معاشی بحران صائب حل کا متقاضی

ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی و کامرانی کی ڈگر پر چلانا سیاسی قیادت کا کام ہے

ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی و کامرانی کی ڈگر پر چلانا سیاسی قیادت کا کام ہے۔ فائل فوٹو

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود17فیصد سے بڑھا کر20فیصد کردی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کے لیے پالیسی ریٹ پر ڈیڈ لاک برقرار تھا، جسے بظاہر ختم کرنے کے لیے شرح سود کو20فیصد تک لے جایا گیا ہے جو 1996کے بعد بلند ترین شرح ہے۔

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مہنگائی اور بیرونی مالیاتی چیلنجز کی بنا پر کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب ڈالر اٹھارہ روپے کی لمبی چھلانگ لگا کر 285 روپے ہونے سے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ایک عارضی ریلیف ہوسکتا ہے مگر پاکستان کو اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنا ہوگی۔

اسٹیٹ بینک کے تین فی صد شرح سود بڑھانے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے ایکسچینج ریٹ میں استحکام آئے گا اور مارکیٹ میں غیر یقینی کی فضا ختم ہونے سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب نقصان یہ ہوگا یہ جس رفتار سے اقتصادی ترقی جاری ہے، اس کی رفتار مزید کم ہو جائے گی، یعنی کاروباری سرگرمیاں کم ہو جائیں گی اور کاروباری قرضے چڑھ جائیں گے اور سرمایہ کاروں کے پاس سرمایہ کاری کے لیے کم پیسے رہ جائیں گے اور شرح سود بڑھنے سے پاکستان میں معیشت کی شرح نمو میں کمی ہوجائے گی۔

شرح سود اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ملک میں تیار کی جانے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ بالخصوص اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر اثر پڑے گا کیونکہ ملک میں زرعی شعبہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے، فصلیں خراب ہونے کی وجہ سے ملک کی ضرورت کی بیش تر اشیا دیگر ممالک سے درآمد کی جا رہی ہیں۔

IMFکی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں اور سخت و کڑی شرائط پر قرضوں کی فراہمی کی یقین دہانی پر حکومتی رضامندی پر عوامی حلقوں میں گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے بے تحاشا ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد اور شرح سود بڑھانے سے کاروبار بری طرح تباہ ہونے کا اندیشہ ہے، جس سے کاروباری حلقوں سمیت عام افراد شدید مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے، جب کہ مہنگائی سے اشرافیہ اور مراعات یافتہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے متاثر صرف اور صرف مڈل کلاس طبقہ ہو رہا ہے۔

پاکستان کے ہر باشندے کا حق ہے کہ اس کی خون پسینے کی کمائی سے تنخواہ لینے اور مراعات لینے والوں کے اثاثے اور ان کی جانب سے دیے جانے والے ٹیکسز کی تفصیل تک انھیں رسائی حاصل ہو، لیکن ان تفصیلات کو عوام سے پوشیدہ اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اگر اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے اثاثے اور ٹیکس نہ دینے کی مکمل تفصیلات سامنے لائی گئیں ، تو اس طبقے کے خلاف سخت عوامی ردِ عمل کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔

اس نئے اضافے کے بعد قرض لینے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قرضہ لینے والوں کو بینک سے معاہدے کے تحت چھ ماہ تو فِکس ریٹ ہوتا ہے لیکن اس کے بعد کائیبور کے حساب سے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔

اس لحاظ سے اب ہر قرض دار کو اضافی رقم ادا کرنی ہو گی۔ ملک میں کار فنانسنگ پہلے ہی مشکل ہونے کی وجہ سے کم ہو گئی تھی، اب اور متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ گھر کی خریداری یا بنانے کے لیے لون لینے والے بھی اب سوچیں گے۔ یہ حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

حکومت ادھار پر چلتی ہے اور ادھار کی اب ادائیگی بھی زیادہ کرنا پڑے گی۔ پاکستان میں کام کرنے والی بیشتر کمپنیاں بینکوں سے قرض لے کر کام کرتی ہیں۔ اب 20 فیصد مرکزی بینک کی ادائیگی کرنا ہو گی اور اس سے ہٹ کر پانچ سے چھ فیصد ادا کرنا ہوتے ہیں۔


اس طرح ایک لاکھ کے قرض کی ادائیگی اب ایک لاکھ 25 ہزار کرنا ہو گی اور کوئی کمپنی یہ بوجھ خود پر نہیں لے گی۔ بالآخر یہ پیسے عوام سے مہنگائی کی صورت میں ہی وصول کیے جائیں گے۔ موجودہ حالات میں کاروبار 25 فیصد منافع کمانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں لہٰذا اتنی مہنگی شرح پر قرضہ لینے کے لیے کون جائے گا ؟ یہ اقدام صنعت کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا جب کہ افراط زر میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کے لیے سنگین مسائل پیدا کرے گا۔

دوسری جانب ڈالر کی قیمت کو افغان بارڈر کے ریٹ کے مساوی لانے کی آئی ایم ایف کی شرط شرح سود اور ڈالر کی بڑھتی قیمت تباہ حال معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

پاکستان کے ادارہ شماریات نے رواں ہفتے بدھ کو جاری کی گئی تفصیلات میں بتایا ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں گزشتہ ماہ فروری میں سال بہ سال 31.5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو 1974 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اشیائے خورونوش سمیت دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں45 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام شرائط آنکھیں بند کرکے مان رہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کو معاشی بد حالی سے نہیں نکال سکتا ، ارجنٹائن اور مصر کی مثالیں سامنے ہیں جنھوں نے ایک کے بعد ایک قرض پروگرام لیا مگر وہ قرضوں میں جکڑتے گئے۔ دنیا بھر میں یہ پالیسی ناکام ہو رہی ہے، برازیل، چلی، ہنگری، نیوزی لینڈ، ناروے، پیرو اور جنوبی کوریا نے بھی شرح سود بڑھا کر مہنگائی کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے جو ناکام ہوگئی ہے۔

شرح سود میں تین فیصد اضافے سے مقامی قرضوں میں ایک ہزار ارب روپے کا مزید اضافہ ہوجائے گا اگر ایک سال تک 19 سے 20 فیصد تک شرح سود برقرار رہتی ہے تو حکومت صرف مقامی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں پر سات ہزار ارب روپے سالانہ ادا کرے گی۔ سود کی ادائیگیاں وفاقی اور صوبائی پی ایس ڈی پی سے پانچ گنا ہیں۔ پاکستان وفاق اور صوبائی حکومتوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 1500 ارب روپے کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ سود کی ادائیگیاں سات ہزار ارب روپے تک ہوجائیں گی۔

ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی و کامرانی کی ڈگر پر چلانا سیاسی قیادت کا کام ہے اور اِس میں ناکامی پر اُسے مورد الزام ٹھہرایا بھی جا سکتا ہے اور کامیابی پر اُس کی ستائش بھی کی جا سکتی ہے۔ اِس وقت پاکستان کی جو سیاسی صورت حال ہے اُس کو سیاسی و معاشی بحران کا سامنا ہے، بنیادی طور پر معاشی بحران ہی سیاسی بحران کی بنیاد ہے جس کی وجہ سے ملک ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔

معاشی مسائل پر نظر ڈالیں تو وہ مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر دھوپ میں رکھی برف کی مانند پگھلتے جا رہے ہیں اور آٹا ہے کہ غریب عوام کی پہنچ سے تقریباً باہر ہو چکا ہے۔ لوگ لمبی قطاروں میں لگ کر آٹا لینے پر مجبور ہو چکے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس صورت حال سے کیسے نکلنا ہے کیونکہ مسائل کے پہاڑ اب ماؤنٹ ایورسٹ بنتے جا رہے ہیں۔

آئی ایف ایم نے بھی پاکستان کو دی گئی شرائط میں نرمی سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے آگے مشکلات کا ایسا طوفان کھڑا ہے جس سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے ، اُس کے لیے سوچ بچار کا عمل ضروری ہے۔

ماضی میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کی بات کی تھی کہ ملکی معیشت کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے اور معیشت کی درستگی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تو صحیح معنوں میں یہ وقت ہے جس کے لیے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے غور کرنا ہو گا ، اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے گا تو پھر پاکستانی عوام کے لیے اُس میں ایسا مہنگائی کا طوفان چھپا ہوگا جس کا سامنا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

پٹرول کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، بجلی کی قیمتیں آسمان پر لے جانا ہوں گی الغرض ہر وہ چیز جس سے پیسہ بنایا جاسکے ، اُس کو مہنگا کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ سری لنکا جیسی شرائط کا اطلاق پاکستان پر بھی کیا جائے، اگر ایسا وقت آیا تو پھر لا محالہ سب کو اکٹھا بیٹھ کر اُس کا حل نکالنا ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ سیاستدان کب ملک کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گے، ویسے بھی کہتے ہیں کہ ملک سیاستدانوں نے بنایا تھا، سیاستدان ہی اُس کو چلا سکتے ہیں اور اگر سیاستدان ہی اُس کے مسائل کی جڑ ہیں تو مسائل کا حل بھی وہی نکال سکتے ہیں کیونکہ ٹیکنو کریٹ یا اِس طرز کا نظام حکومت پاکستان کو کبھی بھی موافق نہیں آیا۔

میثاق معیشت کے لیے ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے روادار سیاست دان اکٹھے ہو گئے تو یقینا پاکستان نہ صرف مشکل سے نکل جائے گا بلکہ پاکستان کو کسی کی شرائط بھی نہیں ماننا پڑیں گی۔
Load Next Story