اشرافیہ عوام اور طبقاتی تقسیم
لگتا ہے یہ ملک صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کا پاکستان بن کر رہ گیا ہے
معاشرے میں تبدیلی کئی طرح سے آتی ہے۔ ماضی میں جب بادشاہی نظام مضبوط تھا تو اقتدار میں آنے والے شاہی خاندان اپنے نظام حکومت کو مستحکم کرنے کےلیے امرا کے طبقے کو اپنا ہم نوا بنا کر اُن کی سرپرستی کرتے تھے۔ سلطنت کے عہدیداروں کو ان کی وفاداری کی بنیاد پر مقرر کیا جاتا تھا۔ آج کے جمہوری دور کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں وہی تاریخی نشانات ملتے ہیں۔ وہی چند خاندان ہی ہمیں آج بھی حکمرانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آج بھی جمہوریت کا طرز عمل وہی ہے کہ جیسے ہی کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو امرا کا ایک خاص طبقہ جو انہی حکمرانوں کے ہم نوا رہے ہیں انھیں ہی نوازا جاتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت پھلنے پھولنے کے بجائے اس نے عام لوگوں کو طبقاتی ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس جانب نہ تو کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی درستی کی جانب کوئی قدم۔
اس طبقاتی تقسیم میں ہم اس قدر بٹ چکے ہیں کہ ہمارے ملک کی تباہی کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں نہیں لکھی، جو بات ہمارے سیاستدان کہتے چلے آرہے ہیں بلکہ اس تباہی کے ذمے دار یہی حکمران خاندان ہیں۔ پاکستان کی اس معاشی تباہی کو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی موضوع بحث بنایا جارہا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات بد سے بدترین کی جانب جارہے ہیں۔ تشویش اس بات کی ہے کہ عام آدمی کو کیسے دو وقت کی روٹی نصیب ہوگی۔ اس وقت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکلنے کےلیے ریزوز 40 سے 45 بلین ڈالرز کم از کم چاہیے ہوں گے اور وہ ضرورت پاکستان کی نہ امریکا پوری کرسکتا ہے نہ مغرب، اور نہ ہی عرب ممالک۔ اگر کچھ ممالک ریزرو رکھنے کےلیے دو یا تین بلین دے بھی دیتے ہیں تو پاکستان کو کم از کم 40سے45ب لین ڈالرز ایک سال کےلیے چاہیے ہوں گے۔ صورتحال جس سمت جارہی ہے یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کو صومالیہ بنانے کی مکمل تیاری یہ حکمران کرچکے ہیں۔
کیا اس جانب ہمارے وزیر خزانہ یا حکومتی سطح پہ کوئی پلاننگ ہے یا نہیں؟ چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے سب پاکستانیوں سے درخواست کی کہ آپ سب جھولی اُٹھا کر دعا کریں ڈالر 100روپے کا ہوجائے۔ میں وزیراعظم صاحب سے کہوں گی کہ تمام پاکستانیوں کو اعتکاف پر بیٹھا دیجیے، ماہِ رمضان بھی قریب ہے شاید کسی غریب کی دعا سنی جائے مگر وزیراعظم صاحب آپ سب اپنے پیسے کی سپلائی باہر بجھواتے جائیے۔ حکمرانی یہاں انویسٹمنٹ باہر،علاج باہر، شادیاں باہر، صرف حکمرانی یہاں۔
ہمارے حکمرانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے طبقاتی نظام کو فروغ ملا اور یہ دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ شہری آبادیوں کا بڑھنا، دیہاتوں میں بے روزگاری اور معاشی محرومیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد ملازمت اور اچھے و سنہرے مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتی ہے۔ شہروں میں آنے کے بعد دیہات کی زندگی کا تضاد انہیں ششدر کرکے رکھ دیتا ہے۔ لوگوں کا بڑھتا جم غفیر، بڑھتے مسائل، بے روزگاری، بھوک، بیماری، غربت، جس کی وجہ سے لوگوں میں بڑھتا ہوا خوف و ہراس اور احساس عدم تحفظ۔ لوگوں کی اس وقت حالت کچھ ایسی ہے جیسے ڈوبتا ہوا شخص سہارے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔
پاکستان کو حاصل کرنے کا اصل مقصد ہی یہی تھا جہاں بنیاد پرستی نہ ہو، مساوات ہو، اور لوگ ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے کےلیے جان بھی قربان کرنے سے گریز نہ کریں مگر دن بہ دن جو صورتحال ہوتی جارہی ہے لگتا ہے یہ ملک صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کا پاکستان بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں ہر کوئی مسائل کی بھی بات کرتا ہے، معشیت کی بھی بات ہوتی ہے، عام آدمی انقلاب کے انتظار میں ہے کہ شاید اُن کےلیے کوئی دن سکھ کا آجائے۔ وہ تمام تر سیاسی جماعتیں جو انقلاب کا نعرہ لگاتی ہیں، دراصل وہ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ کےلیے نکلے ہیں، عام آدمی یا اُن کے مسائل کے حل سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ انقلاب ہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب آتا ہے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غریب کی پالیسی امیر بناتا ہے، زراعت کی پالیسی ایک انڈسٹرلسٹ بناتا ہے، جس کی وجہ سے ہم بہتری کا تصور نہیں کرپارہے۔ جب تک ہم متعلقہ سیکٹر کے لوگوں کو آگے نہیں لائیں گے تبدیلی ممکن نہیں۔
چین جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج پوری دنیا میں تیزی سے اپنی اہمیت بنارہا ہے۔ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کےلیے چین نے اپنی انڈسٹری پر بے انتہا توجہ دی، نیز جو انقلاب چین میں آیا اس میں کسانوں کی شرکت تھی۔ ماؤزے تنگ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے کسانوں کی تربیت کرکے اُن کو انقلاب کےلیے تیار کیا۔ گاؤں اور دیہاتوں میں حکومت کے عہدے داروں کو نکال کر قابض شدہ علاقوں میں عوامی حکمرانی قائم کی، جاپانیوں سے جنگیں لڑیں اور آخر میں قوم پرستوں کو شکست دے کر عوامی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
جس طرح ہمارے ملک میں ایک خاص ٹولہ انقلاب لانے کےلیے نکلتا ہے، جو خود عوامی مسائل کو نہیں جانتے اور چند لوگوں کے ریوڑ کو لے کر اپنے سیاسی جاہ و جلال کو دکھانے کےلیے آئے روز سڑکوں پر آتے ہیں، نہ ایسے قومیں بنتی ہیں نہ تو ایسے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی سیاسی استحکام آتا ہے اور نہ ہی معشیت کی بہتری ہوتی ہے۔ یہ تو بس اپنے مفادات کی جنگ ہے جس کی آڑ میں معاشی بدحالی اور طبقاتی تقسیم میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مسائل تبھی حل ہوسکتے ہیں جب عام آدمی کو آگے لایا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آج بھی جمہوریت کا طرز عمل وہی ہے کہ جیسے ہی کوئی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو امرا کا ایک خاص طبقہ جو انہی حکمرانوں کے ہم نوا رہے ہیں انھیں ہی نوازا جاتا ہے جس کی وجہ سے جمہوریت پھلنے پھولنے کے بجائے اس نے عام لوگوں کو طبقاتی ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس جانب نہ تو کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی درستی کی جانب کوئی قدم۔
اس طبقاتی تقسیم میں ہم اس قدر بٹ چکے ہیں کہ ہمارے ملک کی تباہی کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں نہیں لکھی، جو بات ہمارے سیاستدان کہتے چلے آرہے ہیں بلکہ اس تباہی کے ذمے دار یہی حکمران خاندان ہیں۔ پاکستان کی اس معاشی تباہی کو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی موضوع بحث بنایا جارہا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات بد سے بدترین کی جانب جارہے ہیں۔ تشویش اس بات کی ہے کہ عام آدمی کو کیسے دو وقت کی روٹی نصیب ہوگی۔ اس وقت پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکلنے کےلیے ریزوز 40 سے 45 بلین ڈالرز کم از کم چاہیے ہوں گے اور وہ ضرورت پاکستان کی نہ امریکا پوری کرسکتا ہے نہ مغرب، اور نہ ہی عرب ممالک۔ اگر کچھ ممالک ریزرو رکھنے کےلیے دو یا تین بلین دے بھی دیتے ہیں تو پاکستان کو کم از کم 40سے45ب لین ڈالرز ایک سال کےلیے چاہیے ہوں گے۔ صورتحال جس سمت جارہی ہے یوں محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کو صومالیہ بنانے کی مکمل تیاری یہ حکمران کرچکے ہیں۔
کیا اس جانب ہمارے وزیر خزانہ یا حکومتی سطح پہ کوئی پلاننگ ہے یا نہیں؟ چند روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے سب پاکستانیوں سے درخواست کی کہ آپ سب جھولی اُٹھا کر دعا کریں ڈالر 100روپے کا ہوجائے۔ میں وزیراعظم صاحب سے کہوں گی کہ تمام پاکستانیوں کو اعتکاف پر بیٹھا دیجیے، ماہِ رمضان بھی قریب ہے شاید کسی غریب کی دعا سنی جائے مگر وزیراعظم صاحب آپ سب اپنے پیسے کی سپلائی باہر بجھواتے جائیے۔ حکمرانی یہاں انویسٹمنٹ باہر،علاج باہر، شادیاں باہر، صرف حکمرانی یہاں۔
ہمارے حکمرانوں کی انہی حرکتوں کی وجہ سے طبقاتی نظام کو فروغ ملا اور یہ دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ شہری آبادیوں کا بڑھنا، دیہاتوں میں بے روزگاری اور معاشی محرومیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد ملازمت اور اچھے و سنہرے مستقبل کی تلاش میں شہروں کا رخ کرتی ہے۔ شہروں میں آنے کے بعد دیہات کی زندگی کا تضاد انہیں ششدر کرکے رکھ دیتا ہے۔ لوگوں کا بڑھتا جم غفیر، بڑھتے مسائل، بے روزگاری، بھوک، بیماری، غربت، جس کی وجہ سے لوگوں میں بڑھتا ہوا خوف و ہراس اور احساس عدم تحفظ۔ لوگوں کی اس وقت حالت کچھ ایسی ہے جیسے ڈوبتا ہوا شخص سہارے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔
پاکستان کو حاصل کرنے کا اصل مقصد ہی یہی تھا جہاں بنیاد پرستی نہ ہو، مساوات ہو، اور لوگ ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ایک دوسرے کےلیے جان بھی قربان کرنے سے گریز نہ کریں مگر دن بہ دن جو صورتحال ہوتی جارہی ہے لگتا ہے یہ ملک صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کا پاکستان بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں ہر کوئی مسائل کی بھی بات کرتا ہے، معشیت کی بھی بات ہوتی ہے، عام آدمی انقلاب کے انتظار میں ہے کہ شاید اُن کےلیے کوئی دن سکھ کا آجائے۔ وہ تمام تر سیاسی جماعتیں جو انقلاب کا نعرہ لگاتی ہیں، دراصل وہ سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ کےلیے نکلے ہیں، عام آدمی یا اُن کے مسائل کے حل سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ انقلاب ہمیشہ نیچے سے اوپر کی جانب آتا ہے۔ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غریب کی پالیسی امیر بناتا ہے، زراعت کی پالیسی ایک انڈسٹرلسٹ بناتا ہے، جس کی وجہ سے ہم بہتری کا تصور نہیں کرپارہے۔ جب تک ہم متعلقہ سیکٹر کے لوگوں کو آگے نہیں لائیں گے تبدیلی ممکن نہیں۔
چین جو ہم سے بعد میں آزاد ہوا آج پوری دنیا میں تیزی سے اپنی اہمیت بنارہا ہے۔ طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے کےلیے چین نے اپنی انڈسٹری پر بے انتہا توجہ دی، نیز جو انقلاب چین میں آیا اس میں کسانوں کی شرکت تھی۔ ماؤزے تنگ اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے کسانوں کی تربیت کرکے اُن کو انقلاب کےلیے تیار کیا۔ گاؤں اور دیہاتوں میں حکومت کے عہدے داروں کو نکال کر قابض شدہ علاقوں میں عوامی حکمرانی قائم کی، جاپانیوں سے جنگیں لڑیں اور آخر میں قوم پرستوں کو شکست دے کر عوامی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔
جس طرح ہمارے ملک میں ایک خاص ٹولہ انقلاب لانے کےلیے نکلتا ہے، جو خود عوامی مسائل کو نہیں جانتے اور چند لوگوں کے ریوڑ کو لے کر اپنے سیاسی جاہ و جلال کو دکھانے کےلیے آئے روز سڑکوں پر آتے ہیں، نہ ایسے قومیں بنتی ہیں نہ تو ایسے مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی سیاسی استحکام آتا ہے اور نہ ہی معشیت کی بہتری ہوتی ہے۔ یہ تو بس اپنے مفادات کی جنگ ہے جس کی آڑ میں معاشی بدحالی اور طبقاتی تقسیم میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مسائل تبھی حل ہوسکتے ہیں جب عام آدمی کو آگے لایا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔