ادبی سرمایہ
منیرؔ نیازی سے میری ملاقات شیخ صاحب ہی کے توسط سے ہوئی ، سول سروسز اکیڈمی میں ایک محفل مشاعرہ تھی۔۔۔
ISLAMABAD:
کیسے کیسے نایاب لوگ! کس کس کا ذکر کروں اور کس کو رہنے دوں۔ ایک کالم کی بساط پر تفصیلاً ذکر کرنا ناممکن ہے۔ ہر ایک کے متعلق کتابیں لکھیں جا سکتی ہیں۔ زندہ معاشرے اپنے قیمتی لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو بھولتے نہیں ہیں۔ وہ ہر قیمت پر اپنے دانشوروں کو اپنا قومی اثاثہ سمجھ کر سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ میں صرف مسائل زدہ کالم نہیں لکھنا چاہتا۔ مجھے اب تک گمان ہے کہ ہمارے معاشرہ کا کثیر حصہ زندہ ہے۔ صرف اسی وجہ سے ہم تمام لوگ ایک فرسودہ نظام میں سانس لینے کے باوجود تلاش بہار میں ہیں۔ میں دنیا کے اَن گنت ممالک دیکھ چکا ہوں۔ میں کئی کئی ماہ ان ممالک کے ہر سطح کے لوگوں سے ہم کلام رہا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک کے امیر اور اہم ترین لوگوں سے بھی سرکاری اور غیر سرکاری نشستوں میں شامل ہو چکا ہوں۔
مگر میں جتنا غیر ملکی لوگوں کو پرکھتا ہوں، میرا یقین اس اَمر پر اور پختہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی لوگوں سے زیادہ ذہین، محنتی اور لائق لوگ کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔ میں ہارورڈ، کورنیل اور ایم۔آئی۔ٹی کے پروفیسروں سے گزشتہ مہینے ایک ورک شاپ میں ملا ہوں۔ یہ درست ہے کہ ان کا سوچنے کا کینوس بہت وسیع ہے۔ مگر میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ کسی طرح سے بھی ان سے کمتر نہیں ہیں۔ میں یہ فقرہ کسی جذباتی تناظر میں نہیں لکھ رہا، بلکہ میں دلیل سے عرض کرتا ہوں کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ترین پروفیسرز کے پاس ہمارے اکثر علمی سوالات کا جواب نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اتنے پسماندہ کیوں ہیں؟ اس کے جواب موجود ہیں مگر آج میں اس کالم میں ان جوابات کا ذکر نہیں کر رہا۔ یہ بات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے! صرف سر راہے عرض ہے کہ ہمارے اہل علم اور اہل دانش مجموعی بے توقیری کا شکار ہیں۔
میں 1993ء میں سویڈن پہلی بار گیا تھا۔ اسٹاک ہوم میں ایک کیفے میں کافی پینے کے لیے رُکا۔ ویٹر بڑے اہتمام سے حاضر ہوا۔ اُس نے کافی کا آڈر لیا اور کچن میں آڈر لکھوا کر کیفے کے مین ہال میں واپس آ گیا۔ وہاں ایک سفید بالوں والا ضعیف آدمی اکیلا بیٹھا تھا۔ اس کی میز پر شطرنج کا ایک بورڈ پڑا ہوا تھا۔ ہال میں واپس آنے کے بعد ویٹر اس بزرگ آدمی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں نے انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے شطرنج کھیلنی شروع کر دی۔ بیس منٹ بعد وہ ویٹر کچن سے میری کافی اٹھا کر لایا۔ میرے سامنے رکھی اور پھر اُس بوڑھے آدمی کے پاس جا کر شطرنج کھیلنے لگ گیا۔ میں اُس کیفے میں تقریباً دو گھنٹے بیٹھا رہا۔ وہ ویٹر ہر آنے والے کا آڈر لے کر پھر خاموشی سے شطرنج کھیلنے لگ جاتا تھا۔
میرے لیے یہ واقعہ خاصہ حیرت انگیز تھا۔ میں واپسی پر کیفے کے منیجر کے پاس چلا گیا۔ اُس سے اس تمام واقعہ کی وجہ پوچھی۔ منیجر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ بوڑھا شخص ہمارا قومی سطح کا مصنف ہے۔ یہ بیس سال سے ہر روز اس کیفے میں کھانا کھانے آتا ہے۔ شطرنج اس کی کمزوری ہے۔ ہم نے بیس سال سے ایک نشست کو مخصوص کر رکھا ہے۔ جہاں یہ ادیب آ کر بیٹھتا ہے۔ دو دہائیوں سے یہ ویٹر روز اس اہل علم شخص کے ساتھ شطرنج کھیلتا ہے۔ ہمارا پورا کیفے صرف اس بنا پر مشہور ہے کہ قومی سطح کے ایک ادیب نے ہمیں اس قابل سمجھا ہے کہ وہ روز یہاں کھانا کھانے اور شطرنج کھیلنے آتا ہے۔ میں انتہائی خاموشی سے اس کیفے سے واپس آ گیا۔ یہ اہل علم کی عزت اور وقار کے متعلق قومی رویہ کا ادنیٰ سا اظہار ہے۔
1984ء میں جب میں سول سروسز اکیڈمی پہنچا تو شیخ منظور الہی اس کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہ کبھی کبھی کلاس میں آ کر پاکستان کے شروع کے عرصے کے متعلق یادداشت کی بنیاد پر لیکچر دیتے تھے۔ ان کی اکثر باتیں میرے جیسے شخص کے لیے بالکل اچھوتی اور نئی ہوتیں تھیں۔ بلکہ کئی بار تو حقیقت میں سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔ وہ اکثر انتہائی شُستہ انگریزی اور نفیس اردو میں بات کرتے تھے۔ انتہائی سادہ مزاج، مہذب اور پُر تاثیر شخص تھے۔ ان کے بتائے ہوئے کئی قصے تیس سال کی نوکری کے بعد جادو نگری کی کہانیاں معلوم ہوتیں ہیں۔ ایک دن کلاس میں کہنے لگے کہ سرکاری ملازمین کو بہت سادہ رہن سہن رکھنا چاہیے۔ آپ کو ہر ایک کی بات انہماک سے سننی چاہیے مگر فیصلہ قانون اور ضوابط کی روشنی میں ہی کرنا چاہیے۔ ایک دن بتانے لگے کہ پاکستان کے ابتدائی اوقات میں ایک وزیر اعظم کا ڈرائیور روز فرمائش کرتا تھا کہ ان کی سرکاری گاڑی کے لیے دفتر میں کوئی شیڈ نہیں ہے اور گاڑی وزیر اعظم کو اتارنے کے بعد دوسری گاڑیوں کے ساتھ کھلے حصے میں کھڑی کرنا پڑتی ہے۔
ڈرائیور کی باتوں سے تنگ آ کر ایک دن وزیر اعظم پاکستان نے اپنے سیکریٹری کو حکم دیا کہ تخمینہ لگوا کر کیس پیسوں کی منظوری کے لیے فنانس منسٹری میں بھجوا دیا جائے۔ شیڈ تعمیر کرنے کا خرچہ ڈھائی ہزار روپے لگایا گیا۔ چنانچہ وزیر اعظم کی سرکاری گاڑی کے شیڈ بنانے کے لیے فائل سیکریٹری فنانس کے پاس بھجوا دی گئی۔ وہاں سے جواب آیا، کہ اس وقت مہاجرین کے بندوبست کے لیے رقم تھوڑی پڑ رہی ہے، لہذا ڈھائی ہزار روپیہ کا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے پاس جب یہ جواب پہنچا تو انھوں نے اس سرکاری فیصلہ کا احترام کیا اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ کیا آج کل یہ سوچا بھی جا سکتا ہے؟ موجودہ حالات میں اس طرح کی سرکاری جرات کا انجام افسر کے سر کا قلم ہونا ہے! وہ ہمیشہ O.S.D رہے گا۔
شیخ صاحب ایک دن کلاس میں آئے تو بہت رنجیدہ تھے۔ میں1984ء کا ذکر کر رہا ہوں۔ معلوم نہیں! ان کے ذہن پر کیا بوجھ تھا۔ وہ سب کو کہنے لگے کہ سرکاری ملازمین کو انتہائی ایماندار ہونا چاہیے۔ مثال دیتے ہوئے بیان کیا۔ وزیر اعظم کی سرکاری میٹنگ ختم ہونے کے بعد کیبنٹ سیکریٹری نے وزیر اعظم کو درخواست کی کہ وہ ان سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ سب لوگوں کے جانے کے بعد کیبنٹ سیکریٹری نے وزیر اعظم کو کہا کہ آج پچیس تاریخ ہے اور ان کی تمام تنخواہ ختم ہو چکی ہے لہذا انھیں سات سو روپے قرضہ چاہیے۔ وزیر اعظم کے پاس صرف تین یا چار سو روپے تھے۔ انھوں نے وہ پیسے قرض کی صورت میں کیبنٹ سیکریٹری کو ادھار دیے۔ تنخواہ ملنے پر اُس افسر نے وزیر اعظم پاکستان کو چار سو روپے کا قرضہ واپس لوٹا دیا۔ کیا یہ واقعہ آجکل کے حالات میں الف لیلیٰ کی کہانی معلوم نہیں ہوتا؟ مگر یہ سو فیصد سچا قصہ ہے۔
منیرؔ نیازی سے میری ملاقات شیخ صاحب ہی کے توسط سے ہوئی ۔ سول سروسز اکیڈمی میں ایک محفل مشاعرہ تھی۔ جس میں ملک کے تمام نامور شعراء اکرام مدعو کیے گئے تھے۔ منیرؔ نیازی نے ایک خوبصورت سفید شال اوڑھ رکھی تھی۔ پہلی ملاقات میں منیرؔ نیازی سے میں بالکل متاثر نہیں ہوا۔ لیکن مشاعرہ میں اس شخص کی ادائیگی اور طرز شاعری نے ایک عجیب سا تاثر برپا کر دیا۔ نیازی صاحب سے دوستی بہت عرصے قائم رہی۔ ٹائون شپ میں مقیم یہ شخص ایک مرد ِپُر اسرار تھا۔ اس کی باتیں اور شعر سننے کے لیے درجنوں لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ ان میں طلبا، طالبات، سرکاری افسر اور ہر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے شخص ہوتے تھے۔ منیرؔ نیازی صاحب اپنے ہم عصروں میں سے اکثریت سے بہت نالاں تھے۔
ان کا مزاج اور سوچ بالکل مختلف تھی۔ وہ ایک محفلی انسان تھے۔ مگر اصل میں وہ بالکل تنہا اور اکیلے آدمی تھے۔ ایک دن ملاقات ہوئی۔ میں ان سے پوچھنے لگا کہ آجکل وہ کیا کرتے ہیں۔ جواب دیا کہ میں آجکل لاہور ٹائون شپ سے بس میں سوار ہوتا ہوں اور یادگار پاکستان تک جاتا ہوں۔ وہاں جب بس کا اسٹاپ ختم ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہوں۔ میں کئی دنوں سے یہ مشقت کر رہا ہوں۔ میں نے حیران ہو کر ان سے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی توکہنے لگے کہ میں اس شہر میں کافی عرصے سے انسان تلاش کر رہا ہوں۔ پر مسلسل سفر کے باوجود مجھے کسی طرف کوئی انسان نظر نہیں آتا ہے۔ سڑکیں، شہر، اور مارکیٹیں مجھے بالکل خالی نظر آتے ہیں۔ مجھے فورًا اس ذہنی اذیت کا احساس ہو گیا جس سے منیرؔ نیازی اُس وقت گزر رہا تھا۔
بڑے غلام علی خان، روشن آراء بیگم اور کئی اردو، ہندی گائک پہلی بار میں نے ان کے گھر کی بیٹھک میں سنے۔ وہ کمرہ مین بلڈنگ کا حصہ تھا مگر اس کا دروازہ باہر کی طرف کُھلتا تھا۔ ان کے اکثر مہمان اسی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ میں نے انھیں ہمیشہ مالی تنگی میں پایا۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کل وقتی شاعر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر وہ کوئی اور کام کرنے لگ گئے تو شاعری نہیں کر سکتے۔ ان کی زندگی کے بیشتر حصے میں ان کے پاس ذاتی گاڑی نہیں تھی۔ وہ زندگی میں معاشی ناہمواری کو اکثر محسوس کرتے تھے۔ میں نے ان کی ایک عجیب عادت دیکھی۔ وہ اپنے شعر بہت کم سناتے تھے۔ اگر آپ بہت اصرار کریں اور وہ موڈ میں ہوں، تو اپنی کوئی غزل یا نظم سنایا کرتے تھے۔ میں نے ان کی زبان سے کسی اور شاعر کا کبھی کوئی کلام نہیں سنا۔
اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد وہ بہت عرصہ صدمہ کی حالت میں رہے۔ ان کی خوبصورتی اور بدصورتی کی تعریف بے حد مختلف تھی۔ وہ ہمیشہ خوبصورتی کو سلیقہ شعاری اور اُنس کے برابر کا درجہ دیتے تھے۔ میں کئی بار ان کی باتیں سمجھ نہیں پاتا تھا۔ کئی بار ان کی کہی ہوئی باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتیں تھیں۔ مگر ان سے میری ذاتی دوستی کا سفر بہت طویل تھا۔ منیرؔ نیازی کو اس اَمر کا از حد افسوس تھا کہ ان کی زندگی میں ان کی وہ قدر و منزلت نہیں کی گئی جس کے وہ جائز حقدار تھے۔ وہ اپنے ادبی ہم عصروں کے ساتھ اکثر کشیدگی کا شکار رہے۔ ان کا خیال تھا کہ انھیں جان بوجھ کر ایک نکڑ میں لگا دیا گیا ہے۔ ان کا اپنے متعلق خیال تھا کہ وہ ایک ایسا قومی اثاثہ ہیں جسے خُورد بُرد کر لیا گیا ہے۔ میں ان کی اس بات سے اب مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ ہم وہ نامہربان لوگ ہیں جنہوں نے ملکی خزانے کو تو لُوٹا ہی لوٹا، مگر اپنے ادبی سرمایہ کو بھی خورد برد کر لیا ہے؟
کیسے کیسے نایاب لوگ! کس کس کا ذکر کروں اور کس کو رہنے دوں۔ ایک کالم کی بساط پر تفصیلاً ذکر کرنا ناممکن ہے۔ ہر ایک کے متعلق کتابیں لکھیں جا سکتی ہیں۔ زندہ معاشرے اپنے قیمتی لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو بھولتے نہیں ہیں۔ وہ ہر قیمت پر اپنے دانشوروں کو اپنا قومی اثاثہ سمجھ کر سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ میں صرف مسائل زدہ کالم نہیں لکھنا چاہتا۔ مجھے اب تک گمان ہے کہ ہمارے معاشرہ کا کثیر حصہ زندہ ہے۔ صرف اسی وجہ سے ہم تمام لوگ ایک فرسودہ نظام میں سانس لینے کے باوجود تلاش بہار میں ہیں۔ میں دنیا کے اَن گنت ممالک دیکھ چکا ہوں۔ میں کئی کئی ماہ ان ممالک کے ہر سطح کے لوگوں سے ہم کلام رہا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک کے امیر اور اہم ترین لوگوں سے بھی سرکاری اور غیر سرکاری نشستوں میں شامل ہو چکا ہوں۔
مگر میں جتنا غیر ملکی لوگوں کو پرکھتا ہوں، میرا یقین اس اَمر پر اور پختہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی لوگوں سے زیادہ ذہین، محنتی اور لائق لوگ کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔ میں ہارورڈ، کورنیل اور ایم۔آئی۔ٹی کے پروفیسروں سے گزشتہ مہینے ایک ورک شاپ میں ملا ہوں۔ یہ درست ہے کہ ان کا سوچنے کا کینوس بہت وسیع ہے۔ مگر میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ کسی طرح سے بھی ان سے کمتر نہیں ہیں۔ میں یہ فقرہ کسی جذباتی تناظر میں نہیں لکھ رہا، بلکہ میں دلیل سے عرض کرتا ہوں کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ترین پروفیسرز کے پاس ہمارے اکثر علمی سوالات کا جواب نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اتنے پسماندہ کیوں ہیں؟ اس کے جواب موجود ہیں مگر آج میں اس کالم میں ان جوابات کا ذکر نہیں کر رہا۔ یہ بات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے! صرف سر راہے عرض ہے کہ ہمارے اہل علم اور اہل دانش مجموعی بے توقیری کا شکار ہیں۔
میں 1993ء میں سویڈن پہلی بار گیا تھا۔ اسٹاک ہوم میں ایک کیفے میں کافی پینے کے لیے رُکا۔ ویٹر بڑے اہتمام سے حاضر ہوا۔ اُس نے کافی کا آڈر لیا اور کچن میں آڈر لکھوا کر کیفے کے مین ہال میں واپس آ گیا۔ وہاں ایک سفید بالوں والا ضعیف آدمی اکیلا بیٹھا تھا۔ اس کی میز پر شطرنج کا ایک بورڈ پڑا ہوا تھا۔ ہال میں واپس آنے کے بعد ویٹر اس بزرگ آدمی کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں نے انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے شطرنج کھیلنی شروع کر دی۔ بیس منٹ بعد وہ ویٹر کچن سے میری کافی اٹھا کر لایا۔ میرے سامنے رکھی اور پھر اُس بوڑھے آدمی کے پاس جا کر شطرنج کھیلنے لگ گیا۔ میں اُس کیفے میں تقریباً دو گھنٹے بیٹھا رہا۔ وہ ویٹر ہر آنے والے کا آڈر لے کر پھر خاموشی سے شطرنج کھیلنے لگ جاتا تھا۔
میرے لیے یہ واقعہ خاصہ حیرت انگیز تھا۔ میں واپسی پر کیفے کے منیجر کے پاس چلا گیا۔ اُس سے اس تمام واقعہ کی وجہ پوچھی۔ منیجر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ بوڑھا شخص ہمارا قومی سطح کا مصنف ہے۔ یہ بیس سال سے ہر روز اس کیفے میں کھانا کھانے آتا ہے۔ شطرنج اس کی کمزوری ہے۔ ہم نے بیس سال سے ایک نشست کو مخصوص کر رکھا ہے۔ جہاں یہ ادیب آ کر بیٹھتا ہے۔ دو دہائیوں سے یہ ویٹر روز اس اہل علم شخص کے ساتھ شطرنج کھیلتا ہے۔ ہمارا پورا کیفے صرف اس بنا پر مشہور ہے کہ قومی سطح کے ایک ادیب نے ہمیں اس قابل سمجھا ہے کہ وہ روز یہاں کھانا کھانے اور شطرنج کھیلنے آتا ہے۔ میں انتہائی خاموشی سے اس کیفے سے واپس آ گیا۔ یہ اہل علم کی عزت اور وقار کے متعلق قومی رویہ کا ادنیٰ سا اظہار ہے۔
1984ء میں جب میں سول سروسز اکیڈمی پہنچا تو شیخ منظور الہی اس کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ وہ کبھی کبھی کلاس میں آ کر پاکستان کے شروع کے عرصے کے متعلق یادداشت کی بنیاد پر لیکچر دیتے تھے۔ ان کی اکثر باتیں میرے جیسے شخص کے لیے بالکل اچھوتی اور نئی ہوتیں تھیں۔ بلکہ کئی بار تو حقیقت میں سمجھ ہی نہیں آتی تھیں۔ وہ اکثر انتہائی شُستہ انگریزی اور نفیس اردو میں بات کرتے تھے۔ انتہائی سادہ مزاج، مہذب اور پُر تاثیر شخص تھے۔ ان کے بتائے ہوئے کئی قصے تیس سال کی نوکری کے بعد جادو نگری کی کہانیاں معلوم ہوتیں ہیں۔ ایک دن کلاس میں کہنے لگے کہ سرکاری ملازمین کو بہت سادہ رہن سہن رکھنا چاہیے۔ آپ کو ہر ایک کی بات انہماک سے سننی چاہیے مگر فیصلہ قانون اور ضوابط کی روشنی میں ہی کرنا چاہیے۔ ایک دن بتانے لگے کہ پاکستان کے ابتدائی اوقات میں ایک وزیر اعظم کا ڈرائیور روز فرمائش کرتا تھا کہ ان کی سرکاری گاڑی کے لیے دفتر میں کوئی شیڈ نہیں ہے اور گاڑی وزیر اعظم کو اتارنے کے بعد دوسری گاڑیوں کے ساتھ کھلے حصے میں کھڑی کرنا پڑتی ہے۔
ڈرائیور کی باتوں سے تنگ آ کر ایک دن وزیر اعظم پاکستان نے اپنے سیکریٹری کو حکم دیا کہ تخمینہ لگوا کر کیس پیسوں کی منظوری کے لیے فنانس منسٹری میں بھجوا دیا جائے۔ شیڈ تعمیر کرنے کا خرچہ ڈھائی ہزار روپے لگایا گیا۔ چنانچہ وزیر اعظم کی سرکاری گاڑی کے شیڈ بنانے کے لیے فائل سیکریٹری فنانس کے پاس بھجوا دی گئی۔ وہاں سے جواب آیا، کہ اس وقت مہاجرین کے بندوبست کے لیے رقم تھوڑی پڑ رہی ہے، لہذا ڈھائی ہزار روپیہ کا انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے پاس جب یہ جواب پہنچا تو انھوں نے اس سرکاری فیصلہ کا احترام کیا اور کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ کیا آج کل یہ سوچا بھی جا سکتا ہے؟ موجودہ حالات میں اس طرح کی سرکاری جرات کا انجام افسر کے سر کا قلم ہونا ہے! وہ ہمیشہ O.S.D رہے گا۔
شیخ صاحب ایک دن کلاس میں آئے تو بہت رنجیدہ تھے۔ میں1984ء کا ذکر کر رہا ہوں۔ معلوم نہیں! ان کے ذہن پر کیا بوجھ تھا۔ وہ سب کو کہنے لگے کہ سرکاری ملازمین کو انتہائی ایماندار ہونا چاہیے۔ مثال دیتے ہوئے بیان کیا۔ وزیر اعظم کی سرکاری میٹنگ ختم ہونے کے بعد کیبنٹ سیکریٹری نے وزیر اعظم کو درخواست کی کہ وہ ان سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ سب لوگوں کے جانے کے بعد کیبنٹ سیکریٹری نے وزیر اعظم کو کہا کہ آج پچیس تاریخ ہے اور ان کی تمام تنخواہ ختم ہو چکی ہے لہذا انھیں سات سو روپے قرضہ چاہیے۔ وزیر اعظم کے پاس صرف تین یا چار سو روپے تھے۔ انھوں نے وہ پیسے قرض کی صورت میں کیبنٹ سیکریٹری کو ادھار دیے۔ تنخواہ ملنے پر اُس افسر نے وزیر اعظم پاکستان کو چار سو روپے کا قرضہ واپس لوٹا دیا۔ کیا یہ واقعہ آجکل کے حالات میں الف لیلیٰ کی کہانی معلوم نہیں ہوتا؟ مگر یہ سو فیصد سچا قصہ ہے۔
منیرؔ نیازی سے میری ملاقات شیخ صاحب ہی کے توسط سے ہوئی ۔ سول سروسز اکیڈمی میں ایک محفل مشاعرہ تھی۔ جس میں ملک کے تمام نامور شعراء اکرام مدعو کیے گئے تھے۔ منیرؔ نیازی نے ایک خوبصورت سفید شال اوڑھ رکھی تھی۔ پہلی ملاقات میں منیرؔ نیازی سے میں بالکل متاثر نہیں ہوا۔ لیکن مشاعرہ میں اس شخص کی ادائیگی اور طرز شاعری نے ایک عجیب سا تاثر برپا کر دیا۔ نیازی صاحب سے دوستی بہت عرصے قائم رہی۔ ٹائون شپ میں مقیم یہ شخص ایک مرد ِپُر اسرار تھا۔ اس کی باتیں اور شعر سننے کے لیے درجنوں لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ ان میں طلبا، طالبات، سرکاری افسر اور ہر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے شخص ہوتے تھے۔ منیرؔ نیازی صاحب اپنے ہم عصروں میں سے اکثریت سے بہت نالاں تھے۔
ان کا مزاج اور سوچ بالکل مختلف تھی۔ وہ ایک محفلی انسان تھے۔ مگر اصل میں وہ بالکل تنہا اور اکیلے آدمی تھے۔ ایک دن ملاقات ہوئی۔ میں ان سے پوچھنے لگا کہ آجکل وہ کیا کرتے ہیں۔ جواب دیا کہ میں آجکل لاہور ٹائون شپ سے بس میں سوار ہوتا ہوں اور یادگار پاکستان تک جاتا ہوں۔ وہاں جب بس کا اسٹاپ ختم ہو جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہوں۔ میں کئی دنوں سے یہ مشقت کر رہا ہوں۔ میں نے حیران ہو کر ان سے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی توکہنے لگے کہ میں اس شہر میں کافی عرصے سے انسان تلاش کر رہا ہوں۔ پر مسلسل سفر کے باوجود مجھے کسی طرف کوئی انسان نظر نہیں آتا ہے۔ سڑکیں، شہر، اور مارکیٹیں مجھے بالکل خالی نظر آتے ہیں۔ مجھے فورًا اس ذہنی اذیت کا احساس ہو گیا جس سے منیرؔ نیازی اُس وقت گزر رہا تھا۔
بڑے غلام علی خان، روشن آراء بیگم اور کئی اردو، ہندی گائک پہلی بار میں نے ان کے گھر کی بیٹھک میں سنے۔ وہ کمرہ مین بلڈنگ کا حصہ تھا مگر اس کا دروازہ باہر کی طرف کُھلتا تھا۔ ان کے اکثر مہمان اسی کمرے میں بیٹھتے تھے۔ میں نے انھیں ہمیشہ مالی تنگی میں پایا۔ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کل وقتی شاعر تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر وہ کوئی اور کام کرنے لگ گئے تو شاعری نہیں کر سکتے۔ ان کی زندگی کے بیشتر حصے میں ان کے پاس ذاتی گاڑی نہیں تھی۔ وہ زندگی میں معاشی ناہمواری کو اکثر محسوس کرتے تھے۔ میں نے ان کی ایک عجیب عادت دیکھی۔ وہ اپنے شعر بہت کم سناتے تھے۔ اگر آپ بہت اصرار کریں اور وہ موڈ میں ہوں، تو اپنی کوئی غزل یا نظم سنایا کرتے تھے۔ میں نے ان کی زبان سے کسی اور شاعر کا کبھی کوئی کلام نہیں سنا۔
اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد وہ بہت عرصہ صدمہ کی حالت میں رہے۔ ان کی خوبصورتی اور بدصورتی کی تعریف بے حد مختلف تھی۔ وہ ہمیشہ خوبصورتی کو سلیقہ شعاری اور اُنس کے برابر کا درجہ دیتے تھے۔ میں کئی بار ان کی باتیں سمجھ نہیں پاتا تھا۔ کئی بار ان کی کہی ہوئی باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتیں تھیں۔ مگر ان سے میری ذاتی دوستی کا سفر بہت طویل تھا۔ منیرؔ نیازی کو اس اَمر کا از حد افسوس تھا کہ ان کی زندگی میں ان کی وہ قدر و منزلت نہیں کی گئی جس کے وہ جائز حقدار تھے۔ وہ اپنے ادبی ہم عصروں کے ساتھ اکثر کشیدگی کا شکار رہے۔ ان کا خیال تھا کہ انھیں جان بوجھ کر ایک نکڑ میں لگا دیا گیا ہے۔ ان کا اپنے متعلق خیال تھا کہ وہ ایک ایسا قومی اثاثہ ہیں جسے خُورد بُرد کر لیا گیا ہے۔ میں ان کی اس بات سے اب مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ ہم وہ نامہربان لوگ ہیں جنہوں نے ملکی خزانے کو تو لُوٹا ہی لوٹا، مگر اپنے ادبی سرمایہ کو بھی خورد برد کر لیا ہے؟