ہے کشمیریوں کو گرفتار کرنا اور جیلوں میں بغیر مقدمہ چلائے برسوں رکھنا اور مسلسل اذیت دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ اب ہم آتے ہیں جاوید اختر کے ممبئی حملے میں پاکستان کو نشانہ بنانے کی بات پر۔
دراصل جاوید اختر نے یہ بات صرف اور صرف اپنے بھارتی ہونے کے دعوے کو مضبوط کرنے اور بی جے پی حکومت اور اس کے غنڈوں کو خوش کرنے کے لیے کہی ہے۔ انھیں اس جھوٹ یعنی کہ بغیر کسی تحقیق کے بھارتی پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی کرنے سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا ان کی تعریف کے پل باندھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو دھوم مچی ہوئی ہے کہا جا رہا ہے کہ "واہ جاوید بھائی! آپ نے تو دشمن کو گھر میں گھس کر مارا ہے" اب بی جے پی کے بعض لیڈر بھی جو ان پر اکثر تنقید کے تیر چلاتے رہتے تھے ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ چلو اچھا ہوا کہ اس طرح انھوں نے خود کو محب وطن ثابت کر کے بی جے پی کے غنڈوں سے خود کو اور اپنی بیوی کو شاید محفوظ بنا لیا ہے۔ اس سے انھیں بھارتی انتہا پسندوں کی نظر میں کچھ تو وقعت حاصل ہوگئی ہوگی مگر ہوا یہ ہے کہ ان کی دانشوری اور حقیقت پسندی کی پول بھی کھل گئی ہے۔ ممبئی حملے کو وہ صرف اور صرف بھارتی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی پراپیگنڈے پر یقین کر رہے ہیں یہ ان جیسے امن کے علم بردار اور انسانیت کا دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے لیے ذلت کا مقام ہے۔
ممبئی حملوں کا تعلق سراسر مسئلہ کشمیر سے ہے اس سلسلے میں عالمی سطح پر اس پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے اور مسئلہ کشمیر پر اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اس وقت کی کانگریسی حکومت نے بی جے پی کے دہشت گردوں سے یہ حملہ کروایا تھا۔ ان دہشت گردوں نے اس دہشت گردی کے دوران ممبئی پولیس کے ایک بڑے افسر پروفل کرکرے کو بھی ہلاک کردیا تھا۔ اس کی بیوی نے خود اس واقعے کی پول کھول دی تھی کہ یہ حملہ پاکستان نے نہیں خود بھارت سرکار نے کرایا تھا۔
بعد میں اس کا منہ بند کرنے کے لیے ایک بھارتی وزیر اس کے گھر پر ایک بڑی رقم کا چیک دینے بھی آیا تھا جسے اس خاتون نے لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ جاوید اختر کی غلط بیانی کا دفاع کرنے والے پاکستانی حضرات کو بھی یہ حقیقت پتا ہوگی۔ اس حادثے کے سلسلے میں بھارت کی جانب سے جو کہانی گھڑی گئی تھی اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، صرف پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی صحافی اور دانش ور بھی اسے ماننے کو تیار نہیں تھے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک کشتی میں کچھ نوجوان پاکستان کے ساحل سے سمندر میں سیکڑوں میل کا سفر کرکے ممبئی پہنچ جائیں اور راستے میں بھارتی نیوی اور کوسٹ گارڈ نہ روکیں پھر دوسرا جھوٹ یہ کہ ان نوجوانوں نے پورا دن پورے ممبئی میں قتل و غارت گری کی اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا، کیا ممبئی پولیس اور دوسرا سیکیورٹی اسٹاف اس دن چھٹی پر تھا؟ یہ پوری من گھڑت کہانی تھی جسے کسی ملک نے پذیرائی نہیں بخشی، صرف امریکی حکومت نے بھارت سے وابستہ اپنے مفادات کی خاطر اس ڈرامے کو پذیرائی بخشی تھی اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
صرف امریکی دباؤ کی وجہ سے اس وقت کی پاکستانی حکومت نے اس کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کرلیا تھا جس کے بعد امریکی دباؤ پر ہی پاکستان میں اس مقدمے کا آغاز ہوا اور یہ مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے مگر ثبوتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ پتا نہیں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا کیونکہ جب کسی پاکستانی نے ایسا کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے تو ثبوت کہاں سے آئیں گے۔ یہ مقدمہ بھارت میں چلا اور ایک معصوم پاکستانی نوجوان کو نہ کردہ جرم کی سزا میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اس نوجوان کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ نیپال سیر و تفریح کے لیے گیا ہوا تھا اسے کبھی بھارتی "را" نے پکڑ لیا تھا۔ چونکہ دنیا کو دکھانے کے لیے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا تھا ساتھ ہی پاکستان کو بدنام کرنا تھا چنانچہ اس نوجوان کو بغیر کسی گواہ و ثبوت کے کئی سال دکھاوے کا مقدمہ چلا کر موت کی سزا دے دی گئی تھی۔
ممبئی حملے کی ایک یہودی مصنف نے اپنی تحقیقی کتاب کے ذریعے پول کھول کر رکھ دی ہے۔ اس نے اس حملے کا خود ممبئی جا کر جائزہ لیا تھا۔ وہاں کے لوگوں سے انٹرویو کیے تھے اور عدالتی کارروائی کا جائزہ لیا تھا۔ اس نے اس واقعے پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام Betrayal of India ہے۔ مصنف کا نام ایلیاس ڈیوڈسن (Elias Davidson) ہے۔ اس کتاب میں دستاویزی ثبوتوں کے ذریعے اس حملے کا مرتکب بھارتی حکومت کو قرار دیا گیا ہے۔ جاوید اختر کو چاہیے وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں پھر پاکستان اور پاکستانیوں پر الزام تراشی کریں۔
گزشتہ دنوں بھارتی دانش ور جاوید اختر فیض احمد فیض کی سالگرہ کے سلسلے میں منعقدہ ثقافتی میلے میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے۔ انھوں نے یہاں ایک سیشن میں شرکت کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں ممبئی میں مبینہ حملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے حملہ آور پاکستان میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بات ایسے ہی نہیں کہی، دراصل ایسا کہنا اور پاکستان پر الزام تراشی کرنا ان کے لیے وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔
وہ اپنی سیکولر طبیعت اور اپنے مسلمان نام کی وجہ سے بی جے پی کے غنڈوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے وہ صرف مسلمانوں کی نہیں سیکولر لوگوں کی بھی دشمن بنی ہوئی ہے۔ اس کے غنڈوں کو اقلیتوں اور بھگوا فلسفے کے خلاف بولنے والے بھارتی دانش وروں کو تنگ کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ جاوید اختر کی آزاد خیالی اور فلم انڈسٹری کے صاحب ثروت لوگوں میں شامل ہونے کی وجہ سے انھیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے اکثر تنگ کرتے رہتے ہیں حالانکہ جاوید اختر بی جے پی کی انتہا پسند دیش بھگتی کے ساتھ ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بی جے پی کے ہندوتوا کے فلسفے کے بھی کافی قریب ہیں۔ وہ بھارتی مسلمانوں کو بی جے پی جیسی دیش بھگتی کی نصیحت بھی کرتے رہتے ہیں اور خود کو اپنے والد کی طرح مسلمان نہیں مانتے۔
جبکہ ان کے مقابلے میں بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور فن کار اور دانشور نصیر الدین شاہ بی جے پی کے انتہا پسند فلسفے کو قبول کرنے کو بھارت کے انصاف اور امن پسند لوگوں کے لیے توہین خیال کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے خیالات میں بہت فرق ہے۔ گوکہ جاوید اختر خود کو بھارت کا مایہ ناز سپوت ظاہرکرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی بی جے پی والے انھیں محبت وطن نہیں سمجھتے اور اکثر ان کو چھیڑتے رہتے ہیں چنانچہ حالات کو دیکھتے ہوئے جاوید اختر اپنی حب الوطنی کا اظہار گاہے بہ گاہے کرتے رہتے ہیں۔ کئی سال پہلے انھوں نے جموں کشمیر میں مسلمانوں پر آفت ڈھانے والی بھارتی فوج کی پیراملٹری فورس جسے سی آر پی ایف کہا جاتا ہے کے لیے ایک ترانہ لکھا تھا جس میں اس کے ظالم اور دہشت گرد فوجیوں کی دل بھر کے تعریف کی گئی تھی۔
اس نظم میں اسے امن کا پیامبر اور عوام کا دوست قرار دیا گیا تھا جبکہ اس کے جوانوں نے مقبوضہ جموں کشمیر میں دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ حریت پسندوں کو سرعام گولی مارنا، گھروں میں چھاپے مارنا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کے خلاف مقامی آبادی نے بہت احتجاج کیا ہے مگر کچھ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ وہ کسی بھی حریت پسند کو گولی مار سکتی ہے کشمیریوں کو گرفتار کرنا اور جیلوں میں بغیر مقدمہ چلائے برسوں رکھنا اور مسلسل اذیت دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ اب ہم آتے ہیں جاوید اختر کے ممبئی حملے میں پاکستان کو نشانہ بنانے کی بات پر۔
دراصل جاوید اختر نے یہ بات صرف اور صرف اپنے بھارتی ہونے کے دعوے کو مضبوط کرنے اور بی جے پی حکومت اور اس کے غنڈوں کو خوش کرنے کے لیے کہی ہے۔ انھیں اس جھوٹ یعنی کہ بغیر کسی تحقیق کے بھارتی پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی کرنے سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا ان کی تعریف کے پل باندھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو دھوم مچی ہوئی ہے کہا جا رہا ہے کہ "واہ جاوید بھائی! آپ نے تو دشمن کو گھر میں گھس کر مارا ہے" اب بی جے پی کے بعض لیڈر بھی جو ان پر اکثر تنقید کے تیر چلاتے رہتے تھے ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ چلو اچھا ہوا کہ اس طرح انھوں نے خود کو محب وطن ثابت کر کے بی جے پی کے غنڈوں سے خود کو اور اپنی بیوی کو شاید محفوظ بنا لیا ہے۔ اس سے انھیں بھارتی انتہا پسندوں کی نظر میں کچھ تو وقعت حاصل ہوگئی ہوگی مگر ہوا یہ ہے کہ ان کی دانشوری اور حقیقت پسندی کی پول بھی کھل گئی ہے۔ ممبئی حملے کو وہ صرف اور صرف بھارتی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی پراپیگنڈے پر یقین کر رہے ہیں یہ ان جیسے امن کے علم بردار اور انسانیت کا دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے لیے ذلت کا مقام ہے۔
ممبئی حملوں کا تعلق سراسر مسئلہ کشمیر سے ہے اس سلسلے میں عالمی سطح پر اس پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے اور مسئلہ کشمیر پر اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے اس وقت کی کانگریسی حکومت نے بی جے پی کے دہشت گردوں سے یہ حملہ کروایا تھا۔ ان دہشت گردوں نے اس دہشت گردی کے دوران ممبئی پولیس کے ایک بڑے افسر پروفل کرکرے کو بھی ہلاک کردیا تھا۔ اس کی بیوی نے خود اس واقعے کی پول کھول دی تھی کہ یہ حملہ پاکستان نے نہیں خود بھارت سرکار نے کرایا تھا۔
بعد میں اس کا منہ بند کرنے کے لیے ایک بھارتی وزیر اس کے گھر پر ایک بڑی رقم کا چیک دینے بھی آیا تھا جسے اس خاتون نے لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ جاوید اختر کی غلط بیانی کا دفاع کرنے والے پاکستانی حضرات کو بھی یہ حقیقت پتا ہوگی۔ اس حادثے کے سلسلے میں بھارت کی جانب سے جو کہانی گھڑی گئی تھی اس پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، صرف پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی صحافی اور دانش ور بھی اسے ماننے کو تیار نہیں تھے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک کشتی میں کچھ نوجوان پاکستان کے ساحل سے سمندر میں سیکڑوں میل کا سفر کرکے ممبئی پہنچ جائیں اور راستے میں بھارتی نیوی اور کوسٹ گارڈ نہ روکیں پھر دوسرا جھوٹ یہ کہ ان نوجوانوں نے پورا دن پورے ممبئی میں قتل و غارت گری کی اور انھیں روکنے والا کوئی نہیں تھا، کیا ممبئی پولیس اور دوسرا سیکیورٹی اسٹاف اس دن چھٹی پر تھا؟ یہ پوری من گھڑت کہانی تھی جسے کسی ملک نے پذیرائی نہیں بخشی، صرف امریکی حکومت نے بھارت سے وابستہ اپنے مفادات کی خاطر اس ڈرامے کو پذیرائی بخشی تھی اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
صرف امریکی دباؤ کی وجہ سے اس وقت کی پاکستانی حکومت نے اس کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کرلیا تھا جس کے بعد امریکی دباؤ پر ہی پاکستان میں اس مقدمے کا آغاز ہوا اور یہ مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے مگر ثبوتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ پتا نہیں اس کا کیا نتیجہ نکلے گا کیونکہ جب کسی پاکستانی نے ایسا کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے تو ثبوت کہاں سے آئیں گے۔ یہ مقدمہ بھارت میں چلا اور ایک معصوم پاکستانی نوجوان کو نہ کردہ جرم کی سزا میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اس نوجوان کے بارے میں بعد میں پتا چلا کہ وہ نیپال سیر و تفریح کے لیے گیا ہوا تھا اسے کبھی بھارتی "را" نے پکڑ لیا تھا۔ چونکہ دنیا کو دکھانے کے لیے جھوٹ کو سچ ثابت کرنا تھا ساتھ ہی پاکستان کو بدنام کرنا تھا چنانچہ اس نوجوان کو بغیر کسی گواہ و ثبوت کے کئی سال دکھاوے کا مقدمہ چلا کر موت کی سزا دے دی گئی تھی۔
ممبئی حملے کی ایک یہودی مصنف نے اپنی تحقیقی کتاب کے ذریعے پول کھول کر رکھ دی ہے۔ اس نے اس حملے کا خود ممبئی جا کر جائزہ لیا تھا۔ وہاں کے لوگوں سے انٹرویو کیے تھے اور عدالتی کارروائی کا جائزہ لیا تھا۔ اس نے اس واقعے پر ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام Betrayal of India ہے۔ مصنف کا نام ایلیاس ڈیوڈسن (Elias Davidson) ہے۔ اس کتاب میں دستاویزی ثبوتوں کے ذریعے اس حملے کا مرتکب بھارتی حکومت کو قرار دیا گیا ہے۔ جاوید اختر کو چاہیے وہ اس کتاب کا مطالعہ کریں پھر پاکستان اور پاکستانیوں پر الزام تراشی کریں۔