’’تعلیم کبھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی‘‘
چیف ایگزیکٹوآفیسر کپس(Knowledge Inn Preparatory School) عابد وزیرخان کی گفتگو
حوصلے بلند ہوں تو منزل کا حصول آسان ہوجاتا ہے لیکن پرواز میں کوتاہی بحرانوں کی صورت میں ہی سامنے آتی ہے۔
ترقی کے حصول کے لئے حقیقت پسندی کو اپنا شعار بنانا ہی پڑتا ہے اور تعلیم کے فروغ کے بغیر ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے جب اِس حقیقت کو جان لیا تو پھر اسے اپنے اولین ترجیح قرار دے دیا۔ لیکن اس کے برعکس ہمارا نظام تعلیم اور نظام امتحان اس قدر کمزور ہے کہ اس کی افادیت سے قوم کے ہونہاروں کو مستفید نہیں کیا جا سکتا، تاہم نجی تعلیمی سیکٹر ایک درخشاں ستارے کی مانند علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نجی تعلیمی ادارے جو حکومتی پالیسی اور فروغ تعلیم کا کام کر رہے ہیں اور ان کاسفر کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اوران کی مشاورت کو سرکاری تعلیمی اداروں کی معاونت کے لیے لازمی جزو قراردیا جائے تاکہ نجی اورسرکاری دونوں سطح پر ہمارے تعلیمی اداروں سے قوم کے بچے یکساں بنیادوں پر مستفید ہوسکیں۔
یہاں یہ قابل ذکر بات ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں چند ایک ہی نجی تعلیمی ادارے ایسے قائم ہیں جن کو بہترین کارکردگی کی بنیادپر بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک ادارہ KIPSکے نام سے تعلیم کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے اورآج یہ ادارہ معیاری تعلیم کے فروغ کا ضامن تصور کیا جاتا ہے، جس کے پیچھے ان کی انتظامیہ اور خصوصاً چیف ایگزیکٹو آفیسر عابد وزیرخان کا ہاتھ ہے۔ عابد وزیر خان نے اعلی و معیاری تعلیم وتربیت کے فروغ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور سول انجینئر ہونے کے باوجود ٹیچنگ کے شعبہ کو جو جلا بخشی ہے۔
1992ء میں (KIPS)Knowledge Inn Preparatory School کے نام سے قائم ہونے والا ادارہ آج علم وتربیت کا گہوارہ بن چکا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اعلی ومعیاری تعلیم کی فراہمی میں کپس کا نام ہی کافی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر انہوں نے کس عزم کے ساتھ اور مقصد کے لیے شروع کیا، اس کوجاننے کے لیے عابد وزیر خان سے ایک نشت کا اہتمام کیاگیا جس کااحوال نذر قارئین ہے۔ اپنے سفر کے آغاز کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ یہاں لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس مین اور بینکرز وغیرہ توبنانا چاہتے ہیں مگر قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے اچھا استاد بنانا نہیں چاہتے۔ یہی وہ ایک بڑی وجہ ہے کہ آج اساتذہ کی تکریم ختم ہوگئی ہے، جس کو کچھ نہیں آتا وہ استاد بن جاتا ہے اور اس کو پارٹ ٹائم کے طورپر جائن کرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کم ازکم استاد کاگریڈ18 اور معقول تنخواہ مقررکی گئی ہے، اسی طرز پر سکولوں کی سطح پر بھی پرائمری ٹیچر کاگریڈ 18 اورماہانہ تنخواہ معقول ہونی چاہیے، اورانہی کو اساتذہ کی سیٹوں پر بھرتی کیاجائے جو ٹیچر بننا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جب تک ''ایجوکیشن فار آل''پر سنجیدگی سے غوروفکر اورعمل نہیں ہوگا ہماری ترقی ہم سے دور رہے گی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے فروغ کو کبھی بھی پہلی ترجیح میں رکھا ہی نہیں گیا۔ کاغذی کارروائی میں تو ''تعلیم سب کے لئے'' شاید کہیں موجود ہو مگرعملی طورپر اس کا نمونہ نجی تعلیمی سیکٹر میں ہی ملتا ہے۔
وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے بہترین اقدامات کیے ہیں، جس انداز سے سی ایم نے ڈینگی کا خاتمہ کیا اسی طرز پر فروغ تعلیم کو بطور ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ سرکاری سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کوعجلت میں بڑھایا یا گھٹایا نہ جائے بلکہ اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو نجی تعلیمی سیکٹر اورپبلک سیکٹر کے ان نمائندگان پر مشتمل ہو جن کی تعلیم اور تربیت کے فروغ کے حوالے سے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ مل بیٹھ کر ہر دوسال بعد نصاب کو چیک کریں اوران میں بین الاقوامی معیار کے مطابق کمی وبیشی کریں تاکہ دور جدید کے مطابق ہم تعلیم کافروغ یقینی بناسکیں۔
پنجاب بھر کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلوں کی غرض سے ہونے والے انٹری ٹیسٹ اوران کی تیاری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چیف ایگزیکٹو کیپس عابد وزیرخان نے کہا کہ جب انٹری ٹیسٹ کاآغاز کیاگیا تو اس وقت اس کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیاگیا کیونکہ بورڈ زکی پوزیشنز ٹھیک نہیں تھیں اور بچوں کے تعلیمی معیار کو چیک کرنے کا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا، تاہم اب حالات قدرے بہتر ہیں، مگر انٹری ٹیسٹ کو ختم کرنامشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر امتحان کی تیاری کے لیے طلباء وطالبات کے ساتھ ایمانداری اور محنت سے برتاوکیا اورکبھی بھی تعلیم کے فروغ میں معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ آج کپس کا نام بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سی ایس ایس کرنے کے بعد بھی ٹیچربننے کو کوئی تیارنہیں ہوتا بلکہ بڑے عہدے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہم نے اگر ملک وقوم کی تعلیمی،معاشی اورمعاشرتی ترقی کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اساتذہ کی تکریم کو بحال کرنا ہوگا اوران کو معاشی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ قوم کو اچھے اورکوالیفائیڈ اساتذہ دستیاب ہوںگے تو بحرانوں سے جان بچائی جاسکے گی۔
عابد وزیرخان نے بتایا کہ کیپس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی انتظامیہ کے تحت سکول اورکالجز بھی قائم کیے ہیں، جہاں سائنس مضامین کی ترقی اورکامرس کی تعلیم بھی باہم پہنچائی جارہی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب ٹچینگ کے شعبہ پر خصوصی توجہ دیں اورقوم کو اس بات پر رضامند کریں کہ جس طرح سے قوم کو اچھے ڈاکٹرز،انجینئرز چاہئیں اسی طرح اچھے ،کوالیفائیڈ ٹیچر بھی درکار ہیں جو باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ اس کے لئے اپنا من مارنا پڑے گا اور ٹیچنگ کے پروفیشن کو بلند مقام دینا ہوگا تاکہ افراد مجبورہوکر نہیں بلکہ اپنی خوشی اورعزم سے استادبنیں۔ آخر میں انہوںنے اس عزم کا اظہار کیا کہ جس پروفیشن یعنی ٹیچنگ کو انہوں نے اپنے دل سے قبول کیا تھا آج ان کی ترقی اور ادارے کی ترقی اسی کی مرہون منت ہے اور اس بات پر وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے کسی سرکاری آفیسر بننے پر ٹیچنگ کے شعبہ کو ترجیح دی اوراس میں کامیابی بھی حاصل کی۔
ترقی کے حصول کے لئے حقیقت پسندی کو اپنا شعار بنانا ہی پڑتا ہے اور تعلیم کے فروغ کے بغیر ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے جب اِس حقیقت کو جان لیا تو پھر اسے اپنے اولین ترجیح قرار دے دیا۔ لیکن اس کے برعکس ہمارا نظام تعلیم اور نظام امتحان اس قدر کمزور ہے کہ اس کی افادیت سے قوم کے ہونہاروں کو مستفید نہیں کیا جا سکتا، تاہم نجی تعلیمی سیکٹر ایک درخشاں ستارے کی مانند علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نجی تعلیمی ادارے جو حکومتی پالیسی اور فروغ تعلیم کا کام کر رہے ہیں اور ان کاسفر کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اوران کی مشاورت کو سرکاری تعلیمی اداروں کی معاونت کے لیے لازمی جزو قراردیا جائے تاکہ نجی اورسرکاری دونوں سطح پر ہمارے تعلیمی اداروں سے قوم کے بچے یکساں بنیادوں پر مستفید ہوسکیں۔
یہاں یہ قابل ذکر بات ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں چند ایک ہی نجی تعلیمی ادارے ایسے قائم ہیں جن کو بہترین کارکردگی کی بنیادپر بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک ادارہ KIPSکے نام سے تعلیم کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے اورآج یہ ادارہ معیاری تعلیم کے فروغ کا ضامن تصور کیا جاتا ہے، جس کے پیچھے ان کی انتظامیہ اور خصوصاً چیف ایگزیکٹو آفیسر عابد وزیرخان کا ہاتھ ہے۔ عابد وزیر خان نے اعلی و معیاری تعلیم وتربیت کے فروغ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور سول انجینئر ہونے کے باوجود ٹیچنگ کے شعبہ کو جو جلا بخشی ہے۔
1992ء میں (KIPS)Knowledge Inn Preparatory School کے نام سے قائم ہونے والا ادارہ آج علم وتربیت کا گہوارہ بن چکا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اعلی ومعیاری تعلیم کی فراہمی میں کپس کا نام ہی کافی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنی کامیابیوں کا نہ ختم ہونے والا سفر انہوں نے کس عزم کے ساتھ اور مقصد کے لیے شروع کیا، اس کوجاننے کے لیے عابد وزیر خان سے ایک نشت کا اہتمام کیاگیا جس کااحوال نذر قارئین ہے۔ اپنے سفر کے آغاز کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ یہاں لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس مین اور بینکرز وغیرہ توبنانا چاہتے ہیں مگر قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے اچھا استاد بنانا نہیں چاہتے۔ یہی وہ ایک بڑی وجہ ہے کہ آج اساتذہ کی تکریم ختم ہوگئی ہے، جس کو کچھ نہیں آتا وہ استاد بن جاتا ہے اور اس کو پارٹ ٹائم کے طورپر جائن کرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر کم ازکم استاد کاگریڈ18 اور معقول تنخواہ مقررکی گئی ہے، اسی طرز پر سکولوں کی سطح پر بھی پرائمری ٹیچر کاگریڈ 18 اورماہانہ تنخواہ معقول ہونی چاہیے، اورانہی کو اساتذہ کی سیٹوں پر بھرتی کیاجائے جو ٹیچر بننا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ جب تک ''ایجوکیشن فار آل''پر سنجیدگی سے غوروفکر اورعمل نہیں ہوگا ہماری ترقی ہم سے دور رہے گی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے فروغ کو کبھی بھی پہلی ترجیح میں رکھا ہی نہیں گیا۔ کاغذی کارروائی میں تو ''تعلیم سب کے لئے'' شاید کہیں موجود ہو مگرعملی طورپر اس کا نمونہ نجی تعلیمی سیکٹر میں ہی ملتا ہے۔
وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے بہترین اقدامات کیے ہیں، جس انداز سے سی ایم نے ڈینگی کا خاتمہ کیا اسی طرز پر فروغ تعلیم کو بطور ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگا۔ انہوں نے تجویز دی کہ سرکاری سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کوعجلت میں بڑھایا یا گھٹایا نہ جائے بلکہ اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو نجی تعلیمی سیکٹر اورپبلک سیکٹر کے ان نمائندگان پر مشتمل ہو جن کی تعلیم اور تربیت کے فروغ کے حوالے سے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ مل بیٹھ کر ہر دوسال بعد نصاب کو چیک کریں اوران میں بین الاقوامی معیار کے مطابق کمی وبیشی کریں تاکہ دور جدید کے مطابق ہم تعلیم کافروغ یقینی بناسکیں۔
پنجاب بھر کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلوں کی غرض سے ہونے والے انٹری ٹیسٹ اوران کی تیاری کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چیف ایگزیکٹو کیپس عابد وزیرخان نے کہا کہ جب انٹری ٹیسٹ کاآغاز کیاگیا تو اس وقت اس کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیاگیا کیونکہ بورڈ زکی پوزیشنز ٹھیک نہیں تھیں اور بچوں کے تعلیمی معیار کو چیک کرنے کا اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا، تاہم اب حالات قدرے بہتر ہیں، مگر انٹری ٹیسٹ کو ختم کرنامشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر امتحان کی تیاری کے لیے طلباء وطالبات کے ساتھ ایمانداری اور محنت سے برتاوکیا اورکبھی بھی تعلیم کے فروغ میں معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ آج کپس کا نام بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سی ایس ایس کرنے کے بعد بھی ٹیچربننے کو کوئی تیارنہیں ہوتا بلکہ بڑے عہدے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہم نے اگر ملک وقوم کی تعلیمی،معاشی اورمعاشرتی ترقی کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اساتذہ کی تکریم کو بحال کرنا ہوگا اوران کو معاشی قید سے آزاد کرنا ہوگا۔ قوم کو اچھے اورکوالیفائیڈ اساتذہ دستیاب ہوںگے تو بحرانوں سے جان بچائی جاسکے گی۔
عابد وزیرخان نے بتایا کہ کیپس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اپنی انتظامیہ کے تحت سکول اورکالجز بھی قائم کیے ہیں، جہاں سائنس مضامین کی ترقی اورکامرس کی تعلیم بھی باہم پہنچائی جارہی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب ٹچینگ کے شعبہ پر خصوصی توجہ دیں اورقوم کو اس بات پر رضامند کریں کہ جس طرح سے قوم کو اچھے ڈاکٹرز،انجینئرز چاہئیں اسی طرح اچھے ،کوالیفائیڈ ٹیچر بھی درکار ہیں جو باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ اس کے لئے اپنا من مارنا پڑے گا اور ٹیچنگ کے پروفیشن کو بلند مقام دینا ہوگا تاکہ افراد مجبورہوکر نہیں بلکہ اپنی خوشی اورعزم سے استادبنیں۔ آخر میں انہوںنے اس عزم کا اظہار کیا کہ جس پروفیشن یعنی ٹیچنگ کو انہوں نے اپنے دل سے قبول کیا تھا آج ان کی ترقی اور ادارے کی ترقی اسی کی مرہون منت ہے اور اس بات پر وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے کسی سرکاری آفیسر بننے پر ٹیچنگ کے شعبہ کو ترجیح دی اوراس میں کامیابی بھی حاصل کی۔