نفسیاتی امراض معاشرے میں کونسے مسائل کو جنم دے سکتے ہیں
ذہنی صحت سے جڑے مسائل، آگاہی کی کمی اور حکام کی لاپرواہی معاشرے کو گھٹن زدہ بنا رہی ہے
آج گاؤں میں پھر سب کے پاس ایک موضوع گفتگو ہے، اور موضوع کوئی نیا نہیں وہی پرانا۔
دن کا آغاز تو اس روز رشید کے گھر میں معمول کے مطابق ہوا تھا مگر پھر شور اٹھا تو سب کے کان کھڑے ہوئے۔ اس شور سے گاؤں کے کم و بیش سب ہی لوگ مانوس ہیں وہی مخصوص آوازیں ، مخصوص باتیں ۔۔۔ اب تو ارد گرد کے رہنے والوں کو سب ازبر ہوچکا۔
اسی شور میں ڈرے سہمے بچے کندھوں پہ کتابوںکا بوجھ لادے سکول کی جانب روانہ ہوئے۔کچھ دیر بعد رشید کی بیوی تھیلا اٹھا کر لنگڑاتے ہوئے، چہرے پر نیل کے نشان لیے سبزی والے کی دکان پہ آئی۔
ساتھ کھڑی پڑوسن نے اس سے ازراہِ ہمدردی سوال کیا '' کیا ہوا '' جس پہ وہ سسکی بھر کے کہنے لگی '' آج پھر ہوائی چیزوں نے بہت مارا'' پھٹے ہوئے تھیلے کو اُٹھائے وہ پژمردگی کی تصویر بنی تھی۔ رشید پچھلے پندرہ برس سے ایسی حالت کا شکار تھا۔
اسے نوجوانی میں ہی دورے پڑنا شروع ہوگئے تھے جن کے نتیجے میں وہ عجیب و غریب برتاؤ کا مظاہرہ کرتا تھا۔ کبھی وہ خود کو نقصان پہنچاتا تو کبھی دوسروںکو اور یوں لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس پر ہوائی چیزوںکا اثر ہوگیا ہے۔ اسکے والدین کئی جوگیوں اور باباؤں کے ہاں گئے مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ ان کا اصل امتحان تب شروع ہوا جب رشید نے شادی پر اصرار رکرنا شروع کر دیا۔
گاؤں میں کوئی بھی اپنی لڑکی ایسے شخص سے بیاہنے کو تیار نہ تھا۔ اس پہ قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ دور کے ایک گاؤں کی ایک رشتے کروانے والی خاتون نے لڑکے کے والدین کو اندھیرے میں رکھ کر جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ کرا دیا گیا ۔ شادی کا شروع کا عرصہ تو ٹھیک گزرا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ شادی سے سب صحیح ہوگیا ہے۔ پر جب اس کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی تو رشید کو پھر سے اسی طرح کے دورے پڑنا شروع ہوگئے۔
یوں ان کی زندگی میں ایک بے سکونی کا دور شروع ہوا۔ بات جب بڑھنے لگی تو رشید کے ماں باپ نے اس کی بیوی کو بھی یہی سمجھایا اور بتایا کہ اس پہ ہوائی چیزوں کا اثر ہے اور خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔ اور یوں اس کی شادی کو بارہ برس بیت گئے لیکن وہ ٹھیک نہ ہوا۔اس دوران وہ تین بچوںکا باپ بھی بن گیا مگر زندگی نارمل روٹین پہ نہ آسکی ۔
پھر کسی این جی او کی جانب سے گاؤں میں ایک کیمپ لگایا گیا اور اس دوروزہ کیمپ نے رشید کی زندگی کو ایک نیا موڑ دیا ۔
کیمپ میں شامل ایک ڈاکٹر نے جب لوگوں کی زبانی سنا کہ رشید پہ ہوائی چیزوں کا اثر ہے تو اس نے رشید سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اسے اپنے پاس شہر بلا کر اس کا علاج شروع کروایا جس میں ماہر نفسیات نے بتایا کہ یہ تمام حالت کسی ہوائی مخلوق کی بدولت نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بیماری کا شاخسانہ ہے اور مسلسل علاج سے اس کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔
بہت سے افراد جہالت اور کم علمی کی وجہ سے اپنے مسائل کی اصل جڑ تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں جس کا نقصان صرف وہی نہیں ان سے جڑے لوگوں کو بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اپنے اندر نجانے کتنے امراض کی آماجگاہ بنے ہیں مگر اپنی شعوری، معاشرتی اور معاشی کمزوری کی بنا پر کوئی بھی تدبیر کرنے سے نالاں ہیں۔
ذہنی امراض کی بات کی جائے تو ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو نفسیاتی مسائل سے دوچار نہ ہو۔ مگر سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ ان مسائل کو ابتدائی سطح پہ قابل اعتنا نہ جاننا ذہنی امراض کو جنم دیتا ہے اور یوں لوگ ذہنی مریض کے بجائے پاگل کہلائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی نفسیاتی الجھنوں کو حل کرنے سے اس لئے بھی کتراتے ہیں کہ انھیں معاشرہ پاگل کہے گا اور صرف انھیں ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کو بھی اس کیٹگڑی میں شمار کیا جائے گا جس سے معاشرے میں ا ن کی ساکھ متاثر ہوگی۔
اگر کوئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو تو لوگ ناصرف اس فرد سے کنارہ کرتے ہیں بلکہ اس کے خاندان سے رشتہ تعلق رکھنا تو درکنار ان سے سماجی میل جول بھی پسند نہیں کرتے۔ معاشرے کایہ رویہ جہاں لوگوں کی بے حسی اور جاہلانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے وہیں یہ رویہ مسائل کا شکار افراد کے لئے زہر قاتل کا کام کرتا ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انسان معاشرتی حیوان ہے اور کسی کو پہنچائے جانے والی بڑی اذیت جسمانی نہیں نفسیاتی ہوتی ہے۔
جب سماج آپ سے بائیکاٹ کر لے، روابط لپیٹ لے اور منہ موڑ لے تو اس میں جو ذہنی اذیت کسی انسان کو ملتی ہے وہ جسمانی اذیتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔انسان فطرتاً حساس ہے اور اس حساسیت کا اندازہ اسی بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اچھے انداز میں کلام نہ کرے تو بھی انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ زندگی میں درپیش آنے والے حالات اور واقعات انسان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں یوں ہی جیسے کسی کا کوئی اپنا ایک دم چلا جائے تو اس کی زندگی کا ڈھب ، سوچنے کا انداز اور جذبات متاثر ہوں گے جو کہ ایک قدرتی سی بات ہے ۔
لیکن یہ سب اگر اس قدر متاثر ہونے لگے کہ اس کی سماجی زندگی کٹ کر رہ جائے اور وہ ایک تصوراتی دنیا کا باسی بن جائے تو یہ خطرناک بات ہے۔
جس پہ شاید وہ انسان خود تو نہیں مگر اس کے قریب رہنے والے افراد کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ علامات اشارہ کرتی ہیں کہ اب اس شخص کو مدد کی ضرورت ہے۔ آئے روز اخبارات اور سوشل میڈیا پہ آئی خبریں دل دہلا دیتی ہیں جہاں لوگ اپنی حالات سے تنگ آکر خودکشی جیسے حرام فعل کو اپنے لئے آخری جائے پناہ سمجھتے ہیں۔
ایک انسانی جان سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز قیمتی نہیں ہوتی لیکن درجنوں لوگ غربت و افلاس سے تنگ آکر خودکشیاں کرتے ہیں اور جو لوگ سسک سسک کر جی رہے ہیں اور ذہنی ، معاشی ، معاشرتی دباؤ کا شکار ہیں ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔
ہر نئی آنے والی حکومت عوام سے صحت کی سہولیات یقینی بنانے کا وعدہ تو کرتی ہے پرکسی کے بھی دعوؤں کی سچائی کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ عوام کو روزی روٹی کے مسائل میں اس قدر الجھا دیا گیا کہ وہ اپنی صحت کا خیال تو درکنار اس فکر میں گھل کر روز جیتے اور مرتے ہیں کہ پیٹ کی آگ کیسے بھجائیں۔
ذہنی صحت کے شعبے کو ویسے ہی کسی حکومت نے اپنے مینڈیٹ کاحصہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بادی النظر میں دیکھاجائے تو ذہنی صحت کوئی تنہا پہلو نہیں جب عوام کو جان و مال عزت و آبرو ، معاش اور تعلیم و صحت کے مواقع میسر آئیں گے تو خود بخود ایک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔ مگر ملکی حالات لوگوں کی ذہنی صحت کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کرتے ہیں جس کا نتیجہ کبھی نفسیاتی مسائل تو کبھی جرائم کی بڑھتی شرح کی صورت میں ملتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دنیا میں ذہنی صحت کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق دنیا بھر کی آبادی میں 970ملین افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جس میں خواتین کی شرح 52.4فیصد جبکہ مردوں کی شرح47.6فیصد ہے۔
یوں رپورٹ کے مطابق دنیا کی 14فیصد آبادی مختلف نفسیاتی امراض کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔جس میں اکثریت ڈیولپمینٹل ڈس آرڈر اور اٹینشن ڈیفیسٹ ڈس آرڈر کا شکار ہے ۔ اور چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ گزشتہ بیس برس سے نفسیاتی امراض میں جو ممالک سر فہرست ہیں وہ غریب ممالک نہیں بلکہ ایسے ممالک ہیں جن کی آمدنی زیادہ ہے جبکہ کم آمدنی والے ممالک بھی اس کے قریب تر ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شمال مشرقی ایشیاء ذہنی امراض کا شکار خطوں میں 13.2فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر آتا ہے۔
اس فہرست میں امریکہ 15.6فیصد کے ساتھ سر فہرست ہے اور یورپ اس کے قریب ترین۔تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ نفسیاتی امراض کا شکار دیگر لوگوں کی نسبت 10سے 20برس پہلے مر جاتے ہیں۔ یوں خودکشی کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہر ایک لاکھ میں سے 9 افراد خودکشی کرتے ہیں اور 58فیصدخودکشیاں لوگ 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے کرلیتے ہیں۔ اور خودکشیوں میں کم آمدن والے ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔
جس سے یہ پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ معاشی طور پر آزاد معاشروں میں ذہنی صحت پروان چڑھتی ہے جبکہ جہاں ذرائع آمدن کم اور محدود ہوں وہاں غربت و افلاس اپنے ساتھ بیماریاں پریشانیاں اور ذہنی صحت کے مسائل کا انبار لے کر کرتی ہیں او رلوگ زندگی سے تنگ آکر موت کو گلے لگانا پسند کرتے ہیں۔یہاں آکر شاعر کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
WHOکے مطابق پاکستان میں 30 ملین کے قریب افراد کسی نہ کسی طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہیں اورماہر نفسیات کی تعداد 500سے بھی کم ہے جوکہ ایک بہت بڑا گیپ ہے۔ اکتوبر 2022میں منسٹری آف پلانینگ اینڈ سپیشل انیشیئٹو نے ڈبلیوایچ او کی گائیڈلائنز کے مطابق مینٹل ہیلتھ گائیڈ اور ڈیجیٹل ٹول کیٹ کا اجراء کیا جس کا مقصد کمیونٹی میں ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کو بڑھانا اور ذہنی صحت کے چیلنجز سے نمٹنے کے اقدامات کرنا تھا۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ذہنی امراض کا شکار افرا د کو پھانسی نہیں دی جا سکتی اس کے علاوہ پاکستان میںذہنی و نفسیاتی امراض کے شکار افراد کے لئے ایک آرڈینیس 2001ء میں بنایا گیا جس کا مقصدذہنی امراض کا شکار افراد کو تحفظ فراہم کرنا اور کسی بھی قسم کی زیادتی کا سدباب کرنا ہے، چاہے اس کا تعلق علاج سے ہو یا ان کی جائیداد سے۔ اس میں مختلف سیکشنز ہیں جن میں سے ایک ان کے علاج کے حوالے سے ہے جس میں مریض کا ہسپتال میں داخلہ کیسے ہوگا فیملی لے کر آئے تو کیا ہوگا اور اگر اکیلا ہو تو کیا ہوگا ۔
نیوراٹک النیس کا شکار افراد تو خود آجاتے ہیں لیکن سائیکاٹرک النیس کا شکار جیسے موضوعات پر تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
خود علاج کے لئے رضامند نہیں ہوتے ان کو ان کے خون کے رشتے جیسے ماں باپ بہن بھائی لے کر آئیں تو انھیں داخل کر لیا جاتا ہے۔ مگر زیادہ مسئلہ وہاںہوتا ہے جب لیگل گارڈئن نہ ہو اور ایسی صورت میں اگر ڈاکٹر کو لگے کہ مریض خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو ایک شق جسے ''ایمرجنسی ہولڈنگ'' کہتے ہیں کے تحت اس مریض کو 24 سے72گھنٹوں کے لئے داخل کیا جاسکتا ہے بنا کسی لیگل گارڈین کی ایما کے لیکن ان 72گھنٹوں کے دوران ان کی فیملی کو ٹریس کرنا ہوتا ہے اور ان کی مرضی جاننا ضروری ہوتا ہے۔
پولیس والے اگر کسی ایسے مریض کو لے کر آئیں تو انھیں ساتھ مجسٹریٹ کا آرڈر لے کر آنا ہوتا ہے اور فیملی کو ٹریس کرنا ہوتا ہے۔
اس سب میں علاج کے اخراجات ریاست اٹھاتی ہے۔ پھر ایسے مریضوں کی بیماری سے عموماً فائدہ اٹھا کر ان کی زمین و جائیداد لوگ ہتھیا لیتے ہیں تو اس کے حوالے سے گارڈین مقرر کر دیتے ہیں تاکہ ان کے وہ حقوق محفوظ رہیں۔
پھر ایسے مریضوں کی ذاتی معلومات اور نجی زندگی کے حوالے سے تحفظ کو یقینی بنانا بھی اس کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ خاص قسم کے ٹریٹمنٹ پروسیجز جیسے کہ بجلی کے جھٹکے وغیرہ ان میں مریض کا علاج کیسے کرنا ہے جس سے مریض کے حقوق محفوظ رہیں۔
بلا شبہ مایوسی گناہ ہے۔ ہمارے ہاں ابتر معاشی اور سماجی حالات سے بہت سے لوگ پریشان ہیں جس سے ان میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔مگر بحیثیت انسان اور مسلمان ہمارا یقین رب کائنات پہ ہونا چاہئے کہ اگر آج مشکل ہے تو کل آسانی ہوگی۔ آزمائشیں زندگی کا حصہ ہیں۔اور زندگی میں کامیاب وہی لوگ ہوا کرتے ہیں جو مشکل وقت کو صبر و استقامت سے گزارتے ہیں۔ لیکن اس سب میں حکام کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی ۔
عوام کی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ اور صحت کی ضمانت ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ذہنی امراض میں مبتلا افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں جو کہ اپنے مسائل کے حل کے لئے توجہ کے طالب ہیں۔ ذہنی صحت پرآگاہی کی کمی کو دور کرکے اوراسے معاشرتی ممنوعات سے نہ جوڑ کر ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کو سائیکو سوشل سپورٹ کی ضرورت نہ ہو : ڈاکٹر اظہار
ڈاکٹر اظہارالحق ہاشمی معروف معالج اور سماجی کارکن ہیں وہ مختلف شعبہ جات زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وہ اخوت کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور فاونٹین ہاؤس کے گورننگ بورڈ کا بھی حصہ ہیں اور قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے مشیر ہیں ۔
ڈاکٹر اظہار الحق ہاشمی سے جب پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے رہے سائنسی اور تحقیقی سطح پر کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے مریضوں کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں اور اگر کوئی ڈیٹا ہے بھی تو وہ مخصوص جگہوں کا ہے جس میں سرکاری اور نجی اداروں میں علاج کے لئے آنے والوں کی معلومات ہیں مگر جو لوگ ہسپتالوں تک رسائی نہیں رکھتے ان کا کوئی حساب نہیں۔ذہنی امراض کے شکار افراد کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔
اور جہاں تک تحقیقی سطح پہ کام اور کنٹریبوشن کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے دودہائی پہلے اس پہ کام کرنے کی کوشش کی گئی ہوگئی آج ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس ماہر امراض نفسیات کی تعداد بہت کم ہے جو کہ ڈھائی سو سے تین سو کے درمیان ہوگی جوکہ مسائل کا شکار افراد کی ایک بڑی تعداد کے لئے ناکافی ہے۔
سائیکالوجسٹ تو ہیں پر ان میں بھی ٹریننگ کی کمی ہے اور اس طرح سے فعال نہیں ہیںجیسا کہ ہونا چاہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس کو سائیکوسوشل سپورٹ کی ضرورت نہ ہو۔ جو ملکی صورتحال ہے۔
اس میں ہر شخص ذہنی دباؤ اور ٹینشن میں مبتلا ہے۔ مگر حکومت کی ترجیحات میں عوام کی ذہنی صحت شامل نہیں۔ اور اسی وجہ سے جو کام دوسرے ممالک تحقیقی و سائنسی حوالے سے کرتے ہیں ہمارے ملک میں اس سے کام چلا لیا جاتا ہے۔
فاؤنٹین ہاؤس میں موجود افراد کے حوالے سے ان کاکہنا تھاکہ وہاں آئے لوگوں کو مختلف مشاغل میں مصروف عمل رکھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو نارمل زندگی کی طرف لایا جائے ۔
ان میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں کو تو گھر والے مڑ کر دیکھنے بھی نہیں آتے مگریہاں ان کو عید اور دیگر تہواروں پراپ ڈیٹ رکھتے ہیں ان کو گھر جیسا ماحول دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
نفسیاتی امراض کے علاج کو ممنوعہ سمجھنا سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ڈاکٹرنعمان
ڈاکٹرنعمان احمد پنجاب انسٹیٹوٹ آف مینٹل ہیلتھ سانئسز کے شعبہ نفسیات و ذہنی امراض و منشیات سے منسلک ہیں اور اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔
وہ اپنی فیلڈ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ جب ان سے ذہنی امراض کی وجوہات کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کو کسی ایک چیز سے نہیں جو ڑ سکتے اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسا کہ عموماً اسے نفسیات میں ہم تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جو بائیولوجیکل ، سائیکولوجیکل اور سوشل فیکٹرز ہوتے ہیں۔ عموماً لوگ ذہنی امراض اور نفسیاتی امراض کو ایک تصور کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔
ذہنی امراض کا تعلق ذہن کی ساخت میں آنے والی تبدیلوں سے ہوتا ہے جیسے کسی کو فالج ہوجائے، برین ٹیومر یا عمر بڑھنے کے ساتھ ڈیمنشیا وغیرہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے جس میں جسمانی کمزوری، زبان میں لکنت یا یاداشت کی کمزوری کی صورت علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جبکہ نفسیاتی امراض میں ذہن کی ساخت متاثر ہونا وجہ نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق انسان کے موڈ، برتاؤ، سوچوں ، اپنی ذات کے حوالے سے امور کے متاثر ہونے سے ہوتا ہے۔
جیسے ایک دم غصہ کرنا، بے ربط باتیں، عجیب برتاؤ ، نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنااور اپنی ذاتی صحت و صفائی کا خیال نہ رکھنا شامل ہیں۔ معاشرتی و معاشی مسائل یقیناً ایک سبب بنتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے جس سے اینگرائٹی،پینک اٹیکس، موڈ سونگز اور او سی ڈی جیسے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو کہ نیوروٹک النیس میں شمار کئے جاتے ہیں۔
دوسری طرف سائیکاٹرک النیس ہیں جو کہ ایسی نفسیاتی کیفیات ہیں جن میں انسان کا تعلق حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے جنھیں لوگ عام زبان میں ذہنی مریض بھی کہتے ہیں یہ ایسی کیفیات ہوتی ہیں جن میں عموماً مریض خیالی دنیا میں رہنے لگتے ہیں جن میں شیزوفرینیا، مینیا اور پرسنیلٹی ڈس آرڈر شامل ہیں ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں رائج عقائد مریض کو صحیح وقت پہ طبی مدد پہنچانے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔
لوگ مریض کے پراسرار رویوں کو عموماً آسیب اور بھوت پریت کا چکر سمجھ کر ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں جس سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے جیسے تحقیق کے مطابق شیزوفرینیا میں اگر مریض کو بروقت طبی امداد دی جائے تو اس کے نارمل انداز میںزندگی گزارنے کے 39فیصد چانسز بڑھ جاتے ہیں اور 35-40فیصد ادویات کے سہارے ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار پاتے ہیں۔
البتہ قریباً بیس فیصد ایسے افراد ہوتے ہیں جو مرض کی شدت کی وجہ سے نارمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ جب ان سے نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی ایک نارمل زندگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو ڈاکٹر نعمان کا کہنا تھا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ غلط تصور رواج پاچکا ہے کہ ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار افراد کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔
علاج اور ادویات کا استعمال کرنے سے وہ مکمل عام افراد کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں اورجہاں تک بات ہے کہ ایسے لوگوں کی ازدواجی زندگی کیسے چلتی ہے اور ایسے خاندان میں رشتہ کرنا کیسا ہے تو ہم موروثیت کے کردار کو بالکل نظر انداز تو نہیں کر سکتے مگر یہ کوئی طے شدہ امر نہیں کہ اگر خاندان میں کوئی مریض ہے تو سب ہی ایسے ہوں گے۔
ماں اور باپ میں سے کوئی ایک نفسیاتی مریض ہو تو ریسرچ کے مطابق ایک فیصد چانس ہوتا ہے کہ اولاد میں بھی یہ بیماری ہو اور اگر دونوں ہوں تو یہ تین فیصد امکان ہے تو یہ تصور لوگوں کے دماغ کی اختراع ہے ۔ ہاں جیسے او سی ڈی جس میں اکثر مریضوں کو ہاتھ دھونے کی عادت ہوتی ہے تو ایسے میں وہ بچوںکو بھی اس سارے عمل سے گزارنے پر بضد ہوتے ہیں تو یوں بچوںپہ اس کا اثر پڑ سکتا ہے یا اگر والدین ڈپریشن یا دیگر بیماریوںکا شکار ہیں تو اس پر بچوں کے اندر خوف ڈر اور دیگر مسائل تو پیدا ہوسکتے ہیں۔
جن کا تعلق حالات سے ہے جینز سے نہیں۔ وہ علامات جن پہ کسی کو بھی چوکنا ہو جانا چاہیئے ان میں رویے،خیالات، عادات،کھانے اور سونے کی روٹین میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔ سب سے اہم پیغام جو اس پلیٹ فارم کے تعاون سے پہچانا ہے وہ یہ کہ ذہنی امراض کو ممنوعات میں شمار نہ کریں اور علاج میں تاخیر نہ کریں یہ بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کسی کو شوگر یا بلڈ پریشر ہو یا کوئی بھی دوسری بیماری۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں مت ہچکچائیں۔
فاونٹین ہائوس کیوں بنایا گیا؟
فائونٹین ہائوس پاکستان میں ذہنی و نفیساتی امراض کے افراد کو زندگی کے دھارے میں لانے کی کوشش کرنے والا ایسا ادارہ ہے جہاں پناہ دی جاتی ہے۔اسے سماجی بہبود کے لئے رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی ایجنسیوں کے آرڈینیس کے تحت 1963ء میں قائم کیا گیا۔
اس کا سنگ بنیاد رکھنے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر رشید چودھری اور ان کے ساتھی شامل تھے۔اس کا بنیادی مقصد شیزوفرینیا کے مریضوں کی بحالی تھا جس میں بعد ازاں دیگر ذہنی امراض سے متاثر افراد کی بحالی اور ذہنی معذور بچوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا ئوں کی تعلیم و تربیت جیسے پروجیکٹس کو بھی شامل کر لیا گیا۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1971ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ افراد کو انڈور پیشنٹ، دو لاکھ افراد کو آوٹ ڈور پیشنٹ کے طور پر علاج کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ لاہور، فاروق آباد، سرگودھامیں فعال ہے۔
جہاں مریضوں کو مختلف تھراپیز کے ذریعہ مصروف عمل رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کے لئے ایسے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں جس کے ذریعے وہ نارمل لوگوںکی سی زندگی گزار سکیں۔