خواتین کی ٹرانسپورٹ
وعدے اور دعوے کب پورے ہوں گے؟
قیام پاکستان سے پہلے ہمارے روایت پسند معاشرے میں خواتین کا باہر نکلنا ذرا کم ہی ہوا کرتا تھا۔ تاہم جب بھی انہیں کہیں آنا جانا ہوتا تو ان کے سفر لیے ڈولی کی طرز پر ایک پالکی استعمال کی جاتی تھی، جسے چاروں طرف سے کہار اٹھائے ہوتے تھے۔
اس پالکی پر بھی ایک پردہ پڑا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں جس گھر سے بھی خواتین کو سفر درپیش ہوتا، کہاروں کو بلا لیا جاتا اور یہ گھر کے آگے پالکی رکھ کر چاروں سمت میں اوٹ میں جا کھڑے ہوتے۔ جونہی انہیں بتایا جاتا کہ سواریاں بیٹھ چکی ہیں، وہ بجلی کی سی تیزی سے لپک کر پالکی کاندھوں پر اٹھائے اپنی منزل کو دوڑ پڑتے، پھر وہاں پہنچ کر بھی یہی عمل دُہراتے۔ خیر، بٹوارے کے بعد خواتین کا اس طرح سفر کرنا قصہ پارینہ بنا۔ آج کے زمانے میں خواتین کی اس طرز سواری کو جس قدر دقیانوسی کہہ لیا جائے، خواتین بہرحال نہایت پرسکون اور محفوظ انداز میں سفر کر لیتی تھیں، لیکن اس کے بعد شہروں کی گنجانیت کئی گنا بڑھ گئی اور اس گھنی آبادی میں سفر کے تعلق سے مسائل بھی بڑھتے ہی چلے گئے۔
یوں بھی ہمارے ہاں عوامی سطح پر سہولیات زیادہ تر مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اگر کبھی کسی سہولت کا آغاز کیا جاتا ہے، تو بہت جلد وہ مسائل کا شکار ہو جاتی ہے یا پھر بوجوہ ناکام ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ معاملہ ذرایع سفر کا ہے۔ خستہ حال مسافر بسیں پہلے ہی مسافروں کی تعداد کے اعتبار سے ناکافی تھیں۔ اسی لیے لوگ ان بسوں میں سفر کرتے ہوئے نہایت اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ بات اگر خواتین مسافروں کی، کی جائے تو اور بھی پریشان کن حالت ہے۔ بسوں میں اگرچہ ان کے لیے علیحدہ حصے موجود ہیں، لیکن جگہ کی تنگی کے باعث ان پر بھی مردوں کو بٹھانے کی شکایات عام ہیں۔
خواتین مسافروں کے لیے بسوں کو نہ روکنا اور ان سے بد تمیزی کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں، لیکن کچھ عرصے سے کراچی میں مسافر بسوں کی جگہ چھ اور نو نشستوں کے مسافر رکشوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بسوں کی گھٹتی تعداد اور آئے روز سی این جی کے ناغوں میں بسوں کی نایابی میں یہ ایک بہت بڑی نعمت معلوم ہوئے۔ اس سواری میں مرد تو جیسے تیسے سفر کر رہے ہیں، لیکن خواتین کے لحاظ سے یہ مسافر رکشے بہت بڑا مسئلہ ہیں، کیوں کہ اس میں خواتین کے لیے کوئی مخصوص نشستیں نہیں۔ ان رکشوں میں سواریوں کی تعداد کے اعتبار سے نشستوں کو مردوں اور خواتین میں تقسیم کیا جاتا ہے، اگر خواتین مسافر زیادہ ہوں تو انہیں بٹھا لیا جاتا ہے یا ان کے لیے کچھ نشستوں کا خیال کر لیا جاتا ہے، ورنہ زیادہ تر تمام نشستوں پر مردوں کا ہی قبضہ ہوتا ہے۔
ان رکشوں کی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے اگر اندر کی نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی جائیں تو اس کے سامنے کی تین نشستوں پر بھی مردوںکا بیٹھنا ناممکن ہوگا، کیوں کہ اندر کی آمنے سامنے کی دونوں نشستوں میں مناسب فاصلہ نہیں ہے۔ عملاً نو نشستوں کی سواری میں چھ نشستیں خواتین کے لیے مقرر کرنا شاید ناممکن بھی ہو۔ اگر پچھلی تین نشستیں مختص کی جائیں تو وہ حصہ کھلا ہونے کے باعث خاصا غیر محفوظ ہے۔ بالخصوص سگنل یا ٹریفک جام میں خواتین بہت زیادہ خوف محسوس کرتی ہیں۔ ان مسافر رکشوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد یہ مسافر بسوں کا متبادل بنا دیے جائیں گے۔ اس کے بعد خواتین کے سفر کے لیے پریشانی بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف مسافر بسوں کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے روٹس پر چلنے والے ان مسافر رکشوں کے کرائے 10 سے 50 روپے تک لیے جاتے ہیں، جب کہ طویل روٹس کی حامل مسافر بسوں میں زیادہ سے زیادہ کرایہ 20 روپے تک ہے۔
حکومتی سطح پر خواتین کا سفر آسان بنانے کے لیے اقدام کا ذکر کیا جائے تو ایسے کئی منصوبوں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد کی نوبت نہ آسکی۔ گزشتہ سال جون میں کراچی میں بھی یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ستمبر 2013ء تک مختلف روٹس پر 30 بسیں چلائی جائیں گی۔ جس میں ڈرائیور تو مرد ہوں گے، لیکن ٹکٹ چیکر اور مسافر صرف خواتین ہوں گی۔ یہ بسیں نارتھ کراچی، سہراب گوٹھ، گلستان جوہر، کورنگی، لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، سائٹ، اورنگی اور دیگر راستوں پر چلائی جائیں گی، لیکن یہ منصوبہ بھی فقط کاغذ تک ہی محدود رہا اور اب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی سہولت کے لیے ان کے لیے علیحدہ بسیں چلائی جاتی رہی ہیں۔ جیسے ملائیشیا میں بھی خواتین کے سفر کو آسان بنانے کے لیے ریل میں مخصوص ڈبے متعارف کرائے گئے۔ اس کے بعد خواتین کے اندرون شہر سفر آسان کرنے کی غرض سے خواتین کی بسیں سامنے لائی گئیں، کیوں کہ مصروف اوقات میں خواتین کو عام مسافر بسوں میں دشواریوں کا سامنا تھا۔
رواں سال فروری میں اسلام آباد میں خواتین کے لیے مخصوص بسیں متعارف کرائی گئیں، لیکن کراچی اور اس جیسے دیگر بڑے شہر زیادہ ضرورت مند ہونے کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے لیے ہر ایک ہی بیان دیتا نظر آتا ہے، لیکن جب ان کے محفوظ اور باسہولت سفر کی بات کی جائے، تو نہایت بدترین صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے خواتین کی بہت بڑی تعداد روزانہ ہی متاثر ہوتی ہے۔ ذرایع سفر کی عوامی سہولیات پر عدم توجہی حقوق نسواں کے لیے تقریریں کرنے والوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
اس پالکی پر بھی ایک پردہ پڑا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں جس گھر سے بھی خواتین کو سفر درپیش ہوتا، کہاروں کو بلا لیا جاتا اور یہ گھر کے آگے پالکی رکھ کر چاروں سمت میں اوٹ میں جا کھڑے ہوتے۔ جونہی انہیں بتایا جاتا کہ سواریاں بیٹھ چکی ہیں، وہ بجلی کی سی تیزی سے لپک کر پالکی کاندھوں پر اٹھائے اپنی منزل کو دوڑ پڑتے، پھر وہاں پہنچ کر بھی یہی عمل دُہراتے۔ خیر، بٹوارے کے بعد خواتین کا اس طرح سفر کرنا قصہ پارینہ بنا۔ آج کے زمانے میں خواتین کی اس طرز سواری کو جس قدر دقیانوسی کہہ لیا جائے، خواتین بہرحال نہایت پرسکون اور محفوظ انداز میں سفر کر لیتی تھیں، لیکن اس کے بعد شہروں کی گنجانیت کئی گنا بڑھ گئی اور اس گھنی آبادی میں سفر کے تعلق سے مسائل بھی بڑھتے ہی چلے گئے۔
یوں بھی ہمارے ہاں عوامی سطح پر سہولیات زیادہ تر مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اگر کبھی کسی سہولت کا آغاز کیا جاتا ہے، تو بہت جلد وہ مسائل کا شکار ہو جاتی ہے یا پھر بوجوہ ناکام ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کچھ معاملہ ذرایع سفر کا ہے۔ خستہ حال مسافر بسیں پہلے ہی مسافروں کی تعداد کے اعتبار سے ناکافی تھیں۔ اسی لیے لوگ ان بسوں میں سفر کرتے ہوئے نہایت اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں۔ بات اگر خواتین مسافروں کی، کی جائے تو اور بھی پریشان کن حالت ہے۔ بسوں میں اگرچہ ان کے لیے علیحدہ حصے موجود ہیں، لیکن جگہ کی تنگی کے باعث ان پر بھی مردوں کو بٹھانے کی شکایات عام ہیں۔
خواتین مسافروں کے لیے بسوں کو نہ روکنا اور ان سے بد تمیزی کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں، لیکن کچھ عرصے سے کراچی میں مسافر بسوں کی جگہ چھ اور نو نشستوں کے مسافر رکشوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بسوں کی گھٹتی تعداد اور آئے روز سی این جی کے ناغوں میں بسوں کی نایابی میں یہ ایک بہت بڑی نعمت معلوم ہوئے۔ اس سواری میں مرد تو جیسے تیسے سفر کر رہے ہیں، لیکن خواتین کے لحاظ سے یہ مسافر رکشے بہت بڑا مسئلہ ہیں، کیوں کہ اس میں خواتین کے لیے کوئی مخصوص نشستیں نہیں۔ ان رکشوں میں سواریوں کی تعداد کے اعتبار سے نشستوں کو مردوں اور خواتین میں تقسیم کیا جاتا ہے، اگر خواتین مسافر زیادہ ہوں تو انہیں بٹھا لیا جاتا ہے یا ان کے لیے کچھ نشستوں کا خیال کر لیا جاتا ہے، ورنہ زیادہ تر تمام نشستوں پر مردوں کا ہی قبضہ ہوتا ہے۔
ان رکشوں کی ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے اگر اندر کی نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کی جائیں تو اس کے سامنے کی تین نشستوں پر بھی مردوںکا بیٹھنا ناممکن ہوگا، کیوں کہ اندر کی آمنے سامنے کی دونوں نشستوں میں مناسب فاصلہ نہیں ہے۔ عملاً نو نشستوں کی سواری میں چھ نشستیں خواتین کے لیے مقرر کرنا شاید ناممکن بھی ہو۔ اگر پچھلی تین نشستیں مختص کی جائیں تو وہ حصہ کھلا ہونے کے باعث خاصا غیر محفوظ ہے۔ بالخصوص سگنل یا ٹریفک جام میں خواتین بہت زیادہ خوف محسوس کرتی ہیں۔ ان مسافر رکشوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد یہ مسافر بسوں کا متبادل بنا دیے جائیں گے۔ اس کے بعد خواتین کے سفر کے لیے پریشانی بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف مسافر بسوں کے مقابلے میں چھوٹے چھوٹے روٹس پر چلنے والے ان مسافر رکشوں کے کرائے 10 سے 50 روپے تک لیے جاتے ہیں، جب کہ طویل روٹس کی حامل مسافر بسوں میں زیادہ سے زیادہ کرایہ 20 روپے تک ہے۔
حکومتی سطح پر خواتین کا سفر آسان بنانے کے لیے اقدام کا ذکر کیا جائے تو ایسے کئی منصوبوں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد کی نوبت نہ آسکی۔ گزشتہ سال جون میں کراچی میں بھی یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ستمبر 2013ء تک مختلف روٹس پر 30 بسیں چلائی جائیں گی۔ جس میں ڈرائیور تو مرد ہوں گے، لیکن ٹکٹ چیکر اور مسافر صرف خواتین ہوں گی۔ یہ بسیں نارتھ کراچی، سہراب گوٹھ، گلستان جوہر، کورنگی، لانڈھی، ملیر، لیاقت آباد، سائٹ، اورنگی اور دیگر راستوں پر چلائی جائیں گی، لیکن یہ منصوبہ بھی فقط کاغذ تک ہی محدود رہا اور اب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کی سہولت کے لیے ان کے لیے علیحدہ بسیں چلائی جاتی رہی ہیں۔ جیسے ملائیشیا میں بھی خواتین کے سفر کو آسان بنانے کے لیے ریل میں مخصوص ڈبے متعارف کرائے گئے۔ اس کے بعد خواتین کے اندرون شہر سفر آسان کرنے کی غرض سے خواتین کی بسیں سامنے لائی گئیں، کیوں کہ مصروف اوقات میں خواتین کو عام مسافر بسوں میں دشواریوں کا سامنا تھا۔
رواں سال فروری میں اسلام آباد میں خواتین کے لیے مخصوص بسیں متعارف کرائی گئیں، لیکن کراچی اور اس جیسے دیگر بڑے شہر زیادہ ضرورت مند ہونے کے باوجود اس سہولت سے محروم ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق کے لیے ہر ایک ہی بیان دیتا نظر آتا ہے، لیکن جب ان کے محفوظ اور باسہولت سفر کی بات کی جائے، تو نہایت بدترین صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے خواتین کی بہت بڑی تعداد روزانہ ہی متاثر ہوتی ہے۔ ذرایع سفر کی عوامی سہولیات پر عدم توجہی حقوق نسواں کے لیے تقریریں کرنے والوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔