شبِ رحمت و مغفرت

اگرہم نے اس کے تقاضے پورے کیے تویہ بخشش اور نجات کی رات ہے

اگر اسے لہو و لعب اور آتش بازی میں گزار دیا تو یہ شبِ وعید ہے۔ فوٹو : آن لائن

اس مبارک رات کو شب برأت کہا جا تا ہے کہ یہ گناہوں سے چھٹکارے اور نجات کی رات ہے۔

اس رات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رات اور مہینہ رمضان المبارک کا تتمہ ہے کہ جس میں رمضان المبارک کے فرض روزے ادا کیے جاتے ہیں اور پھر اس ماہ رمضان کے آخری عشرے میں وہ طاق راتیں بھی آتی ہیں جنہیں شب قدر کہا جاتا ہے اور مومنین اس رات کی تلاش میں اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ شعبان کا چاند بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھا کرتے تھے، اتنا اہتمام کسی اور چاند کا نہ فرماتے۔ رویت ہلال کے بعد آپؐ کی عبادت میں اور مہینوں کی نسبت کئی گنا اضافہ ہو جاتا تھا۔ آپؐ کثرت سے روزے رکھتے تھے اور اتنے رکھتے کہ ان روزوں کو رمضان المبارک کے مہینے سے ملا دیتے۔ اسی لیے شعبان کو رمضان المبارک کا تتمہ، پیش خیمہ یا مقدمہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس مبارک مہینے کی پندرھویں رات کو تقدس حاصل ہے اور اس کے بارے میں متعدد روایات آئی ہیں۔ مفسرین نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں تفسیر روح البیان کے مفسر علامہ اسمٰعیل حقیؒ نے اپنی تصنیف میں اس رات کے چار نام بتائے ہیں: لیلۃ المبارک۔ لیلۃ البرأت۔ لیلۃ الرحمت۔ لیلۃ الصک۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی تصنیف میں رقم طراز ہیں: ''اس رات اﷲ کے اطاعت گزار، عبادت گزار اور محبوب بندے جہنّم سے نجات پاتے ہیں اور بدبخت اور نافرمان لوگ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بے زار رہتے ہیں اور رحمت الٰہی سے دُور رہتے ہیں، جب کہ نیک بخت اس کے غضب سے بچتے ہیں۔''

ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں: ''رمضان المبارک کے علاوہ صرف شعبان کا مہینہ ایسا ہے جس میں آنحضرتؐ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے اور عبادات فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اس پر آپؐ نے امت کو پابند نہیں کیا۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے کہیں فرض کی شکل نہ اختیار کر جائیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ''حق تعالیٰ چار راتوں میں نیکی کے دروازے کھول دیتا ہے، شب عیدالفطر، شب عیدالاضحٰی، شعبان کی پندرھویں شب اور شب قدر۔''


ایک اور حدیث میں آپؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا، مفہوم : ''اے عائشہؓ! تمہیں معلوم ہے آج کون سی رات ہے۔

آپؓ نے جواب دیا: اﷲ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے اور اس رات آئندہ سال تک پیدا ہونے والے کا رزق اور نام لکھ دیا جاتا ہے اور اسی رات دنیا اور دنیا والوں کے اعمال آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں، اس لیے اس رات کو لیلۃ الرحمت کہا جاتا ہے۔''

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، آنحضورؐ نے فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ اپنے بندوں کے گنا ہ معاف فرماتا ہے۔ ( ترمذی)

یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اس رات عبادت کرنے والوں میں اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو صرف آج کی رات چند نوافل ادا کرکے اگلی صبح کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور ازخود فرض کرلیتے ہیں کہ ہم نے حقِ بندگی اور آج کی رات کا حق بھی ادا کردیا۔

یاد رکھیے! ان کا یہ مفروضہ زہر قاتل ہے اور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات اور ان کے قول کی نفی ہے۔ آپؒ نے واضح طور پر فرمایا ہے: ''اطاعت گزار بندے، عبادت گزار بندے اور محبوب بندے۔'' اگر آپ ان تینوں صفات کے حامل ہیں تب تو آپ کے لیے یہ شب، شب برأت ہے ورنہ شب وعید ہے۔

آج رات کو ہمیں نئے سرے سے اپنی عبادات میں اضافہ کرنا ہے اور اپنے رب کا قُرب حاصل کرنا ہے۔ اس کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی بخشش اور اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی مغفرت طلب کرنی ہے۔

اس رات میں گناہوں سے ترک تعلق کرنے کا عہد کرنا ہے اور اسے عام لفظوں میں یوم تجدید عہد کہتے ہیں۔ اگر ہم نے اس کے تقاضے پورے کیے تو یہ بخشش اور نجات کی رات ہے۔ اگر ہم نے اسے لہو و لعب اور آتش بازی میں گزار دیا تو یہ شب وعید ہے۔ اس شب کا یہی تقاضہ اور پیغام ہے جو ہمارے لیے ذریعۂ نجات ہے۔
Load Next Story