شب گزیدہ سحر

ضرورت اب ایسے قانون کی ہے جو سب کو ایک ترازو میں تولے، سب کا احتساب ہو

Jvqazi@gmail.com

شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکا نہیں کرتے، بہت ہی تیزی سے صورتحال تبدیل ہو رہی ہے ۔ ابھی کچھ ہی تھمی تھی ، ڈالر کی اونچی اڑان مگر پھر ایک ہی دن میں ڈالر نے اونچی اڑان بھر لی اور پھر غیر معمولی انداز سے نیچے بھی آگیا۔

ہم نے ایک ہی دن میں نو ہزار روپے، سونے کی قیمت بڑھتے دیکھی۔ بس ایک ہی دن پہلے سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آیا ، سچ تو ہے نہ کہ صرف چیف جسٹس ہی سپریم کورٹ نہیں ہوا کرتے بلکہ سپریم کورٹ ان تمام ججوں کا مجموعہ ہے جو اس وقت سپریم کورٹ کی نشستوں پر تعینات ہیں اور چیف جسٹس ان سب میں سینئر ہیں، جن کو قانون کی زبان میں First among equal کہا جاتا ہے، وہ باقی تمام ججز کے اوپر نہیں ہیں اور نہ ہی باقی تمام ججز ان کے ما تحت ہیں۔

مخصوص سیاسی و معاشی میں اعلیٰ عدالت کے فیصلے میعشت، سیاست اورکاروبار پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی کڑی سے کڑی ہوتی جا رہی ہیں اورکوئی صورت بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔

نوے کی دہائی میں سجاد علی شاہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے ، وہ ججز میں سینئر ترین نہ تھے مگر بے نظیر بھٹو صاحبہ نے ان کو تین ججز پر فوقیت دے کر چیف جسٹس سپریم کورٹ بنایا۔ وہ شاید اس لیے کہ جب بے نظیر بھٹو کو ان کے پہلے دور میں وزیر اعظم کی کرسی سے آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت اتارا گیا تھا تو سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے اس بات کی تائید کی کہ ان کو درست اتارا گیا ہے مگر سجاد علی شاہ نے اس بات پر اعتراض کیا کہ یہ فرق لاڑکانہ کے وزیر اعظم کے ساتھ کیوں ؟

جب فاروق لغاری صاحب نے آرٹیکل 58(2)(b) کا استعمال کیا تو اس وقت بھی سجاد علی شاہ ، چیف جسٹس تھے اور وہ اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے فاروق لغاری کے اس اقدام کو درست قرار دیا۔ جتنے بھی سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے رہے ہوں مگر الجہاد ٹرسٹ میں ان کا بھی اس پر متفق رہنا کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس وہ ہی جج ہوگا جو ججز میں سینیئر ترین ہوگا اور پھر ان کا یہ فیصلہ انھیں پر صادر آیا، جب سجاد علی شاہ judicial activism کی تمام حدیں تجاوز کر گئے۔ ساتھی ججز اس حوالے سے اپنے اپنے تحفظات رکھتے تھے ، پھر کیا ہوا ؟

سب کو پتہ ہے، یوں جسٹس اجمل میاں الجہاد ٹرسٹ کیس کی روشنی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے۔ جس طرح مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا تھا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، ویسے ہی کچھ دن پہلے ہی عمران خان صاحب اپنی ضمانت کروا رہے تھے اور اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پر دھاوا بولا تھا یہ قدم بھی فاشزم سے کم نہیں۔

اس دفعہ صورتحال مختلف سہی مگر پھر بھی کچھ اس طرح سے نظر آ رہی ہے جیسی صورت حال سجاد علی شاہ کے دور میں تھی کہ ہمارے چیف جسٹس کے ساتھی جج ان سے اختلاف کر رہے ہیں،ایسا ہی ہوتا ہے جب judicial activism تمام حدود کو تجاوزکرجائے اور از خود نوٹس سے کورٹ چلنا شروع ہوجائے یا تمام آئینی کیسز مخصوص تین ججز کی بینچ سے یا فل بینچ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

یہ بات صحیح ہے کہ تمام لکیریں پار کر کے خان صاحب کو ریلیف دیا گیا ہے ، پنجاب حکومت ان کے ہاتھ میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ سب کھلواڑ ہوتے رہے ، اسلام آباد میں ان کو آرام سے آنے دیا گیا اور انھوں نے اسلام آباد میں گھس کر توڑ پھوڑ مچائی۔

اس کے باوجود بھی سقراط کی بات کا بھرم رکھنا ہو گا ، زہر کا پیالہ پی کر مر جانا ہے ۔ سقراط کا شاگرد اس رات جیل کی دیوار پھلانگ کر اس کے پاس پہنچتا ہے کہ '' سقراط میں نے جیل سے فرار ہونے کے لیے تمام اقدامات کر لیے ہیں ، تم یہاں سے اب چلو'' لیکن سقراط نے یہ کہہ کر اس کی تجویز کو ٹھکرادیا کہ ''کرائیٹو میں یونان کے قوانین کے سامنے بہت چھوٹا ہوں اور اگر میں نے ان سے بڑا ہونے کی کوشش کی تو ریاست کے ستون گر جائیں گے۔'' اسی طرح سے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھرم رکھنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ ایسی درجنوں فیصلے ہیں جن میں سے ایک فیصلہ ریکوڈک کا بھی ہے جس میں اربوں ڈالر اس ملک نے ادا کرنے ہوںگے ۔


سوال یہ ہے کہ جو آفاقی اصول اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں کیا اس یونیورسل معیار پر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں جو تحلیل ہوئیں کیا پورا اترتی ہیں۔ یہ نہیں کہ انارکی پھیلانے کے لیے مدت مکمل ہونے سے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا جائے تاکہ انتشار پیدا ہو۔

ملک میں فاشزم اپنی راہیں بنا رہا ہے اور کورٹ'' نوے دن'' کی بات isolateکرکے دیکھ رہی ہے ، یہ وہ انتخابات ہیں جو پانچ سال پورے ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نہ کروائے،اگر یہ انتخابات دو صوبوں میں ہوںگے تو پھر یہ مردم شماری سے پہلے ہوںگے اور باقی انتخابات مردم شماری کے بعد، جب کہ یہ معاملہ بھی ابھی طے ہونا ہے کہ کتنی قومی اسمبلی کی نشستیں بنتی ہیں اور کتنی صوبائی نشستیں کیونکہ اب آبادی بائیس کروڑ نہیں بلکہ 23 کروڑ ہے۔

اسمبلی کو تحلیل کرنے کا جو مروج اصول ہے وہ یہ ہے کہ جب ایوان میں کوئی حکومت نہ بنا پائے ، جب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی قرارداد منظورنہ ہو پائے اور دوسرا آفاقی اصول یہ ہے کہ اسمبلی پانچ سال پورے کر کے اپنی زندگی نہیں بڑھا سکتی، وہ بھی لاگو نہیں ہے یہاں کہ اسمبلی نے ابھی اپنے پانچ سال پورے نہیں کیے تھے۔

جج کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا moral fiber ہوتا ہے، اس کی رٹ اس کے کردار سے نکلتی ہے، اگر آپ پر کوئی الزام عائد ہو جائے تو اسی وقت آپ کو اپنا منصب چھوڑ دینا چاہیے، جب تک یہ الزام آپ پر غلط ثابت نہ ہوں۔ ہمارے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے اثاثے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں لیکن ان کو نشانہ صرف اس لیے بنایا گیا کہ اسٹیبشمنٹ کے ایک دو کرداروں اور عمران خان کو ان سے خوف محسوس ہوتا تھا، وہ ایک آزاد سوچ رکھنے والے شخص ہیں۔ پوری سول سوسائٹی اور وکلاء برادری ان کی دستِ بازو تھی۔

ضرورت اب ایسے قانون کی ہے جو سب کو ایک ترازو میں تولے، سب کا احتساب ہو، سب کو کل اثاثے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہوں ، شفاف ہوں جس طرح انڈیا اور دنیا کی تمام دوسری مہذب اور جمہوری و دستوری ریاستوں میں ہے۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

(فیض احمد فیض)
Load Next Story