عمرانؔ نقوی صاحب شاعر بے نوا

نقوی صاحب مگر وقت کی ان تیز لہروں کو چیرتے ہوئے آج بھی خود کو اسی میگزین سیکشن اسی کمرے میں دیکھتے تھے


Asghar Abdullah March 06, 2023
[email protected]

شاعر بے نوا عمران نقوی صاحب جب بھی یاد آتے ہیں تو ان سے جڑے کچھ مناظر نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں اور سینہ سلگنے لگتا ہے۔

پہلا منظر: چیئرنگ کراس پر واقع ایک روزنامہ کی بلند وبالا بلڈنگ کی دوسری منزل پر ایک کمرے میں لگ بھگ پندرہ میزیں اور کرسیاں لگی ہیں۔ یہ میگزین سیکشن ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی عین سامنے جو میز ہے، یہ میز عمران نقوی صاحب کی ہے۔

وہ ادبی ایڈیشن کا انچارج ہیں۔ عمر یہی کوئی پینتیس برس،سانولی رنگت، پرانی طرز کی مونچھیں، شیو قدرے بڑھی ہوئی، جس نے بعد میں باقاعدہ داڑھی کی شکل اختیار کرلی۔

دفتر آکر کرسی پر بیٹھتے ہی ریسور اٹھاتے ہیں،کینٹین کا نمبر ملاتے ہیں اور نیاز ا سے اس طرح عرض ِنیاز کرتے ہیں، ہاف سیٹ اور دو بن مکھن، فوراً۔ ناشتہ کرنے کے بعد ۱۱بجے کام کا آغاز کرتے ہیں توکچھ ہی دیر میںکوئی شاعر ادیب وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

زیر ترتیب ایڈیشن میں ان کی کوئی نظم، غزل یا مضمون ضرور شامل اشاعت ہے۔ ادبی ایڈیش کی تیاری نقوی صاحب اس طرح ڈوب کے کرتے ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا دھیان اِدھر اُدھر بھٹکنے نہیں دیتاہے، مبادا ساری تپسیا بھرشٹ ہو جائے۔

دسمبر1999میں جب ایڈیٹر سنڈے میگزین کی حیثیت سے میں اس کمرے میں آیا توعمران نقوی صاحب پہلے سے یہاں موجود تھے اور پھر آیندہ دس سال تک اپنے ان معمولات کے ساتھ میرے سامنے موجود رہے ہیں۔

ادبی ایڈیشن میں ان کی جان تھی ، کبھی کبھی خوف محسوس ہوتا کہ اگر کبھی یہ توتا مر گیا، تو نقوی صاحب کا کیا بنے گا، ان کے لیے تو اس کمرے سے باہر زندگی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، بلکہ وہ کہا کرتے تھے کہ باقی لوگ توکسی اور جگہ جا کے ایڈجسٹ ہو جائیں گے، میں تو اس کمرے سے نکلا تو مر ہی جاؤں گا،اور ان کا یہ خوف بعد میں سچ ثابت ہو۔

اس پہلے منظر کے بعد دوسرا منظر ابھرتا ہے۔ ایک روز دفتر پہنچتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمران نقوی صاحب نوکری سے محروم ہو چکے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ جس روز انھیں برخاستگی کا پروانہ ملا ، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اور آنکھوں نم آلود تھیں۔

سب دوستوں نے حوصلہ دیا کہ '' فکر نہ کریں، کچھ روز میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔'' مگر نقوی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خالی خالی نظروں سے سب کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر اسی طرح چپ چاپ اٹھے اور اپنی میز پر جا کے کانپتے ہاتھوں سے سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔

نقوی صاحب اس کمرے سے کیا رخصت ہوئے، کمرے سے ساری رونقیں ہی رخصت ہوگئیں، مگر کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کچھ دنوں تک انھوں نے اس موہوم سی امید پر دفتر سے رابطہ رکھاکہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے،لیکن ان کی خالی کردہ نشست چند روز بعد ہی پُر ہو گئی اور میگزین سیکشن کی گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ آگے بڑھ گئی، جیسے ٹرین کسی اسٹیشن پر رکتی ہے۔

اس میں سے کوئی مسافر اترتاہے اوروہیں سے دوسرا مسافر چڑھ کے خالی نشست پر بیٹھ جاتا ہے اورکچھ ہی دیر میں ٹرین کا ڈبہ پھر پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔اب تیسرا منظر ابھرتا ہے۔ عمران نقوی صاحب جیل روڈ پر واقع ایک روزنامہ کے دفتر میں بیٹھے ہیں۔

وہ یہاں بھی ادبی ایڈیشن کے انچارج ہیں اور یہاں بھی ان کی معاونت کے لیے ادیب شاعر موجود ہیں ، مگر وہ بجھے بجھے نظر آ رہے ہیں۔

میں از رہ ِ مذاق کہتا ہوں، ' یہاںبھی آپ کے اردگرد رونق تو لگی ہے پھر اتنے رنجیدہ کیوں ہیں ؟'۔جیسا کہ ان کی عادت ہے، پہلے تھوڑا سا ہنستے ہیں، پھر ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں، مگر آج خلاف معمول اس کے بعدکچھ بولے نہیں اور چاے کی پیالی میری طرف بڑھا دیتے ہیں، پھر اپنی پیالی اٹھاتے ہیں۔ ''اوہو، یہ توبہت ٹھنڈی ہو چکی۔'' وہ زیر ِلب بڑبڑاتے ہیں۔ ہم اٹھتے ہیں اور باہر ایک کھوکھے پر بیٹھ کے کڑک چاے پیتے ہیں۔

وہاں وہ بتاتے ہیں، 'یہاں تو رضاکاروں جیسی نوکری ہے،کام تو بہت ہے مگر تنخواہ کا کچھ پتا نہیں کب ملے گی، ملے گی بھی یا نہیں ، بس یار' ، اور یہ کہتے ہوئے پھرہنستے ہیں اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں۔

صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اس ملازمت سے ان کا جی اچاٹ ہو چکا ہے،اور یہاں کچھ دنوں کے مہمان ہیں۔چند ہفتوں بعدمعلوم ہوتا ہے کہ اس ملاقات کے بعد چند روز ہی یہ نوکری چھوڑ چکے ہیں اور ان دنوں صاحب فراش ہیں۔ پھر معلوم ہوتا ہے کہ اب نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے وابستہ ہو چکے ہیں،اور بچوں کے رسالہ'' ہونہار '' کے ایڈیٹر ہیں۔

اب آخری مناظر ابھرتے ہیں۔ میں ان کی والدہ کی موت پر تعزیت کے لیے ان کے دفتر جاتا ہوں ۔ وہ اپنی کرسی پر آنکھیں موندھے سرجھکائے بے سدھ بیٹھے ہیں۔

عینک سامنے میز پر پڑی ہے۔''نقوی صاحب ... نقوی صاحب .... نقوی صاحب ''۔ میں ان کو پکارتا ہوں۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے سر اٹھاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں سوجھی ہوئی ہیں۔ پتا نہیں کب سے اس طرح بیٹھے ہیں۔

ہم مرحومہ کے لیے فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ اس کے بعد کہنے لگے ، میری والدہ بہت طویل عمر پائی ہے، مجھے تو اب ان کے بغیر جینے کی عادت ہی نہیں رہی ۔ بس یار .........'' اور یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی ۔

ایک روز دوبارہ ان سے ملنے گیا تو اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔میں کچھ پریشان ہوا، پھر یہ دیکھ کے تسلی ہوئی کہ میز پر ان کی موجودگی کے آثار، ان کی عینک اور دوائیاں موجود ہیں۔ اس روز وہ سخت مضطرب تھے۔''خیریت تو ہے ؟'' میں نے پوچھا۔ '' بیٹیوں کی طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں،ٹیسٹ کروائے ہیں، رپورٹیں آ چکی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں،کچھ عرصہ تک مستقل دوائیاں کھانا پڑیں گی۔

بس اسی وجہ سے فکرمند ہوں۔'' میں نے کہا، '' یار بچے بیمار ہوتے رہتے ہیں، پھر ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں''۔ مگر ، ان کی اضطرابی کیفیت میں کچھ کمی نہ آئی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے وابستگی کے بعد نقوی صاحب کی زندگی میں پہلی بار کچھ ٹھیراو محسوس ہوا، لیکن شاید ان کا حال اب اس پودے کی طرح ہو چکا تھا، جو ایک بار اپنی جگہ سے اکھڑ جاتا ہے تو پھر لاکھ کوشش کے باوجود کسی دوسری جگہ جڑ نہیں پکڑ پاتا اور کوئی فضا ، کوئی پانی اس کو راس نہیں آتا ہے ۔ اس کی زندگی کی کمزور ٹہنی روز بروز سوکھتی، سکڑتی اور مرجھاتی جاتی ہے۔

وہی ہوا ، جس کا اندیشہ تھا، تھوڑا عرصہ بعد انھوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو بھی خیر باد دیا۔ ان کے ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ ذیا بیطس اور بلڈ پریشر کے بعداب دل کے مریض بھی ہوتے جا رہے ہیں ۔ چند روز بعد ان کی کال آئی اور یہ ان کی آخری کال تھی۔

ان کی آواز میں بہت گبھراہٹ تھی۔ کہنے لگے، ''موبائل فون خراب ہونے کے باعث سب نمبر ضایع ہو چکے ہیں۔

آج بڑی مشکل سے آپ کا نمبر لیا ہے۔ پھر مجھ سے میرے سب بچوں کا حال احوال دریافت کیا، کون کس کلاس میں، کس اسکول میں اور کس کالج میں ہے۔ پھر خود ہی بتایا کہ صحافی کالونی والا پلاٹ فروخت کرکے نیا گھر خرید لیا ہے اور اس میں منتقل ہو چکے ہیں۔

ہم سب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ پھر جیسا کہ ان کی عادت تھی، انھوں نے اپنے نوائے وقت ادبی ایڈیشن کے دنوں کا ذکر چھیڑ دیا، جس میں ان کی زندگی کے پچیس سال بیتے تھے۔

آج ان کا لہجہ کچھ زیادہ ہی اکھڑا کھڑا سا تھا، جیسے چراغ حیات تیز ہواؤں کی زد پر ہو۔ میں یہ محسوس کرکے کانپ اٹھاکہ وہ اب تک چیئرنگ کر اس پر واقع اس پانچ منزلہ بلڈنگ کی دوسری منزل پر سیڑھیوں کے عین سامنے والے کمرے میں سانسیں لے رہے ہیں۔

وہ بلڈنگ، جوکب کی ویران ہو چکی، جس کے مالک اور ایڈیٹر اگلے جہاں سدھار چکے اور وہ کمرہ جس میں کبھی میگزین سیکشن ہوتا تھا اور ہر وقت چہل پہل ہوتی تھی اور سارا دن چینکیں اور برتن بجتے رہتے تھے۔

اب وہاں نہ کوئی میز ہے،نہ کوئی کرسی اور نہ کوئی صدا ، اوران کی کرسی کے عقب میں جھانکتی لوہے کی کھڑکی اور چھت سے لٹکتے مکڑی کے دبیز جالوںکے سوا اب وہاںکچھ بھی نہیں، وقت کا بہاؤ سب کچھ بہا کر لے جا چکا ہے۔

نقوی صاحب مگر وقت کی ان تیز لہروں کو چیرتے ہوئے آج بھی خود کو اسی میگزین سیکشن اسی کمرے میں دیکھتے تھے، وہ چائے اور بن مکھن کا ناشتہ کر رہے ہیں ،اپنے دوستوں سے شرارتیں کر رہے ہیں اور پھر انجان بن کے اس طرح دیکھتے ہیں،جیسے کچھ کیا ہی نہیں ۔پھر یکدم ان کے چہرے کا رنگ یکدم متغیر ہو جاتا ہے، جب یہ سب منظر بکھر جاتے ہیں اور وہ میز سے اپنا سامان سمیٹ رہے ہیں ۔

آج مجھے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی، اور میں دل ہی دل میں ان کے لیے دعا کر رہا تھا، مگر نہیں جانتا تھا کہ اب کوئی حرف ِ دعا رسا ہونے والا نہیں اورکچھ دنوں میں وہ بھی بیتے دنوں کی کہانی بن جائیں گے اور ان کی آواز بھی وقت کے بے کراں سمندر میں ڈوب جائے گی اور ان کاچہرہ بھی خواب ہو جائے گا ، احمد شاملو نے کہا تھا ؎

این موج سنگین گزرزمان است

کہ از من می گزرد

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں