جادو جنات اورعملیات دوسرا اور آخری حصہ

یہ سب کچھ جھوٹ ہے، یہ ایسی مخلوق یا طبقہ ہے جو نوسربازی کے بل پراپنی دکان چمکاتا ہے اور پیسے بٹورتا ہے

barq@email.com

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیں تھا رزق خاک ہوا

خاکی مٹی کھودتے کھودتے آخر کار اپنی ماں کے آغوش میں سماتے جارہے ہیں اور سماتے رہیں گے۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ کتوں کی گھر گھر دشمنی ہوتی ہے لیکن فقیرکے خلاف سارے ایک ہوجاتے ہیں، یہی حال اشرافیہ کے مختلف عناصر اور اشراف کے درمیان بھی ہوتا ہے اور یہی اس کی کامیابی کا راز بھی ہے۔

اشرافیہ اورحکمرانیہ کا تناسب پندرہ پچاسی کا ہوتا ہے، اشرافیہ جو پچاسی فی صد وسائل پر قابض ہوتی ہے اور پچاسی فی صد اشرافیہ عوامیہ کو پندرہ فی صد بھی نہیں دیتی جب کہ کمائی ساری کی ساری عوامیہ کی ہوتی ہے، ستم پر ستم یہ کہ یہ سب کچھ مذہب نام پر ہوتا ہے ، نام نہاد مولانا، عامل کامل، نجومی ،دم تعویذ اور جادو کرامات والے بھی اشرافیہ کا کام ہی آگے بڑھاتے ہیں اور انھیں عزت دلانے کے لیے مذہب کی غلط تشریح کرتے ہیں، تواہم پھیلاتے ہیں۔

یہ بات بھی ہرپڑھے لکھے شخص کو معلوم ہے کہ یہ کائنات مادے اورتوانائی کے دو پہیوں پر قائم اور رواں دواں ہے اور اس کے پورا نظام تخلیق وتکوین اور ارتقا میں یہی دوچیزیں کارفرما ہوتی ہیں بلکہ ان دونوں کااشتراک ہی '' ہونے'' کی بنیاد ہے ،یہ پوری کائنات ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے، جسے ہم نظام قدرت کہتے ہیں۔

اس نظام میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ یا بریک یا حادثاتی تبدیلی جب خدا خود نہیں کرتا ہے توکوئی کیسے کر سکتاہے جب تک منفی و مثبت آپس میں ملتے نہیں تب تک کچھ بھی نہیں ہوتا، مادہ اور توانائی کا ملن ہی کسی بھی حرکت کے لیے لازم ہے، مادہ وہ ہے جسے انسان کے پانچ حواس سے ثابت کیاجاسکتاہے لیکن توانائی پانچ انسانی حواس کے دائرے سے باہرہے۔

اس سے صرف چھٹی حس یا روح یا ذہن سے معلوم کیاجاسکتاہے وہ بھی جب تک مادے سے اس کا ملن نہیں ہوتا، بجلی توانائی ہے اور جب تک کسی مادی آلے بلب یا مشین کی مدد حاصل نہیں ہوتی، بیکارمحض ہے، ایسے ہی سارے آلات بلب اور مشین بھی جب بجلی کو توانائی کی مدد حاصل نہیں ہوتی بیکارہوتے ہیں، انسانی جان یا روح یا ٹی وی ٹیلی فون کی لہریں بھی تب تک بیکار ہوتی ہیں جب مادے پر مشتمل آلات کے ذریعے ان سے کام نہ لیا جائے۔


اس بنیاد پر دم تعویذ، عملیات، جنتر منتر اور سحر وجادو آخر کس اصول پر کام کرتے ہیں ، عام طورپر ایسے مواقع پر کہا جاتاہے کہ خدا سب کچھ کرسکتاہے، بالکل وہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے کیوں کہ سب وہ ہی تو ہے، لیکن اللہ کائنات کے نظام کو تبدیل نہیں کرتا، ایسا کرنے کے لیے ایک دن مقرر کر دیا گیا ہے جسے ہم قیامت کہتے ہیں۔یوں جب ''مقنن'' خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نہیں توڑتا تو کسی جادوگر کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

جنات کے بارے میں بھی وہی حربہ استعمال کیاجاتا ہے ۔ خیر یہ اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے۔ مطلب اس ساری بحث کا یہ ہے کہ رب جلیل کے اس عظیم الشان کائنات میں اور اس میں جو غیر مبدل قانون الٰہی جاری وساری ہے، اس میں ایسی کسی بھی تبدیلی کی گنجائش ہی ہیں ہے ، غالب نے اس بات کو صرف ایک شعر میں بیان کیا ہے جو سیکڑوں کتابوں پر بھاری ہے کہ

لطافت بے کثافت جلوہ پیداکر نہیں سکتی
چمن زنگارہے آئینہ باد بہاری کا

لیکن یہاں تو عامل، نجومی اور عملیات کے خودساختہ ماہرین پتہ نہیں کیا سے کیا کر رہے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس مذہب کا کوئی علم ہوتا ہے اور نہ ہی سائنس کا۔ ایسے لوگ صرف اپنی چالاکی اور عیاری کے بل بوتے پر ہاتھوں پر سرسوں جماتے ہیں اور سادہ لوح لوگوںکو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ جھوٹ ہے، یہ ایسی مخلوق یا طبقہ ہے جو نوسربازی کے بل پراپنی دکان چمکاتا ہے اور پیسے بٹورتا ہے۔ یہ سب کے سب اس بچاری بے دماغ اور اشرافیہ کا شکار عوامیہ کو لوٹنے کے دھندے ہیں ۔

کیا قرآن اس لیے نازل گیاہے کہ ایسے جعلی لوگ اسے اپنی دکانوں میں بیچتے پھریں اور وہ کام لیں جو اللہ نے قرآن کریم میں منع کیے ہیں ۔
Load Next Story