امیر اور غریب ممالک میں معاشی تفاوت

عالمی سطح پر امیر اور غریب ممالک میں خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے

عالمی سطح پر امیر اور غریب ممالک میں خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے غریب ممالک کے خلاف امیر ممالک کے حربوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیر ممالک غریب ممالک کو شرح سود کی اضافی قیمتوں سے تنگ کر رہے ہیں۔

قطر میں 46 کم ترقی یافتہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کا کہنا تھا کہ دولت منداقوام کو پسماندہ اور کمزور معیشتوں کے فروغ اور صحت و تعلیم بہتربنانے کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر دینے چاہئیں۔

انتونیوگوتریس کا کہنا تھا کہ انویسٹمنٹ کمپنیاں شرح سود بڑھا رہی ہیں، توانائی کمپنیاں ریکارڈ منافع کما رہی ہیںجب کہ قرضوں میں ڈوبے کم وسائل والے ممالک کو معاشی ترقی کے چیلنجز درپیش ہیں۔

عالمی مالیاتی نظام امیر ممالک نے اپنے فائدے کے لیے ڈیزائن کیاہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ غریب ریاستیں غربت کے بدترین طوفان میں پھنسی ہوئی ہیں، امیر ممالک غریب ریاستوں کو موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے میں مدد کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کی آواز اٹھا کر ترقی یافتہ ممالک کی قیادت اور عالمی مالیاتی اداروں کی انتظامیہ کو حقائق سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

ویسے تو اس قسم کی باتیںکئی عالمی شہرت یافتہ معیشت دان اکثر اوقات مختلف سیمینارز میں کرتے رہتے ہیںلیکن طاقتور ممالک کی حکومتوں کو کنٹرول کرنے والے ان باتوں کو اہمیت نہیں دے رہے'جس کی وجہ سے عالمی سطح پرغربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جب کہ دنیا کے غریب ممالک سیاسی انتشار کا شکار ہورہے ہیں' کئی ممالک خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں' کئی ممالک مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے ہیں۔

افغانستان 'یمن 'عراق 'لیبیا 'شام 'صومالیہ' نائیجیریا' مالی 'کیمرون اور سوڈان اس کی مثالیں ہیں' پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف بھی قطر کے امیر کی دعوت پر5 اور 6 مارچ کو قطر میں کم ترقی یافتہ ممالک (ایل ڈی سیز) کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پانچویں کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے اعلامیہ کے مطابق کانفرنس کا انعقاد 5تا 9 مارچ ہوگا۔

کانفرنس میں بین الاقوامی رہنما کم ترقی یافتہ ممالک کی معاونت کے حوالے سے بین الاقوامی تعاون کے فروغ کے اقدامات کا جائزہ لیں گے جن پر ترقیاتی شراکت داروں کی جانب سے اتفاق کیا گیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی کانفرنس میں شرکت سے کم ترقی یافتہ ممالک اور پاکستان کو مدد ملے گی جس سے ایل ڈی سیز کی معاشی اور سماجی ترقی و خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔

یہ کانفرنس پاکستان کے حوالے سے بھی خاصی بہتر ہے 'پاکستان کے لیے عالمی سطح پر اپنے معاشی مسائل اٹھانے کے لیے یہ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے' وزیراعظم شہباز شریف یقیناً اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔

پاکستان کی جو مشکلات ہیں 'وہ دنیا کے دوسرے غریب ممالک سے ملتی جلتی ہیں'پاکستان پر عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کا خاصا قرضہ چڑھا ہواہے'جب کہ پاکستان کی معیشت میں اتنی طاقت اور قوت نہیں ہے کہ وہ یہ قرضے اتار سکے'اس لیے پاکستان کو بھی عالمی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

خصوصاً ماحولیاتی اور موسمیاتی آلودگی کے ضمن میں پاکستان کو جتنی مدد کی ضرورت ہے' ترقی یافتہ ممالک نے اتنی مدد نہیں کی ہے حالانکہ یہ مدد انھیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ آلودگی پھیلانے میں ترقی یافتہ ممالک کا زیادہ حصہ ہے۔

دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی پر امریکا کا ناقابل تردید اثر و رسوخ ہے کیونکہ امریکا ان اداروں کو سب سے زیادہ سرمایہ فراہم کرتا ہے۔

ان اداروں کے بورڈ آف گورنرز میں فیصلہ کن برتری انھی اقوام کی ہے جو انھیں زیادہ مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔دنیا کے غریب ممالک ان مالیاتی اداروں کو دینے والے نہیں بلکہ ان سے لینے والے ہیں'اس لیے غریب ممالک کی تجاویزکو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔


عالمی سطح پر امیر اور غریب ممالک میں خلیج مسلسل بڑھ رہی ہے حالانکہ سب سے زیادہ وسائل غریب ممالک کے استعمال ہو رہے ہیں' سونا 'ہیرے جواہرات سے لے کر اناج اور دیگر اجناس تک غریب ممالک پیدا کر رہے ہیں لیکن ان ممالک کے عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی امیر کمپنیاں غریب ممالک کا خام مال اونے پونے خرید کر اپنی دولت میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں 'امیر ممالک کو اس کا اچھی طرح علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی اصلاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

غیر مساوی معاشرے پر آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط بھی غیر مساوی طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔دنیا کے ہر غریب ملک کو ناقابل برداشت مہنگائی کا سامنا ہے'مہنگائی کی شرح کہیں 35 فیصدہے اور کہیں 70 فیصدبھی ہے۔

غریب ممالک میں ایک مختصر سے امیر طبقے کے لیے تواتنی مہنگائی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن ان ممالک کا غریب طبقہ جو تقریباً 90فیصد آبادی پر مشتمل ہوتاہے 'اس کے لیے مہنگائی ناقابل برداشت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں جرائم کی شرح بہت بلند ہے'یہی ممالک مذہبی دہشت گردی کا شکار ہیں۔یہی ممالک انڈر ورلڈ کے ہیڈ کوارٹرز بنے ہوئے ہیں۔

غریب اور پسماندہ ممالک کا انتظامی ڈھانچہ ظالم اور بے حس ہے'ان ممالک کے آئین اور قانون میں جان بوجھ کر سقم اور ابہام رکھے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں نظام عدل بھی استحصالی طبقے کا حصہ بن چکا ہے۔

یوں غریب طبقے کے نوجوانوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع محدود سے محدود تر ہو گئے ہیں' وہ کوئی کاروبار کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں کوئی اچھی ملازمت مل سکتی ہے'حکومتوں پر بھی امیر طبقے کا قبضہ ہے۔

سرکاری مشینری پر بھی وہی قابض ہیں اور کاروبار پر بھی انھی کی اجارہ داری ہے 'زراعت پر بھی انھی کا کنٹرول ہے اور مذہبی رہنما بھی امرا کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

دنیا کے طاقتور ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی انتظامیہ بھی یہ نہیں چاہتی کہ غریب ممالک میں درمیانے طبقے کا پھیلاؤ ہو 'وہاں سائنسی ترقی ہو ۔اس لیے یہ ممالک اور ادارے غریب ملکوں کو قرضہ دیتے وقت جو پالیسی بناتے ہیں۔

اس کا اولین نقطہ قرض کی وصولی کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور دوسرا نقطہ اپنے اتحادی طبقے کی حاکمیت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے 'انفراسٹرکچر کی ترقی 'سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ 'پسماندہ معاشروں کو آگے بڑھنے کا راستہ بنا کر دینا 'ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا' یہی وجہ ہے کہ براعظم افریقہ 'ایشیا اور لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں یا نسلی 'لسانی اور مذہبی تقسیم کا شکار ہو کر خانہ جنگی میں الجھے ہوئے ہیں ' اس صورت حال کا فائدہ بھی ترقی یافتہ ممالک کا سرمایہ دار اٹھا رہا ہے۔

اب روس اور یوکرین کے درمیان جھگڑا ہی دیکھ لیں۔اس تنازع کو بڑھانے میں جہاں روس اور یوکرین کی قیادت کا اپنا بھی کردار ہے تو وہاں امریکا اور یورپی یونین نے بھی جلتی پر تیل ہی ڈالا ہے حالانکہ اگر امریکا اور یورپی یونین چاہتے تو جنگ سے بچا جا سکتا تھا لیکن کسی کو بھی روس اور یوکرین کے عام لوگوں کے مفادات کی کوئی پروا نہیں تھی۔

یہ جنگ ابھی بھی جاری ہے 'اگلے روز امریکا کے صدر جو بائیڈن اور جرمن چانسلر اولف شولز نے واشنگٹن میں ایک گھنٹے سے زائد وقت تک علیحدگی میں ملاقات کی۔ میڈیا کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ روس پر یوکرین کی جنگ کے باعث پابندیاں عائد کرتے رہیں گے۔

برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ بائیڈن اور شولز نے اوول آفس میں ایک گھنٹے سے زائد وقت تک علیحدگی میں ملاقات کی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں کی گفتگو یوکرین کے لوگوں کے ساتھ مستقل عالمی یکجہتی کی اہمیت اور یوکرین کو سکیورٹی، انسانی، اقتصادی اور سیاسی مدد فراہم کرنے کے لیے جاری کوششوں پر مرکوز تھی۔

صدر بائیڈن نے جرمن رہنما کا ان کی مضبوط اور مستحکم قیادت اور یوکرین کی حمایت کے لیے شکریہ ادا کیا۔ جرمن چانسلر اولف شولز نے کہا کہ یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اتحادی جب تک اور جہاں تک ضروری ہو یوکرین کی حمایت جاری رکھیں گے۔

دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے قبل امریکی حکام نے کہا تھا کہ گفتگو کے نکات میں جنگ کی صورتحال اور اگر چین روس کو فوجی امداد فراہم کرتا ہے تو اس کا جواب کیسے دیا جائے۔جرمن چانسلر شولز ایک روزہ مختصر دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے اور ان کے ایجنڈے میں کوئی اور ملاقاتیں نہیں تھیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ طاقت ور اقوام کے رہنماؤں کی ترجیحات کیا ہیں۔

دنیا میں قیام امن کی کنجی بھی طاقتور اور ترقی یافتہ اقوام کے رہنماؤں کے پاس ہے اور دنیا کے غریب ممالک کی خوشحالی کی کنجی بھی انھی کے پاس ہے ۔
Load Next Story