تقسیم کا کھیل
حساب کے قاعدے میں تقسیم کا اختتام بالآخر صفر پر ہی ختم ہوتا ہے
حساب کے قاعدے میں سب سے ضرر رساں کردار ''تقسیم'' کاہی ہوتا ہے،تقسیم انسانی ہو، سرحدی ہو،خاندانی ہو یا سماج کے مختلف مکتبہ فکر یا سوچ کی، تقسیم کے فارمولے میں ہمیشہ نتیجہ نقصان ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
حساب کے قاعدے میں تقسیم کا اختتام بالآخر صفر پر ہی ختم ہوتا ہے، لہٰذا حساب کتاب کے ماہرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے ہندسے یعنی صفر کی طرف نہ ہی جائیں تو بہتر ہے مگر ہمارے ملک میں معاشی و انصاف کے نظام پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اگر عدلیہ کے نظریہ ضرورت کی داستان کا جائزہ 1960سے لینا شروع کردیں تو آپ جسٹس منیر کے ایک آمر جنرل ایوب کی غیر جمہوری حکومت کو جائز قرار دینے سے لے کر آج کے جدید دور میں فیصلے دیکھ لیں کہ جن میں آئین کی تشریح کے مقابل انصاف کے اداروں کی جانب سے آئین کو اپنی خواہش پر از سر نو لکھنا ہے،حالانکہ آئین بنانا اور قانون سازی کا کام جمہوری ریاست میں پارلیمان کا ہی کام ہوتا ہے اور رہا بھی ہے۔
تاریخ کے اکثر ''دانا'' تو خطوں کی تقسیم کے خیال کو بھی درست عمل نہیں سمجھتے،ان کے خیال میں خطوں کی تقسیم بنیادی طور سے انسان کے خیالات سے لے کر ان کے ادب،تہذیب زبان ،رسم و روایت، ان کے دلوںاور احساسات کی تقسیم کا وہ بھیانک حادثہ ہوتا ہے جو صدیوں تک ان کی نسلوں میں احساس محرومی اور ذہنی اپاہجگی کا ذریعہ بنا رہتا ہے،جس سے نسل در نسل چھٹکاراپانا نا ممکن سا عمل بن جاتا ہے۔
ان داناؤں کے خیال میں ایک دوسرے سے جڑت اور دکھ سکھ کا ساتھ ہی بقائے باہمی اور استحصال سے نجات کا وہ عالمگیر نظریہ ہوتا ہے جو انھیں حملہ آوروں کے ظلم و تشدد یا ان کی لوٹ مار سے بچانے کا ذریعہ ہوتا ہے،اسی بنا ہمارے بہت سے تاریخ دان بر صغیر کی تقسیم پر بھی یکسو یا ایک رائے نہیں رکھتے۔
بادی النظر میں ہر سماج میں تقسیم کے ہر اس عمل کی مخالفت کی جاتی ہے جس میں انسانی تقسیم گروہ قبیلہ یا کسی بھی لسانی اکائی کو جنم دے یا تقسیم کا کوئی بھی عمل سماج میں سیاسی یا معاشرتی دوری کا سبب بنے،اس دلیل کے تحت ہی دنیا میں ''سوشلسٹ سائنسی نظریئے'' کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور انسانی سماج کو جوڑنے کے لیے اٹھارویں صدی میں ''کمیونزم'' کا ایک ایسا عالمگیر نظریہ لایا گیا جو سماجی اور سیاسی طور سے انسانوں کی جڑت کا کام کرے اور انسانی تقسیم کے تمام منفی نظریوں کا متبادل ہو سکے۔
کمیونزم نے جہاں انسانی سماج میں سیاسی سوچ کو پختہ کرنے کا کام کیا وہیں سوشلسٹ نظریئے نے انسانوں میں معاشی برابری اور طبقاتی اونچ نیچ کو بھی یکسر ختم کرنے کا واضح پیغام دیا،مگر انسانی تقسیم کے کھیل میں لالچ سے بھری بے ہنگم سرمایہ داری نے انسانی احساس کے مقابلے میں مارکیٹ معیشت کا پرفریب نعرہ دیا اور دنیا کے انسان کو سیاسی معاشی اور سماجی طور سے تقسیم کرکے دنیا کو ''مفاد پرستی'' کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جہاں علم، تہذیب، ثقافت، اخلاق اور ادب ایک بے وقعت چیز بنا کر رکھ دی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں طبقاتی اور گروہی مفاد نے جگہ لے کر پوری دنیا کے عظیم انسان کو تقسیم در تقسیم کے گورکھ دھندے میں دھکیل دیا ہے۔
آج کل ہمارا ملک پاکستان بھی ''تقسیم در تقسیم'' کے ایک ایسے تکلیف دہ عمل سے گذر رہا ہے کہ پچھتر برس سے ہم اب تک سیاسی اور سماجی سمت کا تعین ہی نہیں کر سکے ہیں، ہماری سیاست اور سماج کو سمت فراہم کرنے کا انصاف بر مبنی نظام ایک ایسی '' فتنہ گری''میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس کی بدولت ہمارانظام عدل ازخود ایک سوالیہ نشان بن کر تقسیم کی طرف رواں دواں ہے۔
حالیہ دنوں میں عدالتی فیصلوں کو بہت زیادہ زیر بحث موضوع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ،جس پر سنجیدہ فکرنہ صرف پریشان ہے بلکہ انھیں اس کا ملال ہے کہ منصفانہ فراہمی نہ ہونے سے سماج کی تقسیم نہ بڑھ جائے جو بعد کو اداروں کی تقسیم پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہوئی ریاستی تقسیم کے خطرناک کھیل تک نہ پہنچ جائے،اس خدشے کے پیش نظر سنجیدہ حلقوں کی کوشش ہے کہ سماج اور ملکی سیاست کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے دور رکھا جائے اور ایک ایسی فضا قائم کی جائے کہ سماجی اور سیاسی تقسیم کا نہ صرف تدارک ہو سکے بلکہ تقسیم کا یہ منفی رجحان جتنا جلد ہو ختم کیا جائے۔
سیاست میں اختلاف ایک صحت مند روایت کے طور پر جانا گیا ہے،اور دلیل کے مقابلے میں دلیل کے ہونے کو ایک امید افزا خیال کے طور پر دیکھا جاتا ہے،مگر جب سماج یا انسانی جسم میں مرض کی تشخیص کیے بغیر انھیں تجربات کی بھٹی بنا دیا جاتا ہے تو اس سماج یا جسم کا انجام آخر کار موت پر ہی ختم ہوتا ہے،آج کی سیاسی اور معاشی بے ابتری کی صورت حال میں ہمارے سماج کی ہر سمت سسکتی ہوئی نظر آرہی ہے اور''ہائبرڈ نظام'' کی نا تجربہ کار''عمرانی معاشی تباہی نے وہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آج عام فرد کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا دشوار ترین عمل بنا دیا گیا ہے۔
اس معاشی اور سیاسی تباہی میں سب سے زیادہ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب 2014 کے دھرنوں کے دوران ریاست کی غیر منتخب طاقتور قوتوں نے اپنے غیر ترقی یافتہ مفادات کے لیے ''ہائبرڈ نظام''ملک پر مسلط کرکے پاکستان میں ''سی پیک'' کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں کو '' دھرنوں'' سے نہ صرف تبدیل کرنا چاہا بلکہ دوست ملک چین کے صدر کو اپنے پر تشدد دھرنوں کے ذریعے دورہ نہ کرنے پر مجبور کیا،یہی وہ طرز عمل تھا جب ملک کے ''عدل'' کا نظام خاموش رہا اور ملک کی تباہی کے ان دھرنوں پر کچھ نہ بولا اور ملک میں رینگتی جمہوریت اور سیاسی آزادی میں ''عمرانی ''عدم برداشت،تشدد اور شخصی عقیدہ پرستی کا زہر گھولتا رہا اور اس حد تک نوجوان نسل کو بے قابو کیا گیا کہ انھوں نے ایک ایس پی کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا مگر ہمارا ''عدل انصاف'' خاموش رہا۔
2018کے عام انتخابات کے نتائج اپنی مرضی و منشا سے لانے اور ملک بھر میں مکمل دھاندلی پر سیاسی جماعتیں اور عوام چیختے رہے مگر ہماری عدلیہ خاموش طاقتور قوتوں کے سامنے بت بنی رہی اور سماج ''عمرانی '' کے سپرد کرکے سماج کی تمام اخلاقی اور سیاسی قدروں کو تہس نہس کر تا رہا،پھر جب ''ہائبرڈ نظام'' اپنی ناکامی پر پہنچا تو ''عمرانی ٹولے '' کو آئینی راستے سے ہٹایا گیا۔
عمران خان نے ملک کی اخلاقی سماجی ،معاشی اور سیاسی چولیں ہلا دیں اور اپنی انا و تسکین کو خوش کرنے کے لیے بد حال معاشی صورتحال میں بغیر کسی سیاسی وجہ یا ابتری کے دو صوبوں کی اسمبلیاں وقت سے پہلے توڑ ڈالیں اور مسلسل ''انتخابات'' کرانے کے مطالبے کو عدلیہ کے در تک پہنچا کر ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال سے پھر کھیلنے کی کوشش کی۔
اس دوران ملکی تاریخ میں نئی نسل نے ''عدلیہ کی تقسیم'' کا منظربھی دیکھا مگر پھر دو صوبوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا گیا،جب کہ انتخابات سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا کوئی شخص اپنی انا و مرضی کے تحت پانچ برس کی منتخب اسمبلی کو محض ''ہٹ دھرمی اور ضد'' پر توڑ سکتا ہے؟ زیر بحث ہی نہ لایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ دو صوبوں میں انتخابات بھی ہو جائیں گے، حکومت بھی تشکیل پا جائیں گی،مگر آیندہ اکتوبر نومبر میں قومی اور دو صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لیے کس آئین کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگراں حکومتیں قائم کی جائیں گی جو کہ ان مذکورہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے منصفانہ انتخابات کرائیں گی؟کیونکہ آئین میں تو عام انتخابات کے لیے نگراں حکومت کا قیام آئینی ضرورت ہے۔اس ساری سیاسی اور ابتر معاشی صورتحال میں آنے والے سیاسی بحران پر کیسے قابو پایا جائے گا،اس سوال کا جواب عوام ضرورچاہتے ہیں۔
حساب کے قاعدے میں تقسیم کا اختتام بالآخر صفر پر ہی ختم ہوتا ہے، لہٰذا حساب کتاب کے ماہرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے ہندسے یعنی صفر کی طرف نہ ہی جائیں تو بہتر ہے مگر ہمارے ملک میں معاشی و انصاف کے نظام پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اگر عدلیہ کے نظریہ ضرورت کی داستان کا جائزہ 1960سے لینا شروع کردیں تو آپ جسٹس منیر کے ایک آمر جنرل ایوب کی غیر جمہوری حکومت کو جائز قرار دینے سے لے کر آج کے جدید دور میں فیصلے دیکھ لیں کہ جن میں آئین کی تشریح کے مقابل انصاف کے اداروں کی جانب سے آئین کو اپنی خواہش پر از سر نو لکھنا ہے،حالانکہ آئین بنانا اور قانون سازی کا کام جمہوری ریاست میں پارلیمان کا ہی کام ہوتا ہے اور رہا بھی ہے۔
تاریخ کے اکثر ''دانا'' تو خطوں کی تقسیم کے خیال کو بھی درست عمل نہیں سمجھتے،ان کے خیال میں خطوں کی تقسیم بنیادی طور سے انسان کے خیالات سے لے کر ان کے ادب،تہذیب زبان ،رسم و روایت، ان کے دلوںاور احساسات کی تقسیم کا وہ بھیانک حادثہ ہوتا ہے جو صدیوں تک ان کی نسلوں میں احساس محرومی اور ذہنی اپاہجگی کا ذریعہ بنا رہتا ہے،جس سے نسل در نسل چھٹکاراپانا نا ممکن سا عمل بن جاتا ہے۔
ان داناؤں کے خیال میں ایک دوسرے سے جڑت اور دکھ سکھ کا ساتھ ہی بقائے باہمی اور استحصال سے نجات کا وہ عالمگیر نظریہ ہوتا ہے جو انھیں حملہ آوروں کے ظلم و تشدد یا ان کی لوٹ مار سے بچانے کا ذریعہ ہوتا ہے،اسی بنا ہمارے بہت سے تاریخ دان بر صغیر کی تقسیم پر بھی یکسو یا ایک رائے نہیں رکھتے۔
بادی النظر میں ہر سماج میں تقسیم کے ہر اس عمل کی مخالفت کی جاتی ہے جس میں انسانی تقسیم گروہ قبیلہ یا کسی بھی لسانی اکائی کو جنم دے یا تقسیم کا کوئی بھی عمل سماج میں سیاسی یا معاشرتی دوری کا سبب بنے،اس دلیل کے تحت ہی دنیا میں ''سوشلسٹ سائنسی نظریئے'' کی ضرورت کو محسوس کیا گیا اور انسانی سماج کو جوڑنے کے لیے اٹھارویں صدی میں ''کمیونزم'' کا ایک ایسا عالمگیر نظریہ لایا گیا جو سماجی اور سیاسی طور سے انسانوں کی جڑت کا کام کرے اور انسانی تقسیم کے تمام منفی نظریوں کا متبادل ہو سکے۔
کمیونزم نے جہاں انسانی سماج میں سیاسی سوچ کو پختہ کرنے کا کام کیا وہیں سوشلسٹ نظریئے نے انسانوں میں معاشی برابری اور طبقاتی اونچ نیچ کو بھی یکسر ختم کرنے کا واضح پیغام دیا،مگر انسانی تقسیم کے کھیل میں لالچ سے بھری بے ہنگم سرمایہ داری نے انسانی احساس کے مقابلے میں مارکیٹ معیشت کا پرفریب نعرہ دیا اور دنیا کے انسان کو سیاسی معاشی اور سماجی طور سے تقسیم کرکے دنیا کو ''مفاد پرستی'' کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا ہے، جہاں علم، تہذیب، ثقافت، اخلاق اور ادب ایک بے وقعت چیز بنا کر رکھ دی گئی ہے اور اس کے مقابلے میں طبقاتی اور گروہی مفاد نے جگہ لے کر پوری دنیا کے عظیم انسان کو تقسیم در تقسیم کے گورکھ دھندے میں دھکیل دیا ہے۔
آج کل ہمارا ملک پاکستان بھی ''تقسیم در تقسیم'' کے ایک ایسے تکلیف دہ عمل سے گذر رہا ہے کہ پچھتر برس سے ہم اب تک سیاسی اور سماجی سمت کا تعین ہی نہیں کر سکے ہیں، ہماری سیاست اور سماج کو سمت فراہم کرنے کا انصاف بر مبنی نظام ایک ایسی '' فتنہ گری''میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس کی بدولت ہمارانظام عدل ازخود ایک سوالیہ نشان بن کر تقسیم کی طرف رواں دواں ہے۔
حالیہ دنوں میں عدالتی فیصلوں کو بہت زیادہ زیر بحث موضوع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ،جس پر سنجیدہ فکرنہ صرف پریشان ہے بلکہ انھیں اس کا ملال ہے کہ منصفانہ فراہمی نہ ہونے سے سماج کی تقسیم نہ بڑھ جائے جو بعد کو اداروں کی تقسیم پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہوئی ریاستی تقسیم کے خطرناک کھیل تک نہ پہنچ جائے،اس خدشے کے پیش نظر سنجیدہ حلقوں کی کوشش ہے کہ سماج اور ملکی سیاست کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے دور رکھا جائے اور ایک ایسی فضا قائم کی جائے کہ سماجی اور سیاسی تقسیم کا نہ صرف تدارک ہو سکے بلکہ تقسیم کا یہ منفی رجحان جتنا جلد ہو ختم کیا جائے۔
سیاست میں اختلاف ایک صحت مند روایت کے طور پر جانا گیا ہے،اور دلیل کے مقابلے میں دلیل کے ہونے کو ایک امید افزا خیال کے طور پر دیکھا جاتا ہے،مگر جب سماج یا انسانی جسم میں مرض کی تشخیص کیے بغیر انھیں تجربات کی بھٹی بنا دیا جاتا ہے تو اس سماج یا جسم کا انجام آخر کار موت پر ہی ختم ہوتا ہے،آج کی سیاسی اور معاشی بے ابتری کی صورت حال میں ہمارے سماج کی ہر سمت سسکتی ہوئی نظر آرہی ہے اور''ہائبرڈ نظام'' کی نا تجربہ کار''عمرانی معاشی تباہی نے وہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آج عام فرد کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا دشوار ترین عمل بنا دیا گیا ہے۔
اس معاشی اور سیاسی تباہی میں سب سے زیادہ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب 2014 کے دھرنوں کے دوران ریاست کی غیر منتخب طاقتور قوتوں نے اپنے غیر ترقی یافتہ مفادات کے لیے ''ہائبرڈ نظام''ملک پر مسلط کرکے پاکستان میں ''سی پیک'' کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں کو '' دھرنوں'' سے نہ صرف تبدیل کرنا چاہا بلکہ دوست ملک چین کے صدر کو اپنے پر تشدد دھرنوں کے ذریعے دورہ نہ کرنے پر مجبور کیا،یہی وہ طرز عمل تھا جب ملک کے ''عدل'' کا نظام خاموش رہا اور ملک کی تباہی کے ان دھرنوں پر کچھ نہ بولا اور ملک میں رینگتی جمہوریت اور سیاسی آزادی میں ''عمرانی ''عدم برداشت،تشدد اور شخصی عقیدہ پرستی کا زہر گھولتا رہا اور اس حد تک نوجوان نسل کو بے قابو کیا گیا کہ انھوں نے ایک ایس پی کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا مگر ہمارا ''عدل انصاف'' خاموش رہا۔
2018کے عام انتخابات کے نتائج اپنی مرضی و منشا سے لانے اور ملک بھر میں مکمل دھاندلی پر سیاسی جماعتیں اور عوام چیختے رہے مگر ہماری عدلیہ خاموش طاقتور قوتوں کے سامنے بت بنی رہی اور سماج ''عمرانی '' کے سپرد کرکے سماج کی تمام اخلاقی اور سیاسی قدروں کو تہس نہس کر تا رہا،پھر جب ''ہائبرڈ نظام'' اپنی ناکامی پر پہنچا تو ''عمرانی ٹولے '' کو آئینی راستے سے ہٹایا گیا۔
عمران خان نے ملک کی اخلاقی سماجی ،معاشی اور سیاسی چولیں ہلا دیں اور اپنی انا و تسکین کو خوش کرنے کے لیے بد حال معاشی صورتحال میں بغیر کسی سیاسی وجہ یا ابتری کے دو صوبوں کی اسمبلیاں وقت سے پہلے توڑ ڈالیں اور مسلسل ''انتخابات'' کرانے کے مطالبے کو عدلیہ کے در تک پہنچا کر ملک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال سے پھر کھیلنے کی کوشش کی۔
اس دوران ملکی تاریخ میں نئی نسل نے ''عدلیہ کی تقسیم'' کا منظربھی دیکھا مگر پھر دو صوبوں میں انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا گیا،جب کہ انتخابات سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا کوئی شخص اپنی انا و مرضی کے تحت پانچ برس کی منتخب اسمبلی کو محض ''ہٹ دھرمی اور ضد'' پر توڑ سکتا ہے؟ زیر بحث ہی نہ لایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ دو صوبوں میں انتخابات بھی ہو جائیں گے، حکومت بھی تشکیل پا جائیں گی،مگر آیندہ اکتوبر نومبر میں قومی اور دو صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے لیے کس آئین کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگراں حکومتیں قائم کی جائیں گی جو کہ ان مذکورہ صوبوں میں قومی اسمبلی کے منصفانہ انتخابات کرائیں گی؟کیونکہ آئین میں تو عام انتخابات کے لیے نگراں حکومت کا قیام آئینی ضرورت ہے۔اس ساری سیاسی اور ابتر معاشی صورتحال میں آنے والے سیاسی بحران پر کیسے قابو پایا جائے گا،اس سوال کا جواب عوام ضرورچاہتے ہیں۔