مہنگائی کا ریکارڈ

مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی اور وفاقی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے

عرصہ دراز ہوا پاکستان میں معاشی ترقی کے ریکارڈ نہیں ٹوٹ رہے۔ بڑی صنعتوں کی ترقی کے ریکارڈ نہیں ٹوٹ رہے، فی کس آمدنی میں اضافے کے ریکارڈ نہیں ٹوٹ رہے، ترسیلات زر میں اضافے کے ریکارڈ نہیں ٹوٹ رہے، صحت عامہ کی بہتری کے ریکارڈ ، شرح تعلیم میں اضافے کے ریکارڈ نہیں ٹوٹ رہے۔

2000 میں نئی صدی کے آغاز کے ساتھ اقوام متحدہ نے غربت کے خلاف جنگ کا آغازکیا تھا اور غربت میں ریکارڈ کمی لانے کے لیے 2015 کی تاریخ دی تھی۔

پاکستان نے اس پر اپنے وعدوں کی یقین دہانی کرائی تھی۔ بہت سے ملکوں نے غربت کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کر کے اپنے اپنے ملکوں میں غربت میں بہت زیادہ کمی کے ریکارڈ توڑ دیے۔

انھوں نے مہنگائی میں کمی کر ڈالی، کئی ملکوں کے معاشی اعشاریوں پر نظر ڈالی تو حیرت انگیز طور پر مہنگائی کی شرح ایسی ہے جیساکہ ایک ، دو ، تین ، چار ، پانچ۔ یہ ان کی تقریباً چوبیس سالہ کارکردگی سمجھیے اور پاکستان نے مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

فروری 23 میں مہنگائی کی شرح 31.55 فی صد رہی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ادارے کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ فروری میں دیہی علاقوں میں غذائی افراط زر 47 فی صد جب کہ شہری علاقوں میں 42 فی صد رہا۔ بتایا جا رہا ہے کہ مہنگائی کا 48 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

1974 میں مہنگائی کی شرح 33 فی صد تھی، چونکہ ان 48 سالوں میں معاشی شرح نمو معاشی ترقی معاشی شرح افزائش لوگوں کی فی کس آمدن اور دیگر جیساکہ اوپر ذکر کیا ان کے ریکارڈ تو نہ ٹوٹ سکے البتہ مہنگائی کا ریکارڈ 1974 کے مقابلے میں ٹوٹا ہے لہٰذا 48 سال قبل چلتے ہیں۔

ابھی تک نیا نیا ہی ٹوٹا تھا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ یوں سمجھیے کہ 1970تک تیل فی بیرل 2 ڈالر پھر تیل کی صنعت کو عربوں نے قومیا لیا اس کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور فی بیرل تیل 10 ڈالر تک بھی پہنچ رہا تھا۔ پاکستان نے اپنے کرنسی روپے کی قدر کو 131 فی صد گھٹا دیا تھا۔1972 میں صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی نے ملکی مصنوعات کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے۔

پہلے فیکٹری چلانے والے پشت در پشت جنھیں جدی پشتی سیٹھ کہتے ہیں اپنے کاروباری سوجھ بوجھ طویل ترین تجربات کے ساتھ کارخانے ملیں فیکٹریاں چلا رہے تھے وہ سب یکدم باہر ہوگئے اور صنعتوں کو قومیا کر سرکاری ملازموں کو چلانے کے لیے دے دیا گیا۔


ظاہر ہے صنعتی ترقی کو متاثر ہونا ہی تھا۔ اس طرح کے حالات کے سبب مہنگائی کا بڑھنا لازمی امر تھا ، لہٰذا ان دنوں مہنگائی کی شرح 33 فیصد تک جا پہنچی۔ لیکن آج کل مہنگائی کے دیگر خارجی یعنی عالمی پیمانے پر مہنگائی کے علاوہ داخلی سطح پر ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری ، اسمگلنگ مختلف کارخانوں، ملوں کا آپس میں ملی بھگت کر کے مصنوعات کے ریٹ بڑھا دینا سب سے زیادہ کردار آئی ایم ایف کا بھی ہے جس کے مطالبات در مطالبات اور ہر مطالبے پر سر تسلیم خم ہے ، کیونکہ سر پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔

لہٰذا حکومت غریب عوام سے قربانی طلب کر رہی ہے ملک میں سیاسی کشیدگی بھی عروج پر ہے کوئی بھی سیاسی جماعت ہو ، وہ صرف سیاست اور سیاست ہی کھیل رہی ہے صرف آئی ایم ایف کی آنیاں جانیاں اور ڈالرکے تگڑے ہونے سے کافی شکست و ریخت ہوتے رہنا یہ چند باتیں ہیں جو حکومت کی نظر میں ہیں۔

ورنہ غریب عوام کس حال میں ان غریبوں کے بچے ننگے پیر پھر رہے ہیں، بچوں کو پڑھانے کے لیے فیس کے پیس نہیں لہٰذا کروڑوں بچے اسکول سے باہر پھر رہے ہیں، ان حالات میں پھر مہنگائی کے ہی ریکارڈ ٹوٹیں گے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے مہنگائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے لیکن اس کے ساتھ اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔

1958 میں ملک میں جب مارشل لا لگا دیا گیا اس کے ساتھ ہی ملک میں مہنگائی کے خلاف اقدامات شروع کردیے گئے ، ذخیرہ اندوزوں ، اسمگلروں ، اشیا کی قلت پیدا کرنے والوں ، ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

ایک معمر شخص نے اپنی آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر کراچی آئے تو فریئر ہال میں ان کو عصرانہ دیا گیا ، جس میں شرکت کرکے انھوں نے کھانے پینے کی اشیا جو میز پر سجی تھیں ان سے کوئی رغبت نہ دکھائی۔ گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نے انتہائی سخت تقریر کرتے ہوئے آگاہ کیا یا تنبیہ کی کہ اگر کوئی تاجر مل اونر صنعت کار کسی بھی قسم کی ذخیرہ اندوزی اسمگلنگ یا دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث پایا گیا تو قانون اسے سخت سزا دے گی اور رعایت کا وہ مستحق نہ ہوگا۔

ایک بزرگ تاجر سرگودھا کے ابوالبلال میاں محمد مرحوم نے مجھے بتایا تھا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں حکومت کے سخت ترین اقدامات ان پر عملدرآمد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کہیں ان کے گوداموں ذخیرہ گاہوں پر چھاپے کے باعث وہ پکڑے نہ جائیں۔ اس وقت تاجروں نے ہزاروں، لاکھوں روپے کا ذخیرہ کیا ہوا مال بہت سے تاجروں نے دریا برد کردیا تھا۔ یعنی وجہ یہی تھی کہ قانون پر عمل درآمد کا یقین تھا۔

یہ بھی معلوم تھا کہ نہ کوئی رشوت چلے گی نہ سفارش۔ لہٰذا قیمتیں مستحکم رہیں، مہنگائی نہ ہوئی۔ لہٰذا وزیر اعظم صاحب نے اگر یہ کہا ہے کہ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا ایسی صورت میں مہنگائی کنٹرول کرنے کے اقدامات عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

ناجائز منافع خوروں کو اس بات کا یقین آجائے کہ اب قانون حرکت میں آچکا ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سخت سے سخت سزا مل کر رہے گی۔ بصورت دیگر ملکوں کے برعکس پاکستان میں مہنگائی کا گراف بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی غربت بے روزگاری کا گراف بھی مزید بڑھتا ہی رہے گا۔ مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی اور وفاقی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
Load Next Story