بیرونی سرمایہ کاری معاشی بحران کا تریاق

مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے

مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ فوٹو: نیٹ

وزیراعظم شہباز شریف نے دوہا پہنچنے کے بعد امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے ملاقات کی۔ انھوں نے دوطرفہ سرمایہ کاری ، ہنر مندوں کی برآمد سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بات چیت کی۔

مزید برآں وزیراعظم نے قطر انویسٹمنٹ کے سی ای او سے ملاقات میں سرمایہ کاری دوست پالیسی سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اقتصادی تعلقات مضبوط بنانے اور قطرکے ویژن 2030کے مطابق مزید متنوع بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پر امید ہیں۔

کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے ، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ مثال کے طور سن دو ہزار آٹھ کے عالمی اقتصادی بحران کے نتیجے میں آئرلینڈ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا مگر محض سات برس کے بعد اس کی جی ڈی پی نے 26.3 فیصد کی حیران کُن شرح سے ترقی کی۔

اس کی وجہ آئرلینڈ کی حکومت کا سرمایہ کاروں کو ترجیحی طور پر ٹیکسوں میں چھوٹ دینا اور ان کے لیے دروازے کھول دینا تھا۔ آئرلینڈ نے12.5 فیصد کی شرح سے سنگل کارپوریٹ ٹیکس متعارف کرایا اور کینیڈا اور امریکا کے علاوہ یورپی ممالک سے دہرے ٹیکس کے عدم نفاذ کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

اس پالیسی کی وجہ سے دنیا کی صف اول کی کمپنیاں جیسے ایپل ، فیس بک اور گوگل وہاں سرمایہ لگانے کی جانب راغب ہوئیں اور انھوں نے وہاں اپنے دفاتر اور ذیلی کمپنیاں کھولیں۔ پاکستان بھی آئرلینڈ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شرح نمو میں نمایاں اضافہ حاصل کرسکتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہمیں کچھ وقت کے لیے ٹیکس آمدن کے اہداف کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔

پاکستان نے بھی 66 ممالک کے ساتھ دہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدے کررکھے ہیں جن کے تحت سرمایہ کار پر یا تو اس کے آبائی وطن یا پھر جہاں وہ سرمایہ لگا رہا ہے اس ملک میں ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔ اپنی اسٹرٹیجک لوکیشن کے ساتھ پاکستان مشرق و مغرب دونوں جانب کے سرمایہ کاروں کو سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس کی شرح کم اور کاروبار کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔

غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کررہا ہے اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔ موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔

ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا ، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جوکہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کی فضول خرچیوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔


مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام میں پیدا ہوتے احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔

ایک پائیدار اقتصادی نقطہ نظر کے لیے ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم کرنے کے لیے ڈالر کی آمدن میں حصہ ڈالنا ہے۔بڑھتا ہوا شرح تبادلہ تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کافی عرصے سے کمزور ایکسچینج ریٹ میں کمی کی گرفت میں ہے۔

آج ایک ڈالر کی قیمت اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو تقریباً 286 پاکستانی روپے ہے۔ طویل عرصے میں، روپے کی قدر میں بڑی کمی برآمد کنندگان خاص طور پر ٹیکسٹائل کے برآمد کنندگان کے لیے بدترین ہے کیونکہ اس سے ان پٹ لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے برآمدات کم مسابقتی ہوتی ہیں۔

برآمدات کے ذریعے کمائے گئے ڈالر سب سے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں جس کے اضافی فائدے کو واپس کرنے کی کوئی مجبوری، کوئی سود نہیں۔ لہٰذا، برآمدات کے ذریعے پیدا ہونے والے ڈالر پر توجہ مرکوز کرنا بانڈز سے کہیں بہتر آپشن ہے۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ سے ہمارے کاشتکار ایک ایکڑ کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

ماہرین کی مدد سے ان کاشتکاروں کی تربیت کی جائے۔ جس سے ہماری زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی آئے گی اور 5 بلین ڈالر کے قریب زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیا، گارمنٹس وغیرہ کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔

ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا ایسی اشیا جو درآمد کی جاتی ہیں جیسے گاڑیاں ان کی ٹیکنالوجی اپنے ملک میں لے آیا ہے اب تمام پارٹس ملک کے اندر بنتے ہیں جس سے معیشت بہتر ہوئی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔

قرضوں کی شرح کو کم کرنے کے لیے بڑے پروجیکٹس جیسے بھاشا ڈیم ، داسو ہائیڈرو پاور وغیرہ جن سے سالانہ آمدن اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار سے پانچ سال میں اپنے اخراجات پورے کر لیتے ہیں۔

ان پروجیکٹس کے 49 فیصد شیئرز سرمایہ کاروں کو ڈالر میں دیے جائیں جس سے سرمایہ کاری آئے گی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں تھرمل کو کم کر کے ہائیڈرو پاور کی انرجی کو بڑھانا ہو گا تاکہ فرنس آئل پر جو ہمارے ڈالر خرچ ہوتے ہیں وہ بچیں گے۔

نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری آبادی کا 60 فیصد ہیں یعنی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہیں ان کو ٹیکنیکل مہارت دینی چاہیے جس کے بعد وہ نوجوان ملک کے اندر اور بیرون ملک سے وطن عزیز کو سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں اور بیروز گاری کم ہوگی۔

پاکستان کے وہ ادارے جن پر قوم اعتماد کرتی ہے، ان کا ایک بورڈ بنایا جائے جو ملک کے موثر افراد کو اپیل کریں ان مشکل حالات میں قرض کی ادائیگی کے لیے ضرور ایک بڑا سرمایہ اندرون اور بیرون ملک سے اکٹھا ہو جائے گا۔

فوری طور پر حکومت کو کوشش کر کے اپنے قرضوں کی ادائیگی کو ری شیڈول کرانا چاہیے اس طرح ملک کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کا وقت مل جائے گا۔
Load Next Story