دانشمندی کے تقاضے
تاریخ کے تجربات سے سیکھنے اور آہستگی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔
ISLAMABAD:
جس بات کا خدشہ تھا، وہ بالآخر سامنے آ ہی گئی۔ حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان مختلف قومی امور پر پائے جانے والے اختلافات اب کھل کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جس سے یہ دعوے غلط ثابت ہو گئے ہیں کہ اہم قومی امور پر حکومت اور عسکری قیادت ایک صفحہ(Page) پر ہے۔ حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، وہ اتنے سادہ نہیں کہ کسی ایک فرد کو موردِ الزام ٹھہرا کر قلب و ذہن کو مطمئن کیا جا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ 66 برسوں کے دوران غلطیاں کس سے نہیں ہوئیں؟ اور کہاں نہیں ہوئیں؟ اگر غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو فوج کو ہر بار اقتدار میں لانے کی ذمے داری خود سیاستدانوں پر زیادہ عائد ہوتی ہیں۔ جس کا گواہ اخبارات کا ریکارڈ ہے۔
لہٰذا اس صورتحال کو ٹال مٹول سے نظر انداز کرنے کے بجائے اس کا وسیع تر تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نوزائیدہ ہے۔ 66 برس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہوا ہے۔ جمہوری عمل کے استحکام اور مثالی جمہوری معاشرے کے قیام تک پہنچنے کے لیے ایسے کئی مراحل سے گزرنا ہو گا، جس کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے۔ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ سیاست باریک بینی کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی معاملات کی نزاکت کو سمجھے بغیر انھیں سطحی طور پر نمٹانے کی کوشش کی گئی، تو ہمیشہ منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔
لہٰذا تاریخ کے تجربات سے سیکھنے اور آہستگی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان اصولوں پر کون توجہ دیتا ہے؟ کیا ان سے توقع کی جائے جو انا، تکبر اور خودسری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے؟ جو انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے سب کچھ دائو پر لگانے پر آمادہ ہو چکے ہوں؟ جنہوں نے تاریخ کے تلخ تجربات سے کچھ بھی نہ سیکھا ہو اور جو آج بھی اسی اکڑفوں میں مبتلا ہیں، جس نے 15 برس پہلے ملک کو ایسے ہی تصادم کی صورتحال دوچار کیا تھا؟
آج سب سے زیادہ پریشان پاکستان کا متوشش شہری ہے، جس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ اگر جمہوریت کو بچانے نکلتا ہے، تو ''تحفظِ پاکستان'' نامی قانون اور منتخب حکومتوں کے دیگر غیر جمہوری اقدامات اس کا منہ چڑاتے ہیں، جو فوجی آمریت سے زیادہ آمرانہ ہیں۔ پھر سفاک قاتلوں سے مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے سماجی Fabric کو تباہ کرنے کی حکمت عملی اسے خوفزدہ کرتی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کی داستانیں اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی اس کے ہوش اڑاتی ہے۔ لیکن اگر وہ فوج کے موقف کی تائید کرتا ہے، تو اس کے سامنے نصف صدی سے زائد کے تجربات آ جاتے ہیں۔ چار فوجی حکومتیں، جو بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئیں، لیکن چند ہی برسوں میں انھوں نے بھی وہی روش اختیار کر لی، جس سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے فوج سے توقع لگائی تھی۔ چوہے بلی کا یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ اسلیے وقت اور حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کھیل کا مزید جاری رہنا کسی بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
پاکستان کا اصل معاملہ نظمِ حکمرانی کا بحران ہے۔ وہ نفسیات ہے، جو جمہوری عمل کو پٹری سے اتارنے(Derail) کا سبب بنتی ہے۔ وہ نااہلیاں ہیں، جن کے سبب حکومتیں عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ مسائل کا حل طرز حکمرانی کے بجائے اندازِ حکمرانی سے مشروط ہے۔ اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس عمل میں فوجی اور سویلین دونوں طرح کی حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ منتخب سویلین حکومت ہو یا فوجی آمریت، دونوں ہی اس عزم و بصیرت سے عاری ہیں، جو عوام کو درپیش مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ریاستی منصوبہ سازی کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح ان میں اس صلاحیت اور اہلیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے، جو ریاستی امور کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا جہاں تک جمہوری سوچ اور طرز عمل کا تعلق ہے تو فوجی حکمرانوں سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اگر منتخب سویلین حکومتوں میں بھی اس سوچ اور طرزِ عمل کا فقدان ہو تو اصلاحِ احوال کا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا ہے۔
66 برس کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ عوامی فلاح کے طویل المدتی اور قلیل المدتی منصوبوں کی تشکیل ہو، سویلین حکومتیں بھی فوجی آمروں کی طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس اقدار و اختیار اور نظام عدل کی نچلی سطح پر منتقلی کے معاملہ میں فوجی حکومتیں منتخب جمہوری حکومتوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ مقاصد کچھ ہی کیوں نہ ہوں، لیکن عوام کے لیے نچلی سطح پر ریلیف کا ایک ذریعہ بہر حال پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ جن کے پائیدار حل کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر دہشت گردی سے نمٹنے، مختلف نوعیت کے جرائم اور بدامنی کے رجحانات پر قابو پانے کے لیے پولیس کی تطہیر اور تشکیل نو کی ضرورت ہے۔
قانون شہادت کو مزید فعال بناتے ہوئے عدالتی نظام کی مکمل بااختیاریت کے ساتھ بھی نچلی سطح تک منتقلی لازم ہے۔ مگر ان اقدامات پر توجہ دینے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے ''تحفظِ پاکستان'' کے نام سے ایک قانون پاس کرایاہے۔ یہ وہی اقدام ہے، جو ن لیگ نے اپنے سابقہ اقتدار (فروری1997ء تا اکتوبر1999ء) کے دوران خصوصی عدالتیں قائم کر کے کیا تھا۔ اب تحفظِ پاکستان کے ذریعے وہ پولیس کو جس طرح بے مہابہ اختیارات تفویض کرنا چاہ رہے ہیں، وہ خود ان کے گلے کا ہار بن سکتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کو گھیرنے کے لیے جو اقدامات کیے تھے، وہ خود ان کے مقدمے میں پائوں کی زنجیر بن گئے تھے۔ مثال کے طور پر 1976ء سے قبل سزائے موت کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں تمام ججوں کا متفقہ فیصلہ ضروری ہوا کرتا تھا۔ بھٹو صاحب نے آئینی ترمیم کے ذریعہ اسے اکثریتی فیصلہ کی شکل دیدی۔ اسی طرح انھوں نے بیرونِ ملک سے وکیل بلانے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا تو اسوقت کی حکومت نے جو انھیں ہر حال میں تختہ دار تک پہنچانا چاہتی تھی، ان کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر انھیں یہ سہولیات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ خود میاں صاحب کو بھی یاد ہو گا کہ ان کے خلاف ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کا مقدمہ اسی خصوصی عدالت میں چلا جسے انھوں نے قائم کیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس بات میں وزن ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس قانون کا پہلا نشانہ خود میاں صاحب ہوں گے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوام سے معاشی بحالی، توانائی کے بحران کے خاتمہ، روزگار کے ذرایع پیدا کرنے جیسے اقدامات کا جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کرنے کے بجائے پہلے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ قائم کر دیا، اس کے بعد وزراء کو بے مہار چھوڑ دیا کہ جو جی میں آئے کہتے پھریں۔ کیا وزراء کے بیانات عدالتی کاروائی میں کھلی مداخلت نہیں ہیں؟ کیا اس طرح ریاست کے کلیدی اداروں کے درمیان بداعتمادی اور تصادم کی فضا پروان نہیں چڑھ رہی؟
لہٰذا عرض یہ ہے کہ اصول و ضوابط تو بہت کچھ بتاتے ہیں اور دستاویزات میں بہت کچھ لکھا ہوتا ہے، مگر دانشمند سیاسی قیادت معروضی حالات کا ادراک کرتے ہوئے، ایسے اقدامات کرتی ہے کہ قانون شکنی کا پہلو بھی نہ نکلے اور معاملات و مسائل تصادم کی راہ پر بھی نہ لگنے پائیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان میں غلطیوں اور کوتاہیوں کا طویل اور نا ختم ہونے والا سلسلہ رہا ہے، جس سے کوئی بھی شخصیت اور ادارہ مبرا نہیں ہے۔ اگر کہیں فوج نے اپنے مینڈیٹ سے انحراف کیا تو 66 برسوں کے دوران کئی مواقعے پر عدلیہ نے ماورائے آئین فیصلے صادر کیے۔
کہیں منتخب حکومتوں نے من مانیاں کر کے آئین کا تمسخر اڑایا۔ اس لیے اگر آمریتوں کا راستہ روکنا ہے تو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ عوام سیاسی قیادتوں سے بد دل ہو کر فوج کی طرف دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے، جب سیاسی قیادتیں عوام کو درپیش مسائل کی ترجیحات طے کرتے ہوئے انھیں پورے اخلاص اور ذمے داری کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ ہمارے خیال میں ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو آمریتوں کو اقتدار پر قبضہ کے مواقعے فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہی دانشمندی کا تقاضہ ہے۔