اوراقِ گوادر

گوادر سے متعلق ان رپورٹوں سے گوادر کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کا پتہ چلتا ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan March 04, 2023
[email protected]

بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر غربت و افلاس کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔

بلوچستان کے گزشتہ 75سال کے واقعات کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ صوبے کے عوام صرف اپنے معاشی استحصال کے خاتمہ کی جدوجہد میں صف آراء نہیں بلکہ اپنی زبان اور ادب کو بچانے کی بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں باشعور طبقہ ترقی و خوشحالی کے لیے عدم تشدد کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ عدم تشدد پر یقین رکھنے والے اور ہتھیاروں کو مسائل کا حل نہ سمجھنے والے نوجوان معیاری ادب تخلیق کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا واحد صوبہ بلوچستان ہی ہے جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور کتابیں پڑھنے والے نوجوانوں میں اکثریت بلوچ نوجوانوں کی ہے۔

سوشل میڈیا پر گشت کی جانے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت کے ادبی میلہ میں 35 لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں۔ گوادر میں ادبی میلہ میں 20 لاکھ روپے کے قریب کتابیں فروخت ہوئی تھیں۔ بلوچستان کے مختلف موضوعات پر کتابوں کی اشاعت معمول کی بات بن کر رہ گئی۔

ڈاکٹر شبیر رند بلوچ کا تعلق کچھ مکران کی تاریخی بستی کھنہ سے ہے ، وہ بنیادی طور پر طبیب ہیں۔ انھوں نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم ایس پبلک ہیلتھ اور پی ایچ ایم کی ڈگری آغا خان یونیورسٹی کراچی سے حاصل کی۔ گوادر ایک قدم شہر ہے۔ یہ کبھی ریاست قلات میں شامل تھا ، پھر سلطنت عمان کو دے دیا گیا۔

انگریز حکومت نے پورے ہندوستان میں خفیہ ایجنسیوں کا جال بچھایا ہوا تھا۔ ڈاکٹر شبیر رند نے ان انگریز اہلکاروں کی خفیہ رپورٹوں جو 1873سے 1951 تک محیط ہیں کا اردو میں ترجمہ کیا اور 385 صفحات پر مشتمل ایک تاریخی دستاویز مرتب ہوئی۔ اس کتاب میں 96 کے قریب مختلف معاملات کے بارے میں رپورٹوں کا ترجمہ موجود ہے۔ پاکستان میں عوامی تاریخ تحریر کرنے کا آغاز کرنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی ، متعدد کتابوں کے مصنف گل حسن کلمتی اور ڈاکٹر ریاض شیخ نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات تحریر کیے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ برطانوی دور حکومت میں یہ روایت تھی کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ذریعے ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والی صورتحال سے حکومت کو آگاہ کرتے تھے۔ اگرچہ رپورٹیں انتظامیہ کو بہتر بنانے کے لیے ہوتی تھیں لیکن اب یہی رپورٹیں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اور کاروبار سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تاریخ کا ماخذ بن گئیں۔

گوادر سے متعلق ان رپورٹوں سے گوادر کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ ان تمام رپورٹوں سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ گوادر ایک انتہائی پسماندہ شہر تھا جہاں لوگوں کو ان کی روزمرہ ضروریات کی اشیاء بھی مشکل سے دستیاب ہوتی تھیں۔

اس کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ نہ تو قانون کی بالادستی تھی اور نہ ہی عدالتی نظام کی، اس لیے قاتل قتل کر کے اور چور چوری کر کے فرار ہو جاتے تھے اور ان کو اپنے کیے کی سزا نہیں ملتی تھی۔

ان رپورٹوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علاج معالجہ کی سہولتیں ناپید تھیں اور کہیں اسپتال کا بھی ذکر نہیں ہوتا جہاں پر علاج کا تصور ہوتا۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ اگرچہ گوادر اس وقت بھی بندرگاہ تھی ، بندرگاہ عموماً تجارت کا مرکز ہوتی ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بندرگاہ کے رابطے اندرون ملک کے علاقوں سے نہیں ہیں۔ اس لیے آمدورفت کا سلسلہ کم رہا۔ ان رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عام لوگ انتہائی غربت کی حالت میں تھے۔

معروف محقق گل حسن کلمتی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت کسی ملک یا علاقہ پر قبضہ سے پہلے اپنے اہلکار ان علاقوں میں سروے کے لیے بھیجتی تھی جو اکثر سیاحوں کے روپ میں آتے تھے۔ یہ لوگوں کے بود وباش، تجارت، آپس کی چپقلش، بری و بحری راستوں کا سروے کر کے رپورٹیں بنا کر اپنی حکومت کو بھیجتے تھے۔

قبضہ کے بعد بھی جو اہلکار مقرر کیے جاتے تھے وہ روزانہ کی بنیاد پر سیاسی، سماجی، ثقافتی جھگڑوں اور مردم شماری و کاروبار وغیرہ پر رپورٹیں حکومت کو بھیجتے تھے۔ ڈاکٹر شبیر رند بلوچ نے برطانوی حکومت کے اہلکاروں کی خفیہ رپورٹیں اردو میں ترجمہ کر کے '' اوراق گوادر '' کے نام سے ہم تک پہنچائی ہیں۔ اوراق گوادر، گوادر اور مکران کے اس وقت کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں ۔

اس وقت گوادر عمان کے ولی عہد کے زیر تسلط تھا۔ بلوچستان کے باقی علاقے (مغربی بلوچستان کے سوا) بظاہر خان آف قلات کے کنٹرول میں تھے لیکن عمل دخل برطانوی حکومت کا تھا۔ گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ 1871ء میں انگریزوں نے سرحدوں کے نام پر ثالثی کے بجائے فارس کے مفادات کا خیال رکھا۔ اس سرحدی کمیشن کے سربراہ انگریز اہلکار میجر گولڈ اسمتھ تھے۔ سرحدی کمیشن کے اجلاسوں میں خان آف قلات کے نمایندوں کی دلچسپی بہت کم رہی۔ اس لیے سب کچھ فارس کی حکومت کی منشاء کے مطابق ہوا۔

سرحدوں کے سروے کے وقت بھی خان آف قلات اور بلوچوں کا کوئی نمایندہ شامل نہیں تھا ۔ مکران اور قلات کی پرانی چپقلش کی وجہ سے خان آف قلات کو مکران (مشرقی و مغربی) کے معاملات کی ٹیکس کی وصولی کے علاوہ کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کلمتی کا بیانیہ ہے کہ اوراق گوادر میں جو رپورٹیں شامل ہیں ان میں بہت ہی دلچسپ اور تاریخی معلومات ملتی ہے۔ معروف سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے چند الفاظ کے عنوان سے لکھا ہے کہ '' تاریخ وہ المیہ ہے جس میں ہم اپنے ماضی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

اپنے حال اور مستقبل کا نہ صرف جائزہ لیتے ہیں بلکہ مستقبل کی پیش بندی بھی کرسکتے ہیں۔ انسان کا اپنے سماجی، ثقافتی اور سیاسی تاریخ کو رقم اور محفوظ کرنے کا پرانا اور قدیم طریقہ ہے۔

کبھی یہ تاریخ تصویروں اور مجسموں کی صورت میں محفوظ کی گئی تو کبھی تحریری صورت میں لیکن تاریخ کا ایک اہم ماخذ زبانی تاریخ بھی ہے جو کہ سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل کو قصہ ، کہانیوں اور روایتوں کی صورت میں منتقل ہوئی۔ کسی تاریخ کو رقم کرنے کے مختلف زاویے میں کبھی مذہبی بنیادوں پر لکھی گئی تو کبھی نسلی اور علاقائی بنیادوں پر ، کبھی فاتحین نے دیگر پر قابض ہونے کے بعد اور اپنے مفتوحین کو قتل یا غلام بنانے کے لیے ان کی تاریخ کو مسخ کیا۔

ڈاکٹر ریاض شیخ کا مدعا ہے کہ ان رپورٹوں کے مطالعہ سے کئی اہم سماجی، سیاسی اور ثقافتی پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان رپورٹوں کو بشریاتی (Anthropological) تناظر میں مزید گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معلومات کے اس خزانہ کا مزید بہتر استعمال کیا جاسکے اور سماج میں تبدیلی کے عمل کو گہرائی سے سمجھا جاسکے۔ کتاب کے مترجم ڈاکٹر شبیر رند بلوچ نے عرض مترجم کے عنوان سے لکھا ہے کہ یہ اوراق گوادر مکران کے اس وقت کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں جب بلوچستان برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔

دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے یہاں ماہی گیری کی صنعت بھی کافی متاثر ہوئی ۔ ڈاکٹر شبیر رند بلوچ نے ایک تاریخی دستاویز کامریڈ واحد بلوچ ، ڈاکٹر اصغر دشتی اور ان کی اہلیہ رائمہ علی کے تعاون سے مرتب کی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ انتہائی مف

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں