اخوت کا سفر
ڈاکٹر امجد ثاقب نے جس مکالمے یا ڈائیلاگ کا ذکر کیا وہ غربت کے خاتمے اور ترقی کے عمل کی بنیاد ہے ۔۔۔۔
دو سال ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب جو ''اخوت'' کے نام سے بلاسودی قرضے کی کامیاب تحریک چلا رہے ہیں، ہارورڈ یونیورسٹی کی دعوت پر اسلامی فنانس اور ڈیولپمنٹ فورم سے خطاب کرنے امریکا گئے۔ ان کے لیکچر کے بعد جس کا عنوان عقیدے کی بنیاد پر سرمایہ کاری اور معاشرے کی ذمے داری تھا، سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلا سوال جو ان سے کیا گیا وہ یہ تھا کہ کیا ایثار اور قربانی کا جذبہ اس تحریک کو زیادہ عرصے تک قائم رکھ سکے گا؟
ڈاکٹر امجد ثاقب نے جواب دیا ''اخوت'' کا وجود دو بنیادی مفروضوں پر تعمیر ہے۔ پہلے مفروضے کے مطابق ہر معاشرے میں دینے والے موجود ہیں۔ ایسے لوگ جو انفاق کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اپنی دولت میں دوسروں کو شریک کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس حکم پر یقین رکھتے ہیں کہ تم نیکی کا راستہ پا ہی نہیں سکتے جب تک کہ اﷲ کی راہ میں وہ شے قربان نہ کرو جو تمہیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور دوسرا مفروضہ (Assumption) یہ ہے کہ لینے والے مدد لینا چاہتے ہیں، بھیک نہیں۔
وہ لے کر واپس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ غریب ضرور ہیں لیکن بھکاری نہیں۔ جب یہ دونوں مفروضے سچ ثابت ہوتے رہیں گے، اخوت کا کام بڑھتا رہے گا اور اس کی بقا پر حرف نہیں آئے گا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جو ادارہ چند ہزار روپوں سے شروع ہو کر 25 ملین ڈالر تک جا پہنچا ہو اس کی Sustainability کے لیے اور کیا ثبوت درکار ہے۔ یہ ادارہ قائم بھی رہے گا اور اسے عطیات بھی ملیں گے اور اس کے کام میں وسعت بھی آئے گی''۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے امریکا کے سفر میں صرف ہارورڈ یونیورسٹی فورم سے خطاب نہیں کیا، وہ کئی اور شہروں میں گئے، اپنے اہل وطن کے اجتماعات سے بھی خطاب کیا۔ اپنے اس سفر کی داستان انھوں نے ''اخوت کا سفر'' کے عنوان سے لکھی ہے کیونکہ امریکا کا یہ سفرنامہ اصل میں اخوت کا ہی سفر تھا۔
2001ء میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ''اخوت'' کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی جس کا مقصد نادار اور غریب لوگوں کو قرض حسنہ کی شکل میں مالی امداد فراہم کرکے انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانا تھا۔ قرض لینے والے کو دس سے بارہ قسطوں میں قرضے کی رقم واپس کرنا ہوتی ہے۔ اس ادارے نے اس کام کو کرنے کے لیے پانچ اصول طے کیے۔ پہلا اصول یہ کہ جو رقم دی جائے گی اس پر سود نہیں لیا جائے گا، دوسرا یہ مسجد میں بیٹھ کر کام کیا جائے، تیسرا یہ سارا کام رضاکارانہ بنیاد پر ہو گا، چوتھا یہ کہ آج لینے والے کو کل دینے والا بننا ہو گا اور پانچواں یہ کہ اس کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہو گا۔ پہلے سات سال کے دوران چھوٹے چھوٹے عطیات اکٹھے کر کے سات کروڑ روپے کے قرضے دیے گئے اور اب اس سے دگنے سے زیادہ رقم ہر ماہ پیش کی جاتی ہے۔ چند ہزار کے مقابلے میں کئی ارب۔ جن غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دیے گئے ان کی واپسی کی شرح سو فیصد کے قریب ہے۔ ان میں سے بعض تو اس قابل ہو گئے کہ ادارے کو رقم دینے لگے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب لکھتے ہیں ''اخوت خوشبوؤں کا ایک نگر ہے، یہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ کوئی بھی شخص جو مواخات کے تصور سے متفق ہے، اخوت میں شامل ہو سکتا ہے۔ اخوت کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں لوگ اسی جذبے سے شامل ہوئے۔ فیصلہ طلب اور جستجو پر ہوتا ہے۔ شوق اور جرأت رندانہ، عزم اور دیوانگی۔ ''اخوت'' اس کا ہے جو اس کو لینے کو تیار ہو۔ ہماری خوش قسمتی کہ اخوت کو روز اول سے بے مثال ساتھی مل گئے''۔''اخوت'' کے ابتدائی دو سال بڑی محنت اور تگ و دو کے تھے۔ ان گنت مشکلات تھیں، مالی اور انسانی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ تنقید بھی ہوئی، کام میں طرح طرح کی رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں، دھمکیاں بھی دی گئیں تاہم ڈاکٹر امجد اور ان کے ساتھیوں کی آتش شوق سرد نہ ہوئی۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کی پہلی منزل بوسٹن تھی۔ وہ 22 مارچ کو نیویارک پہنچے اور فوراً ہی دوسرے جہاز پر سوار ہو گئے کیوں کہ اس شام ہی کو انھیں ہارورڈ پہنچنا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی بوسٹن شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کیمبرج میں تعمیر کی گئی ہے۔ یہ امریکا کی سب سے قدیم اور دنیا کی سب سے امیر یونیورسٹی ہے۔ ڈاکٹر امجد کانفرنس کے اختتام پر بوسٹن سے واشنگٹن پہنچ گئے۔ یہ شہر ان کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ یہاں امریکن یونیورسٹی میں دو سال گزار چکے تھے۔ یہیں انھوں نے درد محبت کی کسک محسوس کی تھی۔ یہ ایپرل تھی جسے دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ اب یہاں ایپرل نہیں تھی اور امجد ثاقب کی محبت بلکہ عشق کا مرکز تبدیل ہو چکا تھا۔ اب ہجر و وصال سب کچھ ''اخوت'' سے وابستہ تھا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو ہارورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول میں مائیکرو فنانسنگ کی ایک پانچ روزہ کانفرنس میں بھی شرکت کرنا تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی فورم اور اس کانفرنس کے درمیان ایک مہینے کا جو وقفہ تھا وہ انھوں نے ''اخوت'' کے پیغام کو امریکا میں پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ یہ ایک رابطہ مہم تھی بلکہ ان کے نزدیک سفر امریکا کی اصل غرض و غایت۔ چنانچہ وہ واشنگٹن، لاس اینجلس، شکاگو، ڈیلس، نارتھ کیرولینا، ورجینا، میری لینڈ اور نیویارک گئے۔ وہاں رہنے والے پاکستانیوں سے مل کر ان کے ''دل پر دستک'' دی اور ''اخوت'' کا آفاقی پیغام پہنچایا۔ ڈاکٹر امجد کے ایک ساتھی حاجی انعام الٰہی اثرؔ نے ایک بار ان سے کہا تھا ''میں اس شہر کا سب سے بڑا بھکاری ہوں کیونکہ مجھے اﷲ کی راہ میں ہاتھ پھیلانا اچھا لگتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ تم ایک دن مجھ سے بھی بڑے بھکاری بنو گے''۔
شکاگو میں ڈاکٹر امجد کے کالج کے دنوں کے دوست علی رضا کے گھر بہت سے لوگ موجود تھے۔ یہ سب ڈاکٹر تھے یا بزنس سے وابستہ۔ ''اخوت'' کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہ رہے تھے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے انھیں بتایا۔ ''قرضوں کی فراہمی کا سب سے اہم مرحلہ امداد کے طالب لوگوں کے ساتھ مکالمہ ہے۔ اخوت کے ہر دفتر میں قرضوں کی تقسیم کا ایک دن مقرر ہوتا ہے۔ اس ماہ کے دوران جتنے لوگوں کے قرضے منظور ہوں وہ لوگ مقررہ وقت پر دفتر سے ملحق مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور پھر گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔ اخوت کا ایک نمایندہ اخوت کا فلسفہ، طریقہ کار، مقصد اور مستفید افراد کی ذمے داریاں بیان کرتا ہے، اس کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوتی ہے۔ اخوت کا اسٹاف خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہے، کوئی غلطی یا کوتاہی۔ اس کے بعد لوگ بھی اخوت کے اصولوں اور اقدار کی پاسداری کا عہد کرتے ہیں۔ یہ عہد ایک دائمی رفاقت کی بنیاد رکھتا ہے''۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے جس مکالمے یا ڈائیلاگ کا ذکر کیا وہ غربت کے خاتمے اور ترقی کے عمل کی بنیاد ہے اس مکالمے سے ایک رشتہ جنم لیتا ہے، ایک دوسرے کی رائے تک رسائی ہوتی ہے۔ مسجد میں بیٹھ کر اس مکالمے میں برکت کا پہلو بھی ہے اور اس کے بہت مثبت پہلو نتائج سامنے آئے ہیں۔ نیویارک میں ایسی ہی ایک تقریب میں ایک سو افراد جمع ہو گئے۔ فیصل آباد کا ایک نوجوان مجیب لودھی اس قدر جذباتی ہوا کہ ہر ٹیبل پر جا کر عطیے کی اپیل شروع کر دی۔ ڈاکٹر امجد نے ہر چند کہا کہ ہمارا مقصد کچھ جمع کرنا نہیں مگر اس نے کہا نیکی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو اس سفر میں ایسے اور بھی بہت واقعات پیش آئے، محبت کے، خدمت کے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اخوت اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے بعد کسی اور کام کی گنجائش نہیں رہے گی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خدمت کا افق وسیع ہوتا چلا گیا۔
ڈاکٹر ثاقب نے اپنی کتاب میں بے شمار لوگوں کا ذکر کیا ہے جنھوں نے کسی نہ کسی شکل میں اخوت کی تحریک میں حصہ لیا۔ یہ سب اسی پاکستان کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں خدمت کا جذبہ موجود تھا بس اسے ابھارنے کی ضرورت تھی۔ یہ کام امجد ثاقب نے انجام دیا۔ اخوت کا اسٹاف ان کے ساتھ تھا۔''ایک نئی رسم، ایک نئی وضع، ایک انوکھا چلن، خاک ہو جانے کی آرزو، مر مٹنے کا سودا، ضد، دیوانگی، جنون یا پاگل پن۔ اخوت صحرانوردی اور آشفتہ سری کا نام ہے۔ یہ استثنا ہے، یہ استقامت ہے، یہ استقلال ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے اگر لہو ہے تو آنکھ سے ٹپکتا کیوں نہیں۔ اگر تیشہ ہے تو سر کیوں نہیں پھوڑتا، اگر سودا ہے تو سولی پر کیوں نہیں چڑھتا۔ کوئی تو جو کہے کہ میں آزمودہ راستوں سے ہٹ کر چلوں گا، زندگی کے اجڑتے گلستانوں میں رنگ بھروں گا۔ تند و تیز ہوا میں مواخات کا چراغ لے کر کھڑے یہ لوگ، اخوت کی تسبیح میں پروئے ہوئے یہ انمول موتی''۔