ماضی حال اور مستقبل
خوف ہمیشہ مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے۔ چاہے خوف کا تعلق حال سے ہی کیوں نہ پیش آ رہا ہو
آج کا سچ یہ ہے '' کل کیا ہو گا یا مستقبل میں کیا ہو گا؟'' یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود ہرمحفل، دفاتر، چوک چوراہوں پر یہ سوال آگے پیچھے کرکے پوچھا جارہا ہے، جو آسودہ ہے، وہ بھی یہی سوال منہ میں ڈالے یہاں وہاں اگل رہا ہے اور جوہے ہی غریب،اسے بھی اسی سوال نے پریشان کررکھا ہے، اس کیفیت اور سوال نے ہرپاکستانی کی خوشیاں چھین لی ہیں اور اسے ڈر اورخوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ کل کا خوف ہمہ وقت ذہن پرطاری کیوںرہتا ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ افراط زر، مہنگائی اور ملکی حالات نے ہر پاکستانی کے ذہن پر مستقبل کا خوف طاری کردیا ہے۔ یہ دلیل خاصی وزنی ہے لیکن یہ عوامل ''حال'' ہی ہیں، ان کا ماضی یا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ڈر اور خوف اس لیے ہے کہ ہم حال کے بجائے ماضی اور مستقبل میں جینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آج پر ہم یقین ہی نہیں رکھتے ، حال میں بیٹھ کر ہم مستقبل اور ماضی کوتراشتے ہیں حالانکہ مستقبل کا کسی کوپتہ ہی نہیں، لہٰذا مستقبل میں جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، مستقبل کے بارے میں کم سے کم سوچیں گے تو خوش رہیں گے۔
ذرا سوچیں،''حال'' ہی سب کچھ ہے، اس سچائی کو پا لینے کے باوجود مستقبل میں جھانکنا ؟یا ماضی کے بلیک ہول میں گھسنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ دراصل ہم حال میں جینے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے یا حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہیں، یوں ہم اپنے حال سے خوشیاں وصول نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو کل کے دلفریب تصور میں گم کرکے اپنے حال کو ضایع کردیا ہے ۔ ریشنل ازم کا سبق یہی ہے کہ حال ہی سب کچھ ہے، میری اور آپ کی واحد دولت حال ہی ہے، اس لیے اپنی زندگی کا محور اسی کو بنائیں۔
حال پر توجہ اور یکسوئی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم جیسے حال کہتے ہیں، غیر محسوس انداز میں وہ ماضی بنتا جاتا ہے۔حال کا دورانیہ بہت کم اور مختصر ہوتا ہے، یہ چھوٹا اور مختصرسا لمحہ غیرمعمولی توجہ کا طالب ہوتا ہے، ہم اس چھوٹے سے لمحے کو ضایع کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں ''ماضی میں کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل میں رونما ہو گا لہٰذا جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ حال ہی میں ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے جب ہمارا حال ہی بدحال ہے تو مستقبل خوشحال ہونے کا تصور خود فریبی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔
ماضی تو ایک یاد ہے جب کہ مستقبل ایک خیال، دونوں ہی غیرحقیقی ہیں، دونوں کا کوئی وجود نہیں ہے، یہی آفاقی سچ ہے۔اس سے بڑی حماقت کیا ہو گی کہ ہم خیال کو حقیقت اور حقیقت کو خیال بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حال کے بجائے مستقبل اور ماضی میں جینے کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں ماضی میں رکھتے ہیں، ایک مستقبل میں جب کہ غلاظت حال پہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہی نہیں ہے۔
ہمیں اپنے سوچ اور فکر کے زاویے بدلنے کی ضرورت ہے ، آپ کا سیاسی نظریہ کچھ بھی ہو، آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے ہمدرد ہوں یا کارکن ہوں،اپنے اہداف حال کے مطابق طے کریں، اپنے حال کو ہر حال میں خوب صورت بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ اگر حال خوب صورت ہے تو مستقبل کا خوب صورت ہونا یقینی ہے کیونکہ مستقبل نے حال ہی کے بطن سے جنم لینا ہے۔ لہٰذا مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مستقبل کیسا ہوگا یا کیسا ہونا چاہیے، ایسی پیشین گوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو لمحہ موجود سے خوشی کشید کرنا چاہیے اور اگلا لمحہ اسی لمحے سے جنم لے گا۔ اگر ہم ہر وقت مستقبل کے ہی خواب بنتے رہتے ہیں تو یہ ذہنی خلجان اور حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ایسا مستقبل کبھی رونما نہیں ہو گا جس کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے آج کو حسین بنائیں کیونکہ کل نے آج کی کوکھ سے جنم لینا ہے۔
خلیل جبران کہتا ہے''پیچھے مڑ کر نہ دیکھو کیونکہ ماضی راکھ کا ڈھیر ہے۔ پاؤں مضبوط رکھو کیونکہ حال سمند رکی ریت ہے جو لمحہ بہ لمحہ سرک رہا ہے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھو کیونکہ مستقبل تاریک خلا ہے۔''
خوف ہمیشہ مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے۔ چاہے خوف کا تعلق حال سے ہی کیوں نہ پیش آ رہا ہو۔ ہم خود اور اپنے پیاروں کو لے کر مستقبل کے بارے میں خود کو اور انھیں غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں، وہ مستقبل جس کا پتہ نہیں کہ وہ ہو گا بھی یا نہیں ، اگر ہو گا تو کیسا ہو گا؟ کچھ علم نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک حاکم اپنے کسی درباری کی گستاخی پر غصہ میں آگیا اور کہا کہ میں تمھیں کل پھانسی پر لٹکا دو گا۔موت کے خوف سے اسے ساری رات نیند نہیں آئی۔ صبح کاذب پہرے داروں کے پاؤں کی آواز سنی تو سکتہ طاری ہوگیا، لزرتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا اور دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیے تاکہ دربان اسے ہتھکڑی پہنا کر لے جائیں۔ دربانوں نے اسے دیکھا اور کہا ، ہم تو ایک بری خبر لائے ہیں ، وہ یہ ''بادشاہ مر گیا ہے، آو تم اس کا کفن تیار کردو ۔ یہ سنتے ہی ، اس کے جسم میں قوت لوٹ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
عزیر دوستو! یاد رکھیں، زندگی کا مطلب حال ہے، ماضی یا مستقبل نہیں،ماضی بھی کبھی حال تھا اور مستقبل بھی حال ہی ہو گا لہٰذا مستقبل کے بارے میں اتنا زیادہ نہ سوچیں،جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ کل کی فکر کی بندوق سے آج کا خوش گوار لمحہ قتل نہ کریں۔
چلیں! اپنی فیملی کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کریں کیونکہ فیملی کو آپ کی آج ضرورت ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے؟
ہم خوفزدہ کیوں ہیں؟ کل کا خوف ہمہ وقت ذہن پرطاری کیوںرہتا ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ افراط زر، مہنگائی اور ملکی حالات نے ہر پاکستانی کے ذہن پر مستقبل کا خوف طاری کردیا ہے۔ یہ دلیل خاصی وزنی ہے لیکن یہ عوامل ''حال'' ہی ہیں، ان کا ماضی یا مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ڈر اور خوف اس لیے ہے کہ ہم حال کے بجائے ماضی اور مستقبل میں جینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ آج پر ہم یقین ہی نہیں رکھتے ، حال میں بیٹھ کر ہم مستقبل اور ماضی کوتراشتے ہیں حالانکہ مستقبل کا کسی کوپتہ ہی نہیں، لہٰذا مستقبل میں جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، مستقبل کے بارے میں کم سے کم سوچیں گے تو خوش رہیں گے۔
ذرا سوچیں،''حال'' ہی سب کچھ ہے، اس سچائی کو پا لینے کے باوجود مستقبل میں جھانکنا ؟یا ماضی کے بلیک ہول میں گھسنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ دراصل ہم حال میں جینے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے یا حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے ہیں، یوں ہم اپنے حال سے خوشیاں وصول نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو کل کے دلفریب تصور میں گم کرکے اپنے حال کو ضایع کردیا ہے ۔ ریشنل ازم کا سبق یہی ہے کہ حال ہی سب کچھ ہے، میری اور آپ کی واحد دولت حال ہی ہے، اس لیے اپنی زندگی کا محور اسی کو بنائیں۔
حال پر توجہ اور یکسوئی اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم جیسے حال کہتے ہیں، غیر محسوس انداز میں وہ ماضی بنتا جاتا ہے۔حال کا دورانیہ بہت کم اور مختصر ہوتا ہے، یہ چھوٹا اور مختصرسا لمحہ غیرمعمولی توجہ کا طالب ہوتا ہے، ہم اس چھوٹے سے لمحے کو ضایع کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں ''ماضی میں کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل میں رونما ہو گا لہٰذا جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ حال ہی میں ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے جب ہمارا حال ہی بدحال ہے تو مستقبل خوشحال ہونے کا تصور خود فریبی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔
ماضی تو ایک یاد ہے جب کہ مستقبل ایک خیال، دونوں ہی غیرحقیقی ہیں، دونوں کا کوئی وجود نہیں ہے، یہی آفاقی سچ ہے۔اس سے بڑی حماقت کیا ہو گی کہ ہم خیال کو حقیقت اور حقیقت کو خیال بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حال کے بجائے مستقبل اور ماضی میں جینے کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم اپنا ایک پاؤں ماضی میں رکھتے ہیں، ایک مستقبل میں جب کہ غلاظت حال پہ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہی نہیں ہے۔
ہمیں اپنے سوچ اور فکر کے زاویے بدلنے کی ضرورت ہے ، آپ کا سیاسی نظریہ کچھ بھی ہو، آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے ہمدرد ہوں یا کارکن ہوں،اپنے اہداف حال کے مطابق طے کریں، اپنے حال کو ہر حال میں خوب صورت بنانے کی کوشش کریں گے کیونکہ اگر حال خوب صورت ہے تو مستقبل کا خوب صورت ہونا یقینی ہے کیونکہ مستقبل نے حال ہی کے بطن سے جنم لینا ہے۔ لہٰذا مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
مستقبل کیسا ہوگا یا کیسا ہونا چاہیے، ایسی پیشین گوئیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو لمحہ موجود سے خوشی کشید کرنا چاہیے اور اگلا لمحہ اسی لمحے سے جنم لے گا۔ اگر ہم ہر وقت مستقبل کے ہی خواب بنتے رہتے ہیں تو یہ ذہنی خلجان اور حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ایسا مستقبل کبھی رونما نہیں ہو گا جس کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے آج کو حسین بنائیں کیونکہ کل نے آج کی کوکھ سے جنم لینا ہے۔
خلیل جبران کہتا ہے''پیچھے مڑ کر نہ دیکھو کیونکہ ماضی راکھ کا ڈھیر ہے۔ پاؤں مضبوط رکھو کیونکہ حال سمند رکی ریت ہے جو لمحہ بہ لمحہ سرک رہا ہے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھو کیونکہ مستقبل تاریک خلا ہے۔''
خوف ہمیشہ مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے۔ چاہے خوف کا تعلق حال سے ہی کیوں نہ پیش آ رہا ہو۔ ہم خود اور اپنے پیاروں کو لے کر مستقبل کے بارے میں خود کو اور انھیں غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں، وہ مستقبل جس کا پتہ نہیں کہ وہ ہو گا بھی یا نہیں ، اگر ہو گا تو کیسا ہو گا؟ کچھ علم نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک حاکم اپنے کسی درباری کی گستاخی پر غصہ میں آگیا اور کہا کہ میں تمھیں کل پھانسی پر لٹکا دو گا۔موت کے خوف سے اسے ساری رات نیند نہیں آئی۔ صبح کاذب پہرے داروں کے پاؤں کی آواز سنی تو سکتہ طاری ہوگیا، لزرتے ہاتھوں سے دروازہ کھولا اور دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیے تاکہ دربان اسے ہتھکڑی پہنا کر لے جائیں۔ دربانوں نے اسے دیکھا اور کہا ، ہم تو ایک بری خبر لائے ہیں ، وہ یہ ''بادشاہ مر گیا ہے، آو تم اس کا کفن تیار کردو ۔ یہ سنتے ہی ، اس کے جسم میں قوت لوٹ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
عزیر دوستو! یاد رکھیں، زندگی کا مطلب حال ہے، ماضی یا مستقبل نہیں،ماضی بھی کبھی حال تھا اور مستقبل بھی حال ہی ہو گا لہٰذا مستقبل کے بارے میں اتنا زیادہ نہ سوچیں،جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ کل کی فکر کی بندوق سے آج کا خوش گوار لمحہ قتل نہ کریں۔
چلیں! اپنی فیملی کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کریں کیونکہ فیملی کو آپ کی آج ضرورت ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے؟