نباتاتی گھی کے موجد ڈاکٹر عبد العزیز

نباتاتی گھی ایک ہندوستانی مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر محمد عبد العزیزکی ایجاد ہے

ہماری عمر کے اکثر لوگ دیسی اور غیر دیسی گھی کے بارے میں یقیناً جانتے ہیں مگر نئی نسل کو تو جانے دیں ہماری عمر کے افراد بھی یہ نہیں جانتے کہ جسے گھریلو دیسی گھی کے مقابل نباتاتی گھی کہا جاتا ہے وہ کس کی ایجاد ہے ؟ اور اسے ایسا کیوں کہا جاتا ہے ؟

نباتاتی گھی ایک ہندوستانی مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر محمد عبد العزیزکی ایجاد ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز (23 مارچ1893 تا19مارچ1977) کی روداد ان تمام لوگوں کے لیے ایک روشن سبق ہے جو دنیا میں کچھ کر گزرنے کی تمنا اور خواہش رکھتے ہیں۔ ہم نے لکھنو کے ادبی رسالے ' گلبن ' میں کرنل نجم الاسلام کے مضمون میں جو کچھ پڑھا ، اس کا لب لباب یوں ہے کہ اس زمانے میں عموماً اصلی یعنی دیسی گھی استعمال ہوتا تھا ، جس کی پیداوار بہت کم تھی اور یہ بھی کہ وہ دور غربت زدہ تھا ہر آدمی گھی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اس لیے سرسوں کا تیل زیادہ استعمال ہوتا تھا۔

سرسوں کے تیل کی دو باتیں عجب تھیں ایک تو اس کا رنگ اور دوسری اس کی بُو... جو کھانے میں اپنا عنصر چھوڑتی تھی، لہٰذا ڈاکٹر محمد عبد العزیز کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس موضوع پر ریسرچ کی جائے، جو لوگ کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں ان کی راہیں مسدود بھی کی جاتی ہیں ، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ ان کا امتحان لیتا ہے، بعض کمزور اشخاص اپنی انا کے شکار ہو کر اس آزمائش میں ناکام ہو جاتے ہیں اور جو لوگ انا کو شکار کرنا جانتے ہیں وہ دنیا کی آزمائش کو خاطر میں نہیں لاتے اور پیش قدمی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبد العزیز انھی اشخاص میں تھے۔ ان کی راہ میں بھی روڑے ڈالے گئے یعنی جب یہ پورا پروپوزل یونیورسٹی کی ایگزیکٹیو کے سامنے پیش کیا گیا تو مثبت سوچنے والوں کے ساتھ کم فہم اور تنگ نظر اصحاب بھی تھے ، ان میں سے کسی نے یہ پھبتی بھی کسی:

'' ڈاکٹر عزیز ! یہ تعلیمی ادارہ ہے ،کسی تیلی کی دکان نہیں ''

اور انھیں شٹ اپ بھی کہا گیا مگر ڈاکٹر عزیز نے اپنی کارکردگی سے شٹ اپ کہنے والوں کو 'تاریخ' کے باب میں سدا کے لیے خاموش (Shut up) کر دیا یعنی انھوں نے ریسرچ ورک شروع کیا ، سرسوں کے تیل کی مذکورہ خامیوں پر تو انھوں نے جلد ہی قابو پا لیا مگر اسی کے ساتھ ان کے ذہن میں اس بات نے بھی سر اٹھایا کہ کیوں نہ اس تیل کو گھی کی ' شکل ' دیدی جائے، جس سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے (جیسا کہ ہوا) ڈاکٹر محمد عبد العزیز نے اپنا ریسرچ ورک جاری رکھا اور وہ دن آ ہی گیا جب انھوں نے اپنی ریسرچ میں کامیابی حاصل کر لی۔


غیر منقسم ہندوستان میں برطانیہ کے Lever Brothers انگریزوں کے لیے بیکری اشیا کی تیاری میں کام آنے والی چیزیں سپلائی کرتے تھے۔ انھوں نے اس ریسرچ کی آیندہ مقبولیت کا اندازہ کر لیا کیو نکہ ان کی نگاہ میں پورے ہندوستان کا بڑا بازار یعنی کاروباری مارکیٹ تھی۔ مختصر عرض ہے کہ یہ تحقیق ان برادرز نے اپنے نام کے ساتھ حاصل کر لی، کہتے ہیں کہ اس وقت گوالے (گھوسی) جو گھی تیار کرتے تھے اس میں بڑے بڑے Crystals ہوتے تھے جن کو اودھ کی بولی میں ' دَل ' کہتے تھے اور اعلیٰ درجے کا گھی ' دَل دار ' ہوتا تھا۔

اس طرح ڈاکٹر محمدعبد العزیز کی تحقیق کو ایک نام بھی مل گیا 'دلدا'... جسے جب انگریزی میں (Dalda ) لکھا گیا تو وہ '' دلدا '' نہیں بلکہ ڈالڈا ہوگیا جو ابتک رائج ہے یہ اور بات کہ وناسپتی (نباتات) سے بنایا گیا یہ ' گھی' بعد میں دوسری تجارتی کمپنیوں نے بنایا تو انھوں نے اپنے اپنے نام رکھ لیے۔

ڈاکٹر محمدعبد العزیز اتر پردیش میں لکھنو سے قریب واقع ضلع بارہ بنکی کے ایک دور افتادہ گائوں' بدو سرائے ' کے رہنے والے تھے جہاں ان کے زمانے میں سلیقے کی کوئی پختہ یا کچی سڑک تک نہیں تھی جو راہ تھی اسے پگڈنڈی کہا جاسکتا ہے ، 'بدو سرائے' کے سپوت نے اس پگڈنڈی پر چل کر علی گڑھ تک سفر کیا ، ڈاکٹر محمد عبد العزیز نے کسی طور ابتدائی تعلیم کے بعد ایم اے او کالج میں داخلہ لیا ، جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔

محمد عبد العزیز کا پسندیدہ مضمون ریاضی تھا مگر اپنے استاد سر ضیا الدین کے مشورے پر انھوں نے کیمیا (کیمسٹری) کو اپنے مضمون کے طور پر اختیار کر لیا اور اس مضمون کے اصل موضوع پر یعنی Original تحقیقی کام کیا ، جس میں کیمیا کے ان پہلوئوں پر توجہ مبذول کی جو انسانوں کے لیے مفید ہوں اور جن کی روز مرہ میں ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر محمد عبد العزیز اپنے وقت کے ایک مثالی مسلم سائنسداں ہی کہے جائیں گے۔ یہاں ان کے بارے میں یہ بھی بتا دیا جائے کہ ڈاکٹر موصوف کی ابتدائی تعلیم میں قرآن کریم کا ناظرہ ہی نہیں حافظہ بھی شامل تھا اور وہ اردو فارسی بھی اتنی جانتے تھے کہ دونوں زبانوں کے ادب سے انھیں خاصا شغف ہو گیا تھا۔

روایت ہے کہ انھیں اردو اور فارسی کے ہزارہا اشعار ازبر تھے اور یہی نہیں انگریزی، جرمنی اور عربی کے اشعار بھی ان کے حافظے کا حصہ تھے۔ اغلب گمان ہے کہ وہ خود بھی نظم کہتے تھے۔ روایت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عزیز ، ہند کی کئی یونیورسٹی میںExternal Examiner کے طور پر بھی کام کر چکے تھے۔ جب وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اپنے وطن لوٹے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ سائنس کو تو وہ وہیں چھوڑ آئے ہیں اور اس کے برعکس دین وادب ساتھ لائے ہیں۔

موصوف نے داڑھی رکھ لی، گائوں کی جامع مسجد کی امامت اپنے ذمے لے لی ، یہی نہیں گائوں میں لڑکیوں کا پہلا مدرسہ بھی قائم کیا جو اب تک علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ حکیم عبد الحمید کے جامعہ ہمدرد (دہلی ) میں بھی ڈاکٹر عبد العزیز کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عبد العزیز کو 18مارچ (1977) کی صبح جب بستر پر بیدار کرنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ تو اللہ کو ' عزیز' ہو چکے۔
Load Next Story