درآمدی اشیا کی فہرست سے کتابیں باہرپبلشرز کے پاس کیمبرج سمیت دیگرغیر ملکی کتابوں کا ذخیرہ ناپید

پبلشرز ںے اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ کو خط، معاملے پر غور کرنے کی سفارش کردی


Safdar Rizvi March 06, 2023
—فائل فوٹو

وفاقی حکومت کی جانب سے دیگر اشیا کے ساتھ کتابوں کی درآمد پر پابندی اور نجی بینکوں کی جانب سے ایل سی نہ کھولنے کے سبب کراچی سمیت ملک بھر میں درآمد شدہ کتابوں کی بدترین کمی واقعہ ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ان کتابوں میں درسی و غیر درسی دونوں طرح کی کتابیں شامل ہیں اور دستیاب تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب پاکستان میں غیر ملکی رائٹرز کو پڑھنے والے ان کی کتابوں کے مطالعہ سے محروم ہیں دوسری جانب کتابوں کی درآمدات پر پابندی کے سبب سینکڑوں کیمبرج اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ کے لیے آئندہ سیشن میں درآمد شدہ کتابیں بھی دستیاب نہیں ہونگی۔

ادھر اس پیچیدہ صورتحال پر پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن نے اسٹیٹ بینک اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس معاملے کا فوری نوٹس نہ لیا گیا تو پاکستانی طلبہ اور عام قاری مکمل طور پر غیر ملکی نصابی و غیر نصابی لٹریچر سے محروم ہونے جارہا ہے۔

پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے درآمدی کتابوں پر پابندی سے پیدا ہونے والی صورتحال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ "گذشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان میں کسی بھی ملک سے کتابیں درآمد نہیں ہوسکی ہیں پبلشرز اور بک سیلرز کے پاس ہر طرح کی درآمدی کتابوں کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔

جس کے بعد ایسوسی ایشن نے اس معاملے پر کتابیں درآمد کرنے والے پبلشرز کی ایک کمیٹی قائم کی ہے اس کمیٹی نے معاملے پر اسٹیٹ بینک کو خط لکھ کر معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے۔ عزیز خالد کا کہنا تھا کہ درسی کتابوں میں جامعات کی سطح پر انجینیئرنگ، میڈیکل، لاء اور کمپیوٹر سائنس کی کتابیں درآمد کی جاتی ہیں جبکہ اے اور او لیول کی نصابی کتب کے ایڈیشن کی ہزاروں کتابیں اس کے علاوہ ہیں جو اب ناپید ہیں"

واضح رہے کہ نجی بینکوں کی جانب سے ایل سی نہ کھولنے کے سبب بھی دیگر اشیاء کی طرح کتابوں کے کنٹینرز بھی پورٹ پر کھڑے ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ غیر ملکی پبلشرز نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب نئے درآمدی آرڈر پیشگی ادائیگیوں کی صورت میں ہی لینے کا عندیہ دیا ہے اس صورتحال سے کتابیں درآمد کرنے والی ملکی کاروباری طبقے کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔
غیر ملکی کتابیں درآمد کرنے والے ایک معروف پبلشر" پبلشر مارکیٹنگ ایسوسی ایٹ" (پی ایم اے) کے ڈائریکٹر ناصر حسین نے "ایکسپریس" کو بتایا تعلیم کا مطالعہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں اس بات کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے import item کی essential اور non essential فہرست جاری کی ہے اس میں کتابوں کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بینکوں کو درآمدات کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی ہی نہیں دی گئی لہذا بینک ایل سی کھولنے کو تیار نہیں گزشتہ دسمبر سے کوئی کتاب پاکستان نہیں آئی ناصر حسین کا کہنا تھا کہ کتابوں کہ درآمد کم از کم تین ماہ کا process ہے اب فروری ختم ہورہا ہے اگر اب بھی اس سے پابندی نہیں اٹھائی گئی تو آئندہ سیشن کے لیے اے اور او لیول کی سطح پر کتابیں موجود نہیں ہونگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم معاملے کی سنگینی اور سنجیدگی کا احساس دلانے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی خط لکھ رہے ہیں"

واضح رہے کہ درآمدی کتب پر پابندی یا اسے کنٹرول کرنے کے سبب مقامی سطح کی درسی و غیر درسی پبلیکیشن بھی اثر انداز ہوئی ہے اور مقامی سطح پر کاغذ تیار کرنے والی صنعت نے کاغذ کی قیمت بڑھادی ہے جبکہ دبائو بڑھنے سے کاغذ کی پروڈکشن سست ہوئی ہے اور مقامی سطح پر تیار کہ جانے والی کتابیں بھی پبلش نہیں ہوپارہی۔

اس سلسلے میں لبرٹی بک کے چیئرمین سلیم۔حسین کا کہنا ہے گورنمنٹ نے non essential items کی فہرست سے کتابوں کو نکال کر اس کی امپورٹ کو کنٹرول کیا ہے جبکہ کتابوں کی امپورٹ پالستان کی مجموعی درآمد کا صرف 0.26 فیصد ہے اسی سلسلے میں پیراماونٹ بک کے چیئرمین زین العابدین کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ پڑھی جانے والی میڈیکل اور اے اور او لیول کی کتابیں مفقود ہیں جبکہ ہم لائبریریز کو غیر نصابی کتابیں بھی نہیں دے پارہے اسکولوں سے مسلسل کتابوں کی ڈیمانڈ آرہی ہے لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے کلیئر پالیسی نہ ہونے کے سبب ہم لائبریریز یا اسکولوں کو کتابیں نہیں دے پارہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں