حقوق نسواں کے تحفظ کیلئے سماجی رویے تبدیل کرنا ہونگے

خواتین کے نفسیاتی، جذباتی اور معاشی استحصال پر بات نہیں کی جاتی، انصاف کے حصول تک ان کی رسائی یقینی بنانا ہوگی

شادی شدہ خواتین پر گھریلو تشددمیں اضافہ ہو رہا ہے، تمام دارالامان کو شیلٹر ہومز قرار دیدیا گیا ہے، ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ ۔ فوٹو : وسیم نیاز

ہر سال 8 مارچ کودنیا بھر میں خواتین کا عالی دن منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی اس دن کے موقع پر سرکاری و نجی سطح پر خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر روبینہ ذاکر

ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز جامعہ پنجاب

تعلیم اور صحت دو ایسے بنیادی انسانی حقوق ہیں جو انتہائی اہم ہیں۔ خواتین کے حوالے سے ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ دونوں حقوق انہیں کس حد تک میسر ہیں۔ افسوس ہے کہ اس وقت 22.9 ملین بچے سکول نہیں جاتے جن میں سے 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔

ہر کلاس میں لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے، جو لڑکیاں گریجوایشن کرلیتی ہیں ان میں سے بھی بیشتر کو شادی کے بعد ملازمت یا آگے پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت 25 فیصد خواتین ملازمت کر رہی ہیں، اگرچہ یہ بڑی تعداد نہیں ہے لیکن حوصلہ افزا ہے مگر ان کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے،انہیں تنخواہ، ٹرانسپورٹ، کام کے اوقات کار، تحفظ و دیگر حوالے سے مسائل درپیش ہیں، 84 فیصد خواتین کے پاس تو بینک اکاؤنٹ ہی نہیں جس سے ان کا معاشی استحصال ہو رہا ہے۔

شہروں کی صورتحال تو بری ہے ہی اگر دیہی علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو وہاں بہت خطرناک صورتحال ہے، عورت کا بدترین استحصال ہو رہا ہے۔ وہاں تو بچیوں کی تعلیم پر توجہ ہی نہیں، انہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ افسوس ہے کہ خواتین کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ انہیں نفسیاتی حوالے سے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگرچہ حکومت خواتین کی صحت کے مسائل حل کرنے کیلئے کام کر رہی ہے مگر میرے نزدیک تاحال ہم وہ اہداف حاصل نہیں کر پارہے جو اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت ہم نے حاصل کرنے ہیں۔ دوران زچگی ماں اور بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، بیشتر کی موت ہو جاتی ہے، ہمارے ہاں دوران زچگی ماں اور بچے کی موت کی شرح زیادہ ہے۔

اسی طرح ماں اور 5 برس سے کم عمر بچوں کی صحت کے مسائل بھی موجود ہیں۔ نوجوانوں کی تولیدی صحت کے مسائل بھی موجود ہیں جن پر کوئی بات نہیں کرتا، خود انہیں بھی اس حوالے سے آگاہی نہیں ہے۔

ہم جنوبی ایشیاء میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش میں صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ہمارے ہاں روایتی کورسز میں تو خواتین نظر آتی ہیں لیکن STEM، آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسے شعبوں میں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس حوالے سے اکیڈیمیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔

ہم لڑکیوں کوآگے بڑھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ ہم ایسی پالیسیاں بنا رہے ہیں جو خواتین کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔ ہم کمیونٹی بیسڈ پراجیکٹس بھی لا رہے ہیں تاکہ اکیڈیما، کمیونٹی اور انڈسٹری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی مدد سے آگے بڑھا جا سکے۔

ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا ہمیں انہیں مختلف پراجیکٹس میں شامل کرنا چاہیے، ان کی ذہن سازی کرنی چاہیے۔ 25 فیصد سے کم عمر افراد کی تعداد ہماری آبادی کا 60 فیصد ہے، ہم اپنے لیول پرسیمینارز، ورکشاپس و مختلف پراجیکٹس میںا نہیں شامل کرتے ہیں تاکہ معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جاسکے۔ ہمیں ڈیجیٹل لٹریسی کی طرف جانا ہوگا، اس کیلئے آئی ٹی کمپنیوں کو آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے، لڑکیوں کو آئی ٹی کی تربیت دینی چاہیے۔

ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ خواتین پر تشدد ہے جس کی مختلف اقسام ہیں۔ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں، خواتین خودکشی کی طرف مائل ہو رہی ہیں، ہمیں اس کا تدارک کرنا ہوگا۔ حکومت نے وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹرز بنائے جہاں عام عورت جانے سے گھبراتی ہے۔

اس کے نام کی وجہ سے ہمارے ہاں باتیں جڑ جاتی ہے لہٰذا اگر ویمن فرینڈلی ہاسپٹل یا ایسا کچھ نام دے دیا جاتا اور وہاں یہی سہولیات دی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ ہمیں اپنی معاشرے اور روایات کو دیکھتے ہوئے سمارٹلی آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمارا مقصد خواتین کے مسائل حل کرنا ہے معاشرے سے لڑنا یا اپنی روایات کو چھوڑنا نہیں۔

رعنا افضل

انچارج دارالامان شیلٹر ہوم لاہور

خواتین کے مسائل سنگین اور کثیرالجہتی ہیں۔ یہاں مسائل کا لفظ تو استعمال ہوتا ہے مگر عمومی طور پر لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ خواتین کے مسائل درحقیقت ہیں کیا۔ یہاں تشدد کی بات کی جاتی ہے مگر لوگوں کو ادراک نہیں ہے کہ تشدد صرف جسمانی نہیں ہے بلکہ معاشی، سماجی، نفسیاتی، جنسی، جسمانی، زبانی تشدد بھی تشدد ہے۔

لاہور مرکز ہے لہٰذا ہمارے پاس پورے پاکستان سے مختلف اقسام کے تشدد کی شکار خواتین آتی ہیں۔ عدالت کے ذریعے ہی خواتین کا ہمارے پاس ایڈمیشن ہوتا ہے۔ 2004ء میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر دارالامان بنائے گئے تھے، بعدازاں ضرورت کو دیکھتے ہوئے اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ضلعی سطح پر دارالامان بنائے گئے۔

یہ حکومت پنجاب کا بہت بڑا اقدام ہے کہ 36 اضلاع میں دارالامان موجود ہیں جو مکمل طور پر فنکشنل ہیں۔ ان میں قانونی، طبی و دیگر سہولیات میسر ہیں جو مفت دی جارہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ خواتین کے لیے واحد پلیٹ فارم ہے جو ہر انداز میں بہترین ہے ۔

وہ خواتین جو متشدد رویوں اور ظلم و ستم کا شکار ہوکر اپنے گھروں سے نکلتی ہیں، یہاں انہیں ہر ممکن تحفظ اور سہولیات دی جاتی ہیں۔

ان کی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے، ان کی وِل کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا۔ خواتین کی ملاقات بھی صرف مفاہمت یا ری ہیبلی ٹیشن کیلئے کروائی جاتی ہے۔ ملاقات خاتون کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتی۔ 2017ء میں پنجاب میں خواتین کے تحفظ کا قانون منظور ہوا۔ دسمبر 2021ء میں دارالامان کو شیلٹر ہومز ڈکلیئر کر دیا گیا جس کے بعد دارالامان کی انچارج کو ڈسٹرکٹ ویمن پروٹیکشن آفیسر اور سائکالوجسٹ کو ویمن پروٹیکشن آفیسر کا درجہ دیا گیا۔

خواتین کی رہنمائی کیلئے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے ۔ اسی طرح آئی جی پنجاب پولیس کی مشاورت سے خواتین کی شکایات کے اندراج، تفتیش و دیگر مسائل کے حل کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے جینڈر بیسڈ وائلنس کی خصوصی عدالتیں تشکیل دی گئی ہیں۔

جہاں صرف خواتین پر ہونے والے تشدد کے کیسز سنے جاتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بڑے اقدامات کیے ہیں جو قابل تعریف ہیں۔


ہم خواتین کی ٹریننگ بھی کرواتے ہیں۔ میرے نزدیک مردوں کو بھی تربیت کی ضروت ہے، اگر انہیں خواتین کی عزت اور وقار کے حوالے سے تربیت دی جائے، قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے اور ان کی سوچ بدلی جائے تو بیشتر مسائل کا خود بخود ہی خاتمہ ہوجائے گا۔ ہمارے خاندانی نظام میں بھی تربیت، سوچ اور رویے کے کچھ مسائل ہیں۔

ہم بیٹیوں کی تربیت کی تو بہت بات کرتے ہیںمگر ہم نے لڑکوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔ ہمارے اس امتیازی رویے سے خواتین کا استحصال ہو رہا ہے ۔ آج معاشرے میں خواتین کی جو حالت ہے اس کی وجہ ہمارے امتیازی رویے ہیں۔

کوئی بھی خاتون گھر چھوڑنا نہیں چاہتی، وہ ہر ممکن سمجھوتہ کرتی ہے ، خود پر ظلم برداشت کرتی ہے، اس کی بیشتر وجوہات ہوسکتی ہیں ، وہ گھر سے صرف اس وقت نکلتی ہے جب اس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے، یہ اس کے لیے آخری حربہ ہوتا ہے کہ وہ گھر چھوڑ دے۔

یہ فیصلہ اس کے لیے آسان نہیں ہوتا ، وہ گھر چھوڑنے کے بعد بھی بیشتر مسائل کا شکار ہوتی ہے جس میں نفسیاتی مسائل سب سے زیادہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے خواتین کا ہر سطح پر بدترین استحصال کیا ہے، معاشی استحصال کی وجہ سے بھی بیشتر مسائل سنگین ہوگئے ہیں۔ شادی کے بعد مرد، عورت کو خرچ نہیں دیتا، عورت کو فیصلوں میں شامل نہیں کیا جاتا، اس طرح کے متعدد مسائل گھریلو لڑائیوں کا سبب بنتے ہیں۔

خاوند کے پاس اپنی بیوی کو دینے کیلئے وقت نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ پیسے کما کر گھر چلانا کافی ہے۔ افسوس ہے کہ خلع اور طلاق کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے ، ہمیں مسائل کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا اور لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی۔

ہمارے پاس خلع اور طلاق یافتہ خواتین کی بڑی تعداد آتی ہے۔ ایڈمیشن کے وقت ان کی نفسیاتی، طبی اور جسمانی صحت چیک کی جاتی ہے۔ بعدازاں ضرورت کے حساب سے انفرادی یا گروپ کی صورت میں خواتین کو تربیت دی جاتی ہے۔ انہیں ہینڈی کرافٹ، بیوٹیشن سمیت مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔

دارالامان میں جم و دیگر سہولیات بھی موجود ہیں، وہاں کا ماحول بھی اچھا ہے۔ مانیٹرنگ کا نظام بھی بہترین ہے، پی آئی ٹی بی کے ذریعے تمام کیمرے اعلیٰ افسران تک لنک ہیں، افسران کے باقاعدہ وزٹ بھی ہوتے ہیں۔

خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے میرا پیغام ہے کہ گھر کو گھر بنائیں، عورت کو اذیت نہ دیں، اگر مائیں اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں تو خواتین اور ازدواجی زندگی کے مسائل بہت حد تک کم ہوجائیں گے۔

سدرہ ہمایوں

نمائندہ یو این ویمن

ہم پنجاب میں شہریوں خصوصاََ لڑکیوںاور خواتین کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں ہمارا کام زیادہ ہے۔ خواتین کے حوالے سے یہ افسوسناک بات ہے کہ تشدد کی وجہ سے ان کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔

خواتین کو ذہنی، جسمانی و دیگر حوالے سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر دوسری خاتون اپنے حقوق کی پہچان اور تحفظ کیلئے گھر سے باہر نکل رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ لوگوں کے رویے ہیں۔ جوکسی جنس یا فرد کے خلاف نہیں بلکہ لباس تبدیل ہو تو لوگوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔

لوگوں کا یہ بھی رویہ ہے کہ ایک خاص جنس کمزور ہے، سب نے اپنے غلط رویوں سے اسے کمزور کر دیا ہے، اس کے لیے باہر نکلنا، کام کرنا، اپنی مرضی سے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمیں لوگوں کے رویے تبدیل کرنا ہونگے۔

ایک بات قابل ذکر ہے پولیس و فورسز میں جتنے پڑے لکھے لوگ آرہے ہیں، وہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو ایک 'انکلوسیو' معاشرے کی طرف جاتے ہیں، اس میں مرد، عورت، خواجہ سرا کی تمیز کے بغیر سب کیلئے پر امن معاشرے کی تشکیل اہم ہے، جہاں سب اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں اور سب کو ہی ان کے بنیادی حقوق حاصل ہوں۔

آئی جی پنجاب اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے رہے ہی جو خوش آئندہے۔ ہمارے ہاں مسائل کے حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بلدیاتی نظام کا نہ ہونا ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جو لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کرتا ہے۔

مقامی نمائندے لوگو ں کی پہنچ میں ہوتے ہیں، انہیں بھی اپنے علاقے کے لوگوں کا معلوم ہوتا ہے لہٰذا وہ معاملات کو فوری حل اور مسائل کے تدارک کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمیں بلدیاتی نظام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے قائم کرنا چاہیے اورا س میں خواتین کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے۔

یونین کونسل کی سطح پر والدین کی تربیت کے پروگرامز ہونے چاہیے کہ کس طرح انہیں اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ اسی طرح یونین کونسل کی سطح پر شادی سے 6 ماہ قبل کریش کورسز کروانے چاہئیں جس میں لڑکے اور لڑکی کو اگلی زندگی، بچوں کی تربیت و دیگر حوالے سے ٹریننگ دی جائے۔

اس سے فائدہ ہوگا۔ ہمارے ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے، حکومت اکیلے اتنی بڑی تعداد کیلئے کچھ نہیں کر سکتی لہٰذا ہمیں کمیونٹی بیسڈ اقدامات کی طرف جانا ہوگا، اس کیلئے کمیونٹی کی سطح پر چھوٹے چھوٹے گروپس تشکیل دیکر انہیں ریاستی اداروں کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ ہمیں بڑوں کی دانائی سے سیکھنا اور اپنی اچھی روایات کو فروغ دینا ہوگا۔

ہماری آبادی کا نصف حصہ نوجوان ہیں، آبادی کا 52 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، اتنی بڑی تعداد کو سمت دینی ہے، ان کے مسائل حل کرنے ہیں، انہیں پروڈکٹیو بنانا ہے لہٰذا اس سب کیلئے کمیونٹی بیسڈ پراجیکٹس انتہائی اہم ہیں، ان پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔

خواتین کے مسائل کی بات کریں تو انہیں انصاف کے حصول میں بڑے مسائل درپیش ہیں۔ سول کیسز جن میں خلع، طلاق، خاندانی معاملات جیسے مسائل ہیں، ان میں تو انہیں انصاف مل جاتا ہے، وہاں ان کی دادرسی اچھی ہے مگر کریمنل کیسز میں خواتین کو بدترین مشکلات کا سامنا ہے۔

اس میں ایک بڑی وجہ جرم کے ہونے سے لے کر آخر تک، تمام مراحل میں امتیازی رویے ہیں، ہمارے سسٹم کی ایک مجموعی سوچ بن چکی ہے جس سے ابھی تک ہم نکل نہیں سکے،ا س وجہ سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے، ہمیں اس پر توجہ دینی ہے۔ خواتین پر تشدد کے حوالے سے بات کریں تو پنجاب میں جینڈر بیسڈ وائلنس کے کیسز کیلئے خصوصی عدالتیں قائم ہیں۔

پنجاب میں 123 جی بی وی عدالتیں ہیں جن میں 123 ججز ہیں، میرے نزدیک اتنی بڑی آبادی کیلئے صرف 123 ججز انتہائی کم تعداد ہیں، لاہور جہاں سب سے زیادہ آبادی ہے وہاں صرف 5ججز ہیں۔ الگ عدالت بنانے کا اقدام قابل ستائش ہے مگر اس میں ججز کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے تاکہ خواتین کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور 25 ، عورت کو وہی مقام دیتے ہیں جو معاشرے کے دوسرے افراد کو حاصل ہے، آئین پاکستان کسی بھی امتیازی رویے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے لہٰذا ہمیں سسٹم اور معاشرے سے خواتین کے ساتھ امتیازی رویوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ خواتین کے لیے اکیلے باہر نکلنا مسئلہ ہے، زیادتی کے کیسز ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ ڈیجیٹل دور میں خواتین کی ذرائع ابلاغ تک رسائی ضروری ہے۔

انہیں آمد و رفت کے مسائل کا بھی سامنا ہے، وویمن فرینڈلی ٹرانسپورٹ نہیں ہے، انہیں ہراسمنٹ و دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، خواتین کے مسائل کثیر الجہتی ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے بڑے اقدامات کرنا ہونگے، اداروں میں موجود لوگوں کی تربیت کرنا ہوگی، خواتین کیلئے نہ صرف بجٹ مختص کرنا ہوگا بلکہ اسے صحیح معنوں میں خرچ بھی کرنا ہوگا۔

 
Load Next Story