ضیا محی الدین ایک ہشت پہلو فنکار تھے
ہالی ووڈ کی فلموں میں اپنی کردار نگاری کے جلوے بکھیرتے رہے
ضیا محی الدین نصف صدی تک بحیثیت صداکار، اداکار اور ٹیلی وژن پروگراموں کے میزبان کے طور پر ایک ستارے کی طرح جگمگاتے رہے۔ ہالی ووڈ کی فلموں میں اپنی کردار نگاری کے جلوے بکھیرتے رہے۔
لندن کے تھیٹر میں شیکسپیئر کے ڈراموں کی جان بن کر منظر عام پر آئے، وہ ہفت زبان کی حیثیت سے بھی سماجی ثقافتی اور ادبی حلقوں میں بھی پسند کیے جاتے رہے، جب وہ انگریزی بولتے تھے تو انگریزی زبان بولنے والے ان پر رشک کرتے تھے اور جب وہ اردو بولتے تھے تو اردو زبان خود ان پر نازاں ہوتی تھی، وہ اپنی ذات میں ایک چلتی پھرتی ڈکشنری تھے ان کے بولنے کا انداز بڑا والہانہ تھا ان کی گفتگو میں ایک دلکشی ہوتی تھی وہ بڑے میٹھے اور نپے تلے انداز میں بولتے تھے ایسا لگتا تھا کہ ایک ٹھنڈے اور شفاف پانی کا چشمہ احساس کے پردے پر سے بہتا ہوا گزر گیا ہے۔
ان کی شخصیت انفرادیت کی حامل تھی انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے اور پروڈیوس کیے ان کی بڑے خوبصورت انداز سے میزبانی بھی کی۔ جن میں ایک پروگرام انداز بیاں اور دوسرا پروگرام ضیا محی الدین شو تھا اور یہ دونوں ہی پروگرام پی ٹی وی کی تاریخ کے نادر اور نایاب پروگراموں میں شامل کیے جاتے ہیں۔
میں نے پہلی بار ان کے بارے میں طالب علمی کے زمانے میں اخبارات میں اس وقت پڑھا تھا بلکہ جان کاری حاصل کی تھی جب مشہور ہالی ووڈ فلم ہدایت کار ڈیوڈلین کی فلم لارنس آف عریبیہ ساری دنیا میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی اور پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں ضیا محی الدین کی اس فلم سے متعلق تصاویر شایع کی گئی تھیں اور ان کے بارے میں بڑے دلچسپ مضامین لکھے گئے۔
فلم لارنس آف عریبیہ میں ضیا محی الدین نے بھی اپنی کردار نگاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا تھا۔ میرے یہ تصور میں بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ میری ضیا محی الدین صاحب سے کوئی ملاقات بھی ہوگی کیونکہ وہ ہالی ووڈ کی فلموں کے علاوہ برطانیہ کے اسٹیج پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور وہاں بھی بطور اداکار شیکسپیئر کے ڈراموں کی شان بڑھا رہے تھے۔
پھر جب وہ 1970 میں پاکستان آگئے تھے تو میری ان سے ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں ایک پروگرام کے دوران ہوئی تھی صداکار و اداکار طلعت صدیقی کی چھوٹی بہن مونا صدیقی جو ایک ماہر رقاصہ بھی تھیں اور وہ شوقیہ رقص کیا کرتی تھیں اور ان کے رقص کا ایک شو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کیا گیا تھا جس کے میزبان بھی ضیا محی الدین تھے۔
انھوں نے مونا صدیقی کے رقص کے بارے میں بڑے حسین پیرائے میں گفتگو کی تھی جس کا ایک ایک لفظ دل کو چھو رہا تھا وہ نثر میں گفتگو کر رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ شاعری کر رہے ہوں۔ ان کے الفاظ کا چناؤ بے مثال اور لاجواب ہوتا تھا بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے مونا صدیقی کو اپنا شریک زندگی بھی بنا لیا ہے۔
ضیا محی الدین غیر منقسم ہندوستان کے شہر لائل پور اور موجودہ فیصل آباد میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ایک استاد خادم محی الدین کے گھر پیدا ہوئے تھے اس طرح ضیا محی الدین کو ابتدا ہی سے تعلیم کی اہمیت کا احساس دلا دیا گیا تھا۔ ضیا محی الدین کے والد کو ایک اعزاز یہ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے تقسیم ہندوستان کے بعد جب لاہور میں نئے سرے سے فلم انڈسٹری کا آغاز کیا اور دیوان پکچرز کے بینر تلے پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' بنائی گئی جس کے فلم ساز دیوان سرداری لال اور ہدایت کار داؤد چاند تھے۔
فلم کی کاسٹ میں آشا پوسلے، ناصر خان (دلیپ کمار کے بھائی) تھے اور اس فلم کی کہانی و مکالمے ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین نے لکھے تھے اور ہدایت کار داؤد چاند سے ان کی دوستی تھی اور اس دوستی ہی کی وجہ سے خادم محی الدین نے فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا۔ یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی تھی۔
اب میں پھر ضیا محی الدین کی طرف آتا ہوں۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھی جائے لہٰذا جب لاہور کالج سے ضیا محی الدین نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ان کے والد نے انھیں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھیج دیا تھا۔ انھوں نے اپنی بقیہ تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ وہاں انھوں نے پھر رائل آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا اور وہاں انھوں نے فلم ڈائریکشن کی تعلیم بھی حاصل کی۔
انھوں نے لندن کے اسٹیج پر 1960 میں مشہور انگریزی ناول اے۔ پیج ٹو انڈیا کو اسٹیج پر پیش کیا اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا خوب کھل کر اظہار کیا۔ پھر کافی عرصے تک اسٹیج کے ڈراموں کی یہ جان اور شان بنے رہے۔ بڑا نام کمایا، بڑی شہرت حاصل کی۔ براڈوے کے عظیم تر ڈراموں میں ضیا محی الدین کا نام بھی ایک بڑی شناخت کا حامل ہو گیا تھا۔ لیکن پھر انھیں اپنے وطن کی یاد شدت کے ساتھ ستانے لگی ایک طویل عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد آخر انھوں نے پھر یہ فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اپنے وطن جا کر اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ کام کریں گے۔
پھر جب پاکستان آگئے تو یہاں پاکستان ٹیلی وژن سے گہری وابستگی ہوگئی تھی بہت سے خوب صورت پروگرام پیش کیے جن میں گراں قدر شوز کے ساتھ ڈرامہ چچا چھکن، پائل اور جو جانے وہ جیتے جیسے پروگراموں کو پسندیدگی کی سند حاصل ہوئی تھی۔ اسی دوران ان کی ایک خوشگوار ملاقات لاہور میں فلم ساز و اداکارہ شمیم آرا سے ہوئی۔ شمیم آرا ویسے بھی ان کی بڑی فین اور قدردان تھیں۔ انھوں نے ضیا محی الدین کو فلموں میں کام کرنے کے لیے راضی کرلیا۔ پھر انھوں نے شمیم آرا پروڈکشن کی فلم ''سہاگ'' میں شمیم آرا، ندیم کے ساتھ ایک جاندار کردار ادا کیا اور اس طرح انھوں نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا تھا۔
فلم ''سہاگ'' کے بعد ڈریم لینڈ پکچرز کے روح رواں فلم ساز میاں شہزاد نے ضیا محی الدین کو اپنی فلم ''مجرم کون'' میں بطور ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ، روزینہ، نمو، رنگیلا، علاؤ الدین اور سلطان راہی جیسے اداکاروں نے کام کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار اسلم ڈار تھے۔ یہ فلم ایک ایکشن فلم تھی جو نمایاں طور پر کامیاب نہ ہوسکی تھی، پھر ضیا محی الدین دھیمے لہجے کے اداکار تھے اور لاہور میں ان دنوں گروپ بندی بھی بہت تھی۔
ایکشن فلموں میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا بڑا چرچہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ضیا محی الدین جو بین الاقوامی شہرت کا حامل اداکار تھا اس کے حساب سے کہانی لکھی جاتی اور اس کے لیے منفرد انداز کا کردار لکھا جاتا مگر فلمی دنیا میں ہمیشہ سے بھیڑ چال رہی ہے اور وہاں جس کی فلم ہٹ ہو جائے وہی اداکار آگے بڑھتا ہے اور اس بھیڑ چال اور فلمی گروپ بندی کی وجہ سے ضیا محی الدین نے خود ہی فلمی کرداروں سے اجتناب برتنا شروع کردیا تھا اور فلمی دنیا سے جلد ہی کنارا کشی اختیار کرلی تھی۔ پھر انھیں حکومت پاکستان نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ادارے کا ڈائریکٹر بنا دیا تھا اور یہ ادارہ ان کے لیے بالکل موزوں تھا۔
اس ادارے سے وابستہ ہونے کے بعد پھر سے انھوں نے فنون لطیفہ کی طرف اپنی تمام توجہ لگا دی تھی اور نہ صرف ملک کے فنکاروں کو نئے نئے پلیٹ فارم پیش کیے بلکہ فنکاروں کی بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے رہے تھے اب ان کی عمر ان کو زیادہ کام کرنے سے منع کرتی تھی۔ یہ بہت جلدی تھک جاتے تھے اور پھر تھکاوٹ ان کی رگوں میں شامل ہوتی جا رہی تھی۔ ان کو ان کی بے مثال خدمات کے طور پر 2012 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
اب یہ بانوے سال کے ہوگئے تھے اور کام سے ان کی لگن میں کسی طور بھی کمی نہیں آتی تھی مگر پھر بیمار رہنے لگے اور آخرکار 13 فروری2023 کو یہ عظیم ہشت پہلو فنکار اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مگر اس فنکار کا فن ہزاروں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین)
لندن کے تھیٹر میں شیکسپیئر کے ڈراموں کی جان بن کر منظر عام پر آئے، وہ ہفت زبان کی حیثیت سے بھی سماجی ثقافتی اور ادبی حلقوں میں بھی پسند کیے جاتے رہے، جب وہ انگریزی بولتے تھے تو انگریزی زبان بولنے والے ان پر رشک کرتے تھے اور جب وہ اردو بولتے تھے تو اردو زبان خود ان پر نازاں ہوتی تھی، وہ اپنی ذات میں ایک چلتی پھرتی ڈکشنری تھے ان کے بولنے کا انداز بڑا والہانہ تھا ان کی گفتگو میں ایک دلکشی ہوتی تھی وہ بڑے میٹھے اور نپے تلے انداز میں بولتے تھے ایسا لگتا تھا کہ ایک ٹھنڈے اور شفاف پانی کا چشمہ احساس کے پردے پر سے بہتا ہوا گزر گیا ہے۔
ان کی شخصیت انفرادیت کی حامل تھی انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے اور پروڈیوس کیے ان کی بڑے خوبصورت انداز سے میزبانی بھی کی۔ جن میں ایک پروگرام انداز بیاں اور دوسرا پروگرام ضیا محی الدین شو تھا اور یہ دونوں ہی پروگرام پی ٹی وی کی تاریخ کے نادر اور نایاب پروگراموں میں شامل کیے جاتے ہیں۔
میں نے پہلی بار ان کے بارے میں طالب علمی کے زمانے میں اخبارات میں اس وقت پڑھا تھا بلکہ جان کاری حاصل کی تھی جب مشہور ہالی ووڈ فلم ہدایت کار ڈیوڈلین کی فلم لارنس آف عریبیہ ساری دنیا میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی اور پاکستان کے تمام بڑے بڑے اخبارات میں ضیا محی الدین کی اس فلم سے متعلق تصاویر شایع کی گئی تھیں اور ان کے بارے میں بڑے دلچسپ مضامین لکھے گئے۔
فلم لارنس آف عریبیہ میں ضیا محی الدین نے بھی اپنی کردار نگاری سے فلم بینوں کو متاثر کیا تھا۔ میرے یہ تصور میں بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ میری ضیا محی الدین صاحب سے کوئی ملاقات بھی ہوگی کیونکہ وہ ہالی ووڈ کی فلموں کے علاوہ برطانیہ کے اسٹیج پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھا رہے تھے اور وہاں بھی بطور اداکار شیکسپیئر کے ڈراموں کی شان بڑھا رہے تھے۔
پھر جب وہ 1970 میں پاکستان آگئے تھے تو میری ان سے ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں ایک پروگرام کے دوران ہوئی تھی صداکار و اداکار طلعت صدیقی کی چھوٹی بہن مونا صدیقی جو ایک ماہر رقاصہ بھی تھیں اور وہ شوقیہ رقص کیا کرتی تھیں اور ان کے رقص کا ایک شو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کیا گیا تھا جس کے میزبان بھی ضیا محی الدین تھے۔
انھوں نے مونا صدیقی کے رقص کے بارے میں بڑے حسین پیرائے میں گفتگو کی تھی جس کا ایک ایک لفظ دل کو چھو رہا تھا وہ نثر میں گفتگو کر رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ شاعری کر رہے ہوں۔ ان کے الفاظ کا چناؤ بے مثال اور لاجواب ہوتا تھا بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے مونا صدیقی کو اپنا شریک زندگی بھی بنا لیا ہے۔
ضیا محی الدین غیر منقسم ہندوستان کے شہر لائل پور اور موجودہ فیصل آباد میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ایک استاد خادم محی الدین کے گھر پیدا ہوئے تھے اس طرح ضیا محی الدین کو ابتدا ہی سے تعلیم کی اہمیت کا احساس دلا دیا گیا تھا۔ ضیا محی الدین کے والد کو ایک اعزاز یہ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے تقسیم ہندوستان کے بعد جب لاہور میں نئے سرے سے فلم انڈسٹری کا آغاز کیا اور دیوان پکچرز کے بینر تلے پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' بنائی گئی جس کے فلم ساز دیوان سرداری لال اور ہدایت کار داؤد چاند تھے۔
فلم کی کاسٹ میں آشا پوسلے، ناصر خان (دلیپ کمار کے بھائی) تھے اور اس فلم کی کہانی و مکالمے ضیا محی الدین کے والد خادم محی الدین نے لکھے تھے اور ہدایت کار داؤد چاند سے ان کی دوستی تھی اور اس دوستی ہی کی وجہ سے خادم محی الدین نے فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا۔ یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی تھی۔
اب میں پھر ضیا محی الدین کی طرف آتا ہوں۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھی جائے لہٰذا جب لاہور کالج سے ضیا محی الدین نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ان کے والد نے انھیں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک بھیج دیا تھا۔ انھوں نے اپنی بقیہ تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔ وہاں انھوں نے پھر رائل آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لے لیا اور وہاں انھوں نے فلم ڈائریکشن کی تعلیم بھی حاصل کی۔
انھوں نے لندن کے اسٹیج پر 1960 میں مشہور انگریزی ناول اے۔ پیج ٹو انڈیا کو اسٹیج پر پیش کیا اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا خوب کھل کر اظہار کیا۔ پھر کافی عرصے تک اسٹیج کے ڈراموں کی یہ جان اور شان بنے رہے۔ بڑا نام کمایا، بڑی شہرت حاصل کی۔ براڈوے کے عظیم تر ڈراموں میں ضیا محی الدین کا نام بھی ایک بڑی شناخت کا حامل ہو گیا تھا۔ لیکن پھر انھیں اپنے وطن کی یاد شدت کے ساتھ ستانے لگی ایک طویل عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد آخر انھوں نے پھر یہ فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اپنے وطن جا کر اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ کام کریں گے۔
پھر جب پاکستان آگئے تو یہاں پاکستان ٹیلی وژن سے گہری وابستگی ہوگئی تھی بہت سے خوب صورت پروگرام پیش کیے جن میں گراں قدر شوز کے ساتھ ڈرامہ چچا چھکن، پائل اور جو جانے وہ جیتے جیسے پروگراموں کو پسندیدگی کی سند حاصل ہوئی تھی۔ اسی دوران ان کی ایک خوشگوار ملاقات لاہور میں فلم ساز و اداکارہ شمیم آرا سے ہوئی۔ شمیم آرا ویسے بھی ان کی بڑی فین اور قدردان تھیں۔ انھوں نے ضیا محی الدین کو فلموں میں کام کرنے کے لیے راضی کرلیا۔ پھر انھوں نے شمیم آرا پروڈکشن کی فلم ''سہاگ'' میں شمیم آرا، ندیم کے ساتھ ایک جاندار کردار ادا کیا اور اس طرح انھوں نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا تھا۔
فلم ''سہاگ'' کے بعد ڈریم لینڈ پکچرز کے روح رواں فلم ساز میاں شہزاد نے ضیا محی الدین کو اپنی فلم ''مجرم کون'' میں بطور ہیرو کاسٹ کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ، روزینہ، نمو، رنگیلا، علاؤ الدین اور سلطان راہی جیسے اداکاروں نے کام کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار اسلم ڈار تھے۔ یہ فلم ایک ایکشن فلم تھی جو نمایاں طور پر کامیاب نہ ہوسکی تھی، پھر ضیا محی الدین دھیمے لہجے کے اداکار تھے اور لاہور میں ان دنوں گروپ بندی بھی بہت تھی۔
ایکشن فلموں میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کا بڑا چرچہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ضیا محی الدین جو بین الاقوامی شہرت کا حامل اداکار تھا اس کے حساب سے کہانی لکھی جاتی اور اس کے لیے منفرد انداز کا کردار لکھا جاتا مگر فلمی دنیا میں ہمیشہ سے بھیڑ چال رہی ہے اور وہاں جس کی فلم ہٹ ہو جائے وہی اداکار آگے بڑھتا ہے اور اس بھیڑ چال اور فلمی گروپ بندی کی وجہ سے ضیا محی الدین نے خود ہی فلمی کرداروں سے اجتناب برتنا شروع کردیا تھا اور فلمی دنیا سے جلد ہی کنارا کشی اختیار کرلی تھی۔ پھر انھیں حکومت پاکستان نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ادارے کا ڈائریکٹر بنا دیا تھا اور یہ ادارہ ان کے لیے بالکل موزوں تھا۔
اس ادارے سے وابستہ ہونے کے بعد پھر سے انھوں نے فنون لطیفہ کی طرف اپنی تمام توجہ لگا دی تھی اور نہ صرف ملک کے فنکاروں کو نئے نئے پلیٹ فارم پیش کیے بلکہ فنکاروں کی بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے رہے تھے اب ان کی عمر ان کو زیادہ کام کرنے سے منع کرتی تھی۔ یہ بہت جلدی تھک جاتے تھے اور پھر تھکاوٹ ان کی رگوں میں شامل ہوتی جا رہی تھی۔ ان کو ان کی بے مثال خدمات کے طور پر 2012 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
اب یہ بانوے سال کے ہوگئے تھے اور کام سے ان کی لگن میں کسی طور بھی کمی نہیں آتی تھی مگر پھر بیمار رہنے لگے اور آخرکار 13 فروری2023 کو یہ عظیم ہشت پہلو فنکار اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مگر اس فنکار کا فن ہزاروں لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین)