پارلیمنٹ ایک سپریم اتھارٹی
پارلیمنٹ یا سیاستدانوں کے مقدمات سب کے سامنے کھلے بندوں عوامی اور سویلین عدالتوں میں سنے جاتے ہیں
قوم کے ہر فرد کو عدل اور انصاف فراہم کرنا ہماری عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ سوچا جائے کہ عدل کی منصفانہ فراہمی میں ہمارا موجودہ دنیا میں کیا مقام ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی فہرست میں اس لحاظ سے ہمارا نظام انصاف 134 ویں نمبر پر دکھائی دیتا ہے ، فیصلوں کے معیار میں وہ باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔
توہین عدالت جیسے قانون پر خود کو تحفظ فراہم کرنے والی عدلیہ کے لیے یہ صورتحال بڑی غور طلب ہونی چاہیے۔ 134 نمبر پر ہونا بھی ایک لحاظ سے لمحہ فکریہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا اپنے فیصلے کرتے ہوئے ہماری عدلیہ کے فیصلوں کی کبھی کوئی مثال نہیں دیتی ہے۔
بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے مقدمے میں اس کا کوئی ذکر سنائی نہیں دیتا۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لیکر آج تک جو جو بڑے فیصلے کیے گئے اُن میں کوئی نہ کوئی متنازع اور غیر منصفانہ پہلو ضرور موجود رہا۔ بعض مقدموں میں تو پورے کا پورا فیصلہ کسی نادیدہ دباؤ کا مظہر دکھائی دیا۔
خاص کر ہماری اسٹیبلشمنٹ سے متعلق مقدموں میں تو وہ انصاف کے تقاضوں کو کبھی پورا کرتی دکھائی نہیں دی۔ جب جب کسی مطلق العنان شخص نے غیر قانونی اور غیر آئینی قدم اُٹھاتے ہوئے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
عدلیہ کا جھکاؤ اُسی طاقتور فریق کے حق میں دکھائی دیا۔ ہماری عدلیہ نے جو ہمیشہ آئین و دستور کی حفاظت کی باتیں کیا کرتی ہے کبھی بھی ایسے موقعوں پر ڈٹ کر کھڑی نہیں ہوئی ، وہ صرف سویلین معاملات میں آئین کے تحفظ کے اپنے عہد پر عمل کرسکتی ہے ، بلکہ بعض وقت تو سویلین مقدموں میں بھی کسی ایسے خفیہ ہی دباؤ کا شکار معلوم ہوتی رہی ہے۔
1999میں جب پرویز مشرف نے ایک دو تہائی اکثریت سے قائم جمہوری اور آئینی حکومت کو گھر بھیج کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو اُسے قانونی قرار دینے والے مقدمے میں ہماری عدلیہ نے بڑا تاریخی رول ادا کیا۔ اس نے نہ صرف اُسے قانونی قرار دے دیا بلکہ اُسے یہ بھی حق دے دیا کہ و ہ جب چاہے اپنے حق میں ملک کے دستور اور آئین میں تبدیلیاں بھی کرسکتی ہے۔ فیصلے میں یہ اجازت اس سے پہلے دیے جانے والے تمام فیصلوں کے مقابلے میں بہت ہی فراخدلانہ تھی۔
دستور میں ترامیم کی اجازت تو کسی منتخب اور قانونی وزیراعظم کو بھی نہیں ہے ۔ یہ صرف پارلیمنٹ کا حق ہے جب وہ دو تہائی کی اکثریت سے ایسی ترامیم کرسکے۔
پرویز مشرف نے تو عدلیہ سے اُن ججوں کو فارغ بھی کردیا جو اس کے حق میں فیصلہ دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کا شمار ایسے ہی فرض شناس اور انصاف پسند ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انصاف اور عدل کی خاطر اپنی ملازمتوں اور نوکریوں کی پرواہ نہیں کی۔ اُنہیں ہمیشہ اُن بینچوں میں شامل ہی نہیں کیا گیا جن سے من مانے فیصلے لیے جانا مقصود تھا۔
انھیں اس وقت بھی دور دراز کے علاقوں اور بلوچستان بھیج کر اُن مخصوص بینچوں سے دور اور الگ رکھا جاتا رہا جن بینچوں سے حکومت کے خلاف فیصلے لکھوانے ہوتے تھے۔
ایسے ہی کچھ طور طریقے آج کے دور میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دنوں میں نئے الیکشن کروانا ایک آئینی تقاضا ہے اُسی طر ح عدم اعتماد کی تحریک پر 15 دنوں کے اندر ووٹنگ کروانا بھی ایک لازمی دستوری تقاضا ہے۔
گزشتہ برس جب 7 مارچ کو جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی ایک تحریک لائی گئی اور اس پر ووٹنگ کروانے سے فرار اختیار کیا جا رہا تھا تو کسی کو آئین کی حفاظت کا سبق یاد نہیں رہا۔ 15 دنوں کی بجائے ایک مہینے تک ٹال مٹول کیا جاتا رہا اور ووٹنگ کرانے کی بجائے غیر ملکی سائفر دکھا کر پارلیمنٹ ہی تحلیل کردی گئی۔
مگر کسی فرض شناس کو اس وقت کے حکمرانوں کی جانب سے اتنا بڑا جرم ہوتا دکھائی ہی نہیں دیا۔ جسٹس منیر سے لیکر آج تک کئی بڑے بڑے مقدموں کے فیصلے کیے گئے لیکن کسی ایک فیصلے کو بھی عدل انصاف کے اعلیٰ معیار کے مطابق فیصلہ قرار دیکر اُسے عالمی عدالتوں کے لیے مثال نہیں بنایا جاسکا ہے۔ یہ سوال لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
مقننہ ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ تین بڑے ستون جن کے فیصلوں سے ہمارے ملک کا نظام چلایا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے۔
وہی دستور بھی بناتا ہے اور دوسرے اداروں کی عزت و توقیر کا سامان بھی مہیا کرتا ہے ، مگر خود اس کی عزت سر بازار جب چاہے نیلام ہوسکتی ہے۔ اسے جب چاہے دوسرا بڑا ادارہ باآسانی اٹھا کے پھینک بھی سکتا ہے۔ اس کے اپنے لوگ بھی اس سے وفادار اور مخلص نہیں ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اس کی جڑیں کمزور کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ خود دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے ، ایک حکومت اور دوسری حزب اختلاف اور دونوں ایک دوسرے کی شدید دشمن۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب یہ ایک دوسرے کو پچھاڑ نہیں رہے ہوتے ہیں۔ملک کے دیگر ادارے اپنی حفاظت خود کیا کرتے ہیں بلکہ اُن کا نظام انصاف بھی اُن کا اپنا ہوتا ہے۔
عدلیہ کے کسی جج کے خلاف کوئی شکایات ہوتو معاملہ جوڈیشل کونسل کے سپرد کر دیا جاتا ہے جب کہ آرمی کا بھی اپنا نظام انصاف ہے جسے کورٹ مارشل کہا جاتا ہے ، مگر پارلیمنٹ یا سیاستدانوں کے مقدمات سب کے سامنے کھلے بندوں عوامی اور سویلین عدالتوں میں سنے جاتے ہیں۔
جہاں وہ ایک دوسرے کو خوب ملامت بھی کیا کرتے ہیں۔ میڈیا پر بیٹھ کر اُن پر تنقید بھی کی جاتی ہے دوسرے اداروں کے بارے میں ایسا سوچنا بھی قابل سزا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کی فہرست میں اس لحاظ سے ہمارا نظام انصاف 134 ویں نمبر پر دکھائی دیتا ہے ، فیصلوں کے معیار میں وہ باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔
توہین عدالت جیسے قانون پر خود کو تحفظ فراہم کرنے والی عدلیہ کے لیے یہ صورتحال بڑی غور طلب ہونی چاہیے۔ 134 نمبر پر ہونا بھی ایک لحاظ سے لمحہ فکریہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ دنیا اپنے فیصلے کرتے ہوئے ہماری عدلیہ کے فیصلوں کی کبھی کوئی مثال نہیں دیتی ہے۔
بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے مقدمے میں اس کا کوئی ذکر سنائی نہیں دیتا۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے دن سے لیکر آج تک جو جو بڑے فیصلے کیے گئے اُن میں کوئی نہ کوئی متنازع اور غیر منصفانہ پہلو ضرور موجود رہا۔ بعض مقدموں میں تو پورے کا پورا فیصلہ کسی نادیدہ دباؤ کا مظہر دکھائی دیا۔
خاص کر ہماری اسٹیبلشمنٹ سے متعلق مقدموں میں تو وہ انصاف کے تقاضوں کو کبھی پورا کرتی دکھائی نہیں دی۔ جب جب کسی مطلق العنان شخص نے غیر قانونی اور غیر آئینی قدم اُٹھاتے ہوئے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
عدلیہ کا جھکاؤ اُسی طاقتور فریق کے حق میں دکھائی دیا۔ ہماری عدلیہ نے جو ہمیشہ آئین و دستور کی حفاظت کی باتیں کیا کرتی ہے کبھی بھی ایسے موقعوں پر ڈٹ کر کھڑی نہیں ہوئی ، وہ صرف سویلین معاملات میں آئین کے تحفظ کے اپنے عہد پر عمل کرسکتی ہے ، بلکہ بعض وقت تو سویلین مقدموں میں بھی کسی ایسے خفیہ ہی دباؤ کا شکار معلوم ہوتی رہی ہے۔
1999میں جب پرویز مشرف نے ایک دو تہائی اکثریت سے قائم جمہوری اور آئینی حکومت کو گھر بھیج کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو اُسے قانونی قرار دینے والے مقدمے میں ہماری عدلیہ نے بڑا تاریخی رول ادا کیا۔ اس نے نہ صرف اُسے قانونی قرار دے دیا بلکہ اُسے یہ بھی حق دے دیا کہ و ہ جب چاہے اپنے حق میں ملک کے دستور اور آئین میں تبدیلیاں بھی کرسکتی ہے۔ فیصلے میں یہ اجازت اس سے پہلے دیے جانے والے تمام فیصلوں کے مقابلے میں بہت ہی فراخدلانہ تھی۔
دستور میں ترامیم کی اجازت تو کسی منتخب اور قانونی وزیراعظم کو بھی نہیں ہے ۔ یہ صرف پارلیمنٹ کا حق ہے جب وہ دو تہائی کی اکثریت سے ایسی ترامیم کرسکے۔
پرویز مشرف نے تو عدلیہ سے اُن ججوں کو فارغ بھی کردیا جو اس کے حق میں فیصلہ دینے سے ہچکچا رہے تھے۔ جسٹس وجیہ الدین اور جسٹس سعید الزماں صدیقی کا شمار ایسے ہی فرض شناس اور انصاف پسند ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انصاف اور عدل کی خاطر اپنی ملازمتوں اور نوکریوں کی پرواہ نہیں کی۔ اُنہیں ہمیشہ اُن بینچوں میں شامل ہی نہیں کیا گیا جن سے من مانے فیصلے لیے جانا مقصود تھا۔
انھیں اس وقت بھی دور دراز کے علاقوں اور بلوچستان بھیج کر اُن مخصوص بینچوں سے دور اور الگ رکھا جاتا رہا جن بینچوں سے حکومت کے خلاف فیصلے لکھوانے ہوتے تھے۔
ایسے ہی کچھ طور طریقے آج کے دور میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دنوں میں نئے الیکشن کروانا ایک آئینی تقاضا ہے اُسی طر ح عدم اعتماد کی تحریک پر 15 دنوں کے اندر ووٹنگ کروانا بھی ایک لازمی دستوری تقاضا ہے۔
گزشتہ برس جب 7 مارچ کو جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی ایک تحریک لائی گئی اور اس پر ووٹنگ کروانے سے فرار اختیار کیا جا رہا تھا تو کسی کو آئین کی حفاظت کا سبق یاد نہیں رہا۔ 15 دنوں کی بجائے ایک مہینے تک ٹال مٹول کیا جاتا رہا اور ووٹنگ کرانے کی بجائے غیر ملکی سائفر دکھا کر پارلیمنٹ ہی تحلیل کردی گئی۔
مگر کسی فرض شناس کو اس وقت کے حکمرانوں کی جانب سے اتنا بڑا جرم ہوتا دکھائی ہی نہیں دیا۔ جسٹس منیر سے لیکر آج تک کئی بڑے بڑے مقدموں کے فیصلے کیے گئے لیکن کسی ایک فیصلے کو بھی عدل انصاف کے اعلیٰ معیار کے مطابق فیصلہ قرار دیکر اُسے عالمی عدالتوں کے لیے مثال نہیں بنایا جاسکا ہے۔ یہ سوال لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
مقننہ ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ تین بڑے ستون جن کے فیصلوں سے ہمارے ملک کا نظام چلایا جاتا ہے۔ کہنے کو تو پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے۔
وہی دستور بھی بناتا ہے اور دوسرے اداروں کی عزت و توقیر کا سامان بھی مہیا کرتا ہے ، مگر خود اس کی عزت سر بازار جب چاہے نیلام ہوسکتی ہے۔ اسے جب چاہے دوسرا بڑا ادارہ باآسانی اٹھا کے پھینک بھی سکتا ہے۔ اس کے اپنے لوگ بھی اس سے وفادار اور مخلص نہیں ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اس کی جڑیں کمزور کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ خود دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے ، ایک حکومت اور دوسری حزب اختلاف اور دونوں ایک دوسرے کی شدید دشمن۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب یہ ایک دوسرے کو پچھاڑ نہیں رہے ہوتے ہیں۔ملک کے دیگر ادارے اپنی حفاظت خود کیا کرتے ہیں بلکہ اُن کا نظام انصاف بھی اُن کا اپنا ہوتا ہے۔
عدلیہ کے کسی جج کے خلاف کوئی شکایات ہوتو معاملہ جوڈیشل کونسل کے سپرد کر دیا جاتا ہے جب کہ آرمی کا بھی اپنا نظام انصاف ہے جسے کورٹ مارشل کہا جاتا ہے ، مگر پارلیمنٹ یا سیاستدانوں کے مقدمات سب کے سامنے کھلے بندوں عوامی اور سویلین عدالتوں میں سنے جاتے ہیں۔
جہاں وہ ایک دوسرے کو خوب ملامت بھی کیا کرتے ہیں۔ میڈیا پر بیٹھ کر اُن پر تنقید بھی کی جاتی ہے دوسرے اداروں کے بارے میں ایسا سوچنا بھی قابل سزا ہے۔