زباں فہمی 177 اردو اور راجستھان حصہ سومآخری
اس خطے کو بجا طور پر ”دوہا۔ دیس“ کہا گیا ہے
بات ہو رہی تھی تاج قائم خانی کی تو یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ دیگر ہندوستانی اہل قلم کے برعکس، ہمارے بزرگ محقق، شاعر، ادیب اور محب ِ راجستھان،محترم نذیر فتح پوری نے اپنی ایک تازہ کتاب "تذکرہ شعرائے چورو، شیخاواٹی" میں (اپنے قلمی دوست) تاجؔ کو (نظراَنداز کرنے کی بجائے) بطور خاص جگہ دی۔
اُن کی جائے پیدائش گاؤں گھانگوہ، آج ضلع شیخاواٹی (کی تحصیل سجان گڑھ) کا حصہ ہے جو کبھی خود بیکانیر کی تحصیل تھی، مگر اب نئی تقسیم میں اُس سے جدا ہے۔ بقول نگارؔ صہبائی، وطن عزیز میں، ماسوائے تاجؔ اور عشقیؔ کے کوئی دوہے کے مقرر، مستند اوزان پر دوہا کہنے والا باقی نہ رہا تھا۔(ویسے ہمارے معاصرین میں ندیم احمدصدیقی ایک اچھا اضافہ ہیں)۔
(مدیر 'اسباق'، پونہ، متوطن فتح پور شیخاواٹی کی متعدد کتب میں فقط اپنے وطن کی نسبت سے چار بالتحقیق لکھی گئی کتابیں شامل ہیں۔وہ نظم وغزل، دوہا، رباعی، ماہیا اور ہائیکو سمیت تمام اصناف سخن میں رواں اور ممتاز ہیں)
تاجؔ قائم خانی کا اپنی مادری زبان مارواڑی کے ساتھ ساتھ، اردو اور اختیاری زبان سندھی پر عبور بھی قابل رشک تھا۔تاج ؔ نے مارواڑی زبان میں لکھی گئی، بیکانیر کی قدیم داستان ڈھولا مارُو کا،بیکانیری روایت کی ترتیب کے عین مطابق،اولین منظوم اردوترجمہ سندھی سے کیا۔اس کی ایک جھلک دیکھیے:
بابُل، تال پھڑائے دو
کے کُونجاں دو مروائے
اردو: بابل(باپ)، یہ تالاب تڑائیں
یا ان کونجوں کو مروائیں
جد جاگُوں جد ایکلی
تو کونج رہی کرلائے
اردو: ساری رات کراہیں ان کی
مجھ بِرہَن کا روگ بڑھائیں
پاکستان میں مقیم،مزید زندہ ومتوفٰی سابق راجستھانی شعراء کا ذکرآگے آئے گا، فی الحال ہم واپس راجستھان چلتے ہیں۔
راجستھان کے شاعروں کی پسندیدہ صنف سخن، شروع سے دوہا ہی رہا ہے۔اس خطے کو بجا طور پر "دوہا۔دیس" کہا گیا ہے۔ایک جدید تحقیق کے مطابق، ہندی کے پہلے کَوِی (شاعر) سرہپا کا 'دوہا کوش' 769ء میں منظر عام پر آیا، جبکہ ہندوی (یعنی قدیم اردو/ہندی) مخصوص طرزکے پہلے دوہا نگار یا دوہا گو شاعر،ناگور، راجستھان میں مدفون بزرگ،حضرت شیخ حمید الدین سوالی ناگوری (1193ء تا 1274ء)یعنی "سلطان التارکین" کہلاتے ہیں۔
یہاں راقم کی اپنی پرانی تحقیق کا رَد ہوگیا جس میں یہ انکشاف تھا کہ اردوئے قدیم کے اولین شاعر(دوہا نگار)،نیز مصنف،شیخ شرف الدین یحیٰ منیری[Maneri]المعروف مخدوم بِہاری [1263-1381]تھے۔ہاں البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ شیخ ناگوری کی کتب میں اردوزبان کس قدر ہے، اگر ہے تب وہی اردوئے قدیم کے اولین مصنف قرارپائیں گے،ورنہ مخدوم بِہاری۔1192ء میں سلطان شِہاب الدین غوری[1144 - 1206] نے پرِتھوی راج کو دوسری جنگ میں شَکَست دے کرسلطنت دہلی پر اپنا اقتدار قائم کیا تو 1193ء میں پیداہونے والا پہلا مسلم بچہ یہی شیخ حمید تھے۔
روایت کی رُو سے سلطان التارکین شیخ حمید کو یہ لقب،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے عطا کیا تھا۔یہ ساری تمہید ذہن میں رکھیں تومعلوم ہوگا کہ مسعود سعد سلمان لاہوری اور امیر خسرو کے درمیان صدیوں اردو کی تشکیل کا عمل کہیں نہ کہیں جاری رہا اور غوری عہد سلطنت میں اس کی بہتر شکل نکلنی شروع ہوگئی تھی۔ضمنی بات یہ ہے کہ امیرخسرو کی والدہ نَومسلم راجپوت تھیں، گویا اُن کے خون میں بھی یہ عنصر شامل تھا۔ممتازقدیم اردوسخنور،حضرت بہاؤ الدین باجن کے کلام میں راجستھانی کے اثرات بھی موجود ہیں۔
دوہے نے راجستھان میں اس قدر ترقی کی کہ ہمارے ایک معاصر ڈاکٹر فراز ؔ حامدی صاحب نے "دوہا غزل" کا تجربہ شروع کردیا۔
ابتدائے اردو پرتحقیق کی جائے تودیگر قدیم آثار ِ نثر ونظم میں ایسے راجستھانی الفاظ، اردو کے ذخیرے میں دخیل نظرآتے ہیں:
چھند(ناز،مکر، فریب)، کدی/کدھیں (کبھی)(میرے داداجان مرحوم ہمیشہ 'کدی' ہی کہا کرتے تھے جو مجھے پنجابی کے زیر ِ اثر معلوم ہوتا تھا، مگر وہ راجستھان میں بھی مقیم رہے تھے)،تمن (تم نے)، لاگی (لگنا)، تجہ سار/تجہ سارکا(تجھ جیسا)،کیتک (کتنا ایک یعنی بہت، کتنے ہی)،بیگی/بیگ (جلدی،فوراً)،ساچا (سچ، سچا)،اندھار/اندھارا(اندھیرا)،بیجلی (بجلی)، ترت(تُرنت، فوراً)،لِکھن ہار(لکھنے والا)، چھوری، چھورا(لڑکی، لڑکا)،سبہہ (سبھی)، مانہہ(میں ہی)،بہتیک(بہت ایک یعنی بہت سے)،پیوسیتی(پیو، پیا، محبوب)، کُن/کُنڑ(کون)، ہنروَند(ہنرمند)، مہروَان(مہربان)، تروَار(تلوار)،اول(اوّل)، اپن (اپنا، اپنے)۔
اس فہرست میں شامل بہت سے الفاظ آپ کو پنجابی (نیز پنجاب کی دیگر)،گجراتی، دکنی اردو اور سندھی زبانوں میں بھی مل جائیں گے جن سے ان کے باہمی لسانی اشتراک کا پتا چلتاہے۔ڈنگل (قدیم راجستھانی)میں عربی وفارسی کے الفاظ کی موجودگی بھی اس اَمر کا واضح ثبوت ہے کہ اردو کی تشکیل کا عمل، ہرعلاقے میں پہلے سے موجود زبانوں اور بولیوں کے اختلاط و اشتراک سے، جاری ہوا اور اپنے اپنے مقام پر نقطہ عروج کو پہنچا۔
مغل بادشاہ اکبراور جہانگیر کے عہد میں، راجستھانی میں لکھی جانے والی کتب میں،ترقی پذیر زبان اردو کے نقوش بھی ملتے ہیں۔آگے چلیں تو راجستھانی کے دکنی اردو روپ سے انتہائی درجے کی قربت ومماثلت بھی حیران کُن نظر آتی ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر عزیز انصاری، ان دونوں میں کوئی عبارت تحریر کریں،جملہ بنائیں تو صَرف ونَحو کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ انھوں نے پنجابی کے مقابلے میں راجستھانی کو اُردو سے زیادہ قریب قراردیا ہے۔پروفیسر فیروزاحمد نے انھی کی جلائی ہوئی مشعل کو بحسن وخوبی آگے بڑھاتے ہوئے اس موضوع پر عمدہ تحقیقی کا م کیا۔ان دونوں محققین کی کتابوں میں راجستھانی اور اردو کے لسانی رشتے کی بابت تکنیکی بحث ملتی ہے۔
ایک جملہ دیکھیے: لڑکا شور مچارہاہے راجستھانی میں: لڑکاسورمچاریا
اور جمع میں: لڑکے شور مچارہے ہیں راجستھانی میں: لڑکو سورمچاریو
راجستھان کی دیوناگری لپی میں لکھی جانے والی مقامی زبان اور پاکستان کی نستعلیق میں لکھی جانے والی راجستھانی میں قدرے فرق ہے۔ بقول جناب ایم آئی (مشتاق الاسلام) ظاہرؔ،ہمارے واٹس ایپ/فیس بک دوست: "یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہندوستان میں راجستھانی زبان کی رسم الخط دیوناگری ہے۔ لیکن پاکستان میں راجستھانی زبان کی رسم الخط نستعلیق ہے اور وہاں کے شعراء بھی اسی زبان میں شاعری کرتے ہیں جو بولی اور برتنے کے اعتبار سے ہندوستانی راجستھانی زبان سے قدرے مختلف ہے"۔
راجپوتانہ میں تقسیم ہند کے وقت اکیس چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔اب ہم سرسری ذکربھی کریں تو تنگی قرطاس کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ 1817 میں راجستھان کی قائم ہونے والی، ریاست ٹونک کے نوابین اور اُمراء نے مغلوں کے زوال کے بعد بسنے والی اس نگری میں علماء، اُدَباء وشعراء کی سرپرستی کرتے ہوئے اردو زبان وادب کی آبیاری میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔نواب امیر خاں، نواب وزیر خاں، نواب علی خاں، نواب ابراہیم علی خاں خلیلؔ،نواب سعادت علی خاں سعیدؔ(نیز تخلص مختارؔ اور تاجؔ)، نواب فاروق علی خاں اور نواب اسمٰعیل علی خاں کے اسماء قابل ذکر ہیں۔یہاں کا پہلا بڑا شاعر صولت ؔٹونکی جن کی فنی عظمت کو علامہ سیماب ؔ اکبر آبادی اور جوش ؔ ملیح آبادی نے برملا تسلیم کیا۔
ٹونک کے کلاسیکی شعراء میں سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگردبسملؔ سعیدی (06 جنوری 1901ء، ٹونک تا26اگست 1976ء، دہلی)کانام نمایا ں ہے جنھوں نے 1940ء سے جے پور میں سکونت اختیار کی۔کلاسیک اور جدت دونوں سے مملوُغزل کے ساتھ ساتھ عصری موضوعات پر عمدہ نظم گوئی اُن کا خاصّہ تھا۔اُن کا ایک شعربطور تبرک:
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
ٹونک کے مشاہیر سخن (بشمول پاکستان میں مقیم) کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے۔بسملؔ سعیدی کے شاگرد،حافظ ِ قرآن جوہرؔ سعیدی نے پاکستان میں نام روشن کیا۔ان کے دومجموعہ ہائے کلا م (اولین"بادِ سُبک دست")اور احادیث مبارکہ کا ترجمہ وتفسیراُن کی پہچان ہے۔اُن کے فرزند اختر سعیدی نے شاعری اور صحافت میں نام کمایا۔ٹونک سے ہجرت کرنے والوں میں نوا ب امیر خاں کے خاندان سے واثق ؔ ٹونکی(عربی،فارسی،انگریزی وسنسکرت کے عالم، مجسٹریٹ) کا نام بہت مشہور ہوا، اُن کے فرزند اَدیبؔ واثقی اور دختر گلنار آفرین نے دنیائے ادب میں اپنے گھرانے کا نام روشن کیا۔
یہاں ذرا ماضی بعید کی طرف لوٹ کر دیکھیں تو سرزمین ٹونک سے اٹھنے والے عظیم محقق، استاد پروفیسر حافظ محمود شیرانی اور اُن کے شاعر فرزند اخترؔ شیرانی کا نام بھی ناقابل فراموش ہے۔ہمارے مشفق بزرگ معاصر پروفیسر ڈاکٹریونس حسنی ٹونکی صاحب نے"اختر شیرانی اور جدید ادب" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا،جاپان کا تعلیمی دورہ فرمایا تو ہائیکو کی تکنیت وہئیت سے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی۔
ہمارے عہد کے معتبر مزاح گو (نیز سنجیدہ غزل گو) پروفیسر عنایت علی خان مرحوم بھی 'ٹونکی' تھے جن کے مقبول کلام میں یہ منفرد شعر بھی شامل ہے: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں، حادثہ دیکھ کر
جدید راجستھانی اہل قلم میں شامل،سابق نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ثروت خان صاحبہ(پ: 23 جنوری 1960ء، جھالاواڑ)نے اپنی بے باک افسانہ وناول نگاری نیز تدریس وترویج اردو کی مساعی سے اردودنیا میں نمایاں مقام پیدا کیا۔
پرندے موسم گل کو جہاں پکارتے تھے
عجیب دھوپ تھی، سائے جہاں تھکن اُتارتے تھے
(انورجاویدہاشمی)
کے ماہر سخنور بھی، 'ٹونکی' ہیں (مجموعہ کلام: انتظار کے پودے)۔ان کے والد سالکؔ الہاشمی علیگ ایڈووکیٹ(مجموعہ کلام'خاکِ دل') اور چچا قمرؔہاشمی(مجموعہ کلام 'تماشا طلب آزار' اور ' مُرسَلِ آخر') ٹونک سے ہجرت کرکے آنے والے معروف شعراء میں شامل تھے۔نمونہ کلام:
نہ احترام ِ حرم ہے نہ اعتبارِ حرم
ہم آج کونسی منزل میں ہیں خداجانے
(سالکؔ الہاشمی)
کبھی تو التفات ایساکہ خود سے بدگمانی ہو
کبھی بے گانگی ایسی کہ مرجانے کو جی چاہے
(قمرؔہاشمی)
ٹونک سے جوش ؔ ملیح آبادی کے بستہ بردار عیشؔ ٹونکی کا بھی تعلق تھا جنھیں جوشؔ نے اردو لغت بورڈ میں ملازم کروایا تھا۔
جودھ پور کے شعراء میں علامہ ابوالاسرارظہور احمد رَمزی ؔاِٹاوی (یکم دسمبر 1912ء، اٹاوہ، یوپی۔تا۔ 5 اپریل 2002 ء،جودھپور)،تلمیذِعلامہ سیماب اکبرآبادی کا نام بہت معروف ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو اور انگریزی میں ماسٹرز کی سند کے حامل، شعبہ تدریس سے منسلک، رمزی صاحب کا ذکر ِخیر، زباں فہمی میں ماقبل بھی ہوچکا ہے۔(مجموعہ کلام "صحرا میں بھٹکتا چاند"،اپنے شہر میں دبستان ابوالکلام آزادؔ کے علَم بردار)۔علامہ رمزی ؔ کے پوتے ایم آئی ظاہرؔ شاعری سے زیادہ صحافت میں ممتاز ہوئے۔وہ اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں اپنی ادبی وصحافتی تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
اجمیر شریف سے حیدرآباد، سندھ منتقل ہونے والوں میں سب سے بڑا نام قابلؔ اجمیری کا ہے، اُن کے علاوہ ماہرؔ اجمیری (اور پھر کراچی میں مختارؔ اجمیری)بھی نمایاں ہوئے۔حیدرآباد ہی میں ادبی حلقوں،درس تدریس اور صداکاری میں ایک معتبر نام قاصدعزیز (19جنوری 1947ء، اجمیر۔تا۔2اکتوبر 2000ء، حیدرآباد)نے اپنے ساتھی اداکار محمد علی کی لاہور میں کام کرنے کی دعوت محض اس لیے ٹھکرادی کہ اپنی والدہ کی خدمت ترک نہیں کرسکتے تھے۔
بانس واڑہ، واگڑمیں پروفیسر ڈاکٹر سعید روشن شعرو سخن اور تحقیق وتنقید میں واقعی سب سے روشن نام ہے۔موصوف نے مادری زبان پشتو سے زیادہ،دل کی زبان،اردو کی خدمت کی اور راجستھان کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ڈاکٹرشاہد احمدجمالی راجستھان کا وہ روشن ستارہ ہے جس نے بہت کم مدت میں تیس وقیع،تحقیقی کارنامے صفحہ قرطاس پر منتقل کیے۔راجستھان کی ایک چھوٹی سی ریاست ریواڑی کے مسلمان حلوائی بہت نامی ہوئے، مگر کم از کم ایک شاعر بھی،یہاں حیدرآباد میں بہت جانے جاتے تھے،بابورفیق ریواڑوی۔
اس مضمون میں علماء، صوفیہ، اساتذہ، مصوروخطاط حضرات کی خدمات کا احاطہ ممکن نہ ہوسکا۔راجستھان سے ہجرت کرکے آنے والے عالم فاضل، محقق،شاعروادیب حکیم سیدمحموداحمد برکاتی شہید(مشہور کتاب: علامہ فضل حق خیرآبادی اور 1857ء کی جنگ آزادی) اور اُن کے چھوٹے بھائی،مشہور ادیب مسعوداحمدبرکاتی کے متعلق لکھنا بھی ادھار۔
اظہار ِ تشکر: ان معتبر ادبی شخصیات کا صمیم قلب سے شکر گزارہوں کہ انھوں نے بعض نہایت وقیع کتابی مواد مجھے فراہم کیا:
پروفیسر ڈاکٹر سعید روشن، نذیر فتح پوری، ایم آئی ظاہر، انورجاویدہاشمی،مجاہد شیخ بن قاصدعزیزاور توصیف اصغر(رکن بز م زباں فہمی)۔ علاوہ ازیں مختلف اہل قلم سے ربط استوار کروانے پر سرفراز بزمی فلاحی،ایم آئی ظاہر، سعید روشن،نذیر فتح پوری اورڈاکٹر شکیل احمد خاں کا ممنون ہوں۔
ا)۔راجستھان کے مختلف شہروں (سابق ریاستوں)،قصبوں اور دیہات میں اردو زبان وادب نیز دین کی بہت خدمت ہوتی رہی اور اب تک ہورہی ہے۔بوجوہ بہت سا مواد ترک کرنا پڑا۔
ب)۔تمام موجودہ وسابق راجستھانی اہل علم سے گزارش ہے کہ اس "بحر ِ موضوعات" کو کسی ایک دائرہ معارف [Encyclopaedia]کی شکل میں یکجا، منضبط کریں۔
مآخذ
ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ از ڈاکٹر سہیل بخاری
اردو کی کہانی ۔ایضاً۔
زبان وادب از پروفیسر حبیب غضنفر
ہندی ادب ۔ایضاً۔
جائزہ زبان اردو (حصہ اول): ریاست ہائے متحدہ راجپوتانہ۔انجمن ترقی ارد و، ہند: 1940
اردو اور راجستھانی بولیاں از پروفیسرڈاکٹر عزیز انصاری
اردو کا اثر، راجستھانی بولیوں پر اَز نذیر فتح پوری
راجستھان میں اردو اَز پروفیسر فیروز احمد
راجستھان میں اردو (اَز پروفیسر فیروز احمد)پر تبصرہ
راجستھان کے شعر وسخن پر ایک نظر اَز پروفیسرڈاکٹرسعید روشن
افسانے راجستھان کے از عارفہ سلطان
راجستھان میں سفرناموں کی روایت از ڈاکٹر شاہد احمد جمالی
تذکرہ شعرائے راجپوتانہ1950ء تک (شاہدجمالی) پر تبصرہ: حکیم سید ظل الرحمن
راجستھان میں اردو تذکرہ نگاری پر ایک نظر:عبد الباسط
آزادی کے بعدراجستھان میں اردو تذکرہ نگاری از ڈاکٹر زینت زیبا
مارواڑ میں اردواَز ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری پر تبصرہ: سلمان فیصل
اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ:مضمون قاضی معراج الدین (قاضی شہر دھول پور)
بیکانیر میں اردو شعروادب، مرتبہ حاجی خورشید احمد
تذکرہ شعرائے جھن جھنوں،شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تذکرہ شعرائے چورو، شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تذکرہ شعرائے سِیکر، شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تاریخ وتذکرہ شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
کوٹہ کا علمی وادبی پس منظر: محمد فہیم الدین
عالمی تناظر میں اردو تنقید اور راجستھان کا حصہ
بازیافت: مرحوم ریاست ٹونک کا ماضی وحال، ارباب ِٹونک کی علمی وادبی خدمات
اردو میڈیا ہاؤس کی راہ تکتا بے سہارا راجستھان: راجستھان میں اردو صحافت از ایم آئی ظاہر
اردو کا مکمل باغی شاعر، کبیرؔ: بلجیت سنگھ مطیرؔ
ڈھولا مارُو از تاجؔ قائم خانی
پہچان (کتابی سلسلہ)شمارہ چوبیس مرتبہ ڈاکٹر ذوالفقارعلی دانش
پیار بھرے پھولوں کاتاج۔تاج ؔ قائم خانی (مجموعہ مضامین بر تاجؔ)
رفتگاں (مضامین) از سرشارؔ صدیقی
مطالعہ عشقی از ڈاکٹر شکیل احمد خان
علم وحکمت اور دانائی کی علامت،علامہ حکیم سید محمود احمدبرکاتی: تاثرات خواجہ رضی حیدر
رِگ وید(مترجمہ)
اُن کی جائے پیدائش گاؤں گھانگوہ، آج ضلع شیخاواٹی (کی تحصیل سجان گڑھ) کا حصہ ہے جو کبھی خود بیکانیر کی تحصیل تھی، مگر اب نئی تقسیم میں اُس سے جدا ہے۔ بقول نگارؔ صہبائی، وطن عزیز میں، ماسوائے تاجؔ اور عشقیؔ کے کوئی دوہے کے مقرر، مستند اوزان پر دوہا کہنے والا باقی نہ رہا تھا۔(ویسے ہمارے معاصرین میں ندیم احمدصدیقی ایک اچھا اضافہ ہیں)۔
(مدیر 'اسباق'، پونہ، متوطن فتح پور شیخاواٹی کی متعدد کتب میں فقط اپنے وطن کی نسبت سے چار بالتحقیق لکھی گئی کتابیں شامل ہیں۔وہ نظم وغزل، دوہا، رباعی، ماہیا اور ہائیکو سمیت تمام اصناف سخن میں رواں اور ممتاز ہیں)
تاجؔ قائم خانی کا اپنی مادری زبان مارواڑی کے ساتھ ساتھ، اردو اور اختیاری زبان سندھی پر عبور بھی قابل رشک تھا۔تاج ؔ نے مارواڑی زبان میں لکھی گئی، بیکانیر کی قدیم داستان ڈھولا مارُو کا،بیکانیری روایت کی ترتیب کے عین مطابق،اولین منظوم اردوترجمہ سندھی سے کیا۔اس کی ایک جھلک دیکھیے:
بابُل، تال پھڑائے دو
کے کُونجاں دو مروائے
اردو: بابل(باپ)، یہ تالاب تڑائیں
یا ان کونجوں کو مروائیں
جد جاگُوں جد ایکلی
تو کونج رہی کرلائے
اردو: ساری رات کراہیں ان کی
مجھ بِرہَن کا روگ بڑھائیں
پاکستان میں مقیم،مزید زندہ ومتوفٰی سابق راجستھانی شعراء کا ذکرآگے آئے گا، فی الحال ہم واپس راجستھان چلتے ہیں۔
راجستھان کے شاعروں کی پسندیدہ صنف سخن، شروع سے دوہا ہی رہا ہے۔اس خطے کو بجا طور پر "دوہا۔دیس" کہا گیا ہے۔ایک جدید تحقیق کے مطابق، ہندی کے پہلے کَوِی (شاعر) سرہپا کا 'دوہا کوش' 769ء میں منظر عام پر آیا، جبکہ ہندوی (یعنی قدیم اردو/ہندی) مخصوص طرزکے پہلے دوہا نگار یا دوہا گو شاعر،ناگور، راجستھان میں مدفون بزرگ،حضرت شیخ حمید الدین سوالی ناگوری (1193ء تا 1274ء)یعنی "سلطان التارکین" کہلاتے ہیں۔
یہاں راقم کی اپنی پرانی تحقیق کا رَد ہوگیا جس میں یہ انکشاف تھا کہ اردوئے قدیم کے اولین شاعر(دوہا نگار)،نیز مصنف،شیخ شرف الدین یحیٰ منیری[Maneri]المعروف مخدوم بِہاری [1263-1381]تھے۔ہاں البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ شیخ ناگوری کی کتب میں اردوزبان کس قدر ہے، اگر ہے تب وہی اردوئے قدیم کے اولین مصنف قرارپائیں گے،ورنہ مخدوم بِہاری۔1192ء میں سلطان شِہاب الدین غوری[1144 - 1206] نے پرِتھوی راج کو دوسری جنگ میں شَکَست دے کرسلطنت دہلی پر اپنا اقتدار قائم کیا تو 1193ء میں پیداہونے والا پہلا مسلم بچہ یہی شیخ حمید تھے۔
روایت کی رُو سے سلطان التارکین شیخ حمید کو یہ لقب،خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے عطا کیا تھا۔یہ ساری تمہید ذہن میں رکھیں تومعلوم ہوگا کہ مسعود سعد سلمان لاہوری اور امیر خسرو کے درمیان صدیوں اردو کی تشکیل کا عمل کہیں نہ کہیں جاری رہا اور غوری عہد سلطنت میں اس کی بہتر شکل نکلنی شروع ہوگئی تھی۔ضمنی بات یہ ہے کہ امیرخسرو کی والدہ نَومسلم راجپوت تھیں، گویا اُن کے خون میں بھی یہ عنصر شامل تھا۔ممتازقدیم اردوسخنور،حضرت بہاؤ الدین باجن کے کلام میں راجستھانی کے اثرات بھی موجود ہیں۔
دوہے نے راجستھان میں اس قدر ترقی کی کہ ہمارے ایک معاصر ڈاکٹر فراز ؔ حامدی صاحب نے "دوہا غزل" کا تجربہ شروع کردیا۔
ابتدائے اردو پرتحقیق کی جائے تودیگر قدیم آثار ِ نثر ونظم میں ایسے راجستھانی الفاظ، اردو کے ذخیرے میں دخیل نظرآتے ہیں:
چھند(ناز،مکر، فریب)، کدی/کدھیں (کبھی)(میرے داداجان مرحوم ہمیشہ 'کدی' ہی کہا کرتے تھے جو مجھے پنجابی کے زیر ِ اثر معلوم ہوتا تھا، مگر وہ راجستھان میں بھی مقیم رہے تھے)،تمن (تم نے)، لاگی (لگنا)، تجہ سار/تجہ سارکا(تجھ جیسا)،کیتک (کتنا ایک یعنی بہت، کتنے ہی)،بیگی/بیگ (جلدی،فوراً)،ساچا (سچ، سچا)،اندھار/اندھارا(اندھیرا)،بیجلی (بجلی)، ترت(تُرنت، فوراً)،لِکھن ہار(لکھنے والا)، چھوری، چھورا(لڑکی، لڑکا)،سبہہ (سبھی)، مانہہ(میں ہی)،بہتیک(بہت ایک یعنی بہت سے)،پیوسیتی(پیو، پیا، محبوب)، کُن/کُنڑ(کون)، ہنروَند(ہنرمند)، مہروَان(مہربان)، تروَار(تلوار)،اول(اوّل)، اپن (اپنا، اپنے)۔
اس فہرست میں شامل بہت سے الفاظ آپ کو پنجابی (نیز پنجاب کی دیگر)،گجراتی، دکنی اردو اور سندھی زبانوں میں بھی مل جائیں گے جن سے ان کے باہمی لسانی اشتراک کا پتا چلتاہے۔ڈنگل (قدیم راجستھانی)میں عربی وفارسی کے الفاظ کی موجودگی بھی اس اَمر کا واضح ثبوت ہے کہ اردو کی تشکیل کا عمل، ہرعلاقے میں پہلے سے موجود زبانوں اور بولیوں کے اختلاط و اشتراک سے، جاری ہوا اور اپنے اپنے مقام پر نقطہ عروج کو پہنچا۔
مغل بادشاہ اکبراور جہانگیر کے عہد میں، راجستھانی میں لکھی جانے والی کتب میں،ترقی پذیر زبان اردو کے نقوش بھی ملتے ہیں۔آگے چلیں تو راجستھانی کے دکنی اردو روپ سے انتہائی درجے کی قربت ومماثلت بھی حیران کُن نظر آتی ہے۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر عزیز انصاری، ان دونوں میں کوئی عبارت تحریر کریں،جملہ بنائیں تو صَرف ونَحو کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ انھوں نے پنجابی کے مقابلے میں راجستھانی کو اُردو سے زیادہ قریب قراردیا ہے۔پروفیسر فیروزاحمد نے انھی کی جلائی ہوئی مشعل کو بحسن وخوبی آگے بڑھاتے ہوئے اس موضوع پر عمدہ تحقیقی کا م کیا۔ان دونوں محققین کی کتابوں میں راجستھانی اور اردو کے لسانی رشتے کی بابت تکنیکی بحث ملتی ہے۔
ایک جملہ دیکھیے: لڑکا شور مچارہاہے راجستھانی میں: لڑکاسورمچاریا
اور جمع میں: لڑکے شور مچارہے ہیں راجستھانی میں: لڑکو سورمچاریو
راجستھان کی دیوناگری لپی میں لکھی جانے والی مقامی زبان اور پاکستان کی نستعلیق میں لکھی جانے والی راجستھانی میں قدرے فرق ہے۔ بقول جناب ایم آئی (مشتاق الاسلام) ظاہرؔ،ہمارے واٹس ایپ/فیس بک دوست: "یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہندوستان میں راجستھانی زبان کی رسم الخط دیوناگری ہے۔ لیکن پاکستان میں راجستھانی زبان کی رسم الخط نستعلیق ہے اور وہاں کے شعراء بھی اسی زبان میں شاعری کرتے ہیں جو بولی اور برتنے کے اعتبار سے ہندوستانی راجستھانی زبان سے قدرے مختلف ہے"۔
راجپوتانہ میں تقسیم ہند کے وقت اکیس چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔اب ہم سرسری ذکربھی کریں تو تنگی قرطاس کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ 1817 میں راجستھان کی قائم ہونے والی، ریاست ٹونک کے نوابین اور اُمراء نے مغلوں کے زوال کے بعد بسنے والی اس نگری میں علماء، اُدَباء وشعراء کی سرپرستی کرتے ہوئے اردو زبان وادب کی آبیاری میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔نواب امیر خاں، نواب وزیر خاں، نواب علی خاں، نواب ابراہیم علی خاں خلیلؔ،نواب سعادت علی خاں سعیدؔ(نیز تخلص مختارؔ اور تاجؔ)، نواب فاروق علی خاں اور نواب اسمٰعیل علی خاں کے اسماء قابل ذکر ہیں۔یہاں کا پہلا بڑا شاعر صولت ؔٹونکی جن کی فنی عظمت کو علامہ سیماب ؔ اکبر آبادی اور جوش ؔ ملیح آبادی نے برملا تسلیم کیا۔
ٹونک کے کلاسیکی شعراء میں سیمابؔ اکبر آبادی کے شاگردبسملؔ سعیدی (06 جنوری 1901ء، ٹونک تا26اگست 1976ء، دہلی)کانام نمایا ں ہے جنھوں نے 1940ء سے جے پور میں سکونت اختیار کی۔کلاسیک اور جدت دونوں سے مملوُغزل کے ساتھ ساتھ عصری موضوعات پر عمدہ نظم گوئی اُن کا خاصّہ تھا۔اُن کا ایک شعربطور تبرک:
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
ٹونک کے مشاہیر سخن (بشمول پاکستان میں مقیم) کی فہرست اچھی خاصی طویل ہے۔بسملؔ سعیدی کے شاگرد،حافظ ِ قرآن جوہرؔ سعیدی نے پاکستان میں نام روشن کیا۔ان کے دومجموعہ ہائے کلا م (اولین"بادِ سُبک دست")اور احادیث مبارکہ کا ترجمہ وتفسیراُن کی پہچان ہے۔اُن کے فرزند اختر سعیدی نے شاعری اور صحافت میں نام کمایا۔ٹونک سے ہجرت کرنے والوں میں نوا ب امیر خاں کے خاندان سے واثق ؔ ٹونکی(عربی،فارسی،انگریزی وسنسکرت کے عالم، مجسٹریٹ) کا نام بہت مشہور ہوا، اُن کے فرزند اَدیبؔ واثقی اور دختر گلنار آفرین نے دنیائے ادب میں اپنے گھرانے کا نام روشن کیا۔
یہاں ذرا ماضی بعید کی طرف لوٹ کر دیکھیں تو سرزمین ٹونک سے اٹھنے والے عظیم محقق، استاد پروفیسر حافظ محمود شیرانی اور اُن کے شاعر فرزند اخترؔ شیرانی کا نام بھی ناقابل فراموش ہے۔ہمارے مشفق بزرگ معاصر پروفیسر ڈاکٹریونس حسنی ٹونکی صاحب نے"اختر شیرانی اور جدید ادب" کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا،جاپان کا تعلیمی دورہ فرمایا تو ہائیکو کی تکنیت وہئیت سے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی۔
ہمارے عہد کے معتبر مزاح گو (نیز سنجیدہ غزل گو) پروفیسر عنایت علی خان مرحوم بھی 'ٹونکی' تھے جن کے مقبول کلام میں یہ منفرد شعر بھی شامل ہے: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں، حادثہ دیکھ کر
جدید راجستھانی اہل قلم میں شامل،سابق نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ثروت خان صاحبہ(پ: 23 جنوری 1960ء، جھالاواڑ)نے اپنی بے باک افسانہ وناول نگاری نیز تدریس وترویج اردو کی مساعی سے اردودنیا میں نمایاں مقام پیدا کیا۔
پرندے موسم گل کو جہاں پکارتے تھے
عجیب دھوپ تھی، سائے جہاں تھکن اُتارتے تھے
(انورجاویدہاشمی)
کے ماہر سخنور بھی، 'ٹونکی' ہیں (مجموعہ کلام: انتظار کے پودے)۔ان کے والد سالکؔ الہاشمی علیگ ایڈووکیٹ(مجموعہ کلام'خاکِ دل') اور چچا قمرؔہاشمی(مجموعہ کلام 'تماشا طلب آزار' اور ' مُرسَلِ آخر') ٹونک سے ہجرت کرکے آنے والے معروف شعراء میں شامل تھے۔نمونہ کلام:
نہ احترام ِ حرم ہے نہ اعتبارِ حرم
ہم آج کونسی منزل میں ہیں خداجانے
(سالکؔ الہاشمی)
کبھی تو التفات ایساکہ خود سے بدگمانی ہو
کبھی بے گانگی ایسی کہ مرجانے کو جی چاہے
(قمرؔہاشمی)
ٹونک سے جوش ؔ ملیح آبادی کے بستہ بردار عیشؔ ٹونکی کا بھی تعلق تھا جنھیں جوشؔ نے اردو لغت بورڈ میں ملازم کروایا تھا۔
جودھ پور کے شعراء میں علامہ ابوالاسرارظہور احمد رَمزی ؔاِٹاوی (یکم دسمبر 1912ء، اٹاوہ، یوپی۔تا۔ 5 اپریل 2002 ء،جودھپور)،تلمیذِعلامہ سیماب اکبرآبادی کا نام بہت معروف ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو اور انگریزی میں ماسٹرز کی سند کے حامل، شعبہ تدریس سے منسلک، رمزی صاحب کا ذکر ِخیر، زباں فہمی میں ماقبل بھی ہوچکا ہے۔(مجموعہ کلام "صحرا میں بھٹکتا چاند"،اپنے شہر میں دبستان ابوالکلام آزادؔ کے علَم بردار)۔علامہ رمزی ؔ کے پوتے ایم آئی ظاہرؔ شاعری سے زیادہ صحافت میں ممتاز ہوئے۔وہ اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں اپنی ادبی وصحافتی تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
اجمیر شریف سے حیدرآباد، سندھ منتقل ہونے والوں میں سب سے بڑا نام قابلؔ اجمیری کا ہے، اُن کے علاوہ ماہرؔ اجمیری (اور پھر کراچی میں مختارؔ اجمیری)بھی نمایاں ہوئے۔حیدرآباد ہی میں ادبی حلقوں،درس تدریس اور صداکاری میں ایک معتبر نام قاصدعزیز (19جنوری 1947ء، اجمیر۔تا۔2اکتوبر 2000ء، حیدرآباد)نے اپنے ساتھی اداکار محمد علی کی لاہور میں کام کرنے کی دعوت محض اس لیے ٹھکرادی کہ اپنی والدہ کی خدمت ترک نہیں کرسکتے تھے۔
بانس واڑہ، واگڑمیں پروفیسر ڈاکٹر سعید روشن شعرو سخن اور تحقیق وتنقید میں واقعی سب سے روشن نام ہے۔موصوف نے مادری زبان پشتو سے زیادہ،دل کی زبان،اردو کی خدمت کی اور راجستھان کے ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔ڈاکٹرشاہد احمدجمالی راجستھان کا وہ روشن ستارہ ہے جس نے بہت کم مدت میں تیس وقیع،تحقیقی کارنامے صفحہ قرطاس پر منتقل کیے۔راجستھان کی ایک چھوٹی سی ریاست ریواڑی کے مسلمان حلوائی بہت نامی ہوئے، مگر کم از کم ایک شاعر بھی،یہاں حیدرآباد میں بہت جانے جاتے تھے،بابورفیق ریواڑوی۔
اس مضمون میں علماء، صوفیہ، اساتذہ، مصوروخطاط حضرات کی خدمات کا احاطہ ممکن نہ ہوسکا۔راجستھان سے ہجرت کرکے آنے والے عالم فاضل، محقق،شاعروادیب حکیم سیدمحموداحمد برکاتی شہید(مشہور کتاب: علامہ فضل حق خیرآبادی اور 1857ء کی جنگ آزادی) اور اُن کے چھوٹے بھائی،مشہور ادیب مسعوداحمدبرکاتی کے متعلق لکھنا بھی ادھار۔
اظہار ِ تشکر: ان معتبر ادبی شخصیات کا صمیم قلب سے شکر گزارہوں کہ انھوں نے بعض نہایت وقیع کتابی مواد مجھے فراہم کیا:
پروفیسر ڈاکٹر سعید روشن، نذیر فتح پوری، ایم آئی ظاہر، انورجاویدہاشمی،مجاہد شیخ بن قاصدعزیزاور توصیف اصغر(رکن بز م زباں فہمی)۔ علاوہ ازیں مختلف اہل قلم سے ربط استوار کروانے پر سرفراز بزمی فلاحی،ایم آئی ظاہر، سعید روشن،نذیر فتح پوری اورڈاکٹر شکیل احمد خاں کا ممنون ہوں۔
ا)۔راجستھان کے مختلف شہروں (سابق ریاستوں)،قصبوں اور دیہات میں اردو زبان وادب نیز دین کی بہت خدمت ہوتی رہی اور اب تک ہورہی ہے۔بوجوہ بہت سا مواد ترک کرنا پڑا۔
ب)۔تمام موجودہ وسابق راجستھانی اہل علم سے گزارش ہے کہ اس "بحر ِ موضوعات" کو کسی ایک دائرہ معارف [Encyclopaedia]کی شکل میں یکجا، منضبط کریں۔
مآخذ
ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ از ڈاکٹر سہیل بخاری
اردو کی کہانی ۔ایضاً۔
زبان وادب از پروفیسر حبیب غضنفر
ہندی ادب ۔ایضاً۔
جائزہ زبان اردو (حصہ اول): ریاست ہائے متحدہ راجپوتانہ۔انجمن ترقی ارد و، ہند: 1940
اردو اور راجستھانی بولیاں از پروفیسرڈاکٹر عزیز انصاری
اردو کا اثر، راجستھانی بولیوں پر اَز نذیر فتح پوری
راجستھان میں اردو اَز پروفیسر فیروز احمد
راجستھان میں اردو (اَز پروفیسر فیروز احمد)پر تبصرہ
راجستھان کے شعر وسخن پر ایک نظر اَز پروفیسرڈاکٹرسعید روشن
افسانے راجستھان کے از عارفہ سلطان
راجستھان میں سفرناموں کی روایت از ڈاکٹر شاہد احمد جمالی
تذکرہ شعرائے راجپوتانہ1950ء تک (شاہدجمالی) پر تبصرہ: حکیم سید ظل الرحمن
راجستھان میں اردو تذکرہ نگاری پر ایک نظر:عبد الباسط
آزادی کے بعدراجستھان میں اردو تذکرہ نگاری از ڈاکٹر زینت زیبا
مارواڑ میں اردواَز ڈاکٹر ضیاء الحسن قادری پر تبصرہ: سلمان فیصل
اردو کی ترقی میں اہل راجستھان کا حصہ:مضمون قاضی معراج الدین (قاضی شہر دھول پور)
بیکانیر میں اردو شعروادب، مرتبہ حاجی خورشید احمد
تذکرہ شعرائے جھن جھنوں،شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تذکرہ شعرائے چورو، شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تذکرہ شعرائے سِیکر، شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
تاریخ وتذکرہ شیخاواٹی از نذیر فتح پوری
کوٹہ کا علمی وادبی پس منظر: محمد فہیم الدین
عالمی تناظر میں اردو تنقید اور راجستھان کا حصہ
بازیافت: مرحوم ریاست ٹونک کا ماضی وحال، ارباب ِٹونک کی علمی وادبی خدمات
اردو میڈیا ہاؤس کی راہ تکتا بے سہارا راجستھان: راجستھان میں اردو صحافت از ایم آئی ظاہر
اردو کا مکمل باغی شاعر، کبیرؔ: بلجیت سنگھ مطیرؔ
ڈھولا مارُو از تاجؔ قائم خانی
پہچان (کتابی سلسلہ)شمارہ چوبیس مرتبہ ڈاکٹر ذوالفقارعلی دانش
پیار بھرے پھولوں کاتاج۔تاج ؔ قائم خانی (مجموعہ مضامین بر تاجؔ)
رفتگاں (مضامین) از سرشارؔ صدیقی
مطالعہ عشقی از ڈاکٹر شکیل احمد خان
علم وحکمت اور دانائی کی علامت،علامہ حکیم سید محمود احمدبرکاتی: تاثرات خواجہ رضی حیدر
رِگ وید(مترجمہ)