سیاسی پارٹیوں میں مطلق العنانی

عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں


Muhammad Saeed Arain March 06, 2023
[email protected]

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں میراث ہے نہ مطلق العنانی بلکہ جمہوریت ہے۔

جہاں امیر جماعت کی من مانی کی بجائے پارٹی مشاورت سے کام ہوتا ہے اور مقررہ مدت کے بعد طریقہ کار کے مطابق امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور امارت کے حصول کے لیے کوئی رہنما از خود امیدوار نہیں بنتا بلکہ جماعت کے مجوزہ طریقے کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے ذریعے مرکزی امیر منتخب کرلیا جاتا ہے جو حلف اٹھانے کے بعد من مانے فیصلے کر کے عہدیدار مقرر نہیں کرتا جب کہ باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی قائم کرنے والا ہی سربراہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی میں اپنی مرضی ہی کے عہدیدار نامزد کرتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی تقرری اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ممکن نہیں ہوتی۔

ہر پارٹی اپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے پارلیمانی بورڈ ضرور بناتی ہے اور پارلیمانی بورڈ اپنی سفارشات ہی پیش کرسکتا ہے حتمی فیصلہ پارٹی سربراہوں کا ہی ہوتا ہے۔

آصف زرداری کو پیپلز پارٹی ، نواز شریف کو مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو جے یو آئی بنی بنائی ملی۔ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کا اعزاز تو حاصل ہے مگر جتنے گروپ مسلم لیگ میں بنے اور کامیاب بھی رہے۔

غیر سول آمروں نے جب بھی اقتدار سنبھالا انھوں نے اپنی مرضی کی مسلم لیگ بنوائی اور اقتدار میں شریک کیا۔ جنرل ایوب کی مسلم لیگ کنونشن کا توکوئی وجود نہیں رہا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیگم پی پی کی چیئرمین بنی تھیں۔

جنھیں فارغ کر کے بے نظیر بھٹو نے پارٹی سنبھال لی تھی جن کی شہادت کے بعد آصف زرداری ہی پیپلز پارٹی کے وارث تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بنے گا اور وہ خود چیئرمین بن گئے مگر پارٹی میں وہی اہم فیصلے کرتے ہیں۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی گئی جس کی حکومت تین سال ہی میں جنرل ضیا نے ختم کردی تھی جو بعد میں جونیجو لیگ کہلائی جس کے نواز شریف سربراہ بنے جو اب (ن) لیگ کہلاتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) قائم کر کے اس کی حکومت بنوائی جس نے 5 سال حکومت کی اور اس کے تین وزیر اعظم رہے، اگر بے نظیر کی شہادت نہ ہوتی تو مسلم لیگ (ق) 2008 میں دوبارہ حکومت بناتی۔ (ق) لیگ کی سربراہی میاں اظہر اور چوہدری شجاعت کے پاس تھی اس کے حقیقی سربراہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے۔

(ق) لیگ سکڑ کر چوہدریوں تک رہ گئی ہے۔ پیر پگاڑا مرحوم کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ف) بھی وراثت میں موجودہ پیر پگاڑا کو ملی ہے جو سندھ کے چند اضلاع اور پگاڑا خاندان تک محدود ہے۔

مسلم لیگ کے سب سے زیادہ گروپ بنے اور (ن) لیگ اب نواز شریف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور انھی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق چلائی جا رہی ہے اب میاں صاحب نے اپنی بیٹی مریم نواز کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بھی بنا دیا ہے۔

میاں صاحب کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پر اب (ن) لیگ کے سینئر رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور نواز شریف دو سال سے لندن میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے فیصلیکر رہے ہیں اور (ن) لیگ اب باپ بیٹی کے گرد گھومتی ہے اور (ن) لیگ میں دکھاؤے کے الیکشن بھی نہیں کرائے جا رہے۔

پیپلز پارٹی میں بھی من مانیوں کا راج ہے جو اب بھٹو خاندان سے ختم ہو کر زرداری خاندان کی ذاتی جاگیر بن چکی ہے اور پی پی کے سینئر رہنماؤں پر 32 سالہ بلاول زرداری کی حکمرانی ہے کیونکہ وہ وراثتی چیئرمین ہیں۔

جے یو آئی کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں اہم سیاسی پارٹی ہے جو پنجاب میں اہمیت کی حامل نہیں اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کام کر رہی ہے ، جہاں دکھاؤے کے الیکشن ہوتے ہیں۔ جے یو آئی کے سینئر رہنماؤں نے بلوچستان میں جے یو آئی کا نظریاتی گروپ ضرور بنا یاہوا ہے۔

پیپلز پارٹی کا ملک میں کوئی گروپ نہیں جس کی ملک میں چار حکومتیں بنیں اور آصف زرداری نے پی پی کو نہ صرف متحد رکھا ہوا ہے اور سندھ میں اپنا مکمل ہولڈ قائم رکھا ہوا ہے۔

آصف زرداری کی قیادت میں پی پی کی سندھ میں تیسری حکومت ہے جب کہ پی پی کو اتنی مضبوط کامیابی ماضی میں بھی نہیں ملی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری نے پی پی کو سندھ تک محدود کرا دیا ہے جو اب قومی پارٹی نہیں بلکہ صوبائی پارٹی بن چکی ہے یہ پی ٹی آئی کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے اور پیپلز پارٹی سندھ کے بعد جنوبی پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں اب بھی اہمیت کی حامل ہے اور آزاد کشمیر اور جی بی میں بھی پی پی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ نشستیں رکھتی ہے اور آصف زرداری دیگر پارٹی رہنماؤں کو توڑنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا ثبوت بلوچستان کے بعض رہنماؤں کا مسلم لیگ (ن) اور باپ پارٹی کے رہنماؤں کا پی پی میں شامل ہوجانا ہے۔

آصف زرداری کی پالیسی کے باعث بلاول بھٹو کی چیئرمین شپ پر کسی سینئر پارٹی رہنما نے اعتراض نہیں کیا جب کہ مریم نواز کے تقرر پر (ن) لیگ میں اعتراضات ہو رہے ہیں۔

پی ٹی آئی عمران خان نے بنائی تھی اور پی پی اور (ن) لیگ سے نالاں اچھی شہرت کے حامل سیاستدانوں اور ممتاز وکلا نے عمران خان سے اچھی توقعات وابستہ کر کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی مگر جب انھوں نے قریب جا کر عمران خان کی من مانیاں اور پارٹی میں آمریت دیکھی تو ان رہنماؤں نے پی ٹی آئی چھوڑنا شروع کردی تھی جس کا عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ ان کے اصول بدلتے رہے اور انھوں نے مخلص اور نظریاتی رہنماؤں کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئیلوگوں کو اہمیت دینا اور الیکٹیبلز رہنماؤں کو بالاتروں کی مدد سے پی ٹی آئی میں لینا شروع کردیا تھا کیونکہ عمران خان ہر قیمت پر اقتدار چاہتے تھے۔

انھوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں سہانے خواب دکھائے، بالاتروں کو متاثر کرکے ان کی حمایت حاصل کی اور اقتدار میں آ کر جو من مانی کی وہ دنیا نے دیکھ لی۔ عمران خان بیانیے تبدیل کرنے کے ماہر نکلے اور ساری پارٹیوں میں قائدین کی من مانیاں جاری ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں