تعلیم ایک اہم ضرورت ہے
دیکھا گیا ہے کہ جتنا کتابوں اورامتحانی پرچہ جات کو دشوار بنایا جا رہا ہے اتنا ہی نقل کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔۔۔
علم حاصل کرنا بہت افضل عمل ہے، یہ انسان کو پستیوں سے بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے مذہب میں علم کی بہت اہمیت ہے، اس لحاظ سے مذہب اسلام ہی اتنا جدید اور موثر ہے کہ جس میں خدا کے احکامات اتنے واضح اور مکمل ہیں کہ جس پر آنکھ بند کرلینے میں ہی عافیت ہے۔ شریعت نبویؐ اتنی خوبصورت اور زندگی گزارنے کے طریقوں کو بہتر انداز میں حل کرتی نظر آتی ہے کہ آج بہت سے لادین حضرات بھی حیران ہیں کہ چودہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر ریسرچ کے اتنی مفید اور کارآمد باتیں کیسے کہیں اور کیسے عمل کیے جو آج ہمارے لیے روشن راہوں کی طرح اپنی بانہیں ہمیشہ پھیلائے رہتے ہیں۔
دراصل آپؐ جو کچھ بھی عمل کرتے تھے وہ اپنے وجود میں ایک سائنسی نقطہ نظر سے بھی فکر لیے ہوتا تھا اور اس کا تعلق فلسفہ زندگی سے بھی منسلک ہوتا تھا، گویا سائنس اور فلسفہ علم کے دو خطوط ساتھ جڑے رہے تو فکر پیدا ہوئی کہ اس میں کیا اسرار پنہاں ہیں اور آج تک علم کے شوقین ان پر ریسرچ کرکے اس پر اپنی ڈگریوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے ریسرچ جو سنت نبویؐ کے بتائے اصولوں پر کیے گئے ہیں ان کی تشہیر اس انداز میں نہیں کی جاتی جس انداز میں دوسرے ریسرچ کی کی جاتی ہے، مثلاً ایک ریسرچ میں یہ بات بڑے مدلل انداز میں سامنے آئی تھی کہ چائے انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، نکوٹین کے انتہائی مضر اثرات سامنے آئے اور واویلا مچ گیا کہ جناب چائے تو مضر صحت ہے، اس بات پر مہر لگی اور کچھ برس اور گزر گئے، پھر ایک نئی ریسرچ سامنے آئی کہ چائے انسانی دماغ کے لیے بہت اچھی ہے، اس سے تھکے دماغ کو سکون محسوس ہوتا ہے اور فلاں فلاں ہوتا ہے۔
اب یہ ریسرچ کسی چائے کی کمپنی والے نے کروایا تھا یا کسی چائے کے شوقین نے جل کر ریسرچ کر ڈالا لیکن ہم میں سے اکثر چائے کے مضر اور مثبت اثرات سے واقف ہونے کے باوجود اپنی عادات میں تبدیلی نہ لاسکے جب کہ سنت نبویؐ میں جس طرح کھانے پینے، بیٹھنے اٹھنے، سونے، چلنے پھرنے، گفتگو کرنے یہاں تک کہ ہنسنے، پہننے، اوڑھنے اور علاج کے سلسلے میں جو جو عمل شامل ہیں اور جنھیں اختیار کرنے میں فضیلت بیان کی گئی ہے اسے ہم آسانی سے اپنی زندگی میں شامل کرسکتے ہیں اور فائدے اٹھا سکتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق آنحضرتؐ سے جڑا ہے یعنی اسلام کا نام آجاتا ہے تو پھر ایسے ریسرچ کی تشہیر کا کیا فائدہ جس سے دوسرے مضمون میں دین اسلام کی تشہیر ہو، لہٰذا ایک دنیا پر صحت مند معلومات کا دروازہ محض مذہبی عناد کی بنا پر بند کردیا گیا ہے۔
علم کسی بھی عمر میں حاصل کیا جائے اس کی خوبصورتی اور فوائد پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ اور بھی نکھرتے ہیں، جنوبی میکسیکو کی ایک ریاست میں ایک خاتون جو 1913 میں پیدا ہوئی تھیں گویا جنگ عظیم اول سے ایک برس پہلے اس وقت وہ اسکول میں پڑھتی تھیں، جنگ عظیم کے بعد دنیا کے معاشی حالات ابتر ہوگئے تھے ان کی پڑھائی بھی رک گئی اور پھر ان کی شادی ہوگئی۔ 2012 میں جب ان کی عمر ننانوے برس کی ہوئی تو اس خاتون ''مینولا ہرمینڈیز'' نے اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے کہنے پر تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور سال بھر بعد امتحان پاس کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ انھوں نے اس عزم کا بھی ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں گی، مینولا جن کی عمر اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو کھلانے کی بھی نہ بچی تھی لیکن علم حاصل کرنے کا شوق اور جنون دیکھیے۔
ہمارے ملک میں صورتحال کچھ مختلف ہے، تعلیم کے حوالے سے بیرونی امداد ملاجلا کر 340 ملین ڈالرز بنتی ہے اور باہر والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پیسے دے کر سب کچھ خریدا جا سکتا ہے اور شاید پاکستان پر بھی بہت سا پیسہ خرچ کرکے اسے محض تین چار برسوں میں سوٹڈ بوٹڈ انگریزی زبان میں گٹ پٹ کرتا پاکستان بنا دیں گے، تو اسے ان کی جانب سے ایک اچھا عمل سمجھ کر خیر مقدم تو ضرور کرنا چاہیے، ورنہ اتنے ڈھیروں پیسے کوئی یوں ہی تو نہیں دے دیتا لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھیے تو آنکھ میں ڈھیروں دھول مٹی پڑ جائے گی، حکومت کا تعلیم کے شعبے سے تعلق تو ہے لیکن یہ تانا بانا سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی قائم ہے، غیر سرکاری ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں، ماسوائے تعطیلات کی شیڈولنگ اور کچھ اسی قسم کے احکامات تک لیکن اس سے الگ اور کچھ نہیں، غیر سرکاری اسکول چاہے وہ انگریزی میڈیم کے نام پر غریب عوام سے ڈھیروں فیسیں بٹورتے ہوں یا کتابوں اور کاپیوں کے حوالے سے خوب ٹھیک ٹھاک کمیشن وصول کرتے ہوں ہر لحاظ سے کمیشن کے اس بازار میں سب کچھ بکتا ہے، یہاں تک کے امتحانی مراکز بھی دنوں کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ جتنا کتابوں اور امتحانی پرچہ جات کو دشوار بنایا جا رہا ہے اتنا ہی نقل کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بغیر نقل کے اب اچھے نمبرز لے کر پاس ہونا تو شاید چند برسوں میں خواب ہی رہ جائے گا۔ وہ نسلیں مفقود ہوجائیں گی جن کے دور میں نقل کے بغیر امتحانات ہوا کرتے تھے۔ رہ گئے سرکاری اسکول تو اس کی بنیاد رشوت ستانی کی دیمک نے کچھ ایسے کھائی کہ کہاں سے شروع کریں کہ اپنا آپ بھی بچانا ہے۔ سنا ہے کہ اچھی انگریزی کی بنیاد پر باقاعدہ امتحان لے کر بھی سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کو متعین کیا گیا ہے لیکن یہ بھی سنا ہے کہ انگریزیت کے بخار میں مبتلا نئے چلن کی جانب چل رہے ہیں۔ تبدیلی اچھی بات ہے لیکن اگر دوسروں کی اہانت کرنا اور تکبر کا مرض لاحق ہوجائے تو ایسی تبدیلی ایک نیا فتنہ برپا کردیتی ہے۔ ہم ویسے ہی درجات میں بٹ چکے ہیں، امید ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں تاکہ جس مقصد کے لیے سرکار نے بڑی بڑی تنخواہوں پر رکھا ہے اس کو پوری ذمے داری سے نبھائیں۔
غالباً 2010 یا 2009 کی بات ہے میرے پاس ایک کرسچن کام کرنے والی کی بیٹی پڑھنے آتی تھی، اس کی بائیولوجی کی کتاب میں کچھ اسباق بہت دلچسپ تھے خاص کر ایک سبق میں اسلام کے مشہور سائنسدانوں کے بارے میں تحریر تھا جنھیں اس دور کے بادشاہ وقت کتنا سراہتے تھے جب کہ کچھ ایسے عظیم سائنسدانوں کے بارے میں بھی تحریر تھا جن کا تعلق تو اسلام سے نہ تھا لیکن انھیں ان کی تحقیقات اور کاوشوں کے نتیجے میں شیطان کے ہرکارے قرار دے کر انتہائی برا سلوک کیا گیا اور جان سے مار دیا گیا۔
میں نے اسے پڑھا تو یوں ہی سوچے سمجھے بنا اس لڑکی سے بات کرنی شروع کی کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ اس لڑکی کے چہرے پر شرمندگی کے اثرات نمایاں ہیں حالانکہ اس سبق میں اس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ یہ دیکھ کر فوراً میں نے بات کا رخ کہیں اور کردیا، یقیناً ان بہت سے عظیم سائنسدانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ایک کے بعد ایک اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور آج مذہب کی تخصیص کے بنا ہم سب اس سے مستفید ہو رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل اس جانب خیال آیا تو بائیولوجی کی کتاب منگوائی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئے ایڈیشن میں سرے سے وہ اسباق ہی گم تھے، بہت سے اسباق تو ہمارے نصاب سے بھی گم ہو رہے ہیں محض شرمندگی میں یا۔۔۔۔؟
دراصل آپؐ جو کچھ بھی عمل کرتے تھے وہ اپنے وجود میں ایک سائنسی نقطہ نظر سے بھی فکر لیے ہوتا تھا اور اس کا تعلق فلسفہ زندگی سے بھی منسلک ہوتا تھا، گویا سائنس اور فلسفہ علم کے دو خطوط ساتھ جڑے رہے تو فکر پیدا ہوئی کہ اس میں کیا اسرار پنہاں ہیں اور آج تک علم کے شوقین ان پر ریسرچ کرکے اس پر اپنی ڈگریوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے ریسرچ جو سنت نبویؐ کے بتائے اصولوں پر کیے گئے ہیں ان کی تشہیر اس انداز میں نہیں کی جاتی جس انداز میں دوسرے ریسرچ کی کی جاتی ہے، مثلاً ایک ریسرچ میں یہ بات بڑے مدلل انداز میں سامنے آئی تھی کہ چائے انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، نکوٹین کے انتہائی مضر اثرات سامنے آئے اور واویلا مچ گیا کہ جناب چائے تو مضر صحت ہے، اس بات پر مہر لگی اور کچھ برس اور گزر گئے، پھر ایک نئی ریسرچ سامنے آئی کہ چائے انسانی دماغ کے لیے بہت اچھی ہے، اس سے تھکے دماغ کو سکون محسوس ہوتا ہے اور فلاں فلاں ہوتا ہے۔
اب یہ ریسرچ کسی چائے کی کمپنی والے نے کروایا تھا یا کسی چائے کے شوقین نے جل کر ریسرچ کر ڈالا لیکن ہم میں سے اکثر چائے کے مضر اور مثبت اثرات سے واقف ہونے کے باوجود اپنی عادات میں تبدیلی نہ لاسکے جب کہ سنت نبویؐ میں جس طرح کھانے پینے، بیٹھنے اٹھنے، سونے، چلنے پھرنے، گفتگو کرنے یہاں تک کہ ہنسنے، پہننے، اوڑھنے اور علاج کے سلسلے میں جو جو عمل شامل ہیں اور جنھیں اختیار کرنے میں فضیلت بیان کی گئی ہے اسے ہم آسانی سے اپنی زندگی میں شامل کرسکتے ہیں اور فائدے اٹھا سکتے ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق آنحضرتؐ سے جڑا ہے یعنی اسلام کا نام آجاتا ہے تو پھر ایسے ریسرچ کی تشہیر کا کیا فائدہ جس سے دوسرے مضمون میں دین اسلام کی تشہیر ہو، لہٰذا ایک دنیا پر صحت مند معلومات کا دروازہ محض مذہبی عناد کی بنا پر بند کردیا گیا ہے۔
علم کسی بھی عمر میں حاصل کیا جائے اس کی خوبصورتی اور فوائد پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ اور بھی نکھرتے ہیں، جنوبی میکسیکو کی ایک ریاست میں ایک خاتون جو 1913 میں پیدا ہوئی تھیں گویا جنگ عظیم اول سے ایک برس پہلے اس وقت وہ اسکول میں پڑھتی تھیں، جنگ عظیم کے بعد دنیا کے معاشی حالات ابتر ہوگئے تھے ان کی پڑھائی بھی رک گئی اور پھر ان کی شادی ہوگئی۔ 2012 میں جب ان کی عمر ننانوے برس کی ہوئی تو اس خاتون ''مینولا ہرمینڈیز'' نے اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے کہنے پر تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور سال بھر بعد امتحان پاس کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ انھوں نے اس عزم کا بھی ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھیں گی، مینولا جن کی عمر اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو کھلانے کی بھی نہ بچی تھی لیکن علم حاصل کرنے کا شوق اور جنون دیکھیے۔
ہمارے ملک میں صورتحال کچھ مختلف ہے، تعلیم کے حوالے سے بیرونی امداد ملاجلا کر 340 ملین ڈالرز بنتی ہے اور باہر والے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پیسے دے کر سب کچھ خریدا جا سکتا ہے اور شاید پاکستان پر بھی بہت سا پیسہ خرچ کرکے اسے محض تین چار برسوں میں سوٹڈ بوٹڈ انگریزی زبان میں گٹ پٹ کرتا پاکستان بنا دیں گے، تو اسے ان کی جانب سے ایک اچھا عمل سمجھ کر خیر مقدم تو ضرور کرنا چاہیے، ورنہ اتنے ڈھیروں پیسے کوئی یوں ہی تو نہیں دے دیتا لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھیے تو آنکھ میں ڈھیروں دھول مٹی پڑ جائے گی، حکومت کا تعلیم کے شعبے سے تعلق تو ہے لیکن یہ تانا بانا سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی قائم ہے، غیر سرکاری ادارے اس سے مستثنیٰ ہیں، ماسوائے تعطیلات کی شیڈولنگ اور کچھ اسی قسم کے احکامات تک لیکن اس سے الگ اور کچھ نہیں، غیر سرکاری اسکول چاہے وہ انگریزی میڈیم کے نام پر غریب عوام سے ڈھیروں فیسیں بٹورتے ہوں یا کتابوں اور کاپیوں کے حوالے سے خوب ٹھیک ٹھاک کمیشن وصول کرتے ہوں ہر لحاظ سے کمیشن کے اس بازار میں سب کچھ بکتا ہے، یہاں تک کے امتحانی مراکز بھی دنوں کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ جتنا کتابوں اور امتحانی پرچہ جات کو دشوار بنایا جا رہا ہے اتنا ہی نقل کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ بغیر نقل کے اب اچھے نمبرز لے کر پاس ہونا تو شاید چند برسوں میں خواب ہی رہ جائے گا۔ وہ نسلیں مفقود ہوجائیں گی جن کے دور میں نقل کے بغیر امتحانات ہوا کرتے تھے۔ رہ گئے سرکاری اسکول تو اس کی بنیاد رشوت ستانی کی دیمک نے کچھ ایسے کھائی کہ کہاں سے شروع کریں کہ اپنا آپ بھی بچانا ہے۔ سنا ہے کہ اچھی انگریزی کی بنیاد پر باقاعدہ امتحان لے کر بھی سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کو متعین کیا گیا ہے لیکن یہ بھی سنا ہے کہ انگریزیت کے بخار میں مبتلا نئے چلن کی جانب چل رہے ہیں۔ تبدیلی اچھی بات ہے لیکن اگر دوسروں کی اہانت کرنا اور تکبر کا مرض لاحق ہوجائے تو ایسی تبدیلی ایک نیا فتنہ برپا کردیتی ہے۔ ہم ویسے ہی درجات میں بٹ چکے ہیں، امید ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کریں تاکہ جس مقصد کے لیے سرکار نے بڑی بڑی تنخواہوں پر رکھا ہے اس کو پوری ذمے داری سے نبھائیں۔
غالباً 2010 یا 2009 کی بات ہے میرے پاس ایک کرسچن کام کرنے والی کی بیٹی پڑھنے آتی تھی، اس کی بائیولوجی کی کتاب میں کچھ اسباق بہت دلچسپ تھے خاص کر ایک سبق میں اسلام کے مشہور سائنسدانوں کے بارے میں تحریر تھا جنھیں اس دور کے بادشاہ وقت کتنا سراہتے تھے جب کہ کچھ ایسے عظیم سائنسدانوں کے بارے میں بھی تحریر تھا جن کا تعلق تو اسلام سے نہ تھا لیکن انھیں ان کی تحقیقات اور کاوشوں کے نتیجے میں شیطان کے ہرکارے قرار دے کر انتہائی برا سلوک کیا گیا اور جان سے مار دیا گیا۔
میں نے اسے پڑھا تو یوں ہی سوچے سمجھے بنا اس لڑکی سے بات کرنی شروع کی کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ اس لڑکی کے چہرے پر شرمندگی کے اثرات نمایاں ہیں حالانکہ اس سبق میں اس کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ یہ دیکھ کر فوراً میں نے بات کا رخ کہیں اور کردیا، یقیناً ان بہت سے عظیم سائنسدانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ایک کے بعد ایک اپنی تحقیقات کو جاری رکھا اور آج مذہب کی تخصیص کے بنا ہم سب اس سے مستفید ہو رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل اس جانب خیال آیا تو بائیولوجی کی کتاب منگوائی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئے ایڈیشن میں سرے سے وہ اسباق ہی گم تھے، بہت سے اسباق تو ہمارے نصاب سے بھی گم ہو رہے ہیں محض شرمندگی میں یا۔۔۔۔؟