عوام کے مفادات اور حکومت کی ذمے داری
آئی ایم ایف کی عقابی نظر بھی ایسے سیکٹرز پر ہے جہاں سے فوراً وصولیاں ممکن ہو جاتی ہیں
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے اوپر لے جائیں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو بلکہ 10 ارب ڈالر سے بھی بڑھ جائیں۔
انھوں نے مالی مشکلات کے حوالے سے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے دالیں، گندم اور کھاد درآمد کر رہے ہیں جس پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ جب سیلاب نہیں آیا تھا، تو ان ایام میں بھی دالیں، گندم، کھادیں حتیٰ کہ چینی اور کپاس بھی درآمد کی جا رہی تھی بلکہ بہت ساری سبزیاں بھی چین، افغانستان اور ایران کے راستے آ رہی تھیں۔
کئی پھل بھی درآمد کیے جا رہے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ سیلاب کی وجہ سے یہ چیزیں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، کچھ زیادہ ذہن کوبھاتا نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آج کل زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے درآمد مشکل ہو گئی ہے۔ ان دنوں امپورٹر حضرات بھی خاصی مشکل میں ہیں کیونکہ انھیں ڈالر میسر نہیں جس کی وجہ سے ایل سی وغیرہ نہیں کھل رہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ غیر ضروری ایل سیز کو اسٹیٹ بینک نے ترجیحات میں نہیں رکھا ہے، اب یہ اسٹیٹ بینک جانے اور اس کے ماہرین، لیکن یہ حقیقت تو سامنے ہے کہ ایل سیز نہیں کھل رہیں۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ہمیں بجٹ کو احتیاط سے تیار کرنا پڑے گا ورنہ ہم بلیک میل ہوں گے، کوشش ہے ڈالر کی اسمگلنگ کو روکا جائے، اربوں روپے کے ری فنڈ پر شبر زیدی کو جیل میں ہونا چاہیے، چین نے دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ہم نے تقریباً 6.5 ارب کی بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جن میں دو ارب چینی بینکوں جب کہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں تصدیق کی ہے کہ چائنیز بینک آئی سی بی سی نے تمام کارروائی مکمل ہونے پر پاکستان کے لیے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ رول اوور کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان کو چائنیز بینک سے یہ رقم تین قسطوں میں ملے گی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ٹویٹ میں مزید کہنا ہے کہ 50 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط اسٹیٹ بینک کو موصول ہوچکی ہے۔ چائنیز بینک سے پچاس کروڑ ڈالر ملنے کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔
چین نے مشکل وقت میں مدد کر کے پاکستان کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں لیکن اصل سوال پھر وہیں ہے کہ عوام کو ریلیف کیسے ملے گا اور حکومت کے پاس اس حوالے سے کیا طریقہ کار موجود ہے۔ فی الحال تو ایسا کوئی میکنزم نظر نہیں آتا جس پر عمل کر کے عوام کے لیے ریلیف کا بندوبست کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی عقابی نظر بھی ایسے سیکٹرز پر ہے جہاں سے فوراً وصولیاں ممکن ہو جاتی ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس انھی سیکٹرز میں سے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس لگائیں یا قیمت بڑھائیں تو صارفین کو ہر حال میں یہ ٹیکس اور قیمتیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ ایسے سیکٹرز جہاں سے وصولی مشکل ہوتی ہے، آئی ایم ایف اس جانب کم نظر ڈالتا ہے مثلاً ریاستی اور حکومتی مشینری کی تنخواہوں، مراعات اور پنشنز وغیرہ پر جو بھاری خرچ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف یہ تو کہتا ہے کہ یہ غیرپیداواری اور غیرترقیاتی اخراجات خزانے پربھاری بوجھ ہیں لہٰذا ان کو کم کریں تاکہ حکومتی اخراجات میں کمی ہو اور سرکاری خزانے پربوجھ کم ہو لیکن یہ چونکہ قانون اور ضابطوں کا کھیل ہے، طاقتور ریاستی مشینری مختلف قسم کی قانونی موشگافیوں کے ذریعے کاغذات میں تو یہ ثابت کر دیتی ہے کہ کفایت شعاری کے تحت اتنے پیسے بچ گئے ہیں لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔
اس کے لیے سرکار کے پاس ایک آزمودہ نسخہ ہے کہ وہ پہلے سے انکم ٹیکس ادا کرنے والے طبقے پر انکم ٹیکس کا مزید بوجھ ڈال دے، دوسراآزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگائے جائیں، یہ ٹیکس بھی دراصل درمیانے اور غریب طبقے پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ اینڈ یوزر وہی ہوتے ہیں۔
بہرحال زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر اور شرح سود تاریخ ساز بلندی پر پہنچنے کے بعد جمعے کو غیر متوقع طور پر ریورس گئیر میں آگیا اور ڈالر کی قیمت میں کمی آئی۔ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں مسلسل تیسرے ہفتے بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سونے کی مقامی قیمتیں بھی کچھ کم ہوئیں لیکن دوسری اہم خبر یہ ہے کہ عالمی ایجنسی موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کے پانچ بڑے بینکوں کی کریڈٹ ریٹنگ کم کردی ہے۔
ریٹنگ میں کمی پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے بینکاری کے لیے کمزور ماحول کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے پانچ بڑے بینک حکومتی ضمانت سے لیے گئے بیرونی قرضوں میں بڑا حصہ رکھتے ہیں اور معاشی بگاڑ اور پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صلاحیت میں کمی سے بینکوں کی بیلنس شیٹس بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
حکومت کے پاس سرمائے کی کمی، معیشت کو لاحق بیرونی خطرات میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مہنگائی میں مزید شدت آنے کا خدشہ ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے عوام کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بینکوں کے قرض داروں کی قرض لوٹانے کی صلاحیت کافی حد تک متاثر ہورہی ہے۔
موڈیز نے بینکوں کی ریٹنگ کم کرنے میں بھی قرض داروں کی قرض لوٹانے کی صلاحیت میں کمی کو اہم جواز قرار دیاہے۔ بینکوں نے صنعت کے کل ذخائر کا تقریباً 85 فیصد حکومت کو دیا ہے، کیونکہ حکمران مالیاتی اداروں کو پچھلا قرض ادا کرنے کے لیے قرضوں کا انبار لگاتے رہتے ہیں۔ اس کے مطابق حکومت نے کبھی بھی بینکوں کو ادائیگی میں ڈیفالٹ نہیں کیا۔
ادھر اخبار میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ملک میں جاری مالی و ڈالر بحران کے باعث مقامی سطح پر موبائل کی مینوفیکچرنگ یونٹس بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اسمارٹ موبائل فونز کی صنعت سے 4لاکھ افراد کا روز گار وابستہ ہے جوکہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس صنعت کا مسئلہ بھی زرمبادلہ ہی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی کاروبار ہیں جو ایل سی نہ کھلنے کے باعث متاثر ہو رہے ہیں۔
بہرحال اس میں حکومت کی بھی مجبوریاں ہیں، کیونکہ اس وقت حکومت کے لیے سب سے اہم کام زرمبادلہ بچانا ہے۔ویسے بھی پاکستان کو مالی بحران نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ ایک سیکٹر کو توجہ دیتا ہے تو دوسرا سیکٹر متاثر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت کے لیے مالی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو طے کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے حکومت کو ان حالات میں خاصے سخت فیصلے بھی کرنے پڑ رہے ہیں۔
بلاشبہ ان فیصلوں کے اثرات افراطِ زر اور مہنگائی کی صورت میں مرتب ہو رہے ہیں اور عام آدمی کے لیے کچن چلانا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بے روزگاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ انجینئرنگ گریجویٹس کو بھی ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ یہی حال ڈاکٹرز کا ہے۔
اب تو ہنرمند بھی بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یومیہ اجرت پرکام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں کی ایک تو اجرت میں مناسب اضافہ نہیں ہوا ہے اور دوسرا تعمیراتی صنعت متاثر ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کام ملنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
اگر ہم زراعت کی طرف دیکھیں تو چھوٹے اور درمیانے کاشت کاروں کے لیے پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے جب کہ انھیں اپنی فصل کی قیمت خاصی کم ملتی ہے۔ گاؤں سے منڈی تک کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں، منڈی میں بھی اس کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، آڑھتیوں اور مڈل مین کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے کسان کو سخت نقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔
حکومت کو معیشت کے تمام شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ضلع، تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر کسانوں اور پرچون فروشوں کے مفادات کے لیے میکنزم بنانا چاہیے۔
انھوں نے مالی مشکلات کے حوالے سے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے دالیں، گندم اور کھاد درآمد کر رہے ہیں جس پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ جب سیلاب نہیں آیا تھا، تو ان ایام میں بھی دالیں، گندم، کھادیں حتیٰ کہ چینی اور کپاس بھی درآمد کی جا رہی تھی بلکہ بہت ساری سبزیاں بھی چین، افغانستان اور ایران کے راستے آ رہی تھیں۔
کئی پھل بھی درآمد کیے جا رہے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ سیلاب کی وجہ سے یہ چیزیں درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، کچھ زیادہ ذہن کوبھاتا نہیں ہے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آج کل زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے درآمد مشکل ہو گئی ہے۔ ان دنوں امپورٹر حضرات بھی خاصی مشکل میں ہیں کیونکہ انھیں ڈالر میسر نہیں جس کی وجہ سے ایل سی وغیرہ نہیں کھل رہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ غیر ضروری ایل سیز کو اسٹیٹ بینک نے ترجیحات میں نہیں رکھا ہے، اب یہ اسٹیٹ بینک جانے اور اس کے ماہرین، لیکن یہ حقیقت تو سامنے ہے کہ ایل سیز نہیں کھل رہیں۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ہمیں بجٹ کو احتیاط سے تیار کرنا پڑے گا ورنہ ہم بلیک میل ہوں گے، کوشش ہے ڈالر کی اسمگلنگ کو روکا جائے، اربوں روپے کے ری فنڈ پر شبر زیدی کو جیل میں ہونا چاہیے، چین نے دوستی کا ثبوت دیا ہے اور ہم نے تقریباً 6.5 ارب کی بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جن میں دو ارب چینی بینکوں جب کہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں تصدیق کی ہے کہ چائنیز بینک آئی سی بی سی نے تمام کارروائی مکمل ہونے پر پاکستان کے لیے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ رول اوور کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان کو چائنیز بینک سے یہ رقم تین قسطوں میں ملے گی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ٹویٹ میں مزید کہنا ہے کہ 50 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط اسٹیٹ بینک کو موصول ہوچکی ہے۔ چائنیز بینک سے پچاس کروڑ ڈالر ملنے کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔
چین نے مشکل وقت میں مدد کر کے پاکستان کے لیے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں لیکن اصل سوال پھر وہیں ہے کہ عوام کو ریلیف کیسے ملے گا اور حکومت کے پاس اس حوالے سے کیا طریقہ کار موجود ہے۔ فی الحال تو ایسا کوئی میکنزم نظر نہیں آتا جس پر عمل کر کے عوام کے لیے ریلیف کا بندوبست کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی عقابی نظر بھی ایسے سیکٹرز پر ہے جہاں سے فوراً وصولیاں ممکن ہو جاتی ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس انھی سیکٹرز میں سے ہیں۔ ان پر کوئی ٹیکس لگائیں یا قیمت بڑھائیں تو صارفین کو ہر حال میں یہ ٹیکس اور قیمتیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ ایسے سیکٹرز جہاں سے وصولی مشکل ہوتی ہے، آئی ایم ایف اس جانب کم نظر ڈالتا ہے مثلاً ریاستی اور حکومتی مشینری کی تنخواہوں، مراعات اور پنشنز وغیرہ پر جو بھاری خرچ ہو رہا ہے۔
آئی ایم ایف یہ تو کہتا ہے کہ یہ غیرپیداواری اور غیرترقیاتی اخراجات خزانے پربھاری بوجھ ہیں لہٰذا ان کو کم کریں تاکہ حکومتی اخراجات میں کمی ہو اور سرکاری خزانے پربوجھ کم ہو لیکن یہ چونکہ قانون اور ضابطوں کا کھیل ہے، طاقتور ریاستی مشینری مختلف قسم کی قانونی موشگافیوں کے ذریعے کاغذات میں تو یہ ثابت کر دیتی ہے کہ کفایت شعاری کے تحت اتنے پیسے بچ گئے ہیں لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔
اس کے لیے سرکار کے پاس ایک آزمودہ نسخہ ہے کہ وہ پہلے سے انکم ٹیکس ادا کرنے والے طبقے پر انکم ٹیکس کا مزید بوجھ ڈال دے، دوسراآزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگائے جائیں، یہ ٹیکس بھی دراصل درمیانے اور غریب طبقے پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ اینڈ یوزر وہی ہوتے ہیں۔
بہرحال زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر اور شرح سود تاریخ ساز بلندی پر پہنچنے کے بعد جمعے کو غیر متوقع طور پر ریورس گئیر میں آگیا اور ڈالر کی قیمت میں کمی آئی۔ زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں مسلسل تیسرے ہفتے بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سونے کی مقامی قیمتیں بھی کچھ کم ہوئیں لیکن دوسری اہم خبر یہ ہے کہ عالمی ایجنسی موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کے پانچ بڑے بینکوں کی کریڈٹ ریٹنگ کم کردی ہے۔
ریٹنگ میں کمی پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے بینکاری کے لیے کمزور ماحول کی نشاندہی کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے پانچ بڑے بینک حکومتی ضمانت سے لیے گئے بیرونی قرضوں میں بڑا حصہ رکھتے ہیں اور معاشی بگاڑ اور پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی صلاحیت میں کمی سے بینکوں کی بیلنس شیٹس بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
حکومت کے پاس سرمائے کی کمی، معیشت کو لاحق بیرونی خطرات میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور مہنگائی میں مزید شدت آنے کا خدشہ ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے عوام کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بینکوں کے قرض داروں کی قرض لوٹانے کی صلاحیت کافی حد تک متاثر ہورہی ہے۔
موڈیز نے بینکوں کی ریٹنگ کم کرنے میں بھی قرض داروں کی قرض لوٹانے کی صلاحیت میں کمی کو اہم جواز قرار دیاہے۔ بینکوں نے صنعت کے کل ذخائر کا تقریباً 85 فیصد حکومت کو دیا ہے، کیونکہ حکمران مالیاتی اداروں کو پچھلا قرض ادا کرنے کے لیے قرضوں کا انبار لگاتے رہتے ہیں۔ اس کے مطابق حکومت نے کبھی بھی بینکوں کو ادائیگی میں ڈیفالٹ نہیں کیا۔
ادھر اخبار میں شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ملک میں جاری مالی و ڈالر بحران کے باعث مقامی سطح پر موبائل کی مینوفیکچرنگ یونٹس بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اسمارٹ موبائل فونز کی صنعت سے 4لاکھ افراد کا روز گار وابستہ ہے جوکہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس صنعت کا مسئلہ بھی زرمبادلہ ہی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی کاروبار ہیں جو ایل سی نہ کھلنے کے باعث متاثر ہو رہے ہیں۔
بہرحال اس میں حکومت کی بھی مجبوریاں ہیں، کیونکہ اس وقت حکومت کے لیے سب سے اہم کام زرمبادلہ بچانا ہے۔ویسے بھی پاکستان کو مالی بحران نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ ایک سیکٹر کو توجہ دیتا ہے تو دوسرا سیکٹر متاثر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت کے لیے مالی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو طے کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے حکومت کو ان حالات میں خاصے سخت فیصلے بھی کرنے پڑ رہے ہیں۔
بلاشبہ ان فیصلوں کے اثرات افراطِ زر اور مہنگائی کی صورت میں مرتب ہو رہے ہیں اور عام آدمی کے لیے کچن چلانا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بے روزگاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ انجینئرنگ گریجویٹس کو بھی ملازمتیں نہیں مل رہیں۔ یہی حال ڈاکٹرز کا ہے۔
اب تو ہنرمند بھی بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یومیہ اجرت پرکام کرنے والے مزدوروں اور کاریگروں کی ایک تو اجرت میں مناسب اضافہ نہیں ہوا ہے اور دوسرا تعمیراتی صنعت متاثر ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کام ملنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
اگر ہم زراعت کی طرف دیکھیں تو چھوٹے اور درمیانے کاشت کاروں کے لیے پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے جب کہ انھیں اپنی فصل کی قیمت خاصی کم ملتی ہے۔ گاؤں سے منڈی تک کے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں، منڈی میں بھی اس کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، آڑھتیوں اور مڈل مین کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے کسان کو سخت نقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔
حکومت کو معیشت کے تمام شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ضلع، تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر کسانوں اور پرچون فروشوں کے مفادات کے لیے میکنزم بنانا چاہیے۔