جادو جنات اورعملیات پہلا حصہ
حکمران کو دیوتا، دیوتا زادہ، ظل اللہ اور سایہ خدائے ذوالجلال بنایا گیا
یہ سلسلہ بہت پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے کہ طویل ،پرمشقت اورصبرآزما راستوں سے گبھرا کر انسان ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے اور انسان کی اس جدی پشتی کمزوری سے فائدہ اٹھانے والے بھی ہمیشہ ساتھ ساتھ چلے آئے ہیں ۔
چنانچہ جتنا جتنا کوئی معاشرہ ناہموار ہوتا ہے ،زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے اورانسان بے یارومدد گار ہوتاہے، اتنا ہی عملیات ٹونے ٹوٹکوں، منتر جنتر اور اس طرح کے دیگر خرافات کا بازار بھی گرم ہوتاجاتا ہے حالانکہ قدرت کے بنائے ہوئے اس خود کار اور انجینئرڈ نظام کائنات میں ایسی کسی بھی چیزکی گنجائش نہیں ہے اور اس کے لیے ہمیں ان قوانین فطرت کو سمجھنا پڑے گا، قدرت کے اس نظام اور خود کار کارخانے میں کوئی بھی چیز پیدائش ،حرکت اور تبدیلی اچانک اور حادثاتی نہیں ہوتی، ہر ہرچیز یا پیدائش یاحرکت یا تبدیلی کے پیچھے ایک پورا عمل اور ردعمل کاسلسلہ ہوتا ہے، بقول قابل اجمیری ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس ہمہ گیر خود کار اور نہایت باریکی سے انجینئرڈ کیے ہوئے نظام کو قانون الٰہی یا سنت الٰہی کہاگیا ہے اوراس کے بارے میں دوٹوک کہاگیاہے کہ ؎
ترجمہ۔ قانون الٰہی میں کوئی بھی تبدیلی ہرگزہرگزممکن نہیں۔
تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی گندہ ،غلیظ اور دودو پیسے کے دکاندار اس سنت الٰہی کو روک کر تبدیلی کر سکیں، تعویذات، عملیات، دم پف ،گنڈوں گانٹھوں یا چند الفاظ اور نقش ونگار سے۔ بے اولادوں کو اولاد یا اولاد نرینہ یا کسی بیماری سے نجات اور تعیشات عطا کر دیں، دوچار ٹکوں کے عوض لوگوں کو مالامال کردیں، پیشن گوئیاں کردیں اور ناقابل علاج امراض کو شفا دلائیں بلکہ وہ کام بھی جو ناجائزاور حرام ہوتے ہیں۔ یہ تو صاف صاف قانون الٰہی کو روکنا اور خدا کے بھی نعوذ بااللہ برابر ہونے کا دعویٰ کرنا ہے ۔
یہ بات میں نے پہلے بھی کئی موضوعات کے سلسلے میں کہی ہے کہ قدرت نے ہر ہرچیز میں اپنے اپنے ''خواص'' رکھے ہیں جنھیں ہم ملکہ بھی کہہ سکتے ہیں، زہر میں زہرکے خواص ہوتے ہیں اور تریاق میں تریاق کی صفات ہوتی ہں اور یہی خواص ہی ان کی ''عبادات '' ہوتی ہیں۔
زہر اگر مارے تویہ اس کی عبادت ہے اوراگر نہ مارے تو یہ اس کی ''نافرمانی'' ہوگی اوراگر تریاق زہرکاکام کرے تو یہی اس کی بغاوت اور نافرمانی ہوتی ہے چنانچہ امراض کے جراثیم یا وائرس یا عوامل تک ساری چھوٹی بڑی مخلوقات کااپنا اپنا کام ہوتا ہے جس سے انحراف وہ ہرگز نہیں کرسکتے تو اس میں انسان کی کیا اوقات ہے جو مداخلت کرسکے ،چاہے وہ کتنا ہی برگزیدہ کیوں نہ ہوں انتہائی نیک لوگ بھی اگر زہرکھائیں گے، گولی، توپ یا تلوار کے سامنے آئیں گے توخود کو نہیں بچا سکتے کہ ان سب کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔
اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں، کوئی بے اولاد ہے، کمزورہے، ناکام ہے، غریب ہے، محبت میں ناکام ہے تو ان سب حالتوں کے اپنے اپنے اسباب ہوتے ہیں ۔سب سے بڑاظلم اس سلسلے میں یہ کیاجاتا ہے کہ یہ سارا ابلیسی کاروبار مذہب کے نام اور سائے تلے ہوتاہے، اس قسم کے اشتہار ہم روزانہ پڑھتے ہیں جس کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ
کون کہتا ہے کہ کلام یا دعا اثر نہیں کرتی ، پھر کسی ماہرعامل کامل نے وہ کام گنوائے ہوتے ہیں، بیماری سے نجات، محبت میں کامیابی، مقدمات میں جیت، دولت کی فراوانی، کاروبار میں برکت ،بیروزگاروں کو روزگار، یہاں تک کہ لڑکوں اور شادی شدہ خواتین کے عشق میں بھی کامیابی ،دشمن کی تباہی۔
اور یہ وہ غلیظ ناپاک ، بداعمال لوگ کرتے ہیں جو خود چند روپے کے لیے یہ جال بچھائے ہوئے ہوتے ہیں ، دراصل اس شیطانی کاروبار کی ابتداء اور ترقی بھی ناہموار معاشروں میں ہوتی ہے اور یہ اس زمانے سے شروع ہوا ہے جب مندر اور محل ،تلواراور قلم کتاب، حاکم اور مذہبی پروہیت میں ساجھے داری ہوگئی تھی ۔
اول اول تو لٹیرے نے ہتھیار لہرا کر محافظ اورحکمران کاروپ دھارن کرلیا اورکافی عرصے تک اس کاکاروبار چلتا رہا لیکن جب انسان ایک جسم سے بڑھ کر دماغ کا مالک ہوگیا تو صرف تلوار قابو میں رکھنے کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگی اورکسی ایسے ہتھیار کی ضرورت پڑگئی جو جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی قابو کرسکے۔اسی مرحلے پر مندر اورمحل کے درمیان ایک مستقل اورغیر تحریری معاہدہ ہوگیا کہ عوام نام کی اس گائے کو تم بھی ''دوہو'' اور مجھے بھی ''دوہنے دو''۔
من ترا ملابگویم تو مرا حاجی بگو
یوں اس اشرافیہ کی بنیاد پڑی جس میں ان دو بڑے ساجھے داروں کے ساتھ ساتھ کچھ اورچھوٹے چھوٹے ساجھے دار اورمددگار بھی ملتے گئے۔
حکمران کو دیوتا،دیوتا زادہ، ظل اللہ اور سایہ خدائے ذوالجلال بنایا گیا اوراس کے ساتھ شیئرہولڈروں میں قلم و کتاب والوں شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں کی ایک ٹولی بھی شامل ہوتی گئی اور جب ان ساجھے داروں یا دوطرفہ لوٹ مار سے ''عوامیہ'' کا استحصال زدہ طبقہ تنگ آجاتا اور بجنگ ہونے کو ہوتا تو مذہبی پروہیت ان کو سمجھاتا کہ دیوتا تم سے ناراض ہیں، کچھ لاؤ تاکہ ہم ان کو نذر نیازکے ذریعے تم پر مہربان کریں ،شاعر وصورت گر ان کو ایک نامعلوم ''کل'' کے خواب دکھاتے ۔۔
ہم دیکھیں گے وہ دن جس کاوعدہ ہے
کہتے ہیں کہ ڈوبنے والے کو تنکے کاسہارا بھی غنیمت لگتاہے چنانچہ اس مایوسی کے عالم میں یہ دم تعویذ عملیات اورکراما ت والے بھی اپنی دکانیں سجا لیتے اور سجارہے ہیں ،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ آج نہیں تو کل تم کو اپنی محنت کا پھل مل جائے گا۔
غرض تصورشام وسحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوار ودر میں جیتے ہیں
آخر کار جنت کے تصور میں جان سے گزرکر خاک میں مل جاتے ،منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، ناامیدی اس کی دیکھاچاہیے۔
(جاری ہے)
چنانچہ جتنا جتنا کوئی معاشرہ ناہموار ہوتا ہے ،زندگی گزارنا دشوار ہوتا ہے اورانسان بے یارومدد گار ہوتاہے، اتنا ہی عملیات ٹونے ٹوٹکوں، منتر جنتر اور اس طرح کے دیگر خرافات کا بازار بھی گرم ہوتاجاتا ہے حالانکہ قدرت کے بنائے ہوئے اس خود کار اور انجینئرڈ نظام کائنات میں ایسی کسی بھی چیزکی گنجائش نہیں ہے اور اس کے لیے ہمیں ان قوانین فطرت کو سمجھنا پڑے گا، قدرت کے اس نظام اور خود کار کارخانے میں کوئی بھی چیز پیدائش ،حرکت اور تبدیلی اچانک اور حادثاتی نہیں ہوتی، ہر ہرچیز یا پیدائش یاحرکت یا تبدیلی کے پیچھے ایک پورا عمل اور ردعمل کاسلسلہ ہوتا ہے، بقول قابل اجمیری ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس ہمہ گیر خود کار اور نہایت باریکی سے انجینئرڈ کیے ہوئے نظام کو قانون الٰہی یا سنت الٰہی کہاگیا ہے اوراس کے بارے میں دوٹوک کہاگیاہے کہ ؎
ترجمہ۔ قانون الٰہی میں کوئی بھی تبدیلی ہرگزہرگزممکن نہیں۔
تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی گندہ ،غلیظ اور دودو پیسے کے دکاندار اس سنت الٰہی کو روک کر تبدیلی کر سکیں، تعویذات، عملیات، دم پف ،گنڈوں گانٹھوں یا چند الفاظ اور نقش ونگار سے۔ بے اولادوں کو اولاد یا اولاد نرینہ یا کسی بیماری سے نجات اور تعیشات عطا کر دیں، دوچار ٹکوں کے عوض لوگوں کو مالامال کردیں، پیشن گوئیاں کردیں اور ناقابل علاج امراض کو شفا دلائیں بلکہ وہ کام بھی جو ناجائزاور حرام ہوتے ہیں۔ یہ تو صاف صاف قانون الٰہی کو روکنا اور خدا کے بھی نعوذ بااللہ برابر ہونے کا دعویٰ کرنا ہے ۔
یہ بات میں نے پہلے بھی کئی موضوعات کے سلسلے میں کہی ہے کہ قدرت نے ہر ہرچیز میں اپنے اپنے ''خواص'' رکھے ہیں جنھیں ہم ملکہ بھی کہہ سکتے ہیں، زہر میں زہرکے خواص ہوتے ہیں اور تریاق میں تریاق کی صفات ہوتی ہں اور یہی خواص ہی ان کی ''عبادات '' ہوتی ہیں۔
زہر اگر مارے تویہ اس کی عبادت ہے اوراگر نہ مارے تو یہ اس کی ''نافرمانی'' ہوگی اوراگر تریاق زہرکاکام کرے تو یہی اس کی بغاوت اور نافرمانی ہوتی ہے چنانچہ امراض کے جراثیم یا وائرس یا عوامل تک ساری چھوٹی بڑی مخلوقات کااپنا اپنا کام ہوتا ہے جس سے انحراف وہ ہرگز نہیں کرسکتے تو اس میں انسان کی کیا اوقات ہے جو مداخلت کرسکے ،چاہے وہ کتنا ہی برگزیدہ کیوں نہ ہوں انتہائی نیک لوگ بھی اگر زہرکھائیں گے، گولی، توپ یا تلوار کے سامنے آئیں گے توخود کو نہیں بچا سکتے کہ ان سب کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے ۔
اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں، کوئی بے اولاد ہے، کمزورہے، ناکام ہے، غریب ہے، محبت میں ناکام ہے تو ان سب حالتوں کے اپنے اپنے اسباب ہوتے ہیں ۔سب سے بڑاظلم اس سلسلے میں یہ کیاجاتا ہے کہ یہ سارا ابلیسی کاروبار مذہب کے نام اور سائے تلے ہوتاہے، اس قسم کے اشتہار ہم روزانہ پڑھتے ہیں جس کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ
کون کہتا ہے کہ کلام یا دعا اثر نہیں کرتی ، پھر کسی ماہرعامل کامل نے وہ کام گنوائے ہوتے ہیں، بیماری سے نجات، محبت میں کامیابی، مقدمات میں جیت، دولت کی فراوانی، کاروبار میں برکت ،بیروزگاروں کو روزگار، یہاں تک کہ لڑکوں اور شادی شدہ خواتین کے عشق میں بھی کامیابی ،دشمن کی تباہی۔
اور یہ وہ غلیظ ناپاک ، بداعمال لوگ کرتے ہیں جو خود چند روپے کے لیے یہ جال بچھائے ہوئے ہوتے ہیں ، دراصل اس شیطانی کاروبار کی ابتداء اور ترقی بھی ناہموار معاشروں میں ہوتی ہے اور یہ اس زمانے سے شروع ہوا ہے جب مندر اور محل ،تلواراور قلم کتاب، حاکم اور مذہبی پروہیت میں ساجھے داری ہوگئی تھی ۔
اول اول تو لٹیرے نے ہتھیار لہرا کر محافظ اورحکمران کاروپ دھارن کرلیا اورکافی عرصے تک اس کاکاروبار چلتا رہا لیکن جب انسان ایک جسم سے بڑھ کر دماغ کا مالک ہوگیا تو صرف تلوار قابو میں رکھنے کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگی اورکسی ایسے ہتھیار کی ضرورت پڑگئی جو جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی قابو کرسکے۔اسی مرحلے پر مندر اورمحل کے درمیان ایک مستقل اورغیر تحریری معاہدہ ہوگیا کہ عوام نام کی اس گائے کو تم بھی ''دوہو'' اور مجھے بھی ''دوہنے دو''۔
من ترا ملابگویم تو مرا حاجی بگو
یوں اس اشرافیہ کی بنیاد پڑی جس میں ان دو بڑے ساجھے داروں کے ساتھ ساتھ کچھ اورچھوٹے چھوٹے ساجھے دار اورمددگار بھی ملتے گئے۔
حکمران کو دیوتا،دیوتا زادہ، ظل اللہ اور سایہ خدائے ذوالجلال بنایا گیا اوراس کے ساتھ شیئرہولڈروں میں قلم و کتاب والوں شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں کی ایک ٹولی بھی شامل ہوتی گئی اور جب ان ساجھے داروں یا دوطرفہ لوٹ مار سے ''عوامیہ'' کا استحصال زدہ طبقہ تنگ آجاتا اور بجنگ ہونے کو ہوتا تو مذہبی پروہیت ان کو سمجھاتا کہ دیوتا تم سے ناراض ہیں، کچھ لاؤ تاکہ ہم ان کو نذر نیازکے ذریعے تم پر مہربان کریں ،شاعر وصورت گر ان کو ایک نامعلوم ''کل'' کے خواب دکھاتے ۔۔
ہم دیکھیں گے وہ دن جس کاوعدہ ہے
کہتے ہیں کہ ڈوبنے والے کو تنکے کاسہارا بھی غنیمت لگتاہے چنانچہ اس مایوسی کے عالم میں یہ دم تعویذ عملیات اورکراما ت والے بھی اپنی دکانیں سجا لیتے اور سجارہے ہیں ،پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ آج نہیں تو کل تم کو اپنی محنت کا پھل مل جائے گا۔
غرض تصورشام وسحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوار ودر میں جیتے ہیں
آخر کار جنت کے تصور میں جان سے گزرکر خاک میں مل جاتے ،منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، ناامیدی اس کی دیکھاچاہیے۔
(جاری ہے)