پاکستان میں میڈیا کا بحران
پاکستانی صحافت کے پون صدی کے مندرجات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان موضوعات کی ہمارے یہاں بھی افراط رہی ہے
گزشتہ دنوں ادارہ ٔ فروغ قومی زبان نے قومی صحافت کے پچھتر برسوں کے موضوع پر ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کانفرنس میں صحافت کی تاریخ، تحریک آزادی اور جمہوریت کی بحالی اور استحکام کے لیے جدوجہد جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔
جناب سہیل وڑائچ نے آج کی قومی صحافت کو ماضی کے مقابلے میں نہایت کامیاب اور مؤثر قرار دیا۔ برادر محترم خالد عظیم چودہری نے اردو صحافت کی دو صدیوں پر محیط تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے تحریک پاکستان اور بحالی جمہوریت کی تحریکوں کے ضمن میں اس کے کردار کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔
ڈنمارک میں مقیم بزرگ صحافی جناب نصر ملک نے آزادی صحافت کی تحریکوں کا جائزہ پیش کیا جب کہ محترم مجیب الرحمن شامی نے استحکام پاکستان اور استحکام جمہوریت کے ضمن میں اس کا کردار اجاگر کیا۔
انھوں نے کانفرنس کے صدر اور وزیر اعظم کے مشیر جناب امیر مقام کو توجہ دلائی کہ مقتدرہ قومی زبان اس ادارے کے لیے بہترین نام تھا لیکن نہ جانے کیوں اس کا نام تبدیل کر کے اسے اپنے شکوہ سے محروم کر دیا گیا۔ جناب امیر مقام نے اعلان کیا کہ وہ اس ادارے کے پرانے نام کو بحال کریں گے۔
اس سلسلے میں انھوں نے کانفرنس میں موجود وفاقی سیکریٹری قومی ورثہ و تاریخ ڈویژن محترمہ فارینہ مظہر صاحبہ کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔کانفرنس سے ممتاز صحافی اور ادیبہ نضیرا اعظم جبار مرزا اور ڈاکٹر سعدیہ کمال سمیت کئی اہم صحافیوں اور دانش وروں نے بھی خطاب کیا۔
امیر مقام نے ریاست اور حکومت میں اردو کو اس کا جائز مقام دینے اور اس کے لیے فراخ دلی سے وسائل فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرا کے خوب داد سمیٹی۔ یوں قومی زبان کے مقام کی بحالی اور صحافت کے کردار کے تعلق سے یہ کانفرنس یاد گار حیثیت اختیار کر گئی جس کے لیے ادارے کے سربراہ برادر محترم ڈاکٹر راشد حمید، تجمل شاہ اور ان کے رفقائے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
کانفرنس میں مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔ اس موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے میں نے نظریہ ابلاغی اضطراب کی روشنی میں گزشتہ پچھتر برس کے صحافتی مندرجات کا جائزہ پیش کیا۔
نظریہ ابلاغی اضطراب صحافتی مندرجات کے جائزے کا ایک منفرد طریقہ ہے۔ جس کی روشنی میں امریکا میں ستر کی دہائی میں صحافتی مندرجات کا جائزہ لے کر یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ کون سے عوامل ہیں ، ذرائع ابلاغ میں جن کی تکرار سے افراد معاشرہ، جمہوری سیاسی اداروں حتیٰ کہ ریاست تک سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی صحافت کے پون صدی کے مندرجات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان موضوعات کی ہمارے یہاں بھی افراط رہی ہے اور ان کے اثرات بھی امریکا سے مختلف نہیں رہے۔
یہ تذکرہ طویل ہو جائے گا، اگر کانفرنس کی پوری روداد قم بند کی جائے اس لیے یہ ذمے داری میں برادرم راشد حمید کے سپرد کر کے ایک ایسے پہلو کی جانب توجہ کرتا ہوں، کانفرنس میں جسے ایک بھرپور سیشن ہونا چاہیے تھا۔
کچھ دن ہوتے ہیں پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے سینئر استاد ڈاکٹر عرفان عزیز کی ایک کتاب بعنوان 'پاکستان میں میڈیا کا بحران ' شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے وہ تاریک راہیں اجاگر کی ہیں جن میں آج کا صحافی مارا جا رہا ہے۔
مصنفین نے چار ابواب پر مشتمل اس کتاب میں وہ تمام مسائل آشکار کر دیے ہیں جو پاکستانی صحافت اور صحافی کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔اس کتاب کا خیال بنیادی طور پر اس زمانے پروان چڑھا جب عنان حکومت عمران خان کے ہاتھ میں تھی اور حیرت انگیز تیز رفتاری کے ساتھ صحافیوں کو بے روز گار کیا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ سرکار نے ذرائع ابلاغ کی معیشت کو اس حد تک خراب کر دیا کہ ادارے اپنے کارکنوں کو فارغ کرنے لگے یا تنخواہوں کی ادائیگی ان کے لیے مشکل ہو گئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسے صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی جنھیں سال بھر سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ اس بحران میں کئی صحافی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس تحقیقی کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ملازمت اختیار کرنے کے بعد بھی تنخواہوں، حالات کار اور کیرئیر میں ترقی کا کوئی ضابطہ کار موجود نہیں ہے۔
یہ انکشاف کوئی بہت بڑا راز نہیں ہے لیکن یہ کھلا راز ہمارے یہاں کبھی قومی مکالمے کا موضوع نہیں بن سکا حالانکہ پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کی بدحالی کے ضمن میں یہ معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مصنفین نے ان معاملات کو سیاہ معیشت سے تعبیر کرتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ اسے شفاف اور عام کیے بغیر اس شعبے کی ترقی یقینی نہیں بنائی جا سکتی۔
مصنفین نے کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی موضوع بحث بنانے کے علاوہ ان جدید ہتھ کنڈوں کا بھی جائزہ لیا ہے، موجودہ دور میں جنھیں اختیار کر کے آزادی اظہار کو مسدود کیا گیا۔
مصنفین صحافت کے قومی منظر نامے کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ صحافتی بحران کا مقصد بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ جمہوری اداروں کی ریاست پر بالا دستی بتدریج ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صورت حال ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں دیتی۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اگر یہ بحران ختم نہیں ہوتا تو خدشہ ہے کہ ہماری صحافت ان معاشروں کی صحافت جیسی ہو جائے گی جن کے شہری جمہوری اور سیاسی آزادیوں سے محروم ہوتے ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ یہ کتاب قومی صحافت سے متعلق ایک مکمل دستاویز ہے جس کا مطالعہ ہر محب وطن شہری پر لازم ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کی یہ تحقیق پاکستان کے لیے نہایت اہم، غیر معمولی اور جرات مندانہ ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر راشد حمید نے اعلان کیا ہے کہ وہ قومی صحافت سے متعلق جلد ہی ایک اور بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے والے ہیں۔
میں توقع کرتا ہوں کہ اس موقع پر نہ صرف ڈاکٹر توصیف اور ڈاکٹر عرفان عزیز کو مدعو کیا جائے گا بلکہ کانفرنس کا ایک پورا سیشن ان موضوعات کے لیے مخصوص کیا جائے گا۔